ماہ رجب کی شرعی حیثیت

عطاء الرحمن المدنی/ المرکز الاسلامی کاٹھمنڈو 

24 جنوری, 2023
ماہ رجب حرمت والے چار مہینوں میں سےایک ہے ،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”  إن عدة الشهور عند الله اثنا عشر شهرا في كتاب الله يوم خلق السموات والأرض منها أربعة حرم ذلك الدين القيم فلا تظلموا فيهن أنفسكم.. ” سورة التوبة : 36
ترجمہ: مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے ان میں سے چار حرمت وادب کے ہیں، یہی درست دین ہے تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا قول ” في كتاب الله ” سے مراد لوح محفوظ یعنی تقدیر الہی ہے۔ یعنی ابتداۓ آفرینش سے ہی اللہ تعالیٰ نے سال کے بارہ مہینے مقرر فرماۓ ہیں جن میں چار حرمت والے ہیں جن میں قتال و جدال کی بالخصوص ممانعت آئی ہے۔  اس بات کو نبی کریم ﷺ نے اس طرح بیان فرمایا ہے ” کہ زمانہ گھوم گھما کر اسی حالت پر آگیا ہے جس حالت پر اس وقت تھا جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی۔  سال بارہ مہینوں کا ہے، جن میں چار حرمت والے ہیں، تین پےدر پے، ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور چوتھا رجب مضر، جو جمادی الأخرى اور شعبان کے درمیان ہے ". بخاری، مسلم۔
یہ مہینے حرمت والے کیوں؟
1- ان چار مہینوں کے نام "حرمت والے” ان کی عظمت و حرمت کی بنیاد پر رکھا گیا ہے،  کیونکہ ان میں جنگ و جدال وغیرہ کرنا حرام ہے الا یہ کہ اگر دشمن مسلمانوں پر جنگ مسلط کرے  تو پھر ایسی صورت میں مسلمانوں کی طرف سے دفاعی جنگ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
2-   ان مہینوں میں گناہ اور معصیت کا ارتکا کرنا دیگر مہینوں کی بنسبت بہت سنگین ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں خاص کر ان مہینوں میں  گناہ کرنے سے منع فرمایا ہے ” تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو”  گرچہ گناہ والے کام کسی بھی مہینے میں درست نہیں لیکن ان چار حرمت والے مہینوں میں گناہ کرنا بڑا خطرناک اور سنگین ہے۔
علامہ سعدی رحمہ اللہ، اللہ تعالیٰ کے اس قول ” فلا تظلموا فیھن أنفسھم ” کے تحت لکھتے ہیں: ممکن ہے کہ ” فیہن” کا ضمیر "اثناعشر” کی طرف لوٹتا ہو، کہ اللہ تعالیٰ نے ان بارہ مہینوں کو اپنے بندون کی تقدیروں کے لئے بنایا ہے اس لئے انہیں چاہیے کہ اللہ کی بندگی اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں ان مہینوں کو گذارے اور اس کی نعمتوں کا شکریہ سال بھر ادا کرتا رہے، اسی طرح وہ خدمت خلق اور انسانیت والے کام زیادہ سے زیادہ کرے اور ہمیشہ گناہوں سے بچتا رہے۔
اور یہ بھی احتمال ہے کہ ضمیر ” أربعة حرم” کی طرف لوٹتا ہو۔ اس لئے ان چار مہینوں میں ظلم و زیادتی کرنےسے خاص کر منع کیا گیا ہے گرچہ کسی بھی وقت گناہ کی چھوٹ نہیں ہے پر ان چار مہینوں کی حرمت و عظمت کے باعث ان میں گناہوں کا ارتکابِ کرنا بہت  خطرناک اور قبیح عمل ہے( تفسیر سعدی ص: 373).
یہ بات یاد رہے کہ ماہ رجب کے روزے اور اس کی فضیلت کے تعلق  کوئی صحیح ثابت نہیں ہے،  اور جو لوگ اس مہینہ کے خاص ایام میں  روزے رکھتے اور سمجھتے ہیں کہ اس کی فضیلتیں ہیں تو انہیں خیال رکھنا چاہیے کہ شرعی اعتبارسے اس کی کوئی حیثیت اور حقیقت نہیں ہے۔
حرمت والے مہینوں میں عمومی روزہ سے متعلق صرف ایک حدیث نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ” صم من الحرم واترک ” کہ ان مہینوں میں روزے رکھو اور چھوڑ دو”  امام البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ ضعیف أبی داود للألبانی نمبر 2428.
بالفرض اگر اس حدیث کو صحیح  مان بھی لیا جائے تو اس سے حرمت والے مہینوں میں روزے رکھنے کا مستحب ہونا ثابت ہوتاہے،  اس لئے اگر کوئی آدمی ماہ رجب کے علاوہ دیگر حرمت والے مہینوں میں روزے رکھنے کا عادی تھا اور وہ رجب  میں بھی روزے رکھنا چاہتے ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ اگر کوئی صرف ماہ رجب ہی کو روزے کے لئے تخصیص کرتا ہے تو یہ درست نہیں ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”  ماہ رجب میں خصوصیت کے ساتھ روزے رکھنے سے متعلق جتنی بھی حدیثیں بیان کی جاتی ہیں وہ سب کی سب ضعیف اور موضوع ہیں ، ان میں سے کوئی بھی حدیث اہل علم کے نزدیک قابلِ اعتبار نہیں۔ اور مسند وغیرہ میں آپﷺ سے جو حدیث روایت کی گئی ہے اس میں حرمت والے مہینوں میں روزے کا عمومی حکم ہے صرف ماہ رجب ہی کو روزے کے لئے خاص کر لینا درست نہیں ہے ” مجموع الفتاوی 290/25
 امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” ماہ رجب ہی میں خاص کر روزے رکھنا اور اس کی بعض راتوں میں نماز کا خاص اہتمام کرنے سے متعلق تمام حدیثیں جھوٹی اور من گھڑت ہیں ” المنار المنیف ص: 96
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” ماہ رجب کی فضیلت، اس میں روزے اور اس کی کسی رات میں تخصیص نماز کے تعلق سے کوئی بھی ایسی صحیح حدیث ثابت نہیں ہے جو قابل دلیل اور عمل ہو” تبیین العجب لابن الحجر ص: 11
امام النحاس رحمہ اللہ صلاۃ رغائب کے بارے میں فرماتے ہیں: یہ نماز بدعت ہے اور اس بارے میں جتنی بھی حدیثیں بیان کی جاتی ہیں وہ سب موضوع ہیں ". تنبیہ الغافلین ص: 496
سید سابق رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” ماہ رجب کے روزے کی فضیلت دیگر مہینوں سے زیادہ نہیں ہے،  صرف یہ ہے کہ وہ بھی چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔ کسی صحیح حدیث میں اس مہینہ کے روزے کی خصوصیت  ثابت نہیں ہے، اور جو بھی حدیثیں بیان کی جاتی ہیں وہ ناقابل حجت ہیں ". فقہ السنہ 383/1
 شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے رجب کی ستائیسویں تاریخ کے دن روزہ سے متعلق سوال کیا گیا کہ اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ تو شیخ رحمہ اللہ نے اس کا جواب یوں دیا ” رجب کی ستائیسویں کا روزہ اور اس رات میں عبادت وغیرہ کا خاص اہتمام کرنا بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ".
مجموع الفتاوی لابن العثیمین 240/20
عطاء الرحمن المدنی
المرکز الاسلامی کاٹھمنڈو

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter