اللہ کے فضل کی دو شرائط

12 اپریل, 2020

اانورشاه

کورونا وائرس کی صورتحال  نیپال اورهندوستان  میں سنگین ہوتی جا رہی ہے مگر لوگ احتیاط سے کام نہیں لے رہے ۔ہمارے ہاں ابھی تک جہالت کا عالم یہ ہے کہ اکثر لوگ اس بات پر بضد ہیں کہ یہ کوئی بیماری ہے ہی نہیں بلاوجہ لوگوں کو ڈرایا جا رہا ہے بھلا گھروں میں رہنے سے کوئی بیماری ٹھیک کیسے ہوتی ہے ۔ جس کا وقت آیا ہو وہ گھر میں بھی آ سکتا ہے اللہ نے جیسا لکھا ہے ویسے ہی ہو گا لہذا احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں ، ہاتھ ملائیں اور گلے ملیں کچھ نہیں ہوتا اللہ کرم کرے گا ۔تو ایسے لوگوں کیلئے گزارش ہے کہ آپ کے زبان سے کہہ دینے سے اللہ کرم نہیں کرے گا ۔ اللہ خالق کُل ہے یعنی ہر چیز کا بنانے والا اور پیدا کرنے والا ہے ، دونوں جہاں کی بادشاہی اسی کیلئے ہے اور وہی حقیقی بادشا ہے ۔

اس کا فضل و کرم اتنا سستا نہیں کہ تم فقط زبان سے کہہ دو تو وہ تم پر کر دے ، اللہ کا فضل حاصل کرنے کیلئے کم از کم انسان پر دو شرائط کی پاسداری کرنا لازم ہے ۔

اول یہ کہ بندے کو عاجزی و انکساری اور پوری خشوع و غضوع کے ساتھ خلوص نیت سے اللہ کی بارگاہ میں دعا کرنی چاہئے پھر تقویٰ رکھے کہ اللہ فضل کرے گا ۔ کیونکہ اگر انسان کسی دنیاوی بادشاہ یا سخی کے در پر کچھ لینے یا مانگنے جاتا ہے تو اپنا حلیہ ایسا بنا لیتا ہے کہ وہ فقیر لگے اور دینے والا اس پر رحم کرنے پر مجبور ہو جائے مگر اللہ تو سارے بادشاہوں کا بھی بادشاہ ہے تو تم اس کی بارگاہ میں جائے بغیر اس کے فضل کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہو ۔مثلاً ہمارابنیادی مذہبی فرض تو نماز ہے اس پر کتنے لوگ عمل کرتے تھے ، آج وائرس کے باعث عارضی طو ر پر مسجدوں بندش کی گئی تو حکومت کو مسجدیں ویران کرنے کا طعنہ دیا جا رہا ہے ،تو جناب یہ مسجدیں تو وائرس سے پہلے ہی ویران ہو چکی تھیں کبھی جا کر نمازیوں کی تعداد ہی گن لیتے تو حکومت یا کسی اور کو طعنہ نہ دیتے بلکہ اپنے گریبان جھانکتے ۔ اللہ کے فضل کا حقدار وہی ہو سکتا ہے جو اللہ کے حقوق ادا کرتا ہو جو فرائض اللہ نے اس پر لازم کیے ہیں ان پر پورا نہیں مگر تھوڑا بہت تو عمل کرتا ہو ۔پھر اللہ کا فضل حاصل کرنے کیلئے دوسری شرط جو بندے پر عائد ہوتی ہے وہ شعوری کوشش ہے اور شعوری کوشش کے بغیر اللہ کے فضل پر حق جتانا محض خود کو جھوٹی تسلی دینے کے مترادف ہے ، کیونکہ اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اسے علم شعور عطاء کیا اور بندگی کا قرینہ سکھایا ۔مثلاً انسان زبان تو کہہ رہا ہے کہ یا اللہ فضل کر دے مگر عملی اور شعوری کوشش نہیں کر رہا ،اس بات کو اس طرح سمجھ لیں کہ ایک بندہ دعا کرتا ہے کہ یا اللہ مجھے گناہوں سے بچا لے مگر خود گناہ ترک کرنے کو تیار نہیں تو اللہ کیونکر اسے گناہوں سے بچائے گا ۔جبکہ اللہ نے قرآن میں ارشاد بھی فرمایا ہے کہ جو خود اپنی حالت نہ بدلنا چاہے تو میں بھی اس کی حالت نہیں بدلتا ۔ یعنی جو خود اس وائرس سے بچنے کی شعوری کوشش نہیں کرے گا تو اللہ بھی اسے نہیں بچائے گا ،کیونکہ وہ خود بچنے کی کوشش نہیں کر رہا ۔ اللہ نے انسان کو دو اختیارات یا دو تقدیریں عطاء کی ہیں ،ایک مرنے کی تقدیر ہے اور ایک بچنے کی تقدیر ہے اب انسان کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اپنے شعور سے کونساراستہ اختیار کرتا ہے ۔بے احتیاطی کر کے موت والا یا پھر احتیاط کر کے زندگی والے راستے پر چلتا ہے ۔یاد رکھیں مرنا برحق ہے مگر جان کی حفاظت کرنا اللہ نے فرض کر رکھا ہے ۔ مگر فرض کریں کہ ایک انسان نے اللہ پر تقویٰ کرتے ہوئے موت کا راستہ اپنے چن لیا ہے مگر اس کو دوسروں کیلئے احتیاط کرنا لازمی ہو گی کیونکہ وہ دوسروں کی زندگی موت کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا ۔ہاں جو شخص تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کر کے بھی اس وائرس میں مبتلا ہو کر موت کے منہ میں چلا جاتا ہے تو فکر کی کوئی بات نہیں کیونکہ اللہ نے اس کے لئے شہادت کا درجہ رکھا ہے ۔ یعنی جو اس موذی مرض میں مبتلا ہو کر وفات پا جائے تو وہ شہادت کی موت مرے گا ،اور شہادت کی موت طبعی موت سے ہزار درجے بہتر ہے مگر پہلے احتیاط لازم ہے ۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter