زرد صحافت ملک کی سالمیت کے لئے خطرہ

محمد ہارون محمد یعقوب انصاری/ چیف ایڈیٹر:ہفت روزہ صدائے عام اردو نیپال

11 اپریل, 2020
haroon ansari
 
صحافی چاہے پرنٹ میڈیاکاہو یا الکٹرانک یا آن لائن پورٹل کا سبھی کے اندر صحافتی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے،اپنی انا اور سرخیوں میں چھائے رہنے کے لئے صحافتی اصولوں سے انحراف نہایت احمقانہ حرکت ہے، اس سے نہ قوم کی بھلائی ہوسکتی ہے اور نہ ہی ملک کی،  میڈیا ملک کا اہم ستون ہے اس  ناطے ملک کو اس کے موقف کے پرچار سے فائدہ پہنچتا ہے،اور غیر ملکی سرگرمیوں سے ملک کی سلامتی کے لئے باخبر کرنا اسکی ذمہ داری بن جاتی ہے ،اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ صحافت کے "ص” سے نابلد لوگ مائیک،قلم پکڑ کر معصوموں کو ننگا کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں جبکہ ایسے لوگ (صحافی) حقیقت سے منہ چھپاتے ہیں انہیں کذب وفریب کے علاؤہ کچھ نہیں آتا اکثر ایسے صحافی خاص طبقے کے لئے چاپلوسی کرتے ہیں یا صحافت کی آڑ میں بلیک میلنگ،جو ترقی کے نام پر  اپنے مستقبل کو تاریک کرنے میں اندھے ہو جاتے ہیں گوکہ سورج کی روشنی میں اندھیرے کی تلاش۔اپنے ہاتھ پر کلہاڑی مارنا
پوری دنیا عالمی وباء کی زد میں ہے جس کو ہم کورونا وائرس کے نام سے جانتے ہیں فی الحال کوئی میڈیسین تیار نہیں ہوپائی ہے WHO کی ہدایات پر احتیاطی تدابیر کو ہی علاج بتایا جارہا ہے جس کو لیکر بیشتر ممالک نے اپنے ملک یا متاثرہ علاقے کو لاک ڈاؤن کردیاہے تاکہ لوگ محفوظ رہ سکیں، لوگ بھیڑ بھاڑ نہ کریں، ایک دوسرے سے  میل جول میں محتاط رہیں ،ماسک ،سینی ٹائیزر کا استعمال کریں گھروں میں محفوظ رہیں، متعدی موزی بیماری سے نجات حاصل ہو حکومت نے سیکیورٹی عملہ کو شاہراہوں پر تعینات کردی ہے جس میں انسانی جان کا تحفظ ہوسکے، ایسے میں حکم کی بجاآوری کرتے ہوئے جان کی پرواہ نہ کرکے دن رات ڈیوٹی دینے والے محافظتی دستے لاچار وبےبس ملک کی سلامتی شہریوں کی بھلائی کے لئے دن رات کام پر لگے ہوئے ہیں ایسے میں بشریت کے ناطے خطا کا سرزد ہوجانا، یا بھیڑ کو بکھیرنے کے لئے ہاتھ کا لمس ہوجانا معمولی بات ہے اور اسی بات کو لیکر نیپال کے ایسئی پر ایک صحافی نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سوشل ڈسٹنسنگ کی پرواہ کئے بغیر بحث کرتا رہا جبکہ پولیس نے اپنی صفائی میں حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ بھیڑ کو تتر بتر کرنے کےلئے ہاتھ کا اشارہ کیا ممکن ہاتھ لگ گیاہو مگر میں نے ایسی کوئی نازیبہ حرکت نہیں کی ہے جس کا اتنا بڑا مدعی قائم ہو ۔ صحافی کو عوام کے ذریعہ قانون کی مخالفت کرنے اور انہیں حالات کی نزاکت سوشل ڈسٹنسنگ کے بارے بتانے کے بجائے واہ واہی کے چکر میں اپنی حد کو پار کرگیا، 
جبکہ میڈیا کا کردار اس وقت بہت اہم ہوتاہے کہ وہ لوگوں کو ملک کی حالت اور عوام کی بھلائی کے تئیں بات کرے اور ملک کے جائز اور معتبر معقول انتظام کی تعریف کرتے ہوئے عوام کو ہلاکت سے بچائے لیکن ایسا کچھ نہیں معدودے میڈیاکے ۔ ملک کی سلامتی میں ہی سب کی سلامتی ہے اس لئے صحافی اپنے ذمہ داری کو اچھی طرح نبھائے اور زرد صحافت سے کنارہ کش اور دوری بنائے رکھے تاکہ مشکل گھڑی میں عوام تک مثبت پیغام جائے عالمی ادارہ صحت سے جاری شدہ ہدایات کے بموجب وزارت صحت نیپال نے اپنے پلیٹ فارم سے کوبھی ہدایات جاری کئے ہیں وہ انسانی جان ومال کے تحفظ کےلئے ہیں ، زرد صحافت کرکے پیسہ کمایا جاسکتا ہے مگر ایک جان کی تلافی کے بعد اعادہ ممکن نہیں، نیپال سرکار کے فعال ہونے اور ملک کو اس وباء سے بچانے کے لئے سرکار کے فعال قدم کی  آج پوری دنیا تعریف کررہی ہے جبکہ ابتدائی ایام میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک تسلیم کیاجاتھا اللہ کی رحمت اور اسکی مہربانی۔
آج جس طرح سے نیپالی محافظتی دستے تعینات ہیں اور اپنے زیر انتظام عوام کے جوبھی رویہ اپناتے ہیں اس میں پورے نیپال کی بھلائی ہے ، اگر یہ کسی جگہ کی پولیس والوں کی طرح عام عوام پر لاٹھی چارج کرتے، کان پکڑ کر اٹھاتے بیٹھاتے، بےدریغ پٹائی کرتے اشیاء خوردنی لینے کے لئے جاتے ہوئے شخص پر ظلم وبربریت کرتے تو کیا ہوتا لیکن ہمارے ملک کی زمین نم ہے اور شاداب بھی اس لئے اس کے گود میں رہنے والا نرم مزاج باادب اور مھذب ہوتا ہے تبھی تو دنیا والے انکی تعریف کرتے ہیں مگر کچھ لوگ انکی پہچان کا جنازہ نکالنے کےلئے کمربستہ ہو جاتے ہیں اللہ عقل سلیم دے امین۔
 ویسے یہ وباء جب ختم ہو جائے گی تو آپ سوال جواب ایک دوسرے پر الزام تراشی دل  کھول کر کیجئے کیونکہ یہ آپ کی عادت ہے کاش یہ  وقت عوام کی بھلائی کے لئے استعمال ہوتا لیکن سب سے بڑا مسئلہ TRPکا آجاتاہے جس سے روزی روٹی اور اور مادی بیلنس کے کم ہوجانے کا خدشہ انہیں ستاتا رہتا ہے ۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter