زمین والوں پہ کیسا یہ حادثہ ٹوٹا

شمیم عرفانی / اسلامک دعوہ سینٹر عفیف

25 اپریل, 2020

زمین والوں پہ کیسا یہ حادثہ ٹوٹا
ہر ایک شخص کا اپنوں سے رابطہ ٹوٹا

میں ، حادثات زمانہ گوارہ کر بھی لوں
مگر یہ راز کھلے ، کیوں یہ سانحہ ٹوٹا

ہوائے تند سے شب بھر وہ کشمکش میں رہا
سر دریچہ ء خانہ ہے جو دیا ٹوٹا

وجود اس کا سنہرا تھا صرف خوابوں میں
وہ خود شناس ہوا ، جب یہ سلسلہ ٹوٹا

چلا ہے کوچہء جاناں کو ، پھر نوائے شوق
ہنوز ، سر پھرے دل کا نہ یہ نشہ ٹوٹا

سرور و کیف کا عالم ہے ہر جگہ ، ہر سو
امیر شہر پہ کیسا یہ سانحہ ٹوٹا

علاج ، وحشت دل کا ، مرے وہ کیا کرتے
کہ جن کا۔ اپنا سراپا ہے جا بجا ٹوٹا

تھا رات بھر ، حسیں خوابوں کا اک جہاں آباد
سحر ہوئی ، تو یکا یک یہ قافلہ ٹوٹا

قبائے دین و مروت جو تار تار ہوا
تو حق تعالی کا بندوں پہ حادثہ ٹوٹا

ترا جنون سلامت ، مگر بتا اے دل!
رہ وفا میں بچا کیا ہے اور کیا ٹوٹا

نہ جانے کتنے ہی ٹکڑوں میں بٹ گیا وہ شخص
جو اس کے ہاتھ سے ، اک بار آئینہ ٹوٹا

بچھڑ کے،راہ محبت پہ اب بھی ہوں قائم
مرے نصیب میں گر چہ ہے راستہ ٹوٹا

شمیم ! شیشۂ دل کو کہاں میں لے جاؤں
جو بار بار گرا ، اور بارہا ٹوٹا

✍شمیم عرفانی

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter