شیخ نیازاحمد مدنی:عظیم مدرس، مربی، مفکر، مصنف اور رمز شناس عالم تھے: ضلعی جمعیت اہلِ حدیث سدھارتھ نگر

6 اکتوبر, 2022
سدھارتھ نگر، یوپی/ کیئرخبر
ضلعی جمعیت اہلِ حدیث سدھارتھ نگر، یوپی کے ناظم عمومی مولانا وصی اللہ مدنی نے شیخ نیاز احمدمدنی طیب پوری کی علمی و دعوتی خدمات اور جماعت کے مقتدر علماء کے احساسات وتاثرات پر گفتگو کرتے ہوئےکیئرخبر، کاٹھمنڈو،نیپال کے ایڈیٹر کوبتایا کہ
جامعہ سراج العلوم، کنڈوبونڈیہار، ہماری جماعت کا قدیم اور معروف ادارہ ہے، جس کی داغ بیل 1907ءمیں عظیم محدث صاحب تحفہ علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ نے  ڈالی ہے، علامہ عبدالسلام مبارک پوری، شیخ الحدیث علامہ عبیداللہ مبارک پوری، شیخ محمد سلیمان مئوی اور شیخ محمد اقبال رحمانی رحمہم اللہ جیسے اساطین علم وفن،افاضل علماء اورعباقرہ شخصیات کی سرپرستی حاصل رہی ہے، ایک سوتیرہ سال سے متجاوز کتاب وسنت کی سنہری تعلیمات اور سلف صالحین کے مسلک ومنہج کی نشرواشاعت میں مصروف عمل ہے، اس ادارے کے بےشمار فیض یافتگان ملک اور بیرون ملک دینی، دعوتی، رفاہی اور تدریسی فرائض سرانجام دے رہے ہیں، ہمارے ممدوح برادر محترم فن حدیث وعربی ادب کے متخصص شیخ نیاز احمد مدنی رحمہ اللہ نے بھی اپنی علمی تشنگی کو یہاں بجھایا ہےاوراس دور کے شیوخ سے کسب فیض حاصل کیا ہے، آپ جامعہ کےان مشاہیر ونامور فضلاء میں ایک ہیں،جنھوں نے اپنی علمی ودعوتی خدمات کے ذریعہ ملک وملت ،جماعت وجمعیت  اور علاقہ کا نام روشن کیا ہے، جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ سے فارغ ہونے کے بعد اعزازی طور پرآپ نے کچھ دنوں تک جامعہ میں دعوت وتدریس کا فریضہ انجام دیا ہے، پوری زندگی حرکت وعمل سے معمور تھی، وقت موعود پر پیغام اجل آپہنچا اور آپ اس دنیا سے رخصت ہوگئے، ان کے انتقال کی خبر جب ان کے مادر علمی جامعہ سراج العلوم، بونڈیہار کے بام و در تک پہنچی تو وابستگان جامعہ کبیدہ خاطر اور غموں سے نڈھال ہوگئے،
یقیناًیہ خبر بڑی اندوہناک تھی ، جامعہ  کےتمام ذمہ داران ، اساتذہ اور طلبہ نے اپنےرنج وغم کا اظہار کیا، اکثر اساتذہ کے چہرے غم کی تصویر بنے ہوئے تھےاور جب یہ خبر ملی کہ نماز جنازہ بعد نماز ظہر دوبجے اداکی جائے گی، تو جامعہ کی بس تیار کی گئی اور وقت سے پہلے ہی جامعہ کا وفد موصوف کے آبائی وطن طیب پورپہنچ گیا، تقریبا سوا دوبجے شیخ رحمہ اللہ کی نماز جنازہ اداکی گئی، طیب پور ہی کے ان کے بہنوئی شریف وسنجیدہ اور خوش خصال صفات کے حامل مولانا عبد العلیم سلفی استاذ جامعہ خیر العلوم ڈومریاگنج نے امامت کروائی،جس میں ہند ونیپال سے کثیر تعداد میں علماء، طلبہ اور سرکردہ شخصیات نے شریک ہوکر دعاء مغفرت اور نمناک آنکھوں سے انہیں سپر دخاک کیا نیزشیخ رحمہ اللہ کے غمزدہ بوڑھے والد ، اولاد اور دیگر لواحقین سے مل کر تعزیت کی اور اس عظیم مصیبت پر صبر وشکیبائی اورتسلی کی تلقین کی ۔
جامعہ کے تقریبا بیس اساتذہ موصوف کی نمازجنازہ ، تدفین اور دعا میں شریک رہے،جن میں بطورِ خاص مولانا ثناء اللہ سلفی (شیخ الجامعہ)
 مولانا عبد الستار سراجی
(وکیل الجامعہ) ، مولانا عبد الرحمن مدنی (نائب شیخ الجامعہ)، مولانا شمیم مدنی
(نائب وکیل الجامعہ)،
مولانا نیاز أحمد مدنی ، مولانا شمشیر احمد مدنی ، مولانا علیم اللہ سلفی(عمید کلیۃ البنات)، مولانا عبد الرزاق سلفی وغیرھم کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں۔
جامعہ کے وکیل الجامعہ مولانا عبدالستار سراجی نے شیخ رحمہ اللہ کے ہمہ جہت اور متنوع علمی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اپنے تاثراتی کلمات میں کہاکہ
"آسمان علم وادب کا ایک روشن ستارہ ، میدان درس وتدریس کا ایک عظیم معلم، صحافت کی نوک پلک سنوارنے والا ایک ماہر قلمکار، کانفرنسوں اور سیمینار کو جلا بخشنے والا ایک بڑا مدبر، جمعیت وجماعت کے اسٹیج سے علمی موتی بکھیرنے والا ایک ماہر خطیب ، تقریبا ۲۸ عدد چھوٹی بڑی کتابوں کا مصنف ، مکاتب اسلامیہ کو ایک عظیم ڈگر پر گامزن کرنے کا جذبۂ بے پایاں رکھنے والا ایک مفکر، مختلف اوقات میں مخلتف مجلات کی ادارت سنبھالنے والا اور گیسوئے صحافت کو سنوار نے والا ایک عظیم ایڈیٹر ، ارباب قلم وقرطاس کی خواہش پر ان کی تالیف کردہ کتابوں پر نظر ثانی ، تصحیح اور تقریظ سپرد قلم کرکے ان کی ہمت افزائی کرنے والا ایک عظیم مصنف، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے فیض یافتہ، شیخ ابو خورشید نیاز أحمد عبد الحمید طیبی مدنی، بوقت ایک بجے شب بتاریخ ۳؍اکتوبر ۲۰۲۲؁ء بروز سوموار طویل علالت کے بعد بقضائے الٰہی اس دار فانی سے دار بقا کی طرف رحلت فرماگئے۔
آپ نے مزید کہاکہ ” مولانا موصوف کے سانحہ ارتحال سے جمعیت وجماعت کے اندر ایک عظیم خلا محسوس کیا جائے گا۔
مولانا ایک عظیم مدرس، مربی ، مفکر، مصنف اور عبقری شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کی دینی، علمی، دعوتی اور تدریسی خدمات کو تادیر یاد  رکھا جائے گا۔
آپ ایک عظیم استاد تھے، آپ کی نگاہ بڑی دور رس تھی اور آپ ایک رمز شناس عالم تھے۔
آپ خلیق وملنسار اور عمدہ سیرت وکردار کے مالک تھے۔
جامعہ سے آپ کا بڑا گہرا رشتہ تھا جب بھی مالیگاؤں سے اپنے آبائی وطن آتے تو جامعہ پر ضرور تشریف لاتےتھے”-
جامعہ سراج العلوم بونڈیہار کے ایک قدیم استاذ مولانا محمد شمیم مدنی جوشیخ کے ہونہارشاگردوں میں سے ہیں، آپ نے کہا کہ "شیخ رحمہ اللہ بڑے ہی لائق وفائق استاذ تھے،اللہ  تعالیٰ نے درس واسباق کو طلبہ کے ذہن میں بٹھانے کا عظیم ملکہ آپ کو عطاکیا تھا”
جامعہ ریاض العلوم، دہلی کے استاد شیخ عبدالمبین ندوی نے شیخ رحمہ اللہ کے بارے میں اپنے تعزیتی بیان میں کہاکہ ” موصوف ایک اچھے استاذ، معروف صاحب قلم، مشہور داعی و مبلغ کی حیثیت سے زندگی گذاری،وہ ہمارے پڑوسی ہیں اور مجلہ "الفرقان” ڈومریا گنج سے میری علیحدگی کے بعد انہوں نے ہی اس کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی، اللہ ان کے حسنات کو قبول فرماکر ذخیرہ آخرت بنائے امین.”
جامعہ خدیجةالکبری، نیپال کے مدیر انتظامی، معروف شاعر اور مرنجاں مرنج طبعیت کے مالک مولانا عبدالخبیر زاہد آزاد، جھنڈانگری سفرہونے کے باعث شیخ موصوف کے جنازہ میں شرکت کرنے سے قاصر رہے، انھوں نے اپنے تعزیتی بیان میں اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ "شیخ رحمہ اللہ کےانتقال پرملال سے جو علمی، ادبی اورتحقیقی خلا پیدا ہوا ہے، وہ مستقبل قریب میں پر ھوتا نظر نہیں آتا ہے، آپ ایک باوقار، سنجیدہ فکر انسان،  مدبر،مفکر، غم گساروغمخوار اور مثالی استاد تھے جس نے چار دھائیوں تک دو نسلوں کی نہایت ہی باوقار انداز میں عمدہ تربیت کی- غفرالله”
مولانا نوراللہ خاں نے کہا کہ "اللہ شیخ محترم کی مغفرت فرمائے اور جنت کا مکین بنائے نیز وہاں کے محسنین و اہل خیر حضرات کو اس بات کی توفیق دے کہ ان کی علمی وراثت کے تحفظ کی خاطر ان سے منسوب کوئی اکیڈمی قائم کریں”-
اللہ تعالیٰ آپ کے جملہ حسنات، علمی ،دینی، تدریسی، صحافتی، دعوتی اور رفاہی اعمال کو قبول فرمائے، بشری خطاؤں کو نیکیوں میں تبدیل کرتے ہوئے جنت الفردوس کا مکین بنائے، آپ کی قبر کو کشادہ ومنور فرمائے، اور امت کو آپ کا نعم البدل عطاکرے ، آپ کے والدین، اولاد واحفاد، خویش واقارب اور جملہ لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق بخشے آمین

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter