تربیت اولاد

مولانا قمر الدين رياضى/ استاذ جامعه سراج العلوم السلفية

4 مارچ, 2023

اولاد اللہ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے، اس نعمت کا اندازہ اور ادارک اسی شخص کو ہوتا ہے جو نعمت اولاد سے محروم ہوتا ہے، اس نعمت کی حصول کے لئے انسان ہر حد کو تجاوز کرنے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کرلیتاہے، یہاں تک کہ بعض افراد تو اس نعمت کی حصول کے لئے توحید جیسی عظیم سرمایہ کو گواں بیٹھتے ہیں، بعض پیشہ ور اپنی دکانوں کو چمکانے، اور مادی فوائد کی خاطر اولاد کے متلاشیان سے ایسے غیر شرعی اعمال انجام دلواتے ہیں جس سے براہ راست ایمان وعقیدے پرضرب آتا ہے، اور توحید کی کھلم کھلم دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس عظیم نعمت کو حاصل کرنے کے لئے شریعت اسلامیہ کی پاکیزہ تعلیمات کوبروئے کار لایا جائے، جائز اسباب کے ذریعہ نعمت الہی کوطلب کیا جائے ، اور دعا جیسی عظیم عبادت کو اللہ ہی کے لئے مختص رکھا جائے کیونکہ اولاد دینے کی صلاحیت صرف اللہ تعالی ہی کو حاصل ہے، دنیا کی کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو بغیر مشیئت الہی کے اس نعمت سے مالامال کردے۔
تربیت اولاد کے طریقے:
شریعت اسلامیہ نے تربیت اولادکے حوالہ بہت سارے طریقے اور اسلوب کو مشروع قراردیا ہے، ان اسالیب کو بروئے کار لاکرتربیت اولاد کے حقوق کی ادائیگی کی جاسکتی ہے۔اختصار کے ساتھہ ان طریقوں کو ذکر کیا جارہاہے:
شادی کے لئے نیک جوڑوں کا انتخاب: مذہب اسلام حضرت انسان کی ہر موڑ پر رہنمائی کرتا ہے نیز انسان کو جملہ معاملات و مسائل میں شریعت تعلیمات پر کاربند رہنے کی تلقین کرتا ہے، اس لئے انسان کو جیون ساتھی چننے کے لئے اسلامی تعلیمات کو سامنے رکھنا چاہئے، تاکہ ازدواجی زندگی خوشگوار بن سکے، اور ان سے جو اولاد وجود میں آئے ان کی تعلیم وتربیت اسلامی انداز میں کرنا آسان وسہل ہو۔نبی کریمﷺکا ارشادہے: "اذا خطب الیکم من ترضون دینہ وخلقہ فزوجوہ الا تفعلوا تکن فتنۃفی الارض وفساد عریض” (الترمذی: ٤٨٠١)
یعنی: جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کا پیغام دے جس کی دین داری اور اس کے اخلاق سے تمہیں اطمینان ہوتو اس سے شادی کردو۔اگر ایسا نہیں کروگے تو زمین میں عظیم فتنہ اور فسادبرپا ہوگا۔ اور دوسری روایت میں آپ ﷺنے ارشادفرمایا: "تنکح المرأۃلاربع لمالہا ولحسبہاوجمالہا ولدینہا فاظفر بذات الدین تربت یداک” (متفق علیہ) یعنی: عورت سے نکا ح چار چیزوں کی بنیاد پر کیاجاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تم دین دار عورت سے نکاح کرکے کامیابی حاصل کرلو ورنہ دونوں ہاتھہ خاک آلود ہوں گے(اخیر میں تجھہ کو ندامت ہوگی)
بکثرت صالح اولاد کی دعائیں :دعا بندے مومن کے لئے عظیم عبادت ہے،جب اس عبادت کے ذریعہ بندہ نیک وصالح اولادکا طلب گار ہوتا ہے تو اس کے اچھے وبابرکت نتائج مرتب ہوتے ہیں، یہی وجہ تھی کہ انبیاء کرام اور سلف صالحین جب بارگاہ باری تعالی میں ہاتھہ اٹھاتے تو مطلق طور پر طلب اولاد کی دعا نہیں فرماتے بلکہ نیک وصالح اولادکی قیدضرور لگاتے،تاکہ جو نسل ان سے وجود میں آئے وہ نیک وصالح ہوں اور ان کی تربیت کرنا سہل وآسان ہو۔اللہ تعالی نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا کوقرآن کریم میں نقل کرتے ہوئے فرمایا: "رب ھب لی من الصالحین”(الصافات: ۱۰۰) ترجمہ: اے میرے رب! مجھے نیک بخت اولاد عطاء فرما۔
اورجب حضرت ابراہیم علیہ السلام نعمت اولاد سے نواز دیئے گئے پھر آپ نے اللہ کی بارگاہ میں ایسی دعا فرمائی جو ہر والدین کواپنی اولاد کے تئیں ہمیشہ ہمیش کرنی چاہیے، ارشاد باری تعالی ہے: "واذ قال ابراہیم رب اجعل ہذا البلد آمنا واجنبني وبنی أن نعبد الأصنام” (ابراہیم:۵۳) ترجمہ: جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا اے میرے اللہ! اس شہرکو امن والا بنا دے اور مجھے اورمیری اولاد کو بت پرستی سے پناہ دے۔
* ادعیہ ماثورہ کا اہتمام: دعا مرد مومن کے لئے عظیم ہتھیار ہے،ایک مومن کا شیوہ وطریقہ ہونا چاہئے کہ جب بھی وہ مصائب سے دو چار ہو تو ایسے نازک حالات میں دعاؤں کا سہارا لے اور اپنے معاملات کو باری تعالی کے حوالے سونپ کر اس کی خوشنودی اور رضا کا طالب ہو ۔
شریعت اسلامیہ نے اپنے متبعین کوتعلیم دی ہے کہ اولاد کے وجود میں آنے سے پہلے ہی اس کی صالحیت کی دعا کی جائے، اسی طرح انسان جب جنسی خواہشات کی تکمیل کے لئے اپنی بیوی سے ہمبستر ہونے کا ارادہ کرے تو دعاؤں کا اہتمام کرے تاکہ اس نطفے سے جو اولاد وجود میں آئے وہ نیک وصالح ہو، ارشاد نبوی ہے: "لو أن أحدکم اذا أتی أہلہ قال بسم اللہ اللہم جنبنا الشیطان وجنب الشیطان مارزقتنافقضي بینہما ولدلم یضرہ” (متفق علیہ) یعنی: جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے جماع کرے تو کہے: اللہ کے نام کے ساتھہ شروع کرتا ہوں۔اے اللہ ہمیں شیطان سے بچا اور شیطان کو اس چیزسے دور رکھہ جوتوہمیں عطا فرمائے، یہ دعا پڑھنے کے بعدمیاں بیوی کوجو اولادملے گی اسے شیطان نقصان نہیں پہونچاسکتاہے۔
عقیدہ صحیحہ کی تلقین و ترسیخ والدین کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اسلام کے مبادیات سے آشنا کروائیں، ایمان اور اسلام کے ارکان کی وضاحت اس حد تک کریں کہ سارے ارکان ان کے ذہن ودماغ میں پیوست ہوجائیں، جنت وجہنم، اور قبرکے احوال کا خوب ذکرکیا جائے تاکہ بچوں کے دلوں میں جنت اور اس کی نعمتوں کی طمع، جہنم اور اس کی ہولناکیوں کا خوف سرایت کرجائے اس طرح اولاد اللہ کے اوامر کو بجا لانے اور منہیات سے اجتناب کرنے کے عادی ہونگے۔ اور جب کوئی منحرف فکر ان پر تھوپنے کی کوشش کی جائے گی تو وہ ایمانی طاقت سے اس کا دفاع کرسکیں گے۔
حسن اخلاق کا مظاہرہ والدین کے عادات واطوار سے اولاد حتی درجہ متاثرہوا کرتے ہیں،ان کی ہر عادت کو اپنے لئے حرزجان بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اس لئے والدین کو اپنی اولاد کے لئے بہترین آئیڈیل اور نمونہ ہونا چاہئے، والدین خود شریعت اسلامیہ کے اصولوں کا پابند بنیں، اچھے اخلاق کا مظاہر کریں، غیبت،چغلخوری، جھوٹ، فریب، وعدہ خلافی، سب وشتم، فلم بینی، جیسے عادات رذیلہ سے اجتناب کریں۔ کیونکہ بچوں کے لئے والدین بہترین آئینہ ہوتے ہیں۔
اولاد کے بگڑنے کے اہم اسباب:
ویسے تو عصرحاضرمیں اولادکے بگڑنے کے بہت سارے اسباب پائے جاتے ہیں، کبھی تو انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا کے ذریعہ منحرف فکر کو فروغ دیا جاتا ہے، تو کبھی عصری تعلیم، اور ٹکنالوجی میں مختلف قسم کے ثقافتی دورات کا انعقاد کرکے باطل فکرکو مستفیدین کے ذہن ودماغ میں راسخ کیا جاتاہے، حتی کہ بعض غیر اسلامی دروس ومحاضرات کے ذریعہ باطل افکار کی ترویج کی جاتی ہے۔ایسے پر آشوب دور میں ہر والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کے تئیں بہت ہی محتاط رہیں، ان کی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کریں تاکہ وہ اپنے دین اسلام کے پکے سچے محافظ بن سکیں۔درج ذیل سطور میں ان اسباب کا ذکر کیا جارہا ہے جو عام طور سے اولاد کی بگڑنے کا سبب بنتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
تربیت میں تساہلی: والدین کو ہمہ وقت اپنے والدین کے تئیں بہت حساس رہنا چاہئے، اور ان کی اعلی تعلیم اور بہترین تربیت کا فکرمند ہونا چاہئے، ہرلمحہ اولاد پر کڑی نظر ہونی چاہئے،کیونکہ تربیت میں تقصیر اور اغماض نظر اولاد کے بگڑنے کے اسباب میں سے اہم سبب اور عنصر ہے، چند لمحوں کی غفلت پوری زندگی کو ہلاک وبرباد کردیتی ہے۔
والدین کے مابین بکثرت نزاع کا صدور: والدین کے آپسی جھگڑوں کا اثر سیدھابچوں کے اخلاق واطوار پر پڑتا ہے،آپسی اختلافات سے گھر کا سکون چھن جاتا ہے، اورگھر کے افراد قلق واضطرابیت کے شکار ہوجاتے ہیں، نفسانی سکون، و عاطفانہ ماحول مفقود ہوجاتاہے اور اس کے بھیانک نتائج اور اثرات گھر کے بچوں پر مرتب ہوتے ہیں۔
بروں لوگوں کی ہم نشینی: انسانی زندگی سب سے زیادہ متاثر صحبت ورفاقت سے ہوتی ہے، اگر انسان اچھے لوگوں کی صحبت کرتا ہے تو اخلاق حسنہ جیسے اعلی اور بلند وصف کا متبع ہوتا ہے، اور برے انسانوں کی صحبت سے ہلاکت وبربادی کے دہانے پر پہونچ جاتا ہے، لہذا والدین پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو نیک لوگوں کی صحبت کا پابند کریں، اور بروں کی صحبت سے ان کو کوسوں دور رکھیں۔
بار الہا ہم سب کو نیک وصالح اولاد سے مالا مال کردے، اور ان کی حسن تربیت کی توفیق عطاء فرما۔ آمین

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter