ہندوستان میں مسلمان اب کس کے سہارے۔

11 اپریل, 2020

عبید فیضی ۔ سابق نمائندہ راشٹریہ سہارا ۔ لکھنئو۔

‌ہندوستان کی تاریخ میں بالخصوص آزادی کے بعد مسلمانوں کو مختلف ادوار سے گذرنا پڑا، آزادی کے بعد اپنے حقوق کے حصول میں جس میں ہمارے  علماء اور قائدین نے اپنی انتہک کوششوں سے اس ملک میں اپنی وجود کی بقاء کو یقینی بنوایا، اور اس ملک  کے سمبدہان میں اپنی  اور اقلیتوں کی شناخت کو عام شہری کی حیثیت دلوائی، یہ کوئی عام بات نہ تھی بلکہ ان کے کردار اور قربانیوں کا ثمرہ تہا، انکی آپسی محبت تہی جو آزادی سے لیکر ہر محاذ پر اپنے ہندو دوستوں کے شانہ بشانہ اپنی ہر طرح کی قربانیوں کو پیش کیا، ہم انکو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

‌آج کیا وجہ ہے کہ ہم انکے اس گرانقدر قربانیوں پر پانی پھیر رہیے ہیں اس کے کہیں نہ کہیں ذمہ دار ہم خود ہیں اور ہمارے موجودہ قائدین ہیں، ہم نے آزادی کے بعد اپنے  صحیح قائد کی ضرورت محسوس نہ کی، ہم نے اپنے تنظیم اور تحریک کو منظم کرنے کی کوسش نہیں کی، ہم نے اپنے کو خود نمائی کے غلاف سے باہر نہ نکالا، ہم نے مادیت کے حصول میں قوم کی اجتماعیت کو پش پشت ڈال دیا، ہم چلتے رہے، اپنی اپنی ٹوپیوں اور مدارس کے میناروں کو بلند کرتے رہے ، تعلیم کو پس پشت ڈال کر اپنی ذاتی ملکیت کو گنواتے رہے ،  قوم کے نام پر وصولی کرکے اپنے بچوں کے مستقبل کو سیکور کرتے رہے، کبہی یہ بہی سوچا ہوتا، کہ ایک دن یوم امتحان مقرر ہے، ہمیں ان سب کا حساب دینا ہے، اب بہی وقت مسلمانوں ہوش میں آؤ، قوم تمہارے اصلاح کی منتظر ہے ، کیونکہ آپ عالم دین ہو آپ کو ساتھ لیکر قوم چلنا چاہتی ہے،

    مسلمان گزشتہ کئی دہائیوں کے مقابلہ میں آج زیادہ پیچیدہ اور چیلنجز سے بھرے ماحول میں جی رہا ہے، اس المناک حقیقت کے اعتراف سے کوئی مفر نہیں ، آج معمولی سیاسی اور سماجی شعور کا حامل انسان بھی حالات کی اس سنگینی سے واقف ہے، آنے والی مسلم نسلوں کے لئے یہ امکانات کس طرح روشن کئےجائیں کہ وہ خود اعتمادی کی شاہراہ پر چلتے ہوئے ایک باعزت شہری کے مانند اس ملک میں اپنی تمام تر ملی اور سماجی تشخص کے ساتھ زندگی گزار سکیں یہ وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ مسلم سماج کاچند باشعور طبقہ شب وروز اس فکر میں کوشاں ہے اور دیگر طبقات کے افراد اور تنظیموں کے ساتھ مل کر ہندوستان کی صدیوں پرانی مشترکہ گنگا جمنی تہذیب کی وراثت کے تحفظ میں سرگرداں ہے، لیکن یہ کوششیں اتنی ثمرآور ہوتی نظر نہیں آرہی ہیں جتنے کہ حالات متقاضی ہیں لہذا بے چینی کا بڑھنا فطری ہے، اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ملک کا دستور جو تمام طبقات کے حقوق کے تحفظ کی یکساں طور پر ضمانت فراہم کرتا ہے ، خود سنگھ پریوار کے نشانہ پر ہے، گویا ہندوستان کے سیکولر جمہوری ڈھانچہ کو مذہبی غلاف ڈالنا باقی ہے۔

مسلم اقلیت اتنے ناگفتہ حالات میں بھی عجیب اندرونی انتشار وخلفشار کا شکار ہے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ گاؤں سے لیکر شہر تک جماعتی صف بندی کی جاتی اور پوری تندہی کے ساتھ مسلم دشمن عناصر کے خلاف اپنے دستوری حقوق کے تحفظ کے لئے ملک گیر پیمانہ پر تحریکیں چلائی جاتیں اور دیگر سماجی طبقات کے ساتھ مل بیٹھ کر طویل مدتی اور قصیر مدتی پروگرام اور پلان طے کئے جاتے اور بدحواسی اور بد دلی کا شکار ہوئے بغیر نئی توانائی اور نئے جوش کے ساتھ نئے طریقے ڈھونڈے جاتے لیکن وہ خود کو انتہائی سطحی مسائل میں الجھائے ہوئے ہیں، ایک طرف دینی قیادت سرد مہری کا شکار ہے، اور نئے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہے تو دوسری جانب محدود سیاسی رہنمائی خود غرضی کا شکار ہے، لہذا اس کا منفی اثر نوجوانوں کی اذہان پر پڑنا لازمی ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلم اقلیت خوف کی نفسیات سے دوچار ہے۔ خوف کے اس دائرہ کو توڑنا اور ان میں خود ارادی و خود اعتمادی کی توانائی کو پرونا وقت کی اہم ضرورت ہے جس کو کسی بھی طور ٹالا نہیں جا سکتا۔

بے شمار چیزیں ایسی ہیں جو ہمیں اپنے دشمنوں اور حریفوں سے سیکھنے کی ہیں ، مثلا ً باہمی مشاورت اور جذبہ اخوت کو بڑھانا اور ذاتی عناد اور شخصی مفادات کو پس پشت ڈال کر ایک مضبوط قیادت پیدا کرنا ساتھ ہی وسیع مقاصد کے حصول کے لئے ذات پات اور علا قہ و زبان کے اختلاف سے احتراز کرنا، یہ اس لئے بھی بہت ضروری ہے کیونکہ ہمارا دشمن ہر ہتھیار سے لیس ہے اور چہار جانب سے حملہ آور ہے ،حالا نکہ اسکے پاس نہ کلمۂ توحید جیسی طاقت ہے نہ قرآن پاک جیسا دستور حیات ہے اور نہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا  جامع منصوبہ ساز رہنما ہے ، اسکے باوجود وہ اپنے تخریبی نظریات اور فریب کاری کے ہتھکنڈوں سے لیس ہوکر فتوحات کے جھنڈے گاڑ رہا ہے ،، تعلیم ، سیاست ، تجارت ، ذرائع ابلاغ ، مزدور یونین ، شعبہ خواتین غرضیکہ ہر جگہ ان کا کیڈر کام کر رہا ہے،  مقام عبرت ہے کہ آج تک ان تنظیموں میں قیادت کا جھگڑا، اختلافات اور تنظیمی ٹوٹ پھوٹ غلطی سے دیکھنے میں نہیں آیا،

اس وقت ضرورت اسکی ہے کہ ہم اختلافی مسائل سے اپنے کو بچائیں، مسلک، ذات برادری، زبانی بہید بھاؤ سے باہر نکلیں ہم با صلاحیت قیادت کو بغیر کسی عذر کے سامنے لائیں، ہر سطح پر اپنا محاسبہ کریں اصلاح کا، تنظیم کی قیادت کا جامع منصوبہ پیش کریں، اور ساتھ ساتھ قوم کے ہر اس فرد کو ساتھ لیں جس کی ضرورت پڑ سکتی ہو، اور بالخصوص ان افراد کو جو ملک کے دستور کو جانتا ہو، مثلا وکیل، صحافی، سیاست دان، آئی اے ایس پی سی ایس،  سب کو شامل کریں، اور اسی طرح جس طرح آر ایس ایس کام کرتی ہے، بغیر کسی اختلاف کے اپنے آپ کو قومی جذبے سے سر شار ہوکر کام کریں۔ اپنے آپ کو قوم کا خادم گردانیں، قومی ملکیت کا صحیح استعمال کریں، نصاب تعلیم پر از سر نو غور کریں، مدرسین کی طرز تعلیم کے ساتھ ساتھ تدریب سشماہی و سالانہ پر خصوصی توجہ دیں، مکاتب کو جمیعت کے سر پرستی میں نصاب جدید مہیا کرائیں، نصاب کیلیے مکمل ریسرچ کمیٹی تشکیل دیں۔

مدارس میں اگر ممکن ہوسکے تو ہائی اسکول تک کے ضروری نصاب کو داخل کریں تاکہ قوم کا ہر بچہ

مدرسے کے علوم شرعیہ سے مستفید ہوتے ہوئے، اپنے آگے کے منصوبے کو عمل میں لا سکے۔

اللہ ہم سب کو قوم کے خدمت کیساتھ ساتھ ملک کے خدمت کی توفیق دے، اور وہ دن آۓ کہ یہ کہا جائے کہ اس قوم کے بغیر گلستاں ، اور ملک کا مستقبل ادہورا ہے، اور اے کاش ہمارے بچے اس ملک کی تقدیر بن سکیں۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter