علماء و معاصرین کے تاثرات و احساسات بر وفات مولانا عبد المنان سلفی رحمہ اللہ

جمع و اعداد : عبد الصبور ندوی

23 اگست, 2020

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی

تم جیسے گیے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

حضرت مولانا عبد المنان سلفی کو  آج رحمہ اللہ لکھتے ہویے کلیجہ پھٹتا ہے بے یقینی کی کیفیت ہے ؛ نہیں وہ ابھی بھی ہمارے درمیان ہیں؛ قضا و قدر پر ایمان ہے اسی لئے احباب نے انھیں منوں مٹی تلے دفنا دیا ؛ مرحوم نہ صرف ہمارے پھوپھا جان تھے بلکہ ایک سرپرست رہنما اور مربی تھے؛ لاک ڈاؤن نے آخری دیدار سے بھی محروم کردیا ؛ ان کی شخصیت کے حوالے سے بہت کچھ لکھنا ہے ؛ کیسے چلے گئے؟ اور اتنی جلدی؛ یہ داغ مفارقت صدموں سے نڈھال بنا رہا ہے ؛ رب کریم! تو ان پر اپنی خصوصی رحمت کی برکھا نازل فرما

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

ذیل میں موصول علماء و احباب کے تاثرات و احساسات ملاحظہ  فرمایں :

مولانا ثناءاللہ صادق تیمی-مکہ مکرمہ

شیخ عبدالمنان سلفی کی رحلت

سال ٢٠٢٠عام الحزن بنتا جارہا ہے ۔ دیکھتے دیکھتے اساطین علم وفضل اٹھتے جارہے ہیں ۔ شب گذشتہ ماہنامہ السراج کے ایڈیٹر عالم ربانی شیخ عبدالمنان سلفی بھی انتقال کر گئے ۔ اناللہ و انا الیہ راجعون ۔ غفراللہ لہ و رحمہ و ادخلہ فسیح جناتہ۔
آپ کی موت سے آپ کا ہر جاننے والا سوگوار ہے ، آپ نے بے شمار طلبہ کی تربیت کی ہے ، آپ کی تحریروں سے لاکھوں نے استفادہ کیا ہے اور ان گنت لوگوں نے آپ کے خطابات سے گوہر علم و عمل چنا ہے۔شیخ کے طلبہ اور ان کے قریبی احباب ان پر ان شاءاللہ زیادہ تفصیل سے لکھیں گے ۔ میں یہاں ذاتی ربط وتعلق کی بنیاد پر چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا ۔
میں پڑھنے کے زمانے سے افسانے لکھتا رہا ہوں ۔ اس میں وقفہ بھی ہوتا رہا ہے ۔ میرے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ طبیعت جس طرف مائل ہوجاتی ہے ، ہو جاتی ہے ۔ میں افسانے یا کوئی بھی ادبی نگارش یوں ہی وقت گزاری کے لیے نہیں لکھتا ۔ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی اعلا مقصد پوشیدہ ہوتا ہے ۔ واٹس اپ اور فیس بوک کے عام ہونے کے بعد جب میرے افسانے شیخ عبدالمنان سلفی رحمہ اللہ کی نگاہوں سے گزرے تو آپ نے ان کی بہت تعریف کی بلکہ ایک ادبی گروپ میں آپ نے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے یہ تک کہا کہ آپ ایک خلا کو پر کررہے ہیں ، سلسلہ باقی رکھیے ۔گروپ سے ہوتے ہوئے آپ پرسنل پر آئے اور خوب تعریفیں کیں اور حوصلہ بڑھایا ۔ تب سے سلام و پیام کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ۔ مختلف مواقع سے دعاؤں کا تبادلہ ہوتا رہا ، عیدوں پر تہنیت کے پیام آتے جاتے رہے اور رشتے میں گہرائی آتی گئی ۔
آپ کی خورد نوازی تھی کہ آپ نے کئی تحریریں واٹس اپ پر پڑھنے کے بعد اپنے رسالہ میں چھاپنے کی اجازت طلب کی ۔ بعض تحریرں ایمیل پر بھیجنے کوکہا اور ان ساری تحریروں کو اہتمام سے شائع کیا ۔ لگ بھگ تین سال قبل خاکسار نے جامعہ امام ابن تیمیہ میں طلبہ کے سامنے مطالعہ کی اہمیت اور طریقہ کار پر گفتگو کی تھی ، ہمارے عزيز دوست مولانا آصف تنویر تیمی مدنی نے اس خطاب کو اپنی یادداشت سے لکھ دیا تھا ، کئی رسالوں نے اس تحریر کو چھاپا ۔ شیخ کی نظر جب تحریر پر پڑی تو آپ نے اسے السراج میں چھاپنے کی اجازت بھی طلب کی اورشخصی معلومات کا بھی مطالبہ کیا اور اپنے ادارتی نوٹ کے ساتھ تحریر شائع کی ۔
بزرگوں کا وہ قافلہ جو اپنے خوردوں کو اپنے ساتھ لیے چلنے کا آرزو مند ہو وہی در اصل نسل نو کی صحیح آبیاری کرتا ہے ۔ جن پر ہمہ دانی کا بھوت سوار ہو اور جو کسی کو خاطر میں نہ لاتے ہوں وہ چاہے اپنے خول میں بند رہ کر خود کو جو بھی باورکریں لیکن بالعموم ان کا فیض عام نہيں ہوپاتا ۔ ہماری نسل کے کئی لکھنے والوں نے شیخ عبدالمنان سلفی رحمہ اللہ کی طرف سے ملنے والی حوصلہ افزائی کا ذکر کیا ہے ، اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہ ان کا وطیرہ تھا کہ وہ خوردوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور یوں جن کی براہ راست تربیت نہیں کرسکتے تھے ان کے اٹھان میں بالواسطہ ہی سہی اپنا حصہ ڈال دیتے تھے ۔ خاکسار نے ان کی موت پر یہ باتیں اس لیے بھی عرض کی ہیں کہ بزرگوں اور خوردوں کے بیچ جس طرح سے رشتہ کمزور پڑتا جارہا ہے وہ کسی اچھے مستقبل کا اشاریہ نہیں ہوسکتا ۔ہماری نسل کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں اپنے بڑوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے اور انہیں کی رہنمائی میں ہم اپنا سفر زيادہ اچھا طے کرسکتے ہیں وہیں بزرگوں کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وقت کی سوئی ایک جگہ نہیں ٹھہرتی ۔ حالات بدلتے ہیں تو تقاضے بھی بدل جاتے ہیں ۔ آج کی تیز رفتار دنیا میں معلومات کا بہاؤ تو ہے لیکن سلیقہ کی کمی بھی سامنے کی چيز ہے اور آپ بزرگوں کا دست شفقت بنا رہا تو معلومات کو سلیقہ بھی مل جائے گا اور ان شاءاللہ زیادہ بہتر نسل تیار ہوسکے گی ۔
ذاتی طور پر میرا احساس یہ ہے کہ مولانا عبدالمنان سلفی رحمہ اللہ انہيں بزرگوں میں سے تھے جو اپنے خوردوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کی رفعت رکھتے تھے ۔ یہ بات کہنے میں جتنی آسان ہے ، اس پر عمل کرکے دیکھیے تو یہ اتنا ہی مشکل کام ہے ۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ شیخ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ، آپ کثیر العیال ہیں ، مولانا اسحاق بھٹی نے آپ کے بارے میں لکھا ہے تو اس پر اپنے خاص انداز میں مزاح سے بھی کام لیا ہے ، آپ کی اولاد کو اللہ آپ کے لیے صدقہ جاریہ بنائے ، انہیں صبر جمیل دے اور امت و جماعت کو آپ کا نعم البدل عطا کرے۔ آمین

شیخ رفیع سلفی – آسٹریلیا

سونے کی زنجیر: اور کڑی ٹوٹ گئ ۔
21 اگست کو پہلی بار یہ تشویش ناک خبر ملی کہ شيخ عبد المنان کی طبیعت زیادہ خراب ہے۔ لیکن آج صبح ( سڈنی کی توقیت سے فجر کے وقت) جو خبر دیکھی۔ ذہن اس کے لئے بالکل تیار نہیں تھا۔ طبیعت بے قابو ہوگئ۔ اہلیہ مجھ سے پہلے اٹھ چکی تھیں، میری حالت دیکھ کر پریشان ہوگئیں۔ کہنے لگیں کیا ہوگیا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا بتاوں۔
میں کم آمیز ہوں حلقئہ احباب مختصر سا ہے، اور برصغیر سے اتنی دور رہتا ہوں۔ اس لئے شخصی تعلقات بہت کم افراد سے ہیں۔ علماء کرام کی وفات پر افسوس ہوتا ہے مگر کچھ لکھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ عام طور سے صرف زبان سے دعاء پر اکتفا کرتا ہوں۔ دبستانی رواج کے مطابق لکھ کر تعزیت بھی نہیں کرپاتا۔ شاذ و نادر کبھی کبھی کچھ لکھا جاسکا۔
اس لئے میرے لئے مولانا کی سیرت و سوانح پر کچھ لکھنا ممکن نہیں۔ ان شاء اللہ وہ اھل قلم جو مولانا کو قریب سے جانتے ہیں۔ اس موضوع ضرور توجہ دیں گے۔
عجیب بات بے۔ محترم مولانا عبد المنان صاحب نہ میرے رفقاء درس میں تھے، نہ کوئ قریبی تعلق، اور نہ ہی کوئ رشتہ تھا۔ جامعہ سلفیہ سے نکلنے کے بعد کبھی بالمشافہ ملاقات بھی نہیں ہوسکی۔ صرف آخری چند سالوں میں موصوف نے واٹس اپ کے ذریعہ چند پیغامات بھیجے تھے۔ اس اجنبیت کے باوجود ان کے انتقال کی خبر سے عجیب سا محرومی کا احساس ہوا اور دل بیٹھ گیا۔ وجہ سمجھ میں نہیں آرہی تھی؛ یہ شدید تاثر کیوں ہے۔
غالبا یہ صرف میری کیفیت نہیں۔ اکثر کی یہی حالت ہے۔ کبھی کبھی کوئ خبر وفات پہنچتی ہے تو ڈاکٹر عبد الرحمان فریوائ کو بھیج دیا کرتا ہوں۔ آج صبح اٹھا تو دکتور نے خود ہی یہ خبر بھیجی تھی۔ پھر بڑے درناک انداز میں لکھا:
"عام الحزن کی اموات مین عبدالمنان رحمہ اللہ کی نئے سال ہجری کی موت کےاضافے نے گویا یہ بگل بجادیا کہ ابھی غم کا یہ سلسلہ دراز ہی ھے،مولانا عبدالحنان؛ ان کے والد یاد آئے اس کے بعد مولانا عبدالروف رحمانی اور جو جو بھی سراج العلوم سے تعلق رکھتے تھے رحمھم اللہ وغفرلہم جمیعا”
جہاں تک میرا تعلق ہے۔ شیخ عبد المنان کی قدر اس لئے کرتا تھا کہ ان کو ایک روایت کا امیں سمجھتا تھا۔
میرے والد ماجد محمد عاقل صاحب جس وقت سراج العلوم میں ملازم ہوئے۔ تو ایک مناسبت پیدا ہوگئ۔ آنا جانا شروع ہوا۔ وہیں مرحوم کی دو قابل قدر پیڑھیوں سے ملاقات ہوئ۔ مرحوم کے داد مولانا محمد زماں(م 1978)صاحب جامعہ رحمانیہ دہلی کے فارغ تھے۔ جب میں نے مولانا کو دیکھا غالبا جھنڈا نگر میں ان کی ملازمت کا آخری سال تھا۔ اسی وقت ان سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ مولانا انکسار اور تواضع کا مجسمہ تھے۔ بڑی محبت سے پیش آتے تھے۔
وہیں شیخ عبد المنان صاحب کے عالی قدر والد مولانا عبد الحنان صاحب(م 2017) بھی تھے۔ وہ بھی اپنے گراں قدر والد کے زیر سایہ تھے۔ لیکن ان کا اپنا مقام تھا۔ وہ خود ایک کامیاب مدرس تھے۔ اپنی اسی خوبی کی وجہ سے جامعہ سلفیہ میں تدریس کے لئے بلائے گئے۔ اپنے والد کی طرح سراج العلوم میں منصب صدارت پر فائض ہوئے۔ اور ایک لمبی مدت تک افتاء کی ذمہ داری نبھائ۔ مولانا عبد الحنان صاحب بھی شفقت کرتے تھے۔ چار سال کی مختصر مدت(74-77) کے لئے جامعہ سلفیہ میں پڑھانے آئے تو شاگردی کا شرف بھی حاصل ہوا۔
خود شیخ عبد المنان جامعہ سلفیہ سے 1982 سے فارغ ہوئے۔ 8 سال کی مدت وہیں گزاری۔ اس طرح میری طالب علمی کے آخری سالوں میں جامعہ میں تھے۔ اس طرح محترم عبد المنان سلسلہ ذہبیہ کی ایک اہم کڑی تھے۔
محترم عبد المنان صاحب کو ان کے گراں قدر والد اور عالی قدر جد امجد کے اقدار کا امین سمجھتا تھا۔ السراج کے ذریعہ ان کی سرگرمیوں کے بارے میں معلوم ہوتا رہتا تھا۔ خوشی ہوتی تھی کہ انھوں نے اپنی محنت سے اپنا ایک مقام بنایا۔ تحقیق، تدریس اور صحافت کے میدان میں اپنا سکہ جمایا۔ السراج کے مدیر اور جامعہ کے وکیل رہے۔ اپنے خاندان کی علمی روایت کی نہ صرف حفاظت کی بلکہ اور اسے اور اگےبڑھایا۔
احساس قدر دانی اس لئے اور بھی گہرا تھا کہ اب عام طور سے علماء کرام کی اولادیں علم دین کے بجائے عصری علوم کا رخ کرتی ہیں۔ ایسے موقعوں پر امام ابن معین رحمہ اللہ کا یہ قول یاد آتا ہے۔
” اربعة لا تؤنس منهم رشدا: حارس الدرب، ومنادى القاضي، وابن المحدث ورجل يكتب في بلده ولا يرحل في طلب الحديث. (معرفة علوم الحديث للحاكم ص 123، الرحلة للخطيب ص 89)۔
محترم عبد المنان صاحب نے اس روش کو عملا غلط ثبات کیا۔ سنا ہے ان کے صاحبزادے سعود اختر بھی باصلاحیت عالم ہیں۔ اللہم بارک لہم۔ ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔اللہ تعالی شیخ عبد المنان کی نیکیوں کو قبول فرمائے۔ اھل و عیال کی حفاظت فرمائے۔

شیخ عبد الرزاق سلفی – دبئی

ایک بے تکلف دوست نہ رہا ،
“ چین سے بیٹھنے نہیں دیتی
موسم یاد کی اداس ہوا۔ “
١٧ دسمبر ٢٠١٨کی بات ہے ہمارے گاؤں شنکر نگر میں یک شبی دعوتی پروگرام تھا ، اشتہار دیکھا ، شیخ کا نام درج تھا ، مجھے بےحد خوشی ہوئی ، شیخ سے ملاقت ضرور ہوگی ، فورا واٹساب کیا ، جواب کا تبادلہ ہوا ، آپ بھی ملاحظہ فرمائیں ،

آلسلام عليكم ورحمة الله وبركاته
خطيب محترم اپنی کتاب اپنے ساتھ ضرور لیتے ائیں گے گزارش ہے آڈر نہیں
عبد الرزاق عبد الغفار شنکرنگر
و عليكم السلام و رحمة الله و بركاته
شيخ محترم ! زہے نصیب آپ کے حکم کی تعمیل باعث سعادت ہوگی ، ان شاء اللہ کتاب کے ساتھ حاضر ہوں گا ، کیا آنجناب سے ملاقات کی بھی امید رکھوں ؟
میں چشم براہ ہوں ، کبھی اپ کو کبھی اپنا گاؤں دیکھتا ہوں
بہت خوب
حضور والا !میں اپنے گھر میں آؤں گا اس لئے نہ کسی چشم براہ کی ضرورت ہے اور نہ کسی کو مجھے دیکھنے کی ضرورت
اب اور کیا لکھیں ، گاؤں میں آتے ہی خاکسار کو یاد کیا ، فورا حاضر ہوا ، پر تپاک انداز میں گلے ملے ، ساتھ میں کھانا کھایا ، کہنے لگے آپ جاکر آرام کریں ، میں نے کہا ایک سہانی رات ملی ہے پھر ملے نہ ملے ، رات دیر تک جاگنے کی عادت نہیں ، مگر دوست کی چاہت اور محبت میں پوری تقریر سنتا رہا ، تقریر پر مغز تھی ، تقریر ختم ہوئی ، تقریبا رات بارہ بجے الوداع کہا ، آہ ! ناصر کاظمی کس موڑ پر یاد آئے :
قصے تری نظر نے سنائے نہ پھر کبھی
ہم نے بھی دل کے داغ دکھائے نہ پھر کبھی
اے یاد دوست آج تو جی بھر کے دل دکھا
شاید یہ رات ہجر کی آئے نہ پھر کبھی
اللهم اغفرله وارحمه و عافه و اعف عنه و اكرم نزله و وسع مدخله واغسله بالماء والثلج و البرد و نقه من الخطايا كما ينقى الثوب الابيض من الدنس ،و ابدله دارا خيرا من داره و اهلا خيرا من اهله ، و ادخله فى جنة الفردوس و اعذه من عذاب القبر و من عذاب النار ، اللهم امين ثم امين

حافظ منظور أحمد المدنى رئيس مركز البينة الإسلامي نيبال

"ایک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا”
ابھی جماعت اہل حدیث کی بعض مؤقر اور قدآور شخصیتوں کی رحلت سے غم و اندوہ کے سیاہ بادل چھٹنے بھی نہیں پائے تھے اور مفارقت کے زخم ابھی مندمل بھی نہیں ہونے پائے تھے کہ آسمان علم و آگہی کا ایک اور چمکتا ہوا ستارہ زنّاٹے دار گھن گرج کے ساتھ ٹوٹ گیا۔
گزشتہ شب بعد نماز مغرب شیخ عبدالمنان سلفی کی بگڑتی اور تشویشناک صحت کیلئے دعاء گو تھا اور دل سوز و الم کے خیالوں میں ڈوبا ہی ہوا تھا کہ اچانک دو بجے شب شیخ محترم کی وفات حسرت آیات کی خبر ہزاروں دلوں پر بجلی بن کر گری اور لاکھوں لوگوں کو سوگوار کر گئی، اور دل و زبان سے یہ صدائیں بلند ہونے لگیں "إنا لله وإنا إلیہ راجعون”
۔پھر کیا ہوا،نمناک آنکھیں، دھڑکتا ہوا دل، مضطرب اور پریشان حال جسم، خیالات میں ڈوبے ہوئے احساسات اور تصورات کی دنیا میں گھومتی ہوئی شیخ محترم کی یادیں اور ملاقاتیں ایک بار پھر سے اس حقیر دنیا کی بے بضاعتی، انسانی زندگی کی حقیقت اور فکر آخرت کے سبق کو یاد دلاتے ہوئے "کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ” کی حقیقت کو دوبارہ تازہ کردیا۔
آپ جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر نیپال کے مخلص وکیل الجامعہ، ماہنامہ "السراج” کے بے لوث مدیر اور جامعہ کے ہر دلعزیز، کہنہ مشق اور تجربہ کار استاذ کے ساتھ ساتھ بہترین مربی اور عظیم مشفق بھی تھے، آپ نے جس بھی شعبے میں قدم رکھا اسے حسن و جمال کا پیکر بنا ڈالا، کئی سالوں تک بیرونی ممالک میں بھی جامعہ کی نمائندگی کرتے رہے، قومی اور بین الاقوامی جلسوں، سیمیناروں اور کانفرنسوں میں حاضری دے کر جامعہ کی خدمت اور اس کی نمائندگی کرتے رہے،
یقیناً آپ منکسر المزاج، متواضع اور خاکسار، ایک بلند پایہ عالم دین، دانشور صحافی، بہترین منتظم، انتہائی خلیق، حد درجہ شریف اور محبت و شفقت کے پیکر تھے، جماعت و جمعیت سے کافی ہمدردی تھی، علم دوست لوگوں سے گہرا لگاؤ رکھتے تھے، علمی کام کرنے والوں کی پذیرائی کرکے انہیں نیک مشوروں سے نوازتے اور حوصلہ مندی و حوصلہ افزائی کی باتیں کرتے تھے، "مرکز البینہ الاسلامی” سے بھی گہرا ربط اور بڑی اچھی وابستگی رکھتے تھے، ہر قسم کے چھوٹے اور بڑے پروگراموں میں شرکت فرماکر زینت اسٹیج بنتے اور اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے رہتے تھے، آپ نیک طبیعت، صدق و صفا کے پیکر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک قابل و تجربہ کار مدرس، ممتاز خطیب و مقرر، منفرد قلمکار و محرر، کہنہ مشق مصنف و مؤلف اور بہترین مترجم و انشاء پرداز تھے۔آج آپ کی وفات پوری ملت اسلامیہ کیلئے ایک عظیم سانحہ اور بڑا خسارہ ہے۔
اللہ رب العالمین سے دعا کرتے ہیں کہ یا الہی شیخ کی مغفرت فرمادے، ان کے قبر کو نور اور روشنی سے بھر دے، جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرما، پسماندگان کو بالخصوص مولانا مسعود، مولانا سعود اور ان کے تمام اہل خانہ کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرما، اور جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر کو ان کا نعم البدل عطا فرما۔آمین۔

شعبان بیدار – مالیگاؤں

دل رنجور ہے، طبیعت اداس ہے، لفظوں نے ساتھ دینا چھوڑ دیا ہے. دل ہک سے ہوکر رہ گیا اور ہم ٹھگ مارے سے رہ گئے.
علماء کا یہ مسلسل سانحہ ارتحال کچھ عجیب وغریب احساسات کی آگ لگا رہا ہے، دبے پاؤں اندیشے بھی دل وجگر میں راہ بنارہے ہیں. اندوہ بلا کا زور ایسا ہے کہ اوہام کی پرچھائیاں بھی جھکی چلی آرہی ہیں. حوصلوں کی دھوپ کا رنگ پھیکا پھیکا سا ہے کھڑی دوپہر بھی زرد زرد سی ہے.
شیخ عبد المنان سلفی ہمیشہ دعاؤں میں یاد رکھتے تھے اور بڑی ہی خورد نوازی کا مظاہرہ فرماتے رہتے تھے عزیزی حامد عبد المنان طالب کلیہ شریعہ کے ذریعہ حال احوال پوچھتے رہتے اور سلام ودعا سے نوازتے رہتے تھے. سلفی حمیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی کئ سالوں قبل جب جماعت اسلامی کے بعض ارباب قلم سے علمی نوک جھونک ہوئ تو جہاں لوگوں نے بے جا نصیحتوں اور حوصلہ شکن شفقتوں کی بھرمار کردی تھی مولانا محترم نے بڑا حوصلہ دیا اور سراہا بھی. غائبانہ مولانا م عہد طالب علمی ہی سے خیر سے یاد فرماتے رہے یہ ان کی ذرہ نوازی اور علم دوستی تھی دراصل اس قسم کی چیزیں نئے پڑھنے لکھنے والوں کیلئے بڑی قوت کا کام کرتی ہیں.
آج مولانا سمیت کئ بڑے علماء ہمارے درمیان نہیں ہیں محسوس ہوتا ہے کہ سر سے چھت سرک رہی ہے.
اللہ تعالیٰ تمام کی مغفرت فرمائے اور جو باقی ہیں ان کی حفاظت فرمائے.
اللہ ہم سب کو عزت کی زندگی دے اور ہر آزمائش ہر بلا ہر آفت سے محفوظ رکھے

عبد المبین ندوی – دہلی

گزشتہ شب ساڑھے بارہ بجے جماعت کے مؤقر عالم جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر کے ماہر استاد، ووکیل الجامعہ وماہنامہ السراج کے ایڈیٹر، ضلعی جمعیت سدھارتھ نگر کے ناظم مولانا عبدالمنان سلفی کئی دنوں کی علالت کے بعد اس دار فانی کو چھوڑ کر اپنے رب حقیقی سے جا ملے ،انا للہ وانا الیہ راجعون،
مولانا سلفی متحرک ،ومضبوط ہمت وارادہ کے مالک ،کہنہ مشق استاذ،پختہ فکر وسیال قلم کے دھنی ،اچھے منتظم وخوش مزاج ومرنجاں مرنج طبیعت کے مالک تھے ،١٩٩٦ء میں میرے بعد مجلہ السراج کے ایڈیٹر بنے تو اسے مستعدی سے نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس کے معیار کو بہتر کیا ،کئی کئی خاص نمبرات شائع کیے، ضلعی جمعیت کو بھی متحرک رکھا،اس قدر جلدی ہم لوگوں سے رخصت ہو جائیں گے اس کا کسی کو اندازہ نہیں تھا،کیونکہ مضبوط قد کاٹھی کے آدمی تھے،مگر موت سے کس کو رستگاری ہے،
دبستان اردو کے بھی معزز رکن تھے اس کی طرف سے بھی تعزیت پیش کی جاتی ہے
حق مغفرت کر ے ۔۔اللہ ان کی جملہ حسنات کو قبول فرماکر اعلی علیین میں جگہ عنایت فرمائے،ادارہ کو ان کا نعم البدل عطافرمائے، ان کے پسماندگان واہل خانہ کو اس مشکل گھڑی میں صبر جمیل عطا فرمائے آمین یارب العالمین

شیر خان جمیل عمری – لندن

واقعتا شیخ ایک عظیم انسان تھے۔ عالمانہ شان کے ساتھ محبت وشفقت کا پیکر تھے۔ مسلک میں بہت کھرے تھے۔ مجھے بہت ہی عزیز رکھتے تھے۔ ابھی گزشتہ ہفتہ فیس بک پر میری ایک پوسٹ پر دعاؤں کے ساتھ بڑے ہی حوصلے افزا کلمات لکھ کر عزت بخشی تھی۔ خبر پڑھ کر آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہوگئے۔ اللہ اللہ بہت بڑا غم ہے اور بہت بڑا خسارہ ہے۔ اللہ ارحم الراحمین شیخ کی بال بال مغفرت فرمائے، آخرت کی منزلیں آسان فرمائے، ان کی قبر کو جنت کا باغیچہ بنادے اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے اور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل دے۔ آمین

رفیق احمد رئیس سلفی – علیگڑھ

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا برادر محترم ومکرم شیخ عبدالمنان سلفی ہم سے رخصت ہوگئے یقین نہیں ہوتا ابھی چند دنوی قبل ان سے واٹساپ پر بات ہوئی تھی اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے بچوں کو صبر وہمت عطا فرمائے وہ نہ صرف ایک بلند پایہ عالم دین دانشور صحافی اعلی سمجھ بوجھ کے بہترین منتظم بلکہ انتہائی خلیق اور حددرجہ شریف انسان تھے جامعہ سلفیہ سے لے آج تک ان کی زندگی سامنے رہی کبھی کوئی ایسی بات میرے سامنے نہیں آئی جو ان کے کسی کردار وعمل کو دھونے کرتی ہو ہنستے مسکراتے مرنجاں مرنج انسان تھے یاروں کے یار اور بغض وحسد سے دور تھے برادر عزیز سعود اختر سلمہ سے امید کہ وہ اپنی والدہ محترمہ اور دوسرے بھائی بہنوں کو مصیبت کی اس گھڑی میں سنبھالیں گے اللہ تمام اہل خانہ اور متعلقین کو صبر عطا فرمائے آمین غم زدہ رفیق احمد رئیس سلفی علی گڑھ

عبد العظیم مدنی – جھنڈا نگر

جماعت کے معروف عالم دین مولانا عبدالمنان سلفی رحمہ اللہ ہمارے درمیان نھیں رہے ایک عظیم علمی شخصیت دنیا سے رخصت ہو گئی اہل علم میں کافی مقبولیت اللہ نے عطا فرمائی تھی ایسی شخصیتیں برسوں میں پیدا ہوتی ہیں اللہ آپ کی خدمات قبول فرمائے اور جنت الفردوس ان کا مسکن ہو

عبدالحی محمد حنیف المدنی- تولھوا

بقضاء الہی مولانا عبدالمنان سلفی اللہ کو پیارے ھو گئے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔موصوف کی علالت کی خبر کئی دنوں سے آرھی تھی ۔ کل حالات کے نازک ہونے کی اطلاع سوشل میڈیا پر آئی ۔ بالآخر وقت موعود آپہونچا اور کل رات 12 بجے کے قریب بٹول ھاسپیٹل میں جاں جان آفریں کے حوالہ کردی ۔ موصوف کا سانحہ ارتحال سلفیان نیپال وھند کیلئے عظیم سانحہ ھے ۔آپ رحمہ اللہ جامعہ سلفیہ میں نا چیز کے ھم عصر تھے غالبا دو یا تین سال۔پیچھے تھے۔ فراغت کے بعد معہدالتعلیم الاسلامی دھلی ۔اور گلہریا گونڈہ میں کچھ سالوں تدریس کے بعد عمر عزیز کا پورا حصہ نیپال کے کرشنا نگر(جھنڈانگر) کے خدیجہ الکبری ۔جامعہ سراج العلوم السلفیہ سے وابستہ رہ کر تدریس،تصنیف ،دعوت و تبلیغ میں گزار دی ۔دونوں اداروں میں آپنے ذمہ دارانہ زندگی گزاری ۔انہیں پروان چڑھانےمیں کلیدی رول ادا کیا۔ آپ کافی محنتی تھے ۔کئی تصانیف بطور صدقہ جاریہ چھوڑ کے گئے۔نیپال وھند کے کانفرنسوں جلسوں سیمیناروں میں پوری تیاری کے ساتھ شریک ھوتے تھے ۔ نیپال و ھند کے عوام و خواص آپ سے مستفید ہوتے رھے۔ دونوں ملکوں کے طلبہ جم غفیر کی تعداد میں شاگردی حاصل کرتے ھوئے مستفید ھوئے۔ ہمیشہ جمعیت اہل حدیث ہند سے وابستہ رہے۔ضلع سدھارتھ نگر کے ناظم بھی رھے۔ آپ نے صحافت میں بھر پور حصہ لیا ۔پہلے نور توحید پھر السراج کے مدیر رھے ۔اور مستقل مضامین اور اخبار جامعہ اور وفیات کا کالم اور وقتا فوقتا اداریہ بھی تحریر فرماتے تھے ۔آپکی وفات جمعیت و جماعت کے لئے عموما اور جامعہ سراج العلوم کیلئے خصوصا عظیم خسارہ ھے ۔رب العزت آپ کا نعم البدل عطا فرمائے ۔ آپکی لغزشوں کو درگزر فرمائے ۔نیکیوں کو شرف قبولیت بخشے ۔جنت الفردوس آپ کا ٹھکانہ بنائے۔ جملہ لواحقین و پسماندگان بالخصوص اھلیہ واولاد کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین یا رب العالمین

ڈاکٹر عبد اللہ فیصل ایڈیٹر المصباح -ممبئ

ایسا کہاں سے لاؤں کی تجھ ساکہیں جسے.
شہرہء آفاق عربی ادارہ جامعہ سراج العوم جھنڈانگر کے لائق وفائق استاد اورماہنامہ "السراج” کے مدیر مولانا عبد المنان صاحب انتقال فرما گئے انا َللہ وانا الیہ راجعون.
مولانا محترم کئ خوبیوں وکمالات کے مالک تھے. خلیق، ملنسار،ومہمان نواز تھے. بچوں کے تئیں ہمدرد بہی خواہ تھے. آپ ایک اچھے مدرس، ممتاز خطیب ومقرر، منفرد قلمکار وبہترین صحافی تھے. ماہنامہ السراج کا اداریہ مولانا شمیم احمد صاحب ندوی اکثر لکھتے ہیں ، کبھی کبھا ر مولانا عبد المنان سلفی بھی اداریہ رقم کرتے تھے.آپ کا لکھنے انداز واسلوب منفرد تھا.
عبد المنان سلفی صاحب کی تحریریں بلا ناغہ السراج میں شائع ہوتی رہی ہیں. کتابوں پر حالات حاضرہ پر تبصرے جامعہ کے شب وروز جامعہ سراج العلوم سے متعلق اداروں کی تعلیمی، تعمیری، تدریسی و ثقافتی سرگرمیوں کو منفرد انداز میں رقم فر ماتے تھے.مولانا عبد المنان صاحب مصنف و مولف تھے مترجم وانشاء پرداز تھے اور بہترین منتظم بھی تھے.
آپ کی کئ کتابیں منظر عام پر آکر قارئین سے دادو تحسین بھی حاصل کر چکی ہیں.
ایک سال قبل ممبئ تشریف لائے تھے.خدمت کا موقع ملا اور عروس البلاد ممبئ اور اس کے مضافات میں ہونے والے کئ دعوتی وتبلیغی پروگراموں میں شریک بھی ہوئے.اور خطاب بھی فرمایا. جمیعیت اہل حدیث ممبئ عظمیٰ کے امیر مولانا عبد السلام سلفی صاحب کو جب معلوم ہڑا تو مولانا عبد المنان صاحب کو مہمان خصوصی اور خصوصی مقرر کی حیثیت سے جمیعیت کے عظیم الشان اجلاس میں شرکت کی دعوت دی. عبدالمنان صاحب نے شرکت کی اور بہت ہی عمدہ خطاب بھی فر مایا
مولانا بہت ہی متحرک وفعال شخص تھے ان کی دعوتی وتبلیغی کاز کو دیکھتے ہوئے انہیں ضلع سدھارتھ نگر یوپی کا ناظم اعلی بھی منتخب کیا گیا تھا..مولانا کے انتقال سے ملی وجماعتی خسارہ اور جامعہ کا ناقابل تلافی نقصان ہے.اللہ مولانا کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت فر مائے.اور اہل خانہ کو صبر کی توفیق دے

مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند

نہایت افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر، نیپال کے ایک نامور استاد، اور وکیل الجامعہ، ماھنامہ السراج کے ایڈیٹر اور ضلعی جمعیت اہلحدیث سدھارتھ نگر کے ناظم، معروف صاحب قلم، بہترین خطیب جناب مولانا عبدالمنان صاحب سلفی کچھ دنوں سے سخت علیل تھے، ٹائی فائڈ بخار میں مبتلا تھے، شوگر اور دیگر عوارض کی وجہ سے صحت کافی متاثر ھوچکی تھی. تمام تر کوششوں اور علاج ومعالجہ کے باوجود رو بصحت نہیں ہو سکے اور بالآخر قضائے الہی کو لبیک کہتے ہویے چند منٹ قبل تقریبا ایک بجے شب اللہ کو پیارے ہو گیے.

اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس کا مکین بنائے اور جمله پسماندگان كو صبر و سلوان عطا کرے۔ اور جامعہ وجمعیت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے، آمین یارب العلمین

عبدالحق لیثی- ممبئی

جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے

رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنادیا.

مولانا عبد المنان سلفی جھنڈا نگری مرحوم، نیپال میں جماعت کے قدیم ادارے جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر نیپال کے استاذ اور وہاں سے نکلنے والے باوقار ماہنامہ ‘السراج’ کے ایڈیٹر تھے. مخلص عالم دین تھے. آپ ضلعی جمعیت اہل حدیث سدھارتھ نگر کے ناظم بھی تھے. جماعت کے حلقوں میں کافی مقبول تھے. جماعت کا زمینی و انسانی دائرہ بڑھانے اور جماعت کو متحرک و فعال بنائے رکھنے کے لئے کافی محنت کیا کرتے تھے. اللہ تعالیٰ ان کی نیکیاں قبول فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے. آمین.
ان کا انتقال جماعت کا ایک بڑا علمی و تنظیمی نقصان ہے.

اللهم اغفر له وارحمه واعفه واعف عنه ووسع مدخله واكرم نزله واغسله بالماء والثلج والبرد ونقه من الخطايا كما نقيت الثوب الابيض من الدنس وادخله في جنة الفردوس

اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس کا مکین بنائے اور جمله پسماندگان كو صبر و سکون عطا کرے. آمین یارب العالمین

عبدالحکیم عبدالمعبود المدنی کاندیولی، ممبئی

آہ! ملک وجماعت کاایک روشن سلفی ستارہ غروب ھوگیا
اناللہ واناالیہ راجعون

بڑےافسوس کے ساتھ یہ خبر لکھی جارہی ھے کہ آج بروز اتوار 23 اگست 2020 ء ابھی ابھی رات شروع ھوتے ھی ھمارے استاذ شیخ عبدالمنان سلفی وکیل جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر اللہ کو پیارےہوگئے

۔۔۔یہ خبر بالکل کوہ گراں کی مانند ھے ۔۔

اللہ کے فیصلے کے سامنے کچھ نھیں ھوسکتا۔للہ مااعطی وللہ مااخذ

*شیخ محترم کی پیدائش دیسمبر 1959ء ھے ، ھم تو آپ کی نگاھوں کے سامنے پلے پڑھے۔۔آپ سے علم حاصل کیا۔۔بڑی انسیت تھی، وہ ھندونیپال ترائی سرحد کے جان تھے۔۔ھر دم رواں دواں ۔۔۔جماعت ۔۔منھج۔۔۔عقیدہ۔۔۔۔۔سراج العلوم ۔۔۔۔۔بڑھنی،، نوگڈھ ۔۔ھرجگہ بالکل ھلچل ۔ایک دعوتی قافلہ لئے اللہ کی راہ میں بے لوث مگن ۔۔۔
1982ء میں جامعہ سلفیہ سے فارغ ھوئے۔اسکے بعد بزرگوں کی میراث، خاندانی روایت تدریس کے فریضے سے لگ گئے،، گلھریا، سنابل دھلی، خدیجۃ الکبریٰ جھنڈانگر اورپھر 1996 ءسے مسلسل آج تک جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر سے ایسے جڑے کہ جھنڈانگر آپکی پھچان بن گیا۔۔۔ضلعی جمعیت اھل حدیث سدھارتھ نگر کے دوٹرم سے زائد ناظم تھے۔۔پورے ضلع میں دعوت، تعلیم اورجماعت کی ھرطرح سے آبیاری کی اورپورے ملک میں ضلعی جمعیت کو ایک بلند مقام تک پھونچایا۔۔۔۔۔۔
السراج ۔۔۔۔۔۔جامع مسجد جھنڈانگر میں خطبہ جمعہ اوردروس ۔۔۔۔۔۔کیا کیا بتاؤں ۔۔۔۔۔سب رخصت ھوچلے ۔۔
آج قضا پوری ھوچلی ۔۔۔اوربٹول راستے میں جاتے ھوئے راھی ملک بقا ھوچلے۔۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔۔اللھم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ*
یہ سانحہ بھت دشوار اورالمناک ھے۔۔۔اللہ ھم سب پر رحم فرمائے۔۔بچوں کو صبر جمیل عطا کرے۔۔۔۔
*انا لله وانا إليه راجعون، اللهم اغفر له وارحمه واعفه واعف عنه ووسع مدخله واكرم نزله واغسله بالماء والثلج والبرد ونقه من الخطايا كما نقيت الثوب الابيض من الدنس وادخله في جنة الفردوس۔

مولانا اسعد اعظمی ،جامعہ سلفیہ ،بنارس

#رحمک_اللہ_أباسعود

تھی ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری

مولانا عبد المنان صاحب سلفی کی رحلت ایک بڑا حادثہ فاجعہ ہے. کئی روز سے مسلسل ان کی علالت کی خبر آرہی تھی جس کی وجہ سے دل مضطرب تھا. رات جب بیماری کی شدت کا علم ہوا تو اضطراب مزید بڑھ گیا. فجر کے وقت بیدار ہوئے تو سوشل میڈیا پر ہر طرف ان کے انتقال پر ملال کی خبر دیکھ کر شدید صدمہ ہوا. لیکن اللہ کے فیصلے کو نہ تو کوئی ٹال سکتا ہے نہ اس پر چوں وچرا کرسکتا ہے. ولا نقول إلا ما یرضی ربنا. انا للہ وانا الیہ راجعون. اللہم اغفر لہ وارحمہ .

مولانا عبد المنان ایک متحرک اور فعال عالم دین تھے. بیک وقت کئی محاذوں پر کام کررہے تھے. اللہ تعالیٰ نے آپ کو زبان اور قلم دونوں صلاحیتوں سے نوازا تھا اور آپ ان صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کرتے تھے. تدریس، تصنیف،ادارت، خطابت.. غرض ہر میدان کے شہ سوار تھے.

جامعہ سراج العلوم، جمعیت وجماعت اور قوم وملت کو آپ کی بڑی ضرورت تھی لیکن اللہ ذوالجلال کی مشیئت کچھ اور ہی تھی.

افسوس کہ مہاماری اور لاک ڈاؤن کے چلتے آپ کی نماز جنازہ میں شرکت بھی مشکل ہے. اللہ رحمن ورحیم آپ کی مغفرت فرمائے، آپ کی قبر کو نور سے بھر دے، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے.

زاہد آزاد جھنڈا نگری – کرشنانگر

معروف عالم دین مولانا عبدالمنان سلفی رحمہ اللہ کی رحلت:ایک روشن ستارہ نظروں سے اوجھل ہوگیا
مختصر علالت کے بعد معروف عالم دین جناب مولانا عبدالمنان سلفی رحمہ اللہ نے داعئ اجل کو لبیک کہا خصوصا علمی حلقوں میں آپ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں تھی آپ نے صحافتی میدان میں بھی اپنی خدمات کی چھاپ چھوڑی اور خطابت کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا دعوت وارشاد سے بھی جڑے رہے اور تدریسی خدمات بھی انجام دیتے رہے اجلاس عام ہوں یا علمی وصحافتی کانفرنسز آپ کی شرکت سے مجلس کا وقار دوبالا ہو جاتا تھا
دینی محاز پر آپ کی خدمات قابل رشک ہیں جس کے اثرات نمایاں طور سے محسوس کئے جا رہے ہیں
مختلف دینی موضوعات پر آپ نے مقالے تحریر کئے جسے دلائل سے ایسا مزین کیا کہ اسے پسندیدگی کی نظروں سے دیکھاگیا
طلباء کے ساتھ ایسا مشفقانہ برتاؤ رکھا کہ وہ بے جھجھک آپ سے مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے اور اپنی ضروریات پیش کرتے ایسے موقع پر ایک مشفق باپ کا کردار ادا کرتے تھے
اللہ آپ کی خدمات قبول فرماکر جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter