کیا بیت اللہ کا طواف پہلی بار روکا گیا

3 اپریل, 2020

انورعلي شاه

چین سے شروع ہونے والی کورونا وائرس کی وبا نے تقریباً پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ متاثرین کی تعداد لاکھوں میں ہے، تو متعدّد افراد اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ۔ ہر مُلک اپنے شہریوں کو اِس وبا سے محفوظ رکھنے کے لیے طرح طرح کے اقدامات کر رہا ہے۔ آمد ورفت پر تو ہر جگہ ہی پابندیاں عاید کی گئی ہیں، جب کہ کئی ممالک میں تو لاک ڈاؤن ہے۔ شہری گھروں میں محصور ہیں۔ اِن حالات میں سعودی حکومت پر دُہری ذمّے داریاں تھیں، ایک طرف تو اُسے اپنے شہریوں کو اِس ناگہانی وبا سے محفوظ رکھنا تھا، تو دوسری طرف مسلمانوں کے مقدّس ترین مقامات، بیتُ اللہ اور روضۂ رسولِ ﷺ کے اطراف کو بھی محفوظ بنانا تھا کہ مسلمان دنیا کے کونے کونے سے وہاں حاضر ہوتے ہیں اور ذرا سی کوتاہی سے نہ صرف یہ کہ اِن مقدّس مقامات کی فضا جراثیم سے آلودہ ہو سکتی تھی، بلکہ عوام کے اجتماع کے سبب یہ وائرس کئی ممالک تک بھی پھیل سکتا تھا۔

اِس صُورتِ حال کے پیشِ نظر سعودی حکومت نے علمائے کرام کی مشاورت اور عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے طے کردہ احتیاطی تدابیر کی روشنی میں پہلے مرحلے میں عُمرے کی ادائیگی پر عارضی طور پر پابندی عاید کی اور پھر مسجد الحرام میں صفائی ستھرائی کو مزید بہتر کرنے کے لیے حرمِ پاک کے صحن میں بیتُ اللہ کا طواف روک دیا گیا، تاہم مسجد الحرام کی بالائی منازل میں اس دوران بھی حسبِ معمول طواف کا سلسلہ جاری رہا۔ لازم بات ہے، یہ اطلاع مسلمانوں کے لیے دُکھ و غم کا سبب تھی، مگر اِس موقعے پر بعض افراد نے اسلامی احکامات اور تاریخ سے ناواقفیت کی بنیاد پر کچھ ایسا ماحول بنایا، جس سے ایک طرف تو طرح طرح کی افواہوں نے جنم لیا، تو دوسری طرف اس کی آڑ میں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بھی ٹھیس پہنچانے کی سازش کی گئی۔

اِس ضمن میں دو باتیں ذہن نشین رہنی چاہئیں۔ پہلی بات تو یہ کہ اسلامی تعلیمات میں ایسی کوئی ہدایت نہیں ملتی کہ بیتُ اللہ شریف کا طواف کسی بھی سبب سے روکا نہیں جاسکتا۔ اور یہ بھی کہ اگر طواف روک دیا جائے، تو قیامت آجائے گی یا زمین کی حرکت رُک جائے گی۔تاہم، یہ ضرور ہے کہ بیتُ اللہ شریف کا طواف رُکنا یا مساجد میں باجماعت نمازوں کی ادائیگی نہ ہوپانا بہت بڑی محرومی کی بات ہے۔ اس موقعے پر زیادہ سے زیادہ توبہ استغفار کا ورد اور اُن وجوہ کا سدّباب ضروری ہے، جو اس رکاوٹ کا سبب ہوں کہ یہ سب کچھ انسانوں کے اعمال اور بے احتیاطی ہی کا نتیجہ ہے۔دوسری بات یہ کہ جب بیتُ اللہ شریف کے طواف کے رُکنے سے اسلام کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں ہوتی اور نعوذباللہ اسلام کی کوئی ہدایت غلط ثابت نہیں ہوتی، تو پھر اِس کی آڑ میں اسلام مخالف پروپیگنڈے کا بھی کوئی جواز نہیں، جیسا کہ بعض افراد سوشل میڈیا پر طواف کی بندش کی بنیاد پر اسلامی شعائر کو نشانہ بنانے کی ناکام سازشیں کر رہے ہیں۔

اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں، تو ماضی میں کم ازکم 40 بار ایسے حالات درپیش آئے کہ جن کے سبب بیتُ اللہ کا طواف روک دیا گیا۔نیز، متعدّد بار انسانوں کی کوتاہی کے سبب ان مقامات پر وبائی امراض بھی پُھوٹے، جن کے نتیجے میں بہت سی اموات بھی ہوئیں۔64 ہجری میں اموی جرنیل نے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ سے لڑائی کے دَوران پہاڑوں پر منجنیقین نصب کر کے خانۂ کعبہ پر سنگ باری کی، جہاں حضرت عبداللہ بن زبیرؓ پناہ گزین تھے۔ سنگ باری اتنی شدید تھی کہ کوئی شخص طواف نہ کرسکا۔اِسی طرح251 ہجری میں عین یومِ عرفہ کے دن ایسی لڑائی چِھڑی کہ حج ہی ادا نہ ہوسکا۔317 ہجری میں بحرین کے علاقے، ہجر سے آنے والے قرامطہ مذہب کے لشکر نےمکّہ معظّمہ پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں 30 ہزار افراد شہید ہوئے، جن میں 700 ایسے بھی تھے، جنھیں طواف کی حالت میں شہید کیا گیا۔

وہ جاتے ہوئے حجرِ اسود بھی نکال کر ساتھ لے گئے اور تقریباً 20 سال تک بیتُ اللہ کا طواف حجرِ اسود کے بغیر ہی ہوتا رہا۔1814 ء میں حجاز میں طاعون کی وبا پھیلی، تو مکّۃ المکرمہ بھی اس کی لپیٹ میں آگیا اور اس وبا سے 8 ہزار کے قریب افراد جاں بحق ہوئے ، اس پر مسجد الحرام کو عبادت کے لیے بند کردیا گیا اور وبا کے خاتمے ہی پر دروازے کھولے گئے۔1831ء میں ایک ہندوستانی شخص کے سبب مکّہ مکرمہ میں وبائی مرض پھیل گیا، جس سے حاجیوں کی بڑی تعداد جاں بحق ہوگئی۔1845 ء سے 1883 ء تک چار بار ایّامِ حج میں وبائی امراض کے حملے ہوتے رہے، جب کہ 1858 ء میں تو وہاں ایک ایسا مرض پھیلا کہ شہریوں کو جان بچانے کے لیے بڑے پیمانے پر ہجرت کرنی پڑی۔1864 ء کے وائرس حملے نے بھی ہزاروں افراد کو موت کے منہ میں دھکیلا، جب کہ 1892 ء میں ایّامِ حج کے دوران کولیرا وائرس نے ایسی تباہی مچائی کہ لوگ عزیز و اقارب کی لاشیں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔

1895 ء میں مدینہ منوّرہ سے آئے عازمینِ حج ایسے بخار کا شکار ہوئے کہ منیٰ تک نہ پہنچ پائے۔ 1987ء میں ہیضے کی وبا پھیلنے کے سبب دس ہزار حجاج انتقال کرگئے اور اس دوران حرمِ پاک کو بھی وبا سے پاک کرنے کے لیے بند کیا گیا۔20نومبر، 1979 ء کی صبح، نمازِ فجر کے فوراً بعد چند مسلّح افراد نے حرم شریف پر قبضہ کرلیا، اس موقعے پر کئی ہزار نمازی موجود تھے۔وہ لوگ جنازوں کا ڈراما رچا کر چارپائیوں کے ذریعے اسلحہ اندر لائے تھے۔ ایک شخص نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر عوام سے زبردستی بیعت بھی لینا شروع کردی۔دو ہفتوں تک طواف اور نمازوں کا سلسلہ رُکا رہا۔ سعودی فورسز نے شرپسندوں کا مکمل صفایا کرنے کے بعد 7دسمبر، 1979 ء کو دوبارہ حرم شریف کو عبادت کے لیے کھولا۔ اِس لڑائی میں 75باغی مارے گئے اورنیشنل گارڈز کے60 فوجی شہید ہوئے۔ نیز،چار پاکستانیوں سمیت 26حجاج شہید اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔اور بیش تر قارئین کو یاد ہوگا کہ چند سال قبل یعنی 2017 ء میں بے پناہ ہجوم کے باعث کچھ دیر کے لیے طواف روک دیا گیا تھا، اسی طرح شدید بارش اور سیلاب کے سبب بھی کئی بار بیتُ اللہ شریف کا طواف روکنا پڑا۔

ہمیں اِس موقعے پرسورۃ الحج کی آیت نمبر 26یاد رکھنی چاہیے، جس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ’’اور جب ہم نے ابراہیمؑ کے لیے کعبے کی جگہ معیّن کر دی کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کر اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھ۔‘‘اس آیتِ مبارکہ سے بھی واضح ہوتا ہے کہ انتظامیہ کی ذمّے داری ہے کہ حرمِ پاک کو طواف اوردیگر عبادات کرنے والوں کے لیے پاک و صاف رکھے۔نیز، یہ حدیثِ مبارکہؐ بھی اِس مرحلے پر ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ نبی کریمﷺ نے طواف کے دوران بیتُ اللہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا’’”کتنا پاکیزہ ہے تُو اور کیسی خوش گوار ہے تیری فضا۔ کتنا عظیم ہے تُو اور کتنا محترم ہے تیرا مقام۔ مگر اُس اللہ کی قسم، جس کے قبضے میں محمّد(ﷺ) کی جان ہے، ایک مسلمان کی جان، مال اور خون کا احترام اللہ تعالیٰ کے نزدیک تیری حُرمت سے زیادہ ہے“(ابنِ ماجہ)۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter