جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

مولانا شمیم احمد ندوی

5 اپریل, 2020

بھارتی میڈیا نے تبلیغی جماعت کی آڑ میں مسلمانوں کی ایک ایسی شبیہ بنانے کی کوشش کی ہے جس سے یہ تصور ابھر کر سامنے آتاہے کہ مسلمانوں سے زیادہ گنوار اور جاہل، مسلمانوں سے زیادہ غیر مہذب اور وحشی بلکہ مسلمانوں سے زیادہ انسانیت کا دشمن اس وقت دنیا میں کوئی اور نہیں، جب سے مرکز نظام الدین کی شکل میں انھوں نے ایک فرضی دشمن تخلیق کرلیا ہے اب میڈیا اور اس کے ذریعہ بنے گئے جال کی بدولت ملک کا محکمہ صحت کرونا کے ہر نئے معاملہ کا کنکشن تبلیغی جماعت میں تلاش کررہا ہے اور اس کو ایک مجرم کی طرح پیش کر رہاہے اتنا ہی نہیں بلکہ اب متاثرین یا مہلوکین کے تازہ اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے یہ بتانا نہیں بھولتا کہ اس کا نظام الدین مرکز سے کنکشن کیا ہے، صرف اسی پر بس نہیں بلکہ جماعت کی بزرگ شخصیات پر ایسے ایسے بے ہودہ اور بےسروپا الزامات لگانے میں بھی شرم نہیں محسوس کرتا جن کے صدور کا ایسے دیندار طبقہ کی طرف سے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا مثلا انھوں نے نرسوں کے ساتھ بدتمیزی اور گندی حرکتیں کیں، جن لوگوں کو تبلیغی جماعت کی صد سالہ تاریخ کا ذرا بھی علم ہے وہ اچھی طرح اس بات سے واقف ہیں کہ یہاں تقوی وطہارت، خشیت وللہیت، عفت وپاکیزگی اور غض بصر کی نبوی تعلیمات پر بھر پور طریقے سے عمل ہوتا ہے اور اس معاملہ میں مسلم سماج میں وہ ایک نظیر کی حیثیت رکھتے ہیں پھریکبارگی وہ اس قدر بدتمیز اورآوارہ مزاج کیونکر ہوگئے کہ نرسوں کے ساتھ انھوں نے اوچھی اور غیر انسانی حرکتیں شروع کر دیں اس سے پہلے کیا ان کا اس طرح کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ تھا؟ کہ میڈیا کی پھیلائی ہوئ افواہوں پر آنکھ بند کر کے یقین کرلیا جائے، ان پر یہ بیہودہ الزام لگایا گیا کہ انھوں نے پولیس اہلکاروں پر تھوکا جبکہ ثبوت کے طور پر جو منظر دکھایا گیا وہ ڈیڑھ ماہ قبل مہاراشٹر کا ہے،
غرض کہ میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کی ایک غیر انسانی اور وحشیانہ شبیہ بنا کر پیش کی جارہی ہے تاکہ آگے چل کر ان کو ملک میں کرونا پھیلانے کا مجرم بنا کر پیش کیا جاسکے اور حکومت جس کے اشاروں پر پر یہ سب ہورہا ہے وہ اپنی نا اہلیوں اور ناکامیوں کا ٹھیکرا مسلمانوں پر پھوڑ سکے حالانکہ مسلمانوں کا اس بیماری کے تعلق سے عالمی منظر نامہ میں کیا کردار ہے وہ کچھ معلومات کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے،
حکومت ہند نے جہاں صرف ایک فرد واحد کی ڈکٹیٹر شپ چلتی ہے جب بغیر کسی تیاری کے صرف ساڑھے تین گھنٹہ کے شارٹ نوٹس پر پورے ملک میں لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا تو لاکھوں لوگ سڑکوں پر آگئے ایک ایک جگہ پچاسوں ہزار مزدوروں وضرورت مندوں اور خانماں برباد لوگوں کا ہجوم امڈ پڑا، اس سے قطع نظر کہ وہ بھوکے پیاسے پا پیادہ سیکڑوں میل کا پیدل سفر کرکے اپنی منزل تک پہونچنے کیلئے مجبور ہوئے، جب ہزاروں آدمی ایک ساتھ جمع ہوئے تو سوشل ڈسٹینسنگ کا کیا ہوا؟
نومی کے موقع پر اجودھیا سمیت کئ مندروں
میں بھاری بھیڑ اکٹھا ہوئ سوشل ڈسٹینسنگ کہاں گئ؟ یوگی نے درجنوں عقیدتمندوں کی بھیڑ کے ساتھ رام للا کی استھاپنا کی تو سوشل ڈسٹینسنگ کا فرمان کس طاق پر رکھا.؟ مدھیہ پردیش میں سازش کے ساتھ حکومت گرانے کے بعد تقریب حلف برداری کے لئے اس قدر جلدی کیا تھی.؟ سوشل ڈسٹینسنگ کا کیا ہوا
درجنوں مثالیں اس بات کے لئے دی جاسکتی ہیں جہاں سوشل ڈسٹینسنگ کی دھجیاں اڑائ گئیں پھر ملک میں کرونا وائرس پھیلانے کے مجرم صرف تبلیغی جماعت یا مسلمان ہی کیوں.؟ مسلمانوں کو مجرم بنا کر پیش کرنے کے پیچھے کچھ خاص مقاصد ہیں جنہیں سمجھنے والے اچھی طرح سمجھ رہے ہیں
نہ تو اس ملک میں نہ دنیا کے کسے بھی ملک میں کرونا وائرس پھیلانے کے ذمہ دار مسلمان ہیں،
، انھوں نے تو اس مسئلہ کی نزاکت وحساسیت، نسل انسانی پر مرتب ہونے والے اس کے اثرات اور انسانیت پر منڈلانے والے خطرات کو اس وقت محسوس کر لیا تھا جب بھارت کا راوی ہر طرف چین ہی چین لکھ رہا تھا اور پوری حکومتی مشنری اور اس کے سنگھی گرگے ٹرمپ کے استقبال اور مدھیہ پردیش کی منتخب حکومت گرانے میں مگن اور دلی میں فسادات کرانے میں مصروف تھے لیکن سعودی حکومت نے فروری کے آخری ہفتہ میں ہی عمرہ پر پابندی لگائی اور طواف کو مطاف کی تطہیر کی غرض سے روک دیا، پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل اس محرومی سے پارہ پارہ ہوئے لیکن سعودی حکومت نے محض انسانیت کے تحفظ وبقا کے لئے اس وقت اتنا اہم اور جراتمندانہ فیصلہ کیا، جب ہمارے ملک کے بقراطیوں کی اکثریت یہ جانتی بھی نہ تھی کہ کرونا کس بلاکا نام ہے پھر عام مساجد میں بھی جمعہ وجماعت پر پابندی لگائی اور ایسے وقت میں جب یہاں ساری سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری تھیں بلکہ غیر ملکوں سے لوگوں کی آمد بھی بے روک ٹوک اور بغیر کسی خاص چیکنگ اور موثر احتیاط کے جاری تھی لیکن ملک میں وائرس پھیلانے کی ذمہ دار توصرف تبلیغی جماعت ہے دراصل میڈیا کو ایک سافٹ ٹارگیٹ کی تلاش تھی پھر بھلا مسلمانوں سے آسان ہدف کہاں مل سکتا تھا جو اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر بالعموم خاموش ہی رہتا ہے اور کبھی موثر صدائے احتجاج بھی بلند نہیں کرتا، اگر تبلیغی جماعت کے لوگ مرکز سے لاک ڈاؤن سے قبل نکلنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تو اس کا ذمہ دار کون ہے.؟ کیا اچانک کا لاک ڈاؤن اور بغیر پیشگی تیاری کا فرمان اس کا ذمہ دار نہیں، ان کی اس مجبوری کی تمام تفصیلات سوشل میڈیا کے توسط سے منظر عام پر آجکی ہیں اعادہ کی ضرورت نہیں.

جو لوگ مسلمانوں پر یہ الزام لگاتے بلکہ ان کا تمسخر اور مذاق اڑاتے ہیں کہ انھوں نے کرونا وائرس کے علاج کے لئے کچھ کرنے کی بجائے صرف دعائیں کرنے پر اکتفا کیا ہے اور غیبی مدد کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ مسلمانوں نے بھی اس مرض سے لڑنے میں بساط بھر قربانیاں دی ہیں اور دوسروں سے بڑھ کر اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہیں
گزشتہ دنوں اٹلی مں طبی خدمات انجام دینے والے اردن کےایک مسلمان ڈاکٹر کا جنازہ سوشل میڈیا کے توسط سے دکھائی دیا جس کے شرکاء کی تعداد صرف سات تھی وہ اپنے ملک کے ایک بڑے اور معروف ڈاکٹر تھے جنھوں نے اٹلی میں کرونا کے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے جان دی ان کے سبھی مریض عیسائی تھے لیکن انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے انھوں نے مذہب نہیں دیکھا بلکہ اپنا فرض دیکھا
اسی طرح انگلینڈ میں اب تک کم ازکم تین مسلمان ڈاکٹروں نےاپنے عیسائی مریضوں کا علاج کرتے ہوئے جان جان آفریں کے سپرد کی بلکہ وہ وہاں کے سب سے پہلے ایسے ڈاکٹر تھے جو دوسروں کا علاج کرتے ہوئے اس مرض میں گرفتار ہوئے ان کا نام امجد الحورانی، عادل الطیار اور حبیب الزیدی تھا اوروہ ان ہزاروں مسلم ڈاکٹروں میں سے ایک تھے جو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر فرنٹ لائن پر جاکر اس مرض کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں،
اسی طرح امریکہ کی ایک کمپنی جوایسے ٹیسٹنگ کٹ بنانے کے لئے کوشاں تھی جس سے مشتبہ مریض کا ٹیسٹ کرکے جلد نتیجہ حاصل کیا جاسکے میڈیکل سائنس کے ماہرین کی جو ٹیم اس کام کے لیے کوشاں تھی اس ٹیم کی قیادت ایک مسلم خاتون ڈاکٹر مصری شہری ڈاکٹر ہبہ مصطفی کررہی تھیں اور بالآخر اس کمپنی کو اس میں کامیابی ملی اور وہ ایک ایسی ٹیسٹنگ کٹ ایجاد کرنے میں کامیاب ہوئ جس سے رزلٹ صرف چند منٹ میں آجاتا ہے، آج امریکی پریسیڈنٹ ڈونالڈ ٹرمپ نے اسی کٹ سے اپنا دوسرا ٹیسٹ کرانے کے بعد بطور خاص اس کا ذکر کیا کہ میرے ٹیسٹ کا نتیجہ صرف پندرہ منٹ میں آگیا، اگر یہ میڈیکل کی دنیا میں کوئی اہم ایجاد ہے تو اس کا سہرا کمپنی کے ساتھ اس مسلمان خاتون ڈاکٹر کے سر جاتا ہے جو اس ٹیم کی سربراہ تھی،
اسی کرونا وائرس سے جنگ میں اگر مسلمانوں کی قربانیاں دیکھنی ہو تو تعصب کی عینک اتارنی ہوگی پھر پتہ چلے گا کہ انسانیت کی خدمت میں کو ئ ان کاہم پلہ نہیں
ایک کمپنی جو ونٹیلیٹر میں کام آنے والا مصنوعی تنفس کا آلہ تیار کرتی ہے اس کے مالک مسلمان ہیں جن کا نام عمر اشراق ہے انھوں نے اپنی پوری کمپنی کرونا سے لڑنے کے لئے وقف کردی ہے اور اعلان کردیا ہے کہ پوری دنیا میں ان کی کمپنی کےتیار کردہ یہ آلات مفت فراہم کئے جائیں گے بلا تفریق مذہب وملت اور بلا تخصیص رنگ ونسل تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی جان بچائ جاسکے، کیا ایسے ظرف کا مظاہرہ کسی اور سے متوقع ہے ایک ایسے وقت میں جب ان آلات کی اہمیت وافادیت بہت بڑھ چکی ہے اور اپنے ملک سمیت دنیا میں ان چیزوں کا مہنگے داموں بلیک ہورہا ہے کیونکہ لوگوں کی نظر میں جان سے بڑھ کر کچھ نہیں
کیا ہندوستان کے وہ کم ظرف اور تنگ نظر لوگ مسلمانوں کی ان قربانیوں کا اعتراف کریں گے.؟ ان کی نظر میں تو مسلمان پوری دنیا میں بدی کا محور اور سارے فساد کی جڑ ہیں.
گزشتہ دنوں جب یورپ و امریکہ میں مرحلہ وار لاک ڈاؤن کیا گیا تو سب سے پہلے سپر مارکیٹس اور بڑے بڑے اسٹورس کو بند کیا گیا، وہاں کے لوگوں کو اندازہ ہو گیا کہ اگلا مرحلہ باہر نکلنے پر پابندی کا ہے، اس وقت جب اگلے روز سے اسٹورس کے بند کرنے کا اعلان کیا گیا تو لوگ ضروری اشیاء کی خریداری کے لئے گھروں سے نکل پڑے، یہ جان کر ہمیں تعجب ہوگا کہ ایسے وقت میں جب لوگ موت کا خطرہ آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے تھے انھوں نے سب سے زیادہ شراب کو اسٹاک کرنے پر توجہ دی ان اسٹورس میں سے سب سے پہلے مہنگی شرابوں کی بو تلوں والے ریک خالی ہوئے دوسری چیز جو اس کے بعد دوکانوں سے ختم ہوئ وہ ٹوائلٹ پیپر تھے یہاں تک کہ یورپ و امریکہ کے بیشتر شہروں میں ٹوائلٹ پیپر کی شدید قلت ہو گئ ایسے میں ان ملکوں میں موجود مسلمانوں نے ان کے سامنے ٹوائلٹ کا وہ پائپ متعارف کرایا جو حصول طہارت میں استعمال کیا جاتا ہے، ان ملکوں میں موجود اکثر عیسائی اس بات سے واقف بھی نہ تھے کہ ٹوائلٹ پیپر کے علاوہ بھی صفائی کے لیے کسی اور چیز کا استعمال کیا جا سکتا ہے، یورپ و امریکہ کے لوگوں کو یہ تجربہ اس قدر پسند آیا کہ چند ہی دنوں میں دوکانوں اور اسٹوروں سے طہارت پائپ ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گئے، اس پر تعجب نہیں ہونا چاہئے، جو لوگ مغربی ملکوں کے کلچر سے واقف ہیں وہ ان کے صفائی کے طور طریقوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، بہرحال انھوں نے مسلمانوں سے صفائی کا یہ نیا انداز سیکھا، کرونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لئے سوشل ڈسٹنسنگ کے علاوہ جس بات کی سب سے زیادہ اہمیت ہے وہ صفائی کا غیر معمولی اہتمام ہے بار بار کہا جاتا ہے کہ صابن اور پانی سے ہاتھ دھلیں مسلمان یہ سن سن کر حیران ہوتا ہے کہ کیا پانی کے بغیر بھی ہاتھ دھلا جاسکتا ہے، لیکن یہ درس ان کے لئے ہےجو صفائی کے لئے ٹوائلٹ پیپر کو کافی سمجھتے ہیں ورنہ سچا مسلمان تو دن میں پانچ بار وضو کرتا ہے جس میں نہ صرف ہاتھوں کو کہنیوں تک بلکہ پورا چہرہ وپیر بھی اچھی طرح دھلتا ہے سر کا مسح کرکے بھی گردوغبار کو رفع کرتا ہے، ایک دو بار صابن کا بھی استعمال کرتا ہے، اس طرح کی صفائی اس کے لئے معمول کی بات ہے، دوسروں کے لئے ہوسکتا ہے یہ ہدایات نئ ہوں،
قرنطینہ یا کورنٹائن یا الحجر الطبی ہوسکتا ہے لوگوں کے لیے اس میں کجھ نیا ہو لیکن مسلمانوں کے لئے خواہ یہ اصطلاح نئ ہو لیکن طریقہ کار ہرگز نیا نہیں، اس کا درس تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ صدی قبل ہی دیدیا تھا کہ جہاں کوئی وبائ بیماری پھیلی ہو وہاں نہ تو کوئی صحتمند شخص جائے اور نہ وہاں سے کوئی مریض شخص باہر نکلے تاکہ بیماری کے دائرے اور اس کے نقصانات کو محدود کیا جاسکے، جب امریکہ کے ڈاکٹروں کو وہاں کے مسلمانوں نے بتایا کہ ہمارے مذہب میں کورنٹائن کی یہ تعلیمات پہلے سے موجود ہیں تو ایک امریکی پروفیسر حیرت کے سمندر میں غرق ہوگیا اس نے ایک تحقیقی مقالہ لکھا جس میں اس حدیث کا حوالہ دیاوہاں کے لوگوں نے بہت ہی حیرت وبے یقینی کے ساتھ اس کی تحقیقات کو پڑھا کہ چودہ صدیاں قبل مسلمانوں کے پیغمبر نے کورنٹائن کا تصور دیا جب دنیا یہ بھی نہیں جانتی تھی لاک بندی اور الحجر الطبی کس چڑیا کا نام ہے؟
آج یہ اندھ بھگت ہم کو بتاتے ہیں کہ مودی جی نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرکے بہت عقلمندی کا ثبوت دیا یقیناً اس وبائ مرض سے بچنے کے لیے سوشل ڈسٹنسنگ سب سے محفوظ طریقہ ہے لیکن اس کا تصور دنیا کو سب سے پہلے اسلام نے دیا آج اسی اسلام کے ماننے والوں کو تم گنوار اور غیر مہذب سمجھتے ہو، ارے وہ اسلام ہی ہے جس نے تم کو ہی نہیں تمھارے اجداد کو بلکہ پوری دنیا کو تہذیب وتمدن، صفائی ستھرائی اور سماجی علہدگی کا درس دیا جو اس بیماری سے لڑنے کے لئے سب سے کارگر ہتھیار ہیں پھر تم کہتے ہو کہ اس بیماری سے لڑنے کے لیے مسلمانوں کا کیا یوگ دان ہے تو تمھاری عقلوں اور تمھاری متعصب ذہنیت کا ہم ماتم نہ کریں تو کیا کریں، تم پوچھتے ہوکہ اس بیماری کے سد باب میں ہمارا کردار کیا ہے تواب ان تفصیلات کے بعد ہم خود کیا کہیں
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟
یہاں ہمارے ملک میں انسانی ہمدردی کا حال یہ ہے کہ بغیر تیاری اچانک لاک ڈاؤن کا نادر شاہی فرمان صادر کرکے لاکھوں مزدوروں کو سڑک پر بھوک وتکان سے مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ان کی مجبوری کی داستانوں پر کتاب نہیں کتابیں لکھی جاسکتی ہیں حتی کہ ان کی مجبوری کا نقطہ انتہا یہ کہ وہ کتوں کے منہ سے نوالہ چھین کر کھانے کے لئے مجبور ہوئے، دوسری طرف ایک اسلامی ماڈل حکومت سعودی عرب کی حکومت ہے کہ سب کے نہ صرف پیٹ بھر کھانے کا انتظام کیا بلکہ ضرورت مندوں کو مفت بھی اناج ودیگر سامان مہیا کیا، اور سارے مریضوں کے مفت علاج کا اعلان کیا خواہ وہ کسی بھی وطن سے تعلق رکھتے ہوں صرف اپنے شہریوں کا ہی نہیں خیال کیا، وہاں کی حکومت تو اس قدر فیاض ودریا دل ہے کہ بعض یونیورسٹیوں کے ہاسٹل کے طلباء کو سوشل ڈسٹنسنگ کے مقصد سے سرکاری خرچ پرفائیو اسٹار ہوٹلوں کے علحدہ کمروں میں ٹھہرایا جبکہ ہمارے یہاں حال یہ ہے کہ کرونا ٹیسٹ کے لئے فی نفر پانچ ہزار ٹیسٹ فیس عائد کی گئی، ڈاکٹروں کی صحت کی ضمانت حفاظتی کٹ ھی میسر نہیں بعض جگہوں پر پر رین کوٹ اورسردی سے بچانے والے گلوز پہننے کے لئے مجبور ہیں تالی اور تھالی بجانے اور موم بتی جلانے سے ان کے تحفظ کی ضمانت ممکن نہیں پھر جاہل وگنوار اور تہذیب وتعلیم سے عاری مسلمان ہیں تو اس سوچ کو کیا نام دیا جائے؟مسلمانوں کی کردار کشی کرنے سے فرصلت ملے تو اس متعصب اور تنگ نظر میڈیا کو ایک بات ضرور سوچنا چاہیے

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter