آه! مولانا حفظ الرحمن ندوى رحمہ الله

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى آكسفورڈ

16 اکتوبر, 2021

بسم الله الرحمن الرحيم

آج (15 اكتوبر سنه 2021م) شام كو رفيق گرامى مولانا حفظ الرحمن صاحب ندوى استاد دار العلوم ندوة العلماء كے انتقال كى اندوہناك خبر ملى، إنا لله وإنا إليه راجعون، ہائے اپنے قريبى ساتهيوں ميں ايك اور رخصت ہوا اور زندگى كى بے لطفى كو تازه كر گيا،كتنوں كو روتا چهوڑ گيا، افسوس ہے اس احساس مرده پر جسے موت كا صور بهى زنده نه كرسكے، اے ملك عدم كے راہى آنكهيں كهول ، اٹها گٹهرى، سنبهال بستر: مسافر ہے تو عقبى كا ارے نادان پرديسى
نہيں معلوم اے ياران عہد زندگى كچه بهى
ہميں كس كس نے چهوڑا ساته ہم كس كس كا چهوڑيں گے
مولانا كئى مہينوں سے صاحب فراش تهے، جب طبيعت زياده خراب ہوئى تو علاج كے لئے دہلى منتقل ہوگئے، يہاں اپنے صاحبزاده عطاء الرحمن ندوى كے پاس قيام پزير تهے، اور وہى ان كے علاج كى ذمه دارى بحسن وخوبى نباه رہے تهے ۔
حفظ الرحمن صاحب نے دار العلوم ديوبند سے فراغت حاصل كى تهى، اس كے بعد ندوه ميں ادب عربى كى تكميل كے لئے تخصص ميں داخله ليا، وه مجه سے ايك سال سينير تهے، تعارف ہوا، اور پهر دوستى ہوگئى، فراغت كے بعد وطن بہار چلے گئے، اور پهر كلكته كے ايك اخبار ميں ملازم ہوگئے، شايد وہاں قيام راس نہيں آيا، اور دوباره ندوه آگئے، اس وقت ميں ندوه ميں استاد تها، حفظ الرحمن صاحب دفتر الرائد سے منسلك ہوگئے، اور استاد محترم مولانا واضح رشيد ندوى رحمة الله عليه كى نگرانى ميں انگريزى اور اردو سے عربى ميں ترجمه كى مشق كرنے لگے، پهر ترقى ملى اور دار العلوم ميں استاد ہوگئے ۔
مرحوم لمبے قد كے، گورے چٹے اور وجيه شخصيت كے مالك تهے، ہنس مكه، خليق اور ملنسار تهے، طبيعت بہت ساده تهى، غير معمولى سادگى اور بے تكلفى كى وجه سے ميرا تعلق ان سے بڑها، خاص طور سے جب وه الرائد ميں كام كر رہے تهے اس وقت ہمارى ملاقاتيں كثرت سے ہوتيں، ہم ايك ساته ٹہلتے، ندوه كى كينٹين ميں چائے پيتے، اور ہر علمى، ادلى وسياسى موضوع پر گفتگو كرتے ۔
سنه 1990 كى بات ہے كه ايك جونير مولانا قرآن ندوى كا ہمارے حلقۂ احباب ميں اضافه ہوا، ان كا ادبى ذوق صاف ستهرا تها، اور ہم تينوں عام طور سے عصر كے بعد كى تفريح ميں ساته ہوتے، اس دوران حضرت گنج ميں ايك ساؤته انڈين ريستوران كهلا، ندوه ميں اس كا چرچا ہوا، ہم تينوں نے وہاں جاكر كهانے كا پروگرام بنايا، وه قدرے مہنگا ريستوران تها، طے ہوا كه ہم ہر ہفته وہاں ايك مرتبه جائيں گے، اور بارى بارى كهانے كے خرچ كى ذمه دارى ليں گے، ميں نے سبقت كى پيشكش كى، كيونكه پہل كرنے ميں خرچ وہى ہے جو بعد ميں دعوت كرنے ميں، مزيد يه كه جو پہل كرتا ہے وه بخل كے الزام سے بچ جاتا ہے، چنانچه ہم لوگوں نے حضرت گنج جاكر اپنى ادبى گفتگوؤں كے دوران مساله دوسه كهايا، اور ہمارا سر فخر سے بلند ہوا كه اب ہم نے كهانے ميں بهى تقليد كى رسى كو توڑا، اور ايك نئى ڈش سے لطف اندوز ہونے كا تجربه كيا، اس كے بعد ميرا انگلينڈ آنا طے ہوگيا، اور ميں سفر كى كار روائيوں ميں مشغول ہوگيا، ميں اگرچه اپنے دونوں ساتهيوں سے دعوت وصول نہيں كرسكا ، پهر بهى مجهے اس كى خوشى تهى كه فياضوں ميں ميرا نام درج ہوگيا ۔
حفظ الرحمن صاحب ديوبند سے فارغ تهے، ليكن ديوبند كى مقدس روايتوں كا ان پر كوئى اثر نہيں تها، ندوه ميں دو غير ندوى استاد تهے جو ندوى فكر وطرز حيات ميں ندويوں سے بهى آگے تهے، اور كبهى شبہ بهى نه ہوتا كه انہوں نے كہيں اور تعليم حاصل كى ہے، ايك استاد محترم مولانا شہباز رحمة الله عليه جو مدرسة الاصلاح كے فارغ تهے، ليكن ندوه كبهى ان كے لئے اجنبى نہيں رہا، دوسرے حفظ الرحمن صاحب، ان كو قاسميت چهوكر بهى نہيں گئى تهى، ان كے مقابله ميں بہت سے خالص ندوى تنگ نظر ، پست فكر اور قدامت پسند نظر آتے، شايد اس ميں دخل ان كى انگريزى تعليم كو بهى تها، ان كى انگريزى بہت اچهى تهى، اور وه انگريزى كتابوں كا مطالعه كرتے تهے، اور كبهى كبهى مجه سے ان موضوعات پر گفتگو بهى كرتے تهے، بعد ميں انہوں نے مطالعه كرنا تقريبا موقوف كرديا تها ۔
جديديت ان كے اندر جس طرح رچى بسى تهى اس كى ايك وجه ان كا صحافتى تجربه بهى تها، اور مجه سے كبهى كبهى اس زندگى كے واقعات بهى بيان كرتے تهے، جن سے اندازه ہوتا تها كه وه "جيسا چاہا ويسا افسانه بنا ڈالا” كے فن كے ماہر تهے، انہوں نے ايك پر لطف واقعه يه بيان كيا كه ايك مرتبه كلكته ميں وزير اعظم اندرا گاندهى آنے والى تهيں، ان كے آنے ميں تاخير ہوگئى، اور پہلے صفحه كى خبر كا ان سے متعلق ہونا ضرورى تها، اخبار چهپنے ميں وقت لگتا ہے، جب ديكها كه وقت بہت تنگ ہے، تو ہم نے اندراگاندهى كے آنے سے پہلے ہى ان كے آنے كى خبر پہلے صفحه پر نشر كردى، اور اندازه سے ان كى تقرير كے كچه اقتباس بهى ديدئے، جب صبح سوكر اٹهے تو ہمارا اخبار پورے شہر ميں پهيل چكا تها، حالانكه اندرا گاندهى رات ميں آئى ہى نہيں تهيں: اب ہاته ملے سے ہوتا ہے كيا جب ہاته سے ناوك چهوٹ گيا ۔
مرحوم كے اندر سادگى بلا كى تهى، اور ساته ہى پان كهانے كے عادى تهے، اور ميں پان كبهى نہيں كهاتا تها، ندوه كے آخرى دنوں ميں ميرے دو دوست تهے، ايك مولانا ابراہيم ردولوى اور دوسرے حفظ الرحمن صاحب، دونوں پان كهانے كے شوقين اور ميں اس سے بيزار، اس تضاد كے باوجود ہمارى دوستى مضبوط سے مضبوط تر ہوتى گئى، حفظ الرحمن حقيقى معنوں ميں زاہد تهے، يه ان كى وه صفت تهى جو ہر ايك كو نظر آتى تهى، ان كے اس زہد كا رشته تصوف سے دور دور تك نہيں تها، كيونكه حفظ الرحمن سب كچه ہو سكتے تهے پر صوفى نہيں ہو سكتے تهے، اصل ميں وه كسى مسلك ومشرب وطريقت ميں منضبط ہونے سے ماوراء تهے، ہاں اگر زہد كو ہى تصوف كہا جائے تو ضرور انہيں صوفى كہا جا سكتا ہے، شايد ان كے لئے بہتر تعبير ہوگى: ايك صوفى بے سلسله اور عارف جرأتمند، ايك بار ہم لوگوں سے بيان كيا كه ايك رات چور ان كے گهر ميں گهس آيا تها، ميں نے كہا كه آپ نے اس سے كهہ كيوں نہيں ديا كه يہاں دن كى روشنى ميں كچه نہيں ملتا تو رات كى تاريكى ميں كيا ملے گا ۔
حفظ الرحمن صاحب كى سب سے بڑى خوبى جس سے ميں متاثر تها وه ان كى غير معمولى ذہانت تهى، اور يه ذہانت انہيں كى طرح ہر قيد وبند سے آزاد تهى، اس مخصوص ذہانت كى تعبير كے لئے ميرے پاس كوئى لفظ نہيں، پهر بهى اجتہاد كركے كہتا ہوں كه اسے مخترعانه ذہانت كانام دينا شايد زياده موزوں ہو، ذہانت ان كا وه وصف خاص ہے كه اگر اسے ان كے عناصر تكوينى سے نكال دبا جائے تو ان كى زندگى بے جان اور بے كيف نظر آنے لگے، ندوه كے جونير اساتذه ميں ان كے برابر كوئى ذہين نہيں تها، وه خود تو ساده تهے، ليكن باتيں ہميشه گہرى اور فلسفيانه كرتے، ہر معمولى چيز كے اندر انہيں كوئى عميق نكته نظر آجاتا، وه خبروں كے تجزيه ميں معاصرين پر فائق تهے، ميں نے خبريں پڑهنے، انہيں سمجهنے اور ان پر تبصره كرنے كا ہنر بڑى حد تك ان سے سيكها، ليكن افسوس اس كا ہے كه انہوں نے خود اپنى ذہانت كى قدر نہيں كى، اور مجهے نہيں لگتا كه ان كے شاگردوں نے ان سے كما حقه فائده اٹهايا ہوگا، ان كى صلاحيتوں پر ان كى سادگى اور بے پرواه طبيعت نے ظلم عظيم كيا ۔
اس با كمال ساتهى كے انتقال كى خبر نے ماضى كى تمام يادوں كو تازه كرديا، افسوس اس كا ہے كه ندوه ايك ذہين اور ذى استعداد معلم سے محروم ہوگيا، وه چلا گيا جس كے عطر عقل نے ايك عرصه تك مجهے مسحور كر ركها تها، اس وقت ہم صرف ان كے لئے دعا كرسكتے ہيں، اور دعا ہى ان كے كام آئے گى، الله تعالى مرحوم كى مغفرت فرمائے، ان كے درجات بلند كرے، اور ان كے شاگردوں كے اعمال ميں ان كا حصه لگائے، آمين ۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter