جانبدار میڈیا کا مسلمانوں کے خلاف حالیہ پروپیگنڈا، اس کے منفی اثرات اور ہماری ذمہ داری

 رحمت اللہ ثاقب مدنی

1 مئی, 2020

میڈیا (ذرائع ابلاغ) کی اہمیت ہر دور میں مسلم رہی ہے. یہ انسانی زندگی کا ایک اٹوٹ حصہ ہے، اس کے بغیر انسانی (معاشرتی) زندگی کا تصور ممکن نہیں. اس کے ذریعے ہی ہر انسان اس وسیع و عریض دنیا کے ساتھ جڑا رہتا ہے، اور اگر اس سے رشتہ ٹوٹ جائے تو وہ اپنے گردو پیش سے کٹ کر ایک کال کوٹھری یا تنگ و تاریک گوفے میں کنویں کے مینڈک کی طرح سمٹ کر رہ جاتا ہے.
دنیا نے آج تک جتنی اور جس طرح کی بھی ترقی کی ہے، ان ساری ترقیوں میں میڈیا نے صف اول میں رہ کر اپنا مؤثر کردار ادا کیا ہے. مختلف مذاہب، تحریکوں اور فکروں کے پنپنے، پھیلنے اور ترقی کرنے، مختلف حکومتوں کے قیام اور اختتام، اور مختلف قوموں کے عروج و زوال میں میڈیا نے ہمیشہ اہم رول ادا کیا ہے. اس نے تمام شعبہ ہائے زندگی میں اور تاریخ کے تمام ادوار میں اپنا بھر پور مثبت یا منفی کردار ادا کیا ہے. ماضی میں ہندوستان کی برٹش حکومت کو اکھاڑ پھینکنے میں میڈیا کا مؤثر کردار ہمارے سامنے موجود ہے.
دور حاضر میں میڈیا کی اہمیت سابقہ ادوار کے مقابلے بہت زیادہ بڑھ گئی ہے.
یوں تو ہر زمانے میں میڈیا کے مثبت اور منفی دونوں پہلو رہے ہیں. چنانچہ اس زمانے میں بھی اگر ایک طرف احقاق حق اور ابطال باطل کے لئے میڈیا کا استعمال ہوتا ہے، تو دوسری طرف اس کے برعکس اس سے کہیں زیادہ ابطال حق اور احقاق باطل کے لیے میڈیا ایک اہم ہتھیار بنا ہوا ہے. اور میڈیا کے اسی منفی پہلو کا استعمال بہت زیادہ ہو رہا ہے. اگر کسی فرد یا قوم کو بیجا نفرتوں کی دلدل میں پھنسانا ہو، اکثریت کی نگاہ میں اقلیت کو نیچے گرانا ہو، کسی کی بے جا شخصیت سازی یا کسی کی ناحق کردار کشی کرنی ہو، یا کسی زیرو کو ہیرو یا ہیرو کو زیرو بنانا ہو تو یہ سب کام میڈیا بڑی مہارت اور کامیابی سے انجام دیتا ہے.
یہ الگ بات ہے کہ اس کی بہت ساری کالی کرتوتیں اور بہت سارے جھوٹے پروپیگنڈے پکڑ لئے جاتے ہیں، اور ان کا پوسٹ مارٹم کر دیا جاتا ہے، لیکن تب تک یہ بہت حد تک اپنے منفی اثرات سے فضا کو مکدر کردیئے ہوتے ہیں، جب کہ بہت سارے حقیقت سے عاری اور باطل امور حقیقت کا روپ دھارن کر کے تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں.
سردست اس مختصر تحریر میں میڈیا کے ذریعے قائم کیے گئے حالیہ "تبلیغی کورونا تنازعہ” اور اس سے قوم مسلم پر پڑنے والے منفی اثرات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے.
جیسا کہ ہم سب کو پتہ ہے کہ کس طرح میڈیا نے ہندوستان کے کئی صوبوں میں مختلف لوگوں کے جو کہ مختلف ملکوں سے واپس آئے ہوئے تھے کورونا پازیٹو پائے جانے اور ان کے زریعہ دیگر لوگوں کے بھی اس مرض سے متاثر ہو جانے کے بعد دہلی تبلیغی مرکز کو کورونا فیکٹری کے طور پر مشتہر کیا، جب کہ اس پروپیگنڈا سے پہلے جو لوگ پازیٹو پائے گئے تھے ان میں ان کا کوئی رول نہیں تھا. اور سینکڑوں تبلیغی حضرات جو کہ اچانک نافذ کئے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے، اور حکومت کو اطلاع دینے کے باوجود بھی وہاں سے اپنے گھروں کو لوٹنے کا کوئی انتظام نہ ہو سکنے کی وجہ سے مرکز میں پھنسے ہوئے تھے، میڈیا نے ان کے بارے میں کورونا پھیلانے کی منظم سازش کے تحت وہاں چھپے رہنے کی افواہ پھیلائی. اسی طرح ان میں سے فقط معدودے چند کے اس مرض سے متاثر ہونے کے باوجود جانبدار میڈیا نے تبلیغیوں کو کورونا پھیلانے والے بھیانک مجرموں کی طرح پیش کر کے ان کے خلاف عام لوگوں کی ذہن سازی کی. اور مسلسل کئی روز تک اس پہ "بدنام زمانہ ڈیبیٹ” کا سلسلہ جاری رکھا. نتیجتاً اس کا اثر واضح طور پر جا بجا دِکھنے لگا.
چنانچہ کہیں مسلمانوں سے سبزی خریدنے سے انکار کیا گیا، اور سبزی ٹھیلوں پر علامتی جھنڈے لگانے کی بات ہوئی، کہیں مسلمانوں کے سوشل بائیکاٹ کی بات کہی گئی، مسلمانوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا گیا، کہیں مسلمانوں کی پٹائی کی گئی، وغیرہ وغیرہ.
چونکہ نیپال (بہ طور خاص ترائی نیپال) اور ہندوستان کی تہذیب وثقافت اور بود وباش میں کافی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے. دونوں ممالک کے تعلقات گہرے ہیں، خاص طور سے دونوں جانب کے سرحدی باشندوں کے درمیان روٹی بیٹی کا رشتہ ہے. لہذا ہندوستانی میڈیا اور اس کے ذریعے پھیلائے جارہے پروپیگنڈوں کا اثر یہاں پڑتا رہتا ہے.
چنانچہ اس پروپیگنڈا نے بھی نیپال اور بہ طور خاص نیپال کے ترائی علاقوں میں اپنا اثر دکھانا شروع کیا، لہذا نیپال کے مسلمانوں پر گہری نظر رکھی جانے لگی، مسلمانوں سے دوریاں بنائی جانے لگیں، انہیں شک و شبہ کے دائرے میں رکھا جانے لگا، بعض مقامات پہ ان کے سوشل بائیکاٹ کی بات کہی گئی. پھر "ظالم مکھیا” صاحب کے تعلق سے ہندوستانی میڈیا کے ذریعے پھیلائے گئے اس جھوٹ نے بھی جلتے پر گھی کا کام کیا جس میں ان پہ بڑی تعداد میں خلیجی ممالک سے لوٹے انڈین مسلمانوں کو خفیہ طور پر سرحد پار کراکے ہندوستان میں کورونا پھیلانے کے لئے تیار رہنے کا الزام عائد کیا گیا. جس کی تردید خود سرحد پار کے افسران نے بھی کی.
پھر لاک ڈاؤن کی وجہ سے بیر گنج کی ایک مسجد میں ٹھہرے ہوئے 3 انڈین مسلمانوں کے کورونا پازیٹیو پائے جانے کی خبر سے بھی شر پسندوں کو شر پھیلانے کا موقع ہاتھ آگیا. جب کہ ان سے پہلے نیپال میں 9 غیر مسلم کورونا مریض کی تصدیق ہو چکی تھی.
اور اس اٹل حقیقت کے باوجود کہ وبا یا کسی بھی مرض کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، اور کوئی بھی مرض کسی بھی مذہب کے پیروکار کو لگ سکتا اور لگتا بھی ہے، قوم مسلم کے خلاف نفرت پھیلانے والوں نے اس کو شد ومد کے ساتھ مسلمانوں سے جوڑ کر پھیلایا. نتیجتاً سختی سے مساجد کی تلاشی لی جانے لگی، مسلمانوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جانے لگا.
پھر اسی اثنا میں اودے پور کا معاملہ پیش آیا جس میں بارہ (12) تبلیغی مسلمانوں کے پازیٹو ہونے کی بات سامنے آئی. اس خبر نے تو اور بھی مذہبی نفرت انگیز پروپیگنڈا پھیلانے کا موقع فراہم کردیا. بعض مسلم مخالف اور دیگر کم عقل عوام کی طرف سے کھل کر مسلمانوں کو کورونا پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرایا جانے لگا. اور ان سے دور رہنے کی بات کہی جانے لگی. ان کے مساجد ومدارس میں مزید سختی سے تفتیش بڑھادی گئی. مختلف مساجد ومدارس کے بارے میں میں غلط افواہیں پھیلائی گئیں کہ وہاں جماعتی حضرات چھپے ہوئے ہیں. جبکہ حکومتی افسران کے معائنہ کے بعد یہ افواہیں غلط ثابت ہوئیں. گو کہ نیپال پریس کونسل نے غلط اور مذہبی شناخت کو ظاہر کرنے والی رپورٹنگ کے لیے بعض آن لائن نیوز سائٹس کو نوٹس جاری کیا، اور بعض کو بند بھی کیا. نیز سوشل میڈیا پہ مسلمانوں کے خلاف پوسٹ ڈالنے کے جرم میں ایک سابق حکومتی سکریٹری بھیم اپادھیائے کو گرفتار بھی کیا گیا.
لیکن چونکہ سوشل میڈیا نے جنگل کی آگ کی طرح لوگوں تک یہ خبریں پہنچانے کا کام کیا، جس کی وجہ سے مسلمانوں میں بے چینی کا احساس پایا جانے لگا، انہیں صفائی پہ صفائی پیش کرنے کی نوبت آگئی. مسلم کمیشن کو ملک بھر میں پھیلے ہوئے مساجد ومدارس کے معائنہ کے لئے معائنہ کمیٹیاں تشکیل دینی پڑیں. کمیٹیوں نے مساجد و مدارس کا معائنہ کرنا شروع کر دیا.
ان سب کے با وجود مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا، چنانچہ کہیں مسلمانوں سے خریدوفروخت کی ممانعت کا واقعہ پیش آیا، جیسے اودے پور میں کئی دکانداروں نے مسلمانوں کو سامان دینے سے انکار کر دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے ہاتھ سے لئے گئے پیسے کے ذریعہ ان میں بھی کورونا پھیل جائے. اور کہیں مسلمانوں کو نوکری سے نکالا گیا، جیسے روپندیہی میں ایک آٹا مِل کے پانچ مسلمان مزدوروں کو یہ کہہ کر نگالا کیا کہ یہ لوگ کرونا پھیلا سکتے ہیں. اور کہیں سوشل بائیکاٹ کرنے اور مسلمانوں کے گاؤں میں جاکر کے سامان نہ بیچنے کی بات کہی گئی، جیسے ہمارے گاؤں کے تعلق سے پاس پڑوس کے گاؤں کے بعض غیر مسلموں کے ذریعہ یہ بات کہی گئی.
گویا کہ مسلمانوں کو سخت ذہنی تشویش کا شکار ہونا پڑا، یہ تب جب کہ نیپالیوں کی بھاری اکثریت فرقہ وارانہ فکر کے خلاف، اور اس معاملہ میں اچھی اور سمجھ دار ہے، اور کئی با اثر غیر مسلم شخصیات نے انصاف پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے حق میں بیانات بھی دیئے ہیں. اور حکومت نے بھی غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نا تو مسلمانوں پہ کسی طرح کا الزام عائد کیا ہے نا ہی کوئی بے جا سختی برتی ہے.
اس کے لئے ان سب کا تہ دل سے شکریہ. یقیناً یہ ہمارے ملک کے لئے خوش آئند بات ہے. فالحمد للہ علی ذلک.
اللہ ہمارے ملک عزیز اور یہاں کی عوام کو صحیح سمجھ پہ قائم رکھنے کے ساتھ شاد و آباد رکھے. آمین.
مذکورہ سطور کی روشنی میں میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ:
بھلے انصاف پسند میڈیا ہاوسیز اور میڈیا پرسنالٹیز کی قابل قدر تعداد موجود ہے، لیکن جانبدار میڈیا کے مقابلے اتنی کم ہے کہ اس کے سامنے میں یہ سب دب کے رہ گئے ہیں. لہذا مسلمانوں کے اوپر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایک مضبوط میڈیا پلیٹ فارم بنائیں. اور ملکی قانون کے مطابق ملکی، صوبائی ضلعی اور مقامی سطح پر اس کے مراکز قائم کر کے، اور سوشل میڈیا کا بھی حسن استعمال کر کے غیر جانبدار، صحیح اور سچی رپورٹنگ کو فروغ دیں، نیز مسلمانوں، تمام مظلوموں اور بے قصوروں کے بارے میں پھیلائی جانے والی افواہوں، جانبدار رپورٹنگ، نفرت انگیز صحافت کا پردہ فاش کرتے رہیں. تاکہ ملک سے نفرت کے بال چھٹتے رہیں، اور امن و بھائی چارے کا سورج اپنی ضو فشاں کرنیں بکھیرتا رہے.
الحمد للہ اس اہم کاز کے لئے ہمارے پاس افراد اور وسائل کی کمی نہیں ہے. البتہ احساس ذمہ داری، اقدام اور حسن انتظام کی اشد ضرورت ہے. علماء حضرات اس میں بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں. عموما علماء اردو ہندی، عربی اور بعض علماء نیپالی اور دیگر علاقائی زبانیں جانتے ہی ہیں، یہ قوم کے گرانقدر سرمایہ ہیں. لہذا انہیں "سہولت” فراہم کی جائے، اور یہ بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے مذکورہ زبانوں میں لکھیں اور بولیں.
اسی طرح باقی زبانوں میں لکھنے اور ترجمہ کرنے کے لئے بھی ہمارے پاس مدارس سے فارغ ہونے کے بعد عصری جامعات سے تعلیم حاصل کرنے والے دانشوران موجود ہیں. ان میں قوم کی خدمت بھرپور طریقے سے کرنے کی صلاحیت موجود ہے. ان کو اس جانب راغب اور متوجہ کرنے کی ضرورت ہے.
ساتھ ہی ہم اپنے عصری تعلیم یافتہ حضرات کی خدمات حاصل کر کے اس مشن میں چار چاند لگا سکتے ہیں. اور ہم ان شاء اللہ اپنے ہدف میں کامیاب ہوسکتے ہیں. وما ذلك على الله بعزیز.
لہذا قوم مسلم کا درد رکھنے والے با شعور، با ضمیر، صاحب حیثیت اور اس مشن کے اہل مسلمانوں کو اس اہم کاز کے لئے مشترکہ منظم پلیٹ فارم قائم کرنے کے لئے بلا تاخیر کوشش شروع کر دینی چاہیے. چونکہ اس میں کچھ وقت لگ سکتا ہے، اس لئے آج ہی سے ان میں سے ہر فرد کو متوفر سہولیات کو بروئے کار لاتے ہوئے اس قومی و ملی ذمہ داری کی حتی الوسع ادائیگی کی ابتدا کر دینی چاہیے.
اللہ ہم مسلمانوں کو اس کی توفیق عنایت فرمائے اور ہمارا ناصر و معین ہو، آمین.

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter