حج کے لئے پیدل سفر کرنا کیسا ہے؟ ایک تحقیقی جائزه 

تحریر:- محمد مصطفیٰ کعبی ازہریؔ/ فاضل الازہر اسلامک یونیورسٹی مصر

2 اگست, 2022

پیدل حج کے لئے سفر کرنا کیسا ہے ایک تحقیقی جائزه
حج کرنا ایک عبادت ہے سواری پر سوار ہوکر یا پیدل بیت اللہ شریف کے لئے حج کا سفر کرنا درست ہے لیکن افضل یہ ہے کہ سواری پر سوار ہوکر سفر حج کرنا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور حج کرنا صرف صاحب مستطیع پر فرض ہے اور اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے جن میں حج کرنا چوتھا رکن ہے اور عبادات میں زیادہ ثواب ملنے کا انحصار صرف محنت اور مشقت پر نہیں ہے بلکہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ عبادت خالصۃ اللہ کے لیے کی جائے اور اس طریقے سے کی جائے جو قرآن و سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو۔ اور پیدل حج کے لئے سفر کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے موقع سے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ سے ثابت ہے جبکہ حیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے زمانے میں بعض صحابی اور صحابیہ نے پیدل حج کے لئے سفر کرنا چاہا تو بعض صحابی اور صحابیہ نے اپنے گھر سے بیت اللہ تک پیدل چل کر حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن جب یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ تک پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدل حج کے لئے سفر کرنے سے منع کردیا اور سواری پر سوار ہوکر حج کرنے کا حکم دیا۔
اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے اور وہ حج کرنے کا ارادہ کرتا ہے کہ میں بیت اللہ شریف جاکر حج کروں گا تو وہ شخص اپنے حج کو اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول کروانا چاہتا ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طریقوں کے مطابق حج کا فریضہ انجام دیں جو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے طریقوں برعکس حج کرنا چاہتا ہے تو اس کا حج قبول نہیں کیا جائے گا اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق حج کریں جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے اور وہی عمل قبول کیا جائے گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوگا ورنہ قبول نہیں کیا جائے گا ۔
*پیدل سفرِ حج کے لئے جانا درست ہے:*
اور اللہ تعالیٰ نے سواری پر سوار اور پیدل سفر حج کے متعلق ارشاد فرمایا : ” وَأَذِّن فِى ٱلنَّاسِ بِٱلْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍۢ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍۢ ".
*ترجمہ:* اور لوگوں میں حج کا اعلان کردیں، وہ آپ کے پاس پیدل اور ہر لاغر سواری پر آئیں گے، جو ہر دور دراز راستے سے آئیں گی۔
(الحج، آیت27)
*فائدہ:* مذکورہ فرمان الٰہی سے یہ بات ثابت ہوا کہ پیدل سفر حج کرنا درست ہے لیکن پیدل سفر حج کو سواری پر مقدم کیا گیا ہے۔
❀ امام المفسرین حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اِسی آیت کی تفسیر کرتے ہیں : ” يَأْتُوكَ رِجالًا وَعَلى كُلِّ ضامِرٍ الآية، قَدْ يَسْتِدَلُّ بِهَذِهِ الْآيَةِ مَنْ ذَهَبَ مِنَ الْعُلَمَاءِ إِلَى أَنَّ الْحَجَّ مَاشِيًا لِمَنْ قَدَرَ عَلَيْهِ أَفْضَلُ مِنَ الْحَجِّ رَاكِبًا، لِأَنَّهُ قَدَّمَهُمْ فِي الذِّكْرِ "۔
*ترجمہ:* پیدل بھی لوگ آئیں گے اور سواریوں پر سوار بھی آئیں گے۔ اس سے بعض حضرات نے استدلال کیا ہے کہ جسے طاقت ہو اس کے لیے پیدل حج کرنا سواری پر حج کرنے سے افضل ہے اس لیے کہ پہلے پیدل والوں کا ذکر ہے . (پھر سواروں کا)
(تفسیر ابن کثیر، ج5، ص414، ط: دار طیبہ)
✺ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ حجۃ الوداع کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ : ایک صحابی رسول نے مجھ(جابر بن عبداللہ) سے کہا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے متعلق بتائیں، تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے نو(9)کی گرہ بنائی، پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نو سال تک مدینہ میں رہے اور حج نہیں کیا، پھر دسویں سال لوگوں میں اعلان کیا کہ اللہ کے رسول حج کے لئے جانے والے ہیں چنانچہ مدینہ میں بہت زیادہ لوگ آگئے ۔ ہر ایک اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا اور آپ کے عمل کی پیروی کرنا چاہتا تھا ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو ہم بھی آپ کے ساتھ تھے حتی کہ مقام ذوالحلیفہ پر پہنچ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ذو الحلیفہ کی)مسجد میں نماز پڑھی، پھر نبی ﷺ نے اپنی سواری قصواء پر سفر کرنے کے لئے سوار ہوگئے ۔ حتی کہ وہ آپ لیکر بیداء (میدان) کے سامنے کھڑی ہوگئی ۔ جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں : ” نَظَرْتُ إِلَى مَدِّ بَصَرِي بَيْنَ يَدَيْهِ، مِنْ رَاكِبٍ وَمَاشٍ، وَعَنْ يَمِينِهِ مِثْلَ ذَلِكَ، وَعَنْ يَسَارِهِ مِثْلَ ذَلِكَ، وَمِنْ خَلْفِهِ مِثْلَ ذَلِكَ، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا ". میں نے آپ ﷺ کے سامنے، تاحد نگاہ پیدل اور سوار ہی دیکھے، آپ کے دائیں، آپ کے بائیں اور آپ کے پیچھے بھی یہی حال تھا۔ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان (موجود) تھے۔
(صحيح : رواه مسلم في صحيحه : 1218 ، وأبو داود في سننه: 1905 ، والدرامي في سننه: 1892)
*فائدہ:* اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں نوسال تک رہے لیکن حج نہیں کیا دسویں سال لوگوں میں اعلان کرادیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کو جانے والے ہیں چنانچہ بہت سارے لوگ مدینہ میں آگئے اور سب چاہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلیں اور آپ جس طرح حج کریں ویسے ہی حج کریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم قصواء اونٹنی پر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب وہ بیداء مقام پر کھڑی ہوئی تو جہاں تک (جابر بن عبداللہ) میری نظر جاتی آپ کے دائیں، بائیں، پیچھے سوار اور پیدل لوگوں کا جم غفیر تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان تھے ۔ اس حدیث یہ بالکل واضح ہو گیا کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں پیدل اور سواری پر حج میں شریک تھے تاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح حج کر سکیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور باقی اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر ہی سوار تھے اور بے شمار لوگ پیدل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفرِ حج پر تھے ۔ حجۃ الوداع میں لوگوں کی تعداد کے متعلق بعض احباب فرماتے ہیں تقریباً 90 ہزار یا ایک لاکھ 30 ہزار تھی، (سنن ابوداؤد، تشریح حدیث1905) مزید فرماتے ہیں کہ : ایک لاکھ 14 ہزار بھی آیا ہے، واللہ تعالٰی بالصواب۔
*حج وعمرہ میں مشقت پر زیادہ ثواب ملتا ہے:*
✺ عَنِ الْأَسْوَدِ ، قَالَا : قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَصْدُرُ النَّاسُ بِنُسُكَيْنِ وَأَصْدُرُ بِنُسُكٍ ؟ فَقِيلَ لَهَا : ” انْتَظِرِي، فَإِذَا طَهُرْتِ فَاخْرُجِي إِلَى التَّنْعِيمِ فَأَهِلِّي، ثُمَّ ائْتِينَا بِمَكَانِ كَذَا وَلَكِنَّهَا عَلَى قَدْرِ نَفَقَتِكِ أَوْ نَصَبِكِ ".
*ترجمہ:* حضرت اسود سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یا رسول اللہ! لوگ تو دو نسک (حج اور عمرہ) کر کے واپس ہو رہے ہیں اور میں نے صرف ایک نسک (حج) کیا ہے؟ اس پر ان سے کہا گیا کہ پھر انتظار کریں اور جب پاک ہو جائیں تو تنعیم جا کر وہاں سے (عمرہ کا) احرام باندھیں، پھر ہم سے فلاں جگہ آ ملیں اور یہ کہ اس عمرہ کا ثواب تمہارے خرچ اور محنت کے مطابق ملے گا۔
(صحيح : رواه البخاري في صحيحه : 1787 ، ومسلم في صحيحه : 1211)
*فائدہ:1* ❀ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب قائم کیا ہے: بَاب: أَجْرِ الْعُمْرَةِ عَلَى قَدْرِ النَّصَبِ. عمرہ (اور حج) میں جتنی تکلیف ہو اتنا ہی ثواب ہے۔
❀ امام بیھقی رحمہ اللہ نے اوپر ذکر کردہ حدیثِ عائشہ ؓ پر باب قائم کیا ہے: بابُ الرَّجُلِ يَجِدُ زادًا وراحِلَةً فيَحُجُّ ماشيًا يَحتَسِبُ فيه زيادَةَ الأجرِ۔
*ترجمہ:* باب ہے اس شخص کے بیان میں جو زاد راہ اور سواری پاتا ہو لیکن زیادہ اجر حاصل کرنے کے لئے وہ پیدل حج کرے۔
(البيهقي في السنن الکبریٰ مترجم، ج6، ق، ح8643، ط: رحمانیہ)
*فائدہ2:* مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ حج وعمرہ میں مشقت پر زیادہ ثواب ملتا ہے اگر کوئی شخص اجر زیادہ حاصل کرنے کے لئے پیدل حج کرنا چاہتا ہے تو وہ زیادہ بہتر اور افضل ہے کیونکہ پیدل سفر حج میں زیادہ مشقت، پریشانی اور محنت ہے اور اسی لئے امام بیھقی رحمہ اللہ نے اپنے قول پر حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دلیل لی ہے۔
*پیدل چل کر کے سفر حج کے لئے نذر ماننا جائز نہیں ہے:*
✺ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ : نَذَرَتْ أُخْتِي أَنْ تَمْشِيَ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ، وَأَمَرَتْنِي أَنْ أَسْتَفْتِيَ لَهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَفْتَيْتُهُ فَقَالَ عَلَيْهِ السَّلَامُ : ” لِتَمْشِ وَلْتَرْكَبْ ".
*ترجمہ:* حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : میری بہن نے منت مانی تھی کہ بیت اللہ تک وہ پیدل جائیں گی، پھر انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پوچھ لو چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ پیدل چلیں اور سوار بھی ہو جائیں۔
(صحيح : رواه البخاري في صحيحه : 1866 ، ومسلم في صحيحه : 1644)
✺ عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْخٍ كَبِيرٍ يَتَهَادَى بَيْنَ ابْنَيْهِ، فَقَالَ : ” مَا بَالُ هَذَا ؟ ” قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَذَرَ أَنْ يَمْشِيَ. قَالَ : ” إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَغَنِيٌّ عَنْ تَعْذِيبِ هَذَا نَفْسَهُ ". قَالَ : فَأَمَرَهُ أَنْ يَرْكَبَ.
*ترجمہ:* حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بوڑھے کے قریب سے گزرے جو اپنے دو بیٹوں کے سہارے (حج کے لیے) چل رہا تھا، آپ نے پوچھا: کیا معاملہ ہے ان کا؟ لوگوں نے کہا:للہ کے رسول! انہوں نے (پیدل) چلنے کی نذر مانی ہے، آپ نے فرمایا : ” اللہ عزوجل اس کے اپنی جان کو عذاب دینے سے بے نیاز ہے، پھر آپ نے اس کو سوار ہونے کا حکم دیا "۔
(صحيح : رواه البخاري في صحيحه : 1865 و 6701 ، ومسلم في صحيحه : 1642 ، وأبو داود في سننه : 3301 ، والترمذي في سننه: 1537 ، والنسائي في سننه : 3852 و 3853 و 3854 ، وأحمد في مسنده : 12038 و 12039 و 12127 و 12889 و 13468 و 13866)
✺ عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ نَذَرَتِ امْرَأَةٌ أَنْ تَمْشِيَ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ، فَسُئِلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ : ” إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنْ مَشْيِهَا، مُرُوهَا فَلْتَرْكَبْ ".
*ترجمہ:* حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ : ایک عورت نے نذر مانی کہ وہ بیت اللہ تک (پیدل) چل کر جائے گی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ اس کے (پیدل) چلنے سے بے نیاز ہے، اسے حکم دو کہ وہ سوار ہو کر جائے "۔
(إسناده صحيح : رواه الترمذي في سننه : 1536)
✺ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ أُخْتِي نَذَرَتْ أَنْ تَمْشِيَ إِلَى الْبَيْتِ، فَقَالَ : ” إِنَّ اللَّهَ لَا يَصْنَعُ بِمَشْيِ أُخْتِكَ إِلَى الْبَيْتِ شَيْئًا ".
*ترجمہ:* حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : ” میری بہن نے بیت اللہ پیدل جانے کی نذر مانی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری بہن کے پیدل بیت اللہ جانے کا اللہ کوئی ثواب نہ دے گا "۔
(إسناده صحيح : رواه أبو داود في سننه: 3304)
*فائدہ:* مذکورہ بالا چاروں احادیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص یہ نظر مانے کہ میں بیت اللہ شریف تک پیدل چل کر کے حج کے لئے پہنچوں تو وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے کیونکہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیدل حج کے لئے سفر نذر ماننا ثابت نہیں ہے اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو اس کا عمل بھی قبول نہیں کیا جائے گا ۔ اور جو شخص یہ سمجھتے ہیں بیت اللہ کا پیدل سفر کرنا عبادت ہے اور اس پر زیادہ ثواب ملتا ہے تو پہلے وہ شخص یہ سمجھے کہ حج کرنا عبادت ہے نہ کہ پیدل سفر کرکے حج کرنا عبادت ہے اور جو شخص یہ کہے کہ پیدل چل کرکے حج کرنا عبادت ہے تو وہ شخص جھوٹا ہے کیونکہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کی باتیں ثابت نہیں ہے ۔
*سواری پر بیٹھ کر طواف ،حجر اسود کی طرف چھڑی سے اشارہ کرنا اور کنکریاں مارنا:*
✺ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَافَ بِالْبَيْتِ عَلَى بَعِيرٍ، كُلَّمَا أَتَى عَلَى الرُّكْنِ أَشَارَ إِلَيْهِ بِشَيْءٍ فِي يَدِهِ وَكَبَّرَ.
*ترجمہ:* حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ پر بیٹھ کر بیت اللہ کا طواف کیا اور آپ جب بھی حجر اسود کے پاس سے گذرتے تو جو چیز (عصا وغیرہ) آپ کے ہاتھ میں ہوتی تو اس کی طرف اس سے اشارہ کرتے اور اللہ اکبر کہتے ۔
(صحيح : رواه البخاري في صحيحه : 1607 و 1612 و 1613 و 5293 ، ومسلم في صحيحه : 1272 ، و أبو داود في سننه : 1877 ، والترمذي في سننه : 865 ، والنسائي في سننه : 713 ، وابن ماجه في سننه : 2948 ، والدارمي في سننه : 1883 ، وأحمد في مسنده : 2118)
✺ عَنْ جَابِرٍ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ : رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمِي عَلَى رَاحِلَتِهِ يَوْمَ النَّحْرِ، وَيَقُولُ : ” لِتَأْخُذُوا مَنَاسِكَكُمْ، فَإِنِّي لَا أَدْرِي لَعَلِّي لَا أَحُجُّ بَعْدَ حَجَّتِي هَذِهِ ".
*ترجمہ:* حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ : میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا آپ قربانی کے دن اپنی سواری پر (سوار ہو کر) کنکریاں مار رہے تھے اور فرما رہے تھے : تمھیں چا ہیے کہ تم اپنے حج کے طریقے سیکھ لو ،میں نہیں جا نتا شاید اس حج کے بعد میں (دوبارہ ) حج نہ کر سکوں۔
(صحيح : رواه مسلم في صحيحه : 1297 ، و أبو داود في سننه : 1970 ، والنسائي في سننه : 3062 ، وابن ماجه في سننه : 3023 ، وأحمد في مسنده : 14419 و 14553 و 14618 و 14946 و 15041)
*فائدہ:* مذکورہ بالا دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سواری سوار ہو پر طواف کرتے ، حجر اسود کی طرف چھڑی سے اشارہ کرتے ،اللہ اکبر کہتے ، سواری پر سوار ہو کر کنکریاں مار تے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ سفر حج کے لئے نکلتے تو سواری پر بیٹھ سفر کر کیا کرتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اپنی سواریوں پر سفر کیا کرتے تھے ۔
*پیدل چل کر سفر حج کرنے کے متعلق ضعیف روایت:*
✺ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ : حَجَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ مُشَاةً مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ، وَقَالَ : ” ارْبُطُوا أَوْسَاطَكُمْ بِأُزُرِكُمْ ".
*ترجمہ:* ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے مدینہ سے مکہ پیدل چل کر حج کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنے تہ بند اپنی کمر میں باندھ لو، اور آپ ایسی چال چلے جس میں دوڑ ملی ہوئی تھی۔
(إسناده ضعيف : رواه ابن ماجه في سننه : 610 ، کیونکہ اس حدیث کی سند میں حمران بن اعین کوفی راوی ضعیف ہے اور اس حدیث کو ابن معین نے ” لیس بشیء” ، امام ابو داؤد نے "رافضی”، امام نسائی نے "لیس بثقۃ ” ، امام الالبانی نے "ضعیف” اور حافظ زبیر علی زئی نے ” اسنادہ ضعیف ” کہا ہے)
*فائدہ:* معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے مدینہ سے مکہ پیدل چل کر حج کیا یہ روایت ضعیف ہے ۔
*اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اپنے جسم کو مشقت و پریشانی میں نہ ڈالے:*
✺ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : بَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ ؛ إِذَا هُوَ بِرَجُلٍ قَائِمٍ، فَسَأَلَ عَنْهُ، فَقَالُوا : إِسْرَائِيلَ، نَذَرَ أَنْ يَقُومَ وَلَا يَقْعُدَ، وَلَا يَسْتَظِلَّ وَلَا يَتَكَلَّمَ، وَيَصُومَ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مُرْهُ فَلْيَتَكَلَّمْ وَلْيَسْتَظِلَّ، وَلْيَقْعُدْ وَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ ".
*ترجمہ:* حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران آپ کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جو دھوپ میں کھڑا تھا آپ نے اس کے متعلق پوچھا، تو لوگوں نے بتایا: یہ ابواسرائیل ہے اس نے نذر مانی ہے کہ وہ کھڑا رہے گا بیٹھے گا نہیں، نہ سایہ میں آئے گا، نہ بات کرے گا، اور روزہ رکھے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے حکم دو کہ وہ بات کرے، سایہ میں آئے اور بیٹھے اور اپنا روزہ پورا کرے "۔
(صحيح : رواه البخاري في صحيحه : 6704 ، وأبو داود في سننه: 3300 ، وابن ماجه في سننه : 2136)
*فائدہ:* معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص بذات خود اپنے اوپر پریشانی اٹھائے اور اپنے جسم کو ہلاکت ڈالے یا جو چیز شریعت نے کرنے کو کہا نہیں کہا ہے وہ کرے تو اس کا کوئی اجر نہیں ملے گا جیساکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران آپ کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جو دھوپ میں کھڑا تھا آپ نے اس کے متعلق پوچھا، تو لوگوں نے بتایا : یہ ابواسرائیل ہے اس نے نذر مانی ہے کہ وہ کھڑا رہے گا بیٹھے گا نہیں، نہ سایہ میں آئے گا، نہ بات کرے گا، اور روزہ رکھے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے حکم دو کہ وہ بات کرے، سایہ میں آئے اور بیٹھے اور اپنا روزہ پورا کرے "۔ اس سے معلوم ہوا کہ خواہ مخواہ کاموں میں انسانوں کو مشقت نہیں اٹھانا چاہئے اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے جن کاموں میں مشقت اٹھانے کو کہا ہے اسی میں اٹھانا چاہئے کیونکہ اسی میں ثواب ملے گا اس کے علاوہ سوائے نقصان کے کچھ نہیں ہے اس لئے ضروری ہے کہ اگر ہم کوئی کام عبادت سمجھ کر کرتے ہیں تو پہلے علماء کرام کے پاس جاکر پوچھ لیں ہم یہ کرنے جارہا ہوں تو اس کو کرنے پر شریعت میں ثواب ملے گا یا نہیں جب علماء کرام کہے کہ ملے گا تو آپ اسے عبادت سمجھ کر کریں اور کہے کہ ثواب بھی نہیں ملے گا تو اس کو ترک کر دیں ۔
*بعض صحابہ کرام اور محدثین پیدل سفر حج کیا ہے:*
✺ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ: لَقَدْ حَجَّ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ خَمْسًا وَعِشْرِينَ حَجَّةً مَاشِيًا، وَإِنَّ النَّجَائِبَ لَتُقَادُ مَعَهُ.
*ترجمہ:* حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے پچیس بار پیدل حج کیا اور خاندانی شرافت والے حضرات آپ کے ساتھ ہوتے۔
(إسناده منقطع : رواه الحاكم في المستدرك : 4841 ، والطبراني في المعجم الكبير : 2844 ، وأبو نعيم في معرفة الصحابة : 1795 ، والهيثمي في مجمع الزوائد : 9 / 204 ، و تخريج سير أعلام النبلاء : 3 / 287 ، والتعليق- من تلخيص الذهبي : 4788 ، وسكت عنه الذهبي في التلخيص)
✺ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ قَالَ: حَجَجْتُ مَعَ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ مَاشِيًا.
*ترجمہ:* حضرت اسماعیل بن عبدالملک فرماتے ہیں کہ: میں نے سعید بن جبیر کے ساتھ پیدل حج کیا۔
(رواه مصنف ابن أبي شيبة – في الرجل يهل بالحج والعمرة بايهما يبدا : 18600، ومصنف ابن ابی شیبہ مترجم، ج4، ح16006، ط: رحمانیہ)
❀ عبداللہ بن احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : قَالَ سَمِعتُ ابي يَقُول حججْتُ خمس حجج مِنْهَا ثِنْتَيْنِ رَاكِبًا وَثَلَاثَة مَاشِيا اَوْ ثِنْتَيْنِ مَاشِيا وَثَلَاثَة رَاكِبًا فضللت الطَّرِيق فِي حجَّة وَكنت مَاشِيا فَجعلت اقول يَا عباد الله دلونا على الطَّرِيق فَلم ازل اقول ذَلِك حَتَّى وَقعت الطَّرِيق ".
*ترجمہ:* میں نے اپنے والد کو کہتے ہوئے سنا کہ مَیں نے پانچ حج کیا ان میں سے دو سوار ہوکر اور تین پیدل یا دو پیدل اور تین سوار ہوکر، مَیں حج میں راستہ بھول گیا اور مَیں پیدل تھا، مَیں برابر یہی کہتا رہا اے اللہ کے بندو! ہمیں راستہ بتاؤ یہاں تک کہ مَیں (صحیح) راستے پر آگیا۔
(مسائل الإمام أحمد رواية ابنه عبد الله، رقم912، ط: المكتب الإسلامي)
*فائدہ:* معلوم ہوا کہ امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے پیدل حج کیا۔
❀ امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : عَن بن عَبَّاسٍ مَا فَاتَنِي شَيْءٌ أَشَدُّ عَلَيَّ أَنْ لَا أَكُونَ حَجَجْتُ مَاشِيًا لِأَنَّ اللَّهَ يَقُولُ "يأتوك رجَالًا وعَلى كل ضامر” فَبَدَأَ بِالرِّجَالِ قَبْلَ الرُّكْبَانِ ".
*ترجمہ:* حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” میں نے ایسی کوئی چیز نہیں چھوڑی جو مجھ کو تکلیف دے (یعنی مجھے پچھتاوا ہو وہ) یہ ہے کہ مَیں پیدل حج نہ کرسکا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ تمہارے پاس پیدل اور ہر لاغر سواری پر آئیں گے "۔
(فتح الباري، ج3، ح379، ط: السلفية)
*فائدہ:* معلوم ہوا کہ یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ میں بھی پیدل حج کروں، کیونکہ پہلے اکثر لوگ پیدل ہی حج کیا کرتے تھے امام مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: كَانُوا لَا يَرْكَبُونَ فَأَنْزَلَ الله "يأتوك رجَالًا وعَلى كل ضامر”۔ وہ (سفرِ حج کے لئے) سوار نہیں ہوتے تھے پس یہ آیت نازل ہوئی "يأتوك رجَالًا وعَلى كل ضامر” وہ آپ کے پاس پیدل اور ہر لاغر سواری پر آئیں گے "وَرَخَّصَ لَهُمْ فِي الرُّكُوبِِ” اور (بعد میں) سواریوں پر حج کرنے کی رخصت ہوئی۔(فتح الباري، ج3، ح379، ط: السلفية اور مزید تفصیل کے لئے دیکھیں : سنن الکبریٰ مترجم، ج6، ق، ح8644، ط: رحمانیہ ، ومصنف ابن ابی شیبہ مترجم، ج4، ح1602، ط: رحمانیہ ، و مستدرک الحاکم مترجم، ج2، ح1692، ط: شبیر برادرز ، و صحیح ابن خزیمہ، ح2791)
*پیدل حج کرنے متعلق علماء کرام کے اقوال:*
❀ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : وَقَالَ دَاوُد مَاشِيًا أَفْضَلُ، وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله تعالى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَائِشَةَ (وَلَكِنَّهَا عَلَى قَدْرِ نَفَقَتِكِ أَوْ نَصَبِكِ. ".
*ترجمہ:* امام داود رحمه الله نے فرمایا: پیدل (سفرِ حج کرنا) افضل ہے اور انھوں نے حدیثِ عائشہ (رضی اللہ عنہ) سے حجت پکڑی (جس طرح امام بیھقی رحمہ اللہ نے اسی حدیث پر باب قائل کیا ہے) ۔
(المجموع للنووی، ج7، ص91، ط: دارالفکر)
❀ اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : قال إسحاق بن راهويه: المشي أفضل لما فيه من التعب ".
*ترجمہ:* پیدل سفرِ حج پر جانا افضل ہے جس (سفر) میں تھکاوٹ ہو۔
(فتح الباري لابن حجر، ج3، ص380)
❀ مفسر ومحدث محمد بن احمد القرطبي رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لَا خِلَافَ فِي جَوَازِ الرُّكُوبِ وَالْمَشْيِ، وَاخْتَلَفُوا فِي الْأَفْضَلِ مِنْهُمَا، فَذَهَبَ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ فِي آخَرَيْنِ إِلَى أَنَّ الرُّكُوبَ أَفْضَلُ، وَذَهَبَ غَيْرُهُمْ إِلَى أَنَّ الْمَشْيَ أَفْضَلُ "۔
*ترجمہ:* پیدل اور سواری پر (حج کرنے) کے جائز ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اُن کی افضیلت میں اختلاف ہے امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ کا مذہب ہے کہ سواری (پر حج کرنا) افضل ہے اور دیگر کا مذھب ہے کہ پیدل (حج کرنا) افضل ہے۔
(تفسير قرطبي، ج14، ص363، ط: الرسالة)
❀ امام بیھقی رحمہ اللہ نے بھی حدیثِ عائشہ ؓ پر باب قائم کیا ہے: بابُ الرَّجُلِ يَجِدُ زادًا وراحِلَةً فيَحُجُّ ماشيًا يَحتَسِبُ فيه زيادَةَ الأجرِ۔
*ترجمہ:* باب ہے اس شخص کے بیان میں جو زاد راہ اور سواری پاتا ہو لیکن زیادہ اجر حاصل کرنے کے لئے وہ پیدل حج کرے۔
(سنن الکبریٰ مترجم، ج6، ق، ح8643، ط: رحمانیہ)
*فائدہ:* مذکورہ علماء کرام کے اقول سے یہ بات ثابت ہوا کہ
پیدل حج کا سفر کرنا بالکل جائز اور درست ہے اگر کوئی شخص زیادہ اجر پانے کے لئے پیدل حج کرتا ہے تو وہ بہتر ہے کیونکہ اُس میں محنت زیادہ ہے، امام بیھقی رحمہ اللہ نے اپنے قول پر حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دلیل لی ہے اور اسی طرح سے امام نووی رحمہ اللہ نے حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پیدل سفرِ حج کی افضیلت کی دلیل لی ہے۔
*پیدل اور سواری میں افضل سواری پر حج کرنے متعلق علماء کرام کے اقوال:*
راجح تو یہی ہے کہ انسان سواری پر سوار ہوکر حج کرنے کے لئے جائیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری پر سوار ہوکر حج کرنا ثابت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری پر سفرِ حج کیا اور اِسی کے قائل امام شافعی اور امام مالک رحمھما اللہ ہیں۔
❀ امام نووی رحمہ اللہ نے فرماتے ہیں کہ : ” وَاخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي الْأَفْضَلِ مِنْهُمَا فَقَالَ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَجُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ الرُّكُوبُ أَفْضَلُ اقْتِدَاءً بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ".
*ترجمہ:* علماء نے افضیلت میں اختلاف کیا ہے امام مالک اور امام شافعی اور جمہور علماء رحمھم اللہ نے فرمایا کہ سورای (پر سفرِ حج کرنا) افضل ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرتے ہوئے۔
(شرح صحیح مسلم، ج8، ص174)
❀ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” ذكر البخاري حديث ابن عمر في إهلال رسول الله ﷺ حين استوت به راحلته، وغرضه الرد على من زعم أن الحج ماشيا أفضل "۔
*ترجمہ:* امام بخاری ؒ نے ابن عمر ؓ کی حدیث ذکر کی، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تلبیہ پکارا جب آپ کی سواری کھڑی ہوچکی، اس کے بیان کا مقصد اُن حضرات کا رد ہے جو گمان کرتے ہیں کہ پیدل سفرِ حج کرنا افضل ہے۔
(فتح الباري، ج3، ص380)
❀ امام المفسرین حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” وَالَّذِي عَلَيْهِ الْأَكْثَرُونَ أَنَّ الْحَجَّ رَاكِبًا أَفْضَلُ، اقْتِدَاءً بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّهُ حَجَّ رَاكِبًا مَعَ كَمَالِ قُوَّتِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ ".
*ترجمہ:* جمہور کا قول یہی ہے کہ بےشک سواری پر حج کرنا افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود کمال قدرت وقوت کے (پیدل حج نہیں کیا بلکہ) سواری پر حج کیا۔
(تفسیر ابن کثیر، ج5، ص414، ط: دار طیبہ)
❀ امام ابن المنذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ” اختلف في الركوب والمشي للحجاج أيهما أفضل؟ فقال الجمهور الركوب أفضل لفعل النبي ﷺ ".
*ترجمہ:* حاجیوں کے لئے پیدل اور سواری میں سے افضل کیا ہے؟ تو جمہور نے فرمایا سواری (پر سفرِ حج) افضل ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کی وجہ سے۔
(فتح الباري لابن حجر، ج3، ص380)
*خلاصہ کلام:* پیدل اور سواری پر سوار ہوکر سفر حج کرنا جائز اور درست ہے اور حقیقت یہی ہے کہ پیدل حج کرنا جائز تو ہے لیکن افضل نہیں ہے اور کوئی شخص یہ کہے کہ پیدل سفر حج کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب رسول اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی ہے تو ایسا کہنا بالکل درست نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حجۃ الوداع کے موقع پر اصحاب رسول سے پیدل سفر حج کرنا ثابت ہے ۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter