مسئلہ فلسطین اور سعودی عرب کا کردار‎‎

ابو حماد عطاء الرحمن المدنی / المرکز الاسلامی کاٹھمنڈو

20 مارچ, 2023
فلسطین کے مظلوم مسلمان گذشتہ ایک صدی سے جبرو تسلط اور ظلم کی چکیوں میں پس رہے ہیں، عالمی طاقتوں نے نہایت چالاکی اور سفاکی سے فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاریوں کا بندوبست کرکے ارض مقدس کے باسیوں سے ان کی اپنی ہی زمین چھین لی ہے۔ فلسطین کے مسئلہ پر 1948ء اور 1967ء میں دو بڑی جنگیں ہو چکی ہیں لیکن امریکا اور مغربی طاقتوں نے تمام اصول و قوانین کو پس پشت ڈالتے ہوئے اسرائیل کے قیام اور وسعت کے لئے بھرپور ساتھ دیا ہے۔
فلسطینیوں کو بنیادی طور تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، تقریباً ڈیڑھ ملین کے قریب فلسطینی اسرائیل میں رہ رہے ہیں اور وہ اپنے ساتھ برتے جانے والے امتیازی سلوک اور ناروا رویوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں اگرچہ وہ اسرائیلی شہریت کے حامل ہیں تاہم انہیں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے وہ فلسطینی ہیں جو غزہ اور مغربی کنارہ بشمولِ یروشلم میں آباد ہیں اور اسرائیلی قبضہ کا سامنا کر رہے ہیں۔ تیسرا گروہ ان فلسطینوں پر مشتمل ہے جو دنیا بھر میں مقیم ہیں اور اپنی واپسی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں تاکہ اپنے علاقے میں آباد ہو سکیں ۔ جب تک فلسطینیوں کو ان کے حقوق نہیں مل جاتے اور آزاد فلسطین کا قیام عمل میں نہیں آجاتا، ان کی یہ جدوجہد جاری رہے گا۔ یہ بات ہر کسی کو معلوم ہے کہ اسرائیل صہیونیت کی نمائندگی کرتا ہے جو درحقیقت مغربی نظریہ اور اس کا سیاسی ایجنڈا ہے۔ یہاں ایک بنیادی نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب یورپ میں یہودیوں کا ہولوکاسٹ کیاگیا تو اس وقت یہودی نہ صرف فلسطین بلکہ دیگر عرب ممالک میں رہ رہے تھے اور ان کے ساتھ یکساں اور منصفانہ سلوک کیا جارہا تھا، جنانچہ اصل مسئلہ فلسطین پر اسرائیل کا غیر قانونی قبضہ ہے، اس کی کھلی جارحیت کے خلاف جدوجہد کرنا یقیناً فلسطینوں کا بنیادی حق ہے جغرافیائی طورپر غزہ اور مغربی کنارے میں کوئی رابطہ نہیں ہے۔ غزہ کی پٹی 1967ء سے قبل مصر کی زیر انتظام تھی اور مغربی کنارہ اردن کے زیر انصرام تھا مگر ان دنوں کے درمیان کوئی جغرافیائی رابطہ نہیں تھا، اسی لئے آج  غزہ میں لاکھوں لوگ دنیا سے الگ تھلگ اور کٹے ہوئے ہیں۔ وہ اسرائیلی محاصرے میں ہیں اور ان سے قیدیوں جیسا سلوک روا رکھا جارہا ہے آۓ دن اسرائیل کی نہایت مضبوط اور جدید ہتھیاروں سے لیس فوج معصوم فلسطینی شہریوں، بچوں اور خواتین پر ظلم و ستم کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔
مغربی میڈیا فلسطینوں کے درد کو  بیان نہیں کرتا کیونکہ اسرائیل کی یہودی لابی تمام بڑے میڈیا ہاوسز پر مکمل طورپر قابض ہے، چنانچہ وہ اپنے آپ کو مظلوم کے طورپر پیش کرتے ہیں اسی لئے بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کو ترجیح دی جاتی ہے اور نیرالی منطق پیش کیجاتی ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔  انسانی حقوق کے ادارے بھی فلسطین میں حقائق کو دیکھ کر بھی دوہرے معیارات کے حامل ہیں وہ تمام اسرائیلی جارحیت اور مظالم کے چشم دید گواہ ہیں چاہے وہ چیک پوسٹوں پر ہونے والا تشدد ہو، یا قیدیوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہو، عورتوں اور بچوں پر ڈھاۓ جانے والے مظالم ہوں، غزہ اور مغربی کنارے پر اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی سنگین خلاف ورزیاں ہوں، ان سب کے باوجود مسئلہ فلسطین پر اقوام متحدہ کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو ابھی تک جتنی بھی قراردادیں فلسطین کے لئے منظور کی گئی ہیں وہ سب کی سب قراردادیں کسی الماری کی زینت ہیں۔ ان سب صورتوں کے باوجود مملکت سعودی عرب نے فلسطین کے تعلق سے  جو موقف اور کردار پیش کیا ہے وہ تمام مسلم حکمرانوں کے لئے قابل اتباع اور باعث تقلید ہے ، اگر سعودی عرب کے موقف کوصاف دلوں سے مسلم حکمران  اختیار کری تو اب بھی مسئلہ فلسطین کا حل بخوبی اطمینان بخش ہوسکتا ہے۔
واشنگٹن میں سعودی سفیر شہزادہ خالد بن سلمان حفظہ اللہ کا کہنا ہے کہ مملکت کے بانی شاہ عبد العزیز کے دور سے خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز کے دور تک مسئلہ فلسطین (70 برسوں سے) سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں مرکزی معاملہ رہا ہے، انہوں نے کہا: "تمام تر دباؤ کے باوجود فلسطین مرکزی معاملہ ہی رہے گا اور سیاسی نشیب و فراز سے متاثر نہیں ہوگا۔” انہوں نے یہ بھی کہا: ” مملکت فلسطینی عوام کو ان کے قانونی حقوق دلانے کی کوشش میں تمام عرب اور اسلامی ممالک کی صف میں سب سے آگے ہے۔ ". انہوں نے مزید کہا:” فلسطینی بھائیوں کی سپورٹ کوئی احسان نہیں بلکہ یہ ایک اعزاز اور فریضہ ہے کیونکہ اس سرزمین پر مسلمانوں کا قبلہ اول اور رسول کریمﷺ کے معراج کے سفر کا اہم مقام واقع ہے” ۔
سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل شہید رحمہ اللہ نے 1970ء میں ( جب اردن میں فلسطینی مجاہدین کی نسل کشی کی جارہی تھی) امریکی رسالے ” انٹر پلے ” کے نمائندے ٹام دمان کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاتھا: ” کہ مقبوضہ عرب علاقوں اور بیت المقدس کی آزادی کے لئے اسرائیل کے خلاف جہاد کیا جائےجائے”, انہوں نے اسرائیل کی ہٹ دھرمی، غرور اور توسیع پسندانہ عزائم کی بنا پر عربوں اور اسرائیل کے درمیان مفاہمت کو خارج از امکان قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ: ” جب تک اسرائیلی جارحیت کی روک تھام اور اسے معقول رویہ اختیار کرنے کے لئے طاقت کا استعمال نہیں کی جاۓ گی اس وقت تک مشرق وسطیٰ میں مفاہمت نہیں ہو سکتی ". شاہ فیصل رحمہ اللہ نے امریکا کو خبردار کیا تھا کہ اگر امریکا نے اسرائیل پر معقول رویہ اختیار کرنے اور عرب علاقے خالی کرنے کیلئے دباؤ نہ ڈالا تو عوام مجھے مجبور کردینگی کہ میں دوسرے عرب سربراہوں کی طرح روس کی حمایت حاصل کروں۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ مشرق وسطیٰ کے تمام مسائل اور مشکلات کی وجہ کمیونزم اور صہیونیت ہیں۔  شاہ فیصل کا کہنا تھا کہ ” سعودی عرب بیت المقدس کے بارے میں کوئی سودا بازی قبول نہیں کرے گا”. ان کا کہنا تھا کہ ” یہ شہر ان تمام لوگوں کے لئے صدیوں سے کھلا رہا جن کے مقامات مقدسہ وہاں واقع ہیں، اس لئے اب اسے بین الاقوامی شہر قرار دینے کا کوئی جواز نہیں ". شاہ فیصل نے یہ بات اعلانیہ طور پر کہی تھی ” کہ ہم فلسطینی حریت پسندوں کی بھر پور حمایت اور مدد کرتے ہیں، وہ ہمارے بھائی ہیں جو  اپنے وطن کی آزادی کے لئے لڑ رہے ہی، انہیں طاقت کے بل پر ان کے گھروں سے نکال پھینکا گیا ہے، اس ظلم کے خلاف ان کی جدو جہد جائز اور منصفانہ ہے ” ۔ بحوالہ روزنامہ جسارت، کراچی 1970ء۔
ایک موقع پر شاہ فیصل نے یہ بھی کہا تھا:”اگر تمام عرب جمع ہو کر اسرائیل کے وجود اور فلسطین کی تقسیم پر راضی ہو جائیں تو ہم ان کے ساتھ اس اتفاق میں شامل نہیں ہوں گے ” ۔ بحوالہ ترکی اردو، اسرائیلی کرائم۔
عربوں کی اسرائیل کے ساتھ لڑی گئی مشہور زمانہ جنگ یوم کیپور میں امریکا اگر پس پردہ اسرائیل کی مدد نہ کرتا تو مورخین لکھتے ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ حل ہو چکا ہوتا، اس جنگ کے دوران شاہ فیصل نے ایک دلیرانہ فیصلہ کرتے ہوئے تیل کی پیداوار کو ختم کردیا تھا ان کا یہ مشہور قول الگ ہی تاریخ رکھتا ہے: ” ہمارے آباء واجداد نے اپنی زندگیاں دودھ اور کھجور کھاکر گذاری تھیں، آج اگر ہمیں بھی ایسا کرنا پڑ جاتا ہے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا”.
شاہ فیصل رحمہ اللہ کا یہ فیصلہ امریکا کے لئے ایک کاری ضرب کی حیثیت رکھتا تھا جس کو تبدیل کرنے کی ہر امریکی تدبیر ناکام ہو رہی تھی۔ امریکی وزیر خارجہ کیسنجر نے شاہ فیصل سے 1973ء میں اس سلسلے میں جدہ میں ملاقات کی۔ تیل کی پیداوار کو دوبارہ شروع کر نے میں قائل کرنے کی ناکامی کے بعد کیسنجر نے گفتگو کو ایک جذباتی موڑ دینے کی کوشش کرتے ہوئے شاہ فیصل سے کہا: اے معزز بادشاہ! میرا جہاز ایندھن نہ ہونے کے سبب آپ کے ہوائی اڈے پر ناکارہ کھڑا ہے کیا آپ اس میں تیل بھرنے کا حکم نہیں دیں گے؟ دیکھ لیجئے میں آپ کو اس کی ہرقسم کی قیمت ادا کرنے کےلئے تیار بیٹھا ہوں۔ کیسنجر نے خود لکھا ہے کہ میری اس بات سے شاہ فیصل کے چہرے پر کسی قسم کی کوئی مسکراہٹ تک نہ آئی۔ سواۓ اس کے کہ انہوں نے اپنا جذبات سے عاری چہرہ اٹھاکر میری طرف دیکھا اور کہا: ” میں ایک عمر رسیدہ اور ضعیف آدمی ہوں، میری ایک ہی خواہش ہے کہ مرنے سے پہلے مسجد اقصیٰ میں دو رکعتیں نماز پڑھ لوں، میری اس خواہش کو پورا کرنے میں تم میری کوئی مدد کرسکتے ہو؟ ”  اردو محفل دسمبر 2013ء
مسجد اقصی کے امام شیخ علی عمر العباسی نے اخبار المدینہ کے نمائندے کو اپنے ایک انٹرویو میں کہا: ” سعودی عرب نے مسئلہ فلسطین کی خاطر بہت کچھ کیا، کافی عرصے سے قربانیاں دے رہا ہے۔ مملکت کے لئے یہ فخر کافی ہے کہ اس نے اپنے ایک فرمانروا کی جان کا نذرانہ پیش کیا، اہل فلسطین شاہ فیصل رحمہ اللہ کو شید القدس سے یاد کرتے ہیں ” ۔ اردو نیوز جدہ، 2018ء/28/8
شروع ہی سے مملکت سعودی عرب نے بغیر کسی توقف اور انقطاع کے فلسطینیوں کے لئے امداد جاری رکھا ، 1967ء میں عوامی چندہ کی تحریک چلا کر اس وقت 16ملین ریال سعودی عرب نے فلسطینی حکومت کو دیا، اور دسمبر 1968ء میں مملکت کی فتویٰ کمیٹی سے یہ فتویٰ صادر کیا گیا کہ سعودی عرب میں  قائم کمیٹی برائے فلسطین میں زکاۃ کی رقم دینا جائز ہے ۔ اس فتویٰ پر عمل کرتے ہوئے سعودی باشندوں نے فلسطینوں کا بھرپور مالی تعاون پیش کیا، اور 1969ء  میں پبلک چندہ کمیٹی  کا نگراں اعلیٰ موجودہ فرمانروا شاہ سلمان حفطہ اللہ تھے اس وقت انہوں نے دوقسم کی رہمنا پالیسی  لوگوں کے سامنے رکھا۔ 1- تمام سعودی باشندوں سے اپیل کی کہ وہ اپنی تنخواہوں سے 1℅ فلسطینی مجاہدین اور شہداء کے اہل خانہ کے لئے مختص کردیں۔ 2- "شرف نامہ” اس خاکہ کے تحت باور کرایا گیا کہ افراد، تجار، کمپنیاں اور موسسات ایک خاص نظم و ضبط کے ساتھ عوامی کمیٹی کے اکاونٹ میں چندے جمع کریں۔
1988ء میں سعودی عوام کی طرف سے  فلسطینیوں کے لئے 160ملین ریال دیئے گئے ۔
1989ء   میں شاہ سلمان حفظہ اللہ نے  ( اس وقت وہ منطقہ ریاض کے گورنر تھے) فلسطینی سفارت خانہ کی عمارت کا افتتاح کیا اور سفارت خانہ کی عمارت پر فلسطینی جھنڈا آویزاں کر لہرایا گیا۔  اس موقع پرفلسطینی صدر یاسر عرفات نے شاہ سلمان کو   فلسطین کے لئے بے لوث اور نمایاں کارکردگی کی وجہ سے تکریم کرتے ہوۓ تمغہ ” نجمۃالقدس”  سے نوازا۔
شاہ سلمان حفظہ اللہ نے فلسطین اور وہاں کے باشندوں کے لئے اپنے خزانے کا منہ بغیر کسی توقف کے کھولے رکھا۔  2017ء میں  عرب سربراہ کانفرنس میں خطاب کرتے ہوۓ فرمایا: ”  فی الحال مشرق وسطیٰ نہایت سنگین صورتحال کا سامنا کر رہا ہے ایسی حالت میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اقوام عالم کو یہ بتانے میں چوک نہ کریں کہ فلسطین کا مسئلہ امت مسلمہ کا بنیادی اور اہم معاملہ ہے جس کے حل کئے بغیر ہم چین وسکون سے نہیں رہ سکتے۔  اسی طرح مکہ مکرمہ میں 2019ء منعقد عرب سربراہ کانفرنس کے موقع پر شاہ سلمان حفظہ اللہ نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ”  مسئلہ فلسطین اس وقت تک ہماری ترجیحات میں سے  اہم مسئلہ رہے گا جب تک کہ اہل فلسطین اپنے چھینے گئے حقوق حاصل نہ کر لیں اور ان کی ایک آزاد اور خود مختارحکومت قائم نہ ہو جائے جس کی راجدھانی مشرقی القدس ہو”.
جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ حیران کن اعلان کیا کہ امریکا اعتراف کرتا ہے کہ القدس اسرائیل کی دار الحکومت ہےاور اس نے ” صفقۃ القرن” نام سے اسرائیل و فلسطین کے درمیان سمجھوتہ کا منصوبہ پیش کیا تو مملکت سعودی عرب نے ٹرمپ کے اس اعلان پر اپنی ناراضگی اور سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پیغام دیاکہ یہ ایک غیر آئینی اورغیر ذمہ دارانہ منصوبہ ہے جس کا نتیجہ ہلاکت خیز اور سنگین ہوگا۔
 مملکت سعودی عرب نے مادی اور معنوی ہر اعتبار سے فلسطین کا تعاون کرنے میں سبقت سے کام لیا،   اربوں ریال سے مدد کیا فلسطینی حکومت اور وہاں کی عوام کا ہر موڑ پر کھل کر ساتھ دیا، شاہ سلمان بن عبد العزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان حفظہما اللہ فلسطین کے تعلق سے اپنی اٹل پالیسی اور سیاست پر قائم ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے ان شاءاللہ۔ امت مسلمہ صرف حکومت سعودی عرب کی طرف پرامید نظروں سے دیکھ رہی ہے۔  اللہ تعالیٰ سعودی عرب کی تمام خدمتوں کو شرف قبولیت بخشے اور شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان حفظہما اللہ کی عمر میں خیروبرکت عطا فرمائے اور مملکت توحید کو ہر قسم کے فتنے و فساد سے محفوظ رکھے، آمین یارب العالمین۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter