رمضان میں بحالت صوم،جماع کا حکم (ایک سوال کا جواب)

تحریر: شمیم عرفانی مدنی اسلامک دعوہ سینٹر عفیف

5 مئی, 2020
ایک دینی بھائی نے سوال کیا ہے سلام و دعا کے بعد لکھتے ہیں :

"بعد سلام ودعا عرض یہ ھے کہ ھمارے ایک دوست نے بذریعہ فون ایک مسئلے کی وضاحت چاھی ھے
مسئلہ :
زیدآج اپنی روزے دار بیوی کے ساتھ جماع کر بیٹھا کتاب وسنت کی روشنی میں مدلل جواب دے کر اجروثواب کے مستحق ھوں۔
تھوڑی وضاحت کرنا مناسب سمجھتا ھوں کہ زید تقریباً پانچ یوم سے اپنی بیماری کی وجہ سے صوم نہیں رکھتا تھا صرف اس کی بیوی ھی روزے کی حالت میں تھی ،
بارك الله فيكم وحياكم الله”۔
جواب:
الحمد للہ واالصلاة و السلام على رسول الله… وبعد:
سؤال مذکور کے جواب کی نوعیت کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس موضوع کو کچھ شرح وبسط کے ساتھ معروضی انداز میں پیش کیا جائے۔ رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ اللہ کی طرف اس کے اہل ایمان بندوں کے لئے ایک بیش بہا تحفہ اور انمول عطیہ یے اس مبارک ماہ کی اہمیت کے پیش نظر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اس کے بہت سارے فضائل اور مناقب بیان کئے ہیں وہاں اس کیلئے کچھ خاص آداب اور حدود وقیود کا بھی تعین فرمایا ہے ، انہی حدود وقیود کے ضمن میں جماع کی ممانعت کا حکم بھی آتا ہے ،رمضان المبارک میں بیوی سے مباشرت یعنی جماع کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔
1- جائز صورت یعنی ماہ رمضان میں غروب آفتاب سے لیکر صبح صادق کے طلوع ہونے تک مسلمان شخص کیلئے اپنی بیوی کے ساتھ جماع کرنا شرعی طور پر جائز اور درست ہےاس کی دلیل قرآن اور حدیث سے نیز اجماع سے بھی درج ذیل ہے۔
قرآن کریم: اللہ تعالی کا ارشاد ہے
(أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ).[البقرة: 187].
ترجمہ:”تمہارے لیے روزوں کی راتوں میں اپنی عورتوں سے مباشرت کرنا حلال کیا گیا ہے، وہ تمہارے لیے پوشاک ہیں اور تم ان کے لیے پوشاک ہو، اللہ کو معلوم ہے تم اپنے نفسوں سے خیانت کرتے تھے پس تمہاری توبہ قبول کر لی اور تمہیں معاف کر دیا، سو اب ان سے مباشرت کرو اور طلب کرو وہ چیز جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے، اور کھاؤ اور پیو جب تک کہ تمہارے لیے سفید دھاری سیاہ دھاری سے فجر کے وقت صاف ظاہر ہو جائے، پھر روزوں کو رات تک پورا کرو، اور ان سے مباشرت نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں معتکف ہو، یہ اللہ کی حدیں ہیں سو ان کے قریب نہ جاؤ، اسی طرح اللہ اپنی آیتیں لوگوں کے لیے بیان کرتا ہے تاکہ وہ پرہیز گار ہو جائیں۔”
حدیث:
عن أبي هُريرة رَضِيَ اللهُ عنه ((أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم جاء إليه رجلٌ فقال: هلكْتُ يا رسولَ الله. قال: وما أهلَكَك؟ قال: وقعْتُ على امرأتي في رمضانَ، فقال: هل تجِدُ ما تُعتِقُ؟ قال: لا. قال: هل تستطيعُ أن تصومَ شَهرينِ مُتَتابعينِ؟ قال: لا. قال: فهل تجِدُ إطعامَ سِتِّينَ مِسكينًا؟ قال: لا. قال: فمكث النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم، فبينا نحن على ذلك أُتِيَ النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم بعَرَقٍ فيها تَمرٌ- والعَرَقُ: الْمِكتَلُ- قال: أين السَّائِلُ؟ فقال: أنا. قال: خذْ هذا فتصَدَّقْ به. فقال الرجُلُ: على أفقَرَ مني يا رسولَ اللهِ؟ فواللهِ ما بين لابَتَيْها- يريدُ الحَرَّتَينِ- أهلُ بَيتٍ أفقَرُ مِن أهل بيتي. فضَحِكَ النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم حتى بدَتْ أنيابُه، ثم قال: أطعِمْه أهلَك))  
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئےتھے کہ ایک شخص آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہلاک ہو گیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھے کیا ہوا ؟ تو وہ کہنے لگا میں نے اپنی بیوی سے روزے کی حالت میں جماع کر لیا ہے ( رمضان میں ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تیرے پاس غلام ہے جسے تو آزاد کرے ؟ تو وہ کہنے لگا : نہیں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تو دو مہینے مسلسل روزے رکھ سکتا ہے ؟ اس نے کہا نہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے ؟ وہ کہنے لگا نہیں ۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رک گۓ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئےتھے کہ ایک بڑا سا ٹوکرا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سائل کہاں ہے ؟ اس نے کہا میں ادھر ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ لے جاؤ اور انہیں صدقہ کر دو تو وہ شخص کہنے لگا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سے بھی زیادہ فقیر پر ؟اللہ کی قسم ان دونوں خالی جگہوں یعنی ان دونوں حروں (مدینہ کی دونوں اطراف ) کے درمیان میرے گھر والوں سے زیادہ فقیر کوئی نہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرآئے حتی کہ آپ کے دانت نظر آنے لگے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جاؤ اپنے گھر والوں کو کھلاؤ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر (1834 اور 1835) صحیح مسلم حدیث نمبر (1111)
اجماع:
اس مسئلہ پر یعنی اس متعین مدت ( limit period) میں جماع کی اباحت اور جواز پر ابنُ المُنذِر ، ابنُ حَزمٍ ،ابنُ قُدامةَ ، ابن تيميَّة وغیرھم رحمہم اللہ نے اپنی کتب میں علمائے سلف کا اجماع نقل فرمایا ہے۔
2- حرام صورت:
سطور بالا میں قرآن کریم کی آیت مبارکہ اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ حالت صوم میں صبح صادق سے لیکر غروب آفتاب تک کسی بھی روزہ دار شخص ( مرد و عورت ) کیلئے جماع قطعا حرام ہے۔
یہ آیت اس مسئلہ میں صریح ہے کہ ماہ رمضان میں دن کے وقت میں مرد وعورت پر جماع کرنا حرام ہے بلکہ ان پر واجب یہ ہے کہ وہ دن میں روزہ رکھیں اور اگر انہوں نے جماع جیسا عمل شنیع کر لیا تو ان کے ذمہ کفارہ ہے جیسا کہ بالترتیب اس کا ذکر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث بالا میں موجود ہے۔
لیکن یہاں یہ امر بھی قابل التفات ہے کہ رمضان کے روزوں کے وجوب کے تعلق سے کچھ افراد کو مستثنی کیا گیا ہے۔چنانچہ جن لوگوں کیلئے صوم(روزہ )توڑنا جائز ہے وہ درج ذیل ہیں:
1- مریض اور مسافر شخص کیلئے :
بعد میں ان دونوں پر قضاء ضروری ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے _” فمن كان منكم مريضا أو على سفر فعدة من أيام أخر ” (سورة البقرة /185 )۔ ترجمہ:_جو تم میں سے مریض ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں گنتی مکمل کرے _” لیکن ایسا مریض جس کی شفایابی کی کوئی امید نہ ہو تو اس کی طرف سے روزآنہ ہر روزہ کے عوض میں ایک مسکین کو کھانا کھلانا مشروع ہے۔
2- حیض اور نفاس والی عورتوں کیلئیے:
ان دو قسم کی عورتوں پر بھی بعد میں ان ایام کی۔قضاء ضروری ہے کیوں کہ ام المومنین عائشہ صدیقہ کی متفق علیہ روایت ہے :ہمین روزہ کی قضا کا حکم دیا جاتا اور نماز کی قضا کا حکم نہی دیا جاتا _ (متفق علیہ)
3- حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کیلئیے:
بشرطیکہ انہیں اپنے نفس پر یا اپنے بچوں پر کوئی خوف اور اندیشہ لاحق ہو تو ایسے حالات میں ان کے لئے مشروع فدیہ ادا کرنا ہے _چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک دودھ پلانے والی یا حمل والی عورت کو دیکھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :”تو ان لوگوں میں سے ہے جو روزہ کی طاقت نہی رکھتے ہیں اس لئے تجھ پر فدیہ (ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا )ہے اور تجھ پر قضا بھی ہے _” (صحيح رواه الدار قطني)
4- اس بوڑھے مرد اور بوڑھی خاتون کیلئے :
جو روزہ کی طاقت نہی رکھتے،ان پر بھی ایک مسکین کو ہر دن صوم کے بدلے میں کھانا کھلانا ہے۔
اب اگر کوئی شخص ان مذکورہ بالا معذور لوگوں میں سے ہے خواہ وہ وہ مرد ہو یا عورت تو وہ یقینی طور پر اپنا روزہ توڑ سکتا ہے اور اس کیلئے کھانے ، پینے کے ساتھ جماع کرنا بھی جائز ہے۔( مجموع الفتاوی للشيخ ابن باز رحمه الله 15/377 ).
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا تو انہوں نے بھی اپنے فتاوی میں اس کا ذکر کیا ہے۔
دیکھئے: ( فتاوى الصيام للشيخ ابن عثيمين رحمه الله/ 344)۔
لیکن اگر کوئی شخص فرض روزہ کی حالت میں ہو اور وہ جماع کا ارتکاب کر بیٹھے تو پھر اس میں قدرے تفصیل ہے:
* اگر اس نے ایسا ذہول اور نسیان یعنی بھول چوک سے کیا ہے تو پھر اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے اور نا ہی اس پر اس دن کے روزہ کی قضا یے۔جیساکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی درج ذیل حدیث سے واضح ہے
فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((من أفطَرَ في شهرِ رَمضانَ ناسيًا؛ فلا قضاءَ عليه ولا كفَّارةَ))۔روى اِبْن خُزَيْمَةَ (1999)۔
"جس کسی نے رمضان میں بھول کر روزہ توڑ دیا تو اس پر کوئی قضا ہے اور نہ کوئی کفارہ۔”
اور شیخ البانی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔
* اگر اس نے بھول کر نہیں بلکہ قصدا ایسا کیا ہے لیکن اس کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ بحالت روزہ جماع کرنا اور بیوی سے ہمبستر ہونا حرام ہے تو اس پر بھی سوائے اس دن کے روزہ کی قضا کے کوئی کفارہ نہیں،البتہ اوپر ذکر کی گئی دونوں صورتوں میں اس عمل کے مرتکب ( مرد ہو یا عورت) کیلئے ضروری ہے کہ روزہ کی قضا کے علاوہ فوری طور پر اللہ سے سچی توبہ کرے۔
* بایں طور اگر زوجین میں سےایک نے دوسرے کو اپنی طاقت کے بل بوتے جبر اور تشدد کے ذریعہ جماع پر مجبور کیا ہے خواہ وہ شوہر ہو یا بیوی تو تشدد اور مجبور کرنے والے پر شرعی کفارہ کی ادائیگی واجب ہے اور اس کے بالمقابل مجبور کیا گیا شخص معذور کے حکم میں ہے اور کفارہ کے حکم سے مستثنی ہے البتہ اس پر اس دن کے روزہ کی قضا ضروری ہے ان مذکورہ بالا صورتوں کے تعلق یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں۔
عَنْ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: ” إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ وَالنِّسْيَانَ، وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ "
(صحیح )،تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۲۲) )۔ 
ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ” اللہ تعالیٰ نے میری امت سے بھول چوک، اور جس کام پہ تم مجبور کردیئے جا ؤ معاف کردیا ہے” (سند میں ابو بکرالہذلی ایک ضعیف راوی ہے،لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے)۔

* لیکن اگر روزہ دار مرد وعورت نے پورے ہوش وحواس میں قصد وارادہ کے ساتھ اور جماع کی حرمت نیز اس پر کفارہ کے وجوب کا علم رکھنے کے بعد یہ قبیح عمل انجام دیا ہے تو پھر ایسی صورت میں ان کیلئے ضروری ہے:
– کہ وہ سب سے پہلے سچی توبہ کریں اور اپبے اس گناہ پر نادم ہوں۔
– رمضان ختم ہوجائے تو اپنے اس روزہ کی قضا کریں۔
– نیز اس کے ساتھ ساتھ ان پر از روئے شرع متعین کفارہ کی ادائیگی بھی لازمی ہے جو حسب ذیل ہے:
ایک غلام آزاد کرے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو وہ دو مہینے مسلسل روزے رکھے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔
سلف وِِ خلف میں تقریبا تمام اہل علم کے نزدیک کفارہ کی اس ترتیب کا پاس و لحاظ ضروری ہے۔
( یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ جمہور اہل علم کے نزدیک شریعت کا یہ حکم مرد و عورت دونوں کو یکساں شامل ہے بعض نے اوپر صحابی رسول کے اس واقعہ کی روشنی میں عورت کو کفارہ کے اس حکم سے مستثنی قرار دیا ہے حالانکہ یہ مرجوح اور غیر درست بات ہے)۔
اب آتے ہیں اصل مسئلہ کی طرف ، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صورت مسئولہ میں زید اپنے مرض کی وجہ سے روزہ سے نہیں ہے اور اس نے اس حال میں اپنی روزہ دار بیوی سے جماع کر لیا ہے تو کیا ان دونوں نے بالقصد یہ عمل انجام دیا ہے؟ اگر ہاں تو کیا وہ دونوں میاں بیوی ان مذکورہ شرعی مسائل اور احکام سے واقف تھے؟ اگر ہاں ، زن وشو کو ان باتوں کا علم تھا اور دونوں نے برضا و رغبت اور بطیب خاطر اس عمل کو انجام دیا ہے توپھر ان حالات میں دونوں کیلئے ضروری ہےکہ اللہ کی بارگاہ میں سچے دل سے تائب ہوں اپنے گناہوں پر نادم وپشیمان ہوں اور رمضان کے بعد اس دن کے روزہ کی قضا کریں اور مزید برآں ، زید کی بیوی پر شرعی کفارہ کو ادا کرنا بھی واجب ہے جس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے کیونکہ اس عمل کی انجام دہی میں اس کی بھی رضامندی شامل تھی اور اگر زید نے اپنی بیوی کو جماع اور مباشرت پر زور زبردستی کے ذریعہ مجبور کیا تھا تو پھر ایسی صورت میں بیوی پر بھی کوئی کفارہء نہیں ہے۔ہاں ، دونوں اس دن کے روزہ کی قضا ضرور کریں گے۔
کفارہ کی ترتیب حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں گزر چکی ہے اب چونکہ ہمارے عہد جدید میں غلامی کا کوئی تصور باقی نہیں ہے تو کفارہ کی صرف دو نوعیتیں رہ جاتی ہیں یا تو رمضان کا ماہ مبارک گزر جانے کے بعد پیہم ساٹھ دنوں کا تسلسل کے ساتھ روزہ رکھے (یاد رہے اگر اس تسلسل میں خلل پیدا ہوا تو پھر از سر نو ساٹھ دن کے روزے مسلسل رکھنے ہونگے)۔ یا اس کی مقدرت نہ ہونے کی صورت میں ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے،سعودی عرب کے سپریم علماء کونسل کے نزدیک ایک مسکین کی خوراک کی مقدار نصف صاع یعنی تقریبا ڈیڑھ کلو بنتی ہے جو روزہ مرہ کی عام غذائی جنس میں سے ادا کیا جائےگا۔سوال یہ ہے کہ کیا مستقل ساٹھ افراد کو کھلانا ضروری ہے یا کسی بھی ایک فرد کو ساٹھ مسکینوں کی غذا بہم کردینے سے کفارہ سدا ہوجائیگا؟ جمہور نے پہلی صورت ہی کو ترجیح دی ہے جبکہ احناف دوسری صورت کے جواز کے بھی قائل ہیں نیز بعض کے نزدیک ایک ہی شخص کو ساٹھ دنوں تک کھانا کھلانے سے بھی حکم کی تعمیل ہوجائیگی لیکن میرے ناقص علم کے مطابق آحوط ،انسب اور افضل طریقہ وہی ہے جو جمہور اہل علم کا ہے۔ و الله تعالى اعلم.
اللہ ہم سب کو فہم دین و حسن عمل کی توفیق ارزانی بخشے ۔آمین۔
كتبه:
شميم عرفاني

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter