ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا ؟ علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

ثناءاللہ صادق تیمی ، مکہ مکرمہ 

7 مارچ, 2020
 
ہمارےر وحانی والد اور مربی علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی کی موت کی خبر ہمارے لیے غیر متوقع اس لیے نہیں تھی کہ لگ بھگ پچھلے تین مہینوں سے ان کی صحت کو لے کر ہم سب فکرمند بھی تھے اور دعا گو بھی اور ہر دم یہ خدشہ بھی ستائے رہتا تھا کہ کہیں وہ خبر نہ آجائے جس کا سننا ہمارے لیے بالکل بھی آسان نہیں ہوگا لیکن یہ اتنا مشکل ہوگا اس کا احساس اب ہورہا ہے ، دل کی دنیا میں عجیب خلا کی کیفیت ہے ، ایسی کیفیت اس سے پہلے کبھی نہیں رہی ۔جون ایلیا یاد آگيا 
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا 
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا 
ظہر کی نماز پڑھ کر گھر آیا تو واٹس اپ کے کئی پیغامات موت کی اطلاع دے رہے تھے ، ” تیمی گھر ” میں بڑے بھائیوں کی تصدیق بھی شامل تھی ، انا للہ و انا الیہ راجعون اور اللھم اغفرلہ و ارحمہ و اجعل الجنۃ مثواہ کے کلمات زبان پر تھے اور آنکھیں بے اختیار رورہی تھیں ۔ کچھ ہی دیر بعد بڑے بھائی ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی کا فون آیا ، ہم نے ایک دوسرے کی تعزیت کی اور ریاض جانے کا ارادہ کرلیا ۔ساتھی مترجم ڈاکٹرحشرالدین المدنی کو فون کرکے اطلاع دی ، ترجمے کی میری ہی باری تھی ، سو ان سے گزارش بھی کی اور انہوں نے بلا کسی تامل کے نہ صرف یہ کہ قبول کیا کہ بلکہ حسن تعزيت  بھی کی لیکن کچھ ہی دیر بعد ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی سے پھر رابطہ ہوا اور انہوں نے یہ اطلاع دی کہ جسد خاکی کو مکہ مکرمہ ہی لانے کی تیاری ہورہی ہے ۔
ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ سے متعلق ہماری نظر میں وہ تمام باتیں درست ہیں جو کسی عظیم شخصیت کی موت پر کہی جاتی ہیں لیکن سر دست میں اس تحریر کو صرف اپنی یادوں تک محدود رکھنا چاہتا ہوں ۔ 
ہم لوگو ں کے لیے ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کی شخصیت سراپا کشش اور محبت تھی ۔ ہم نے انہیں ایک جھلک دیکھنے کو اپنی خوشی کا سامان سمجھا تب جب ہم بہت چھوٹے تھے اور وہ  بالعموم ریاض سے سال میں دو مرتبہ اپنے خون جگر سے بسائے چمن جامعہ امام ابن تیمیہ آیا کرتے تھے اور اب بھی وہی احساس ہے  جب ہمیں بڑی بڑی مجلسیں ملیں ان کے ساتھ بیٹھنے کو اور ان سے ہم کلام ہونے کو ۔جامعہ میں طالب علمی کے دنوں کے ان کے وہ دروس آج بھی نہیں بھولتے جن میں وہ علم و حکمت کے موتی بکھیرنے کے ساتھ ساتھ تجربات ومشاہدات کی روشنی سے ہماری زندگی کی کجیوں کو دورکرتے اور ہمارے سامنے فکروعمل کی راہ کھولتے تھے  ۔
طالب علمی کی زندگی میں ان کے ہاتھوں سے کئی مرتبہ انعامات حاصل کرنے کی سعادت ملی ، انعام دیتے ہوئے ان کے چہرے کی بشاشت دیکھنے لائق ہوتی ۔ طلبہ کے اس ہجوم میں بھی وہ کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور کہتے جس سے ہماری ہمت افزائی ہوتی ۔فراغت کے بعد جب ہم جامعہ امام ابن تیمیہ ہی میں تھے اور  پہلی تعلیمی کانفرنس ہوئی تو ہمارے حصے میں بہت سارے انعامات تھے ، خوب دعائيں دیں اور کئی لوگوں سےہمارے بارے میں کلمات خیر کہے ۔
فراغت کے بعد استاذ محترم فضیلۃ الشیخ محمد ارشد المدنی حفظہ اللہ کے حسب حکم ہم جامعہ ہی میں رہ گئے تھے ۔ جب مجلہ الفرقان میں میری دو چار تحریریں چھپیں تو آپ نےخصوصی دعاؤں سے نوازا ، محفلوں میں ذکر کیا اور شیخ محمد ارشد المدنی کے واسطے سے موبائل فون پر بات کرکے خوب خوب ہمت افزائی کی اور الفرقان کا نائب ایڈیٹر نامزد کردیا ۔ اس وقت انہوں نے ایک جملہ کہا جو آج یاد آکر اور بھی زیاد ہ بے چین کررہا ہے کہ اب وہ مسکراتا ہوا نورانی چہرہ ہمارے بیچ نہیں ہے ۔” آپ کو ہم اپنے بیٹے عبداللہ  کی طرح سمجھتے ہیں "تب ہم نے جوابا کہا تھا کہ ہمارے لیے آپ روحانی والد بھی ہیں اور ہمارے مربی بھی ، ہم تو آپ کو والد ہی سمجھتے ہیں ۔
اس کے بعد جب آپ جامعہ امام ابن تیمیہ آئے تو ہمیں خصوصی محبتوں سے نوازا ۔ اساتذہ کی ایک محفل میں پہلے ثناءاللہ تیمی کہ گئے تو خود کی جیسے اصلاح کی اور فضیلۃ الشیخ ثناءاللہ صادق تیمی کہ کر جیسے ایک پیغام دینا چاہ رہے ہوں کہ تمام تیمی اساتذہ کو بھی عام اساتذہ کی طرح عزت و احترام دیا جائے ۔
جامعہ سے ہوکر ہم جب جے این یو آگئے تو آپ کو دیکھنے اور سننے کے مواقع کم کم رہے ۔ اس بیچ آپ نے ایک مرتبہ ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی کی دعوت پر جے این یو میں آنا قبول کیا ، ہم نے کاویری ہی میں کلوزڈور میٹنگ رکھی ، فارغین ابن تیمیہ کی ایک تعداد موجود تھی ، ان کے بیٹوں نے ان سے کھل کر گفتگو کی ، آپ نے  جامعہ میں فارغین جامعہ سے متعلق ایک بجا شکایت پر فوری نوٹس لی اور اسی وقت ذمہ دار کو فون کرکے ضروری اورسخت ہدایات دیں ۔
اس دوران جامعہ میں جب جد وجہد آزادی اور ہندوستانی مسلمان پر ایک کانفرنس رکھی گئی  تو آپ نے یہ طے کیا کہ اس کانفرنس کے  سارے مقالہ نگار اور مقررین تیمی ہی ہوں گے چنانچہ ان خوش نصیب تیمی اخوان کے بیچ اس خاکسار کو بھی آپ نے اس قابل سمجھا اور ہمیں بھی دہلی سے آنے کا حکم ہوا ۔ پروگرام جب ختم ہوا تو آپ کی خوشی دیدنی تھی جیسے باپ اپنے بیٹوں کو اس قابل دیکھ رہا ہو کہ اس کے بیٹے اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے ہیں ۔ ہمت افزائی کے کیسے کیسے کلمات ، اللہ اکبر ! مہمان خانہ آئے ،خاکسار پر نظر پڑی تو مسکرائے اور کہا : آپ تو بالکل لیڈروں کی طرح بے تکلف تقریر کرتے ہیں ۔ اللھم زد فزد ۔
جے این یو ہی کے زمانے میں ہم نے السلسلہ الذھبیۃ للقرائۃ العربیۃ پر ایک قومی سیمینار میں مقالہ پڑھا ، مقالہ بحمداللہ پسند کیا گيا ، بعد میں الفرقا ن میں چھپا بھی ، میں نے سیریز کا تعارف کرایا تھا ، اس کی خوبیوں اور نصابی کتابوں میں اس کی اہمیت کو اجاگر کیا تھا اور بعض خامیوں کی طرف اشارے بھی کیے تھے ۔ انہوں نے تنقید کے باوجود مضمون کو الفرقان میں چھاپا بھی اور کبھی کسی خفگی کا اظہار بھی  نہیں کیا ۔
سعودی عرب آنے کے بعد ہماری کئی ساری لمبی ملاقاتیں رہیں ۔بہت کچھ سیکھنے کو ملا ۔ میں نے ریاض میں  ہوئی ملاقاتوں کی تفصیل تین قسطوں میں لکھے گئے اپنے مضمون ” بہت لگتا ہے جی صحبت میں ان کی ” میں دی ہے ۔ رہ رہ کر آپ کی نصیحتیں یاد آتی ہیں ۔ مکہ مکرمہ میں آپ کی آمد پر بڑے بھائی ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی کی سرگرمی تھی کہ انہوں نے جلد ایک پروگرام کا نظم کرلیا ، ہندوپاک کے ہمارے احباب جمع تھے ، شیخ نے بھرپور تقریر کی ، قرآن و سنت کو ہی دین کا اصل ماخد بتایا اور مختلف زاویوں سے بدلائل یہ حقیقت ذہنوں میں راسخ کردی ، آپ نے یونانی فلسفہ سے مخلوط و متاثر اصول فقہ کو امت کے خلاف ایک سازش سے تعبیر کیا اور اس سلسلے کی مضبوط دلیلیں دیں جن سے قرآن وسنت سے آپ کی بے پناہ محبت اور ناموس رسالت سے متعلق آپ کی غیرت ہویدا ہوتی رہی ۔مولانا آزاد سے متعلق کہنے پر آئے تو ایسا لگا کہ پوری رات گزاردیں گے ۔ آپ انہیں اپنا ہیرو سمجھتے تھے ۔” کاروان حیات "‘ کے صفحات اس پر گواہ ہیں۔
میں اکثر یہ سوچ کر کہ ہمارے مربی مشغول رہتے ہیں ، انہیں کم کم ہی فون کیا کرتا تھا ، وہ بڑے آدمی تھے ، نیک انسان تھے ، اکثر خود ہی فون کرلیتے ۔ شکایت بھی کرتے ۔ میں جب ان کی مشغولیت کا حوالہ دیتا اور ان کی درازی عمر کی دعا کرتا تو کہتے ” ان تمام کے باوجود کبھی کبھی خبر خیرت دریافت کرتے رہنا چاہیے ” ۔ فون زیادہ تر تب کرتے جب انہیں میری کوئی تحریر بہت اچھی لگتی یا جب کسی تحریر سے متعلق انہیں کوئی نصیحت کرنی رہتی یا کسی خامی کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ۔ میں تھوڑا شوخ واقع ہوا تھا ، فکرونظر کے تنوع اور اختلاف کی بات ہو تی تو میں بھی اپنی طرف سے دلائل دیتا ، شیخ بھی دیتے اور قائل کرنے کی کوشش کرتے ۔ انہوں نے اس تبادلہ خیالات اور مباحثے کو کبھی بدتمیزی پر محمول نہيں کیا ۔ میری نظر میں یہ ان کے بہت بڑے ہونے کی دلیل تھی ورنہ وہ آسانی سے ہمیں ڈانٹ کر چپ کراسکتے تھے کہ ایسے بھی وہ روحانی باپ تھے اور ہم ان کے بیٹے ۔
ہمارے کہنے پر کئی اساتذہ کو انہوں نے جامعہ میں جگہ دی ، ایک موقع سے ذمہ دار سےکہا ” اگر ثناءاللہ کہ رہے ہیں تو ضرور کوئی ایسی بڑی خوبی ہوگی ان میں ، رکھ لیجیے ” مجھے اس دن بے انتہا خوشی ہوئی ، میں اکثر مباحثہ کے بعد اس احساس تلے کڑھنے لگتا تھا کہ کہیں کوئی غیر مناسب الفاظ تو ادا نہيں ہوگئے اور اکثر یہ احساس ان کے آنے والے بعد کے فون نے ختم کیا ۔ جس میں محبت اور اپنائیت کے ساتھ شفقت اور دعائیں شامل ہوتیں اور پھر کسی دوسرے موضوع پر باتوں کا سلسلہ نکل پڑتا جس میں کبھی کبھی پھر مباحثے کی کیفیت عود کر آ جاتی ۔اب سوچتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ شاید وہ اسی طرح میرے اندر خود اعتمادی پیدا کرنا چاہتے ہوں گے  ۔
آپ میری عربی تحریر کو پسند کرتے تھے اور شکایت کرتے تھے کہ ہم نے عربی میں لکھنا کیوں کم کردیا ہے ۔ اردو سے متعلق مزید محنت کی نصیحت کرتے تھے ۔دو تین سال قبل جب ایک تیمی سے متعلق ایک معاملہ سامنا آیا اور ہم نےبڑے بھائی ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی کے ساتھ الگ الگ  اپنے مربی کو خط لکھ کر سفارش کی تو دوسرے دن آٹھ بجے کے قریب آپ کا فون آیا ۔ آپ نے بتلایا کہ فجر کے بعد کی مصروفیت کے بعد یہ میرے آرام کا وقت ہے لیکن آپ کے خط نے میری نیند اڑا دی ہے  ۔ دیر تک باتیں کرتے رہے ، دعائيں دیں ، اپنی خاکساری کا مظاہرہ کرتے رہے اور اپنے تیمی بیٹے کو معاف کردیا ۔
میرا یہ شدید احساس رہا ہے کہ بڑا ادارہ چلانے والوں میں آپ کی شخصیت اس حیثیت سے واقعۃ ممتاز تھی کہ آپ نے خاموشی سے ایک بڑے ادارے کو بنایا ، آگے بڑھایا ، چلایا اور باصلاحیت تیمی اور تیمیات کی کھیپ تیار کی اور ساتھ ہی اپنی علمی سرگرمیوں کو متاثر نہيں ہونے دیا ۔ تفسیر ، حدیث ، فقہ ، ادب ، ترجمہ ، صحافت اور ادب اطفال ہر میدان میں آپ نے  اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ۔باتیں بنانی آسان ہے ، تنقید آسان ہے لیکن ایسا عظیم الشان کام کرنا اسی کا حصہ ہوتا ہے جو چيز دیگری ہو ۔
انہيں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد 
جامعہ امام ابن تیمیہ کے طلبہ ، اساتذہ ، لائبریری اور عمومی ماحول سب کے سب در اصل آپ کی شخصیت کے پرتو نظر آتے ہیں اور محسوس ایسا ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی شخصیت کی کرنیں ادارے میں پوری طرح پھیلادی ہیں ۔آپ کو اگر بہار کے سابق گورنر اخلاق الرحمن قدوائی نے بہار کا سرسید کہا تو انہوں نے کہیں کسی طرح کا کوئی مبالغہ نہیں کیا ۔ جامعہ امام ابن تیمیہ ، کلیۃ خدیجۃ الکبری لتعلیم البنات اور ڈی ایم ایل سب کے سب اس کا منہ بولبا ثبوت ہیں ۔میں اپنی یہ خوش نصیبی سمجھتا ہوں کہ مجھے اس ادارے میں تعلیم حاص کرنے کا موقع ملا ۔ جامعہ کی وسیع و عریض اور مالدار لائبریری ہی نہیں بلکہ کتابوں کا حسن انتخاب اور علوم وفنون کا استیعاب سب آپ کی بصیرت کی گہرائی اور دانش کی گیرائی کا پتہ دیتے ہیں ۔
انسان دنیا میں آتے رہیں گے اور جاتے رہیں گے لیکن ایسے بانکپن اور حوصلے کے لوگ کم آتے ہیں ۔ وہ ہم سب سے زيادہ  جوان تھے ، کام کرنے کا جنون تھا آپ میں  ، نئے نئے منصوبے اور انہیں عملی جامہ پہنانے کی تڑپ ۔ آپ کے پاس بیٹھنے والا ہمت لے کر اٹھتا ، ایک عجیب جوش رہتا تھا آپ میں ،  اپنی صلاحیت اور اہمیت دونوں سے آپ آگاہ تھے ، اس لیے خودی تو بہت تھی لیکن کبر بالکل بھی نہيں تھا ۔ ہم جب کبھی آپ سے ملتے ، باتیں کرتے یا آپ کو پڑھتے، ہم ضرور بہت کچھ  سیکھتے اور جذبہ عمل بڑھ جاتا ۔
ہم اسے بھی اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں کہ اللہ پاک نے ہمیں آپ کی نماز جنازہ میں شرکت کا موقع دیا ، مٹی دینے کی توفیق ارزانی ہوئی اور ہم  آپ کے اہل خانہ ، محبین اور تیمی بیٹوں سے باہم اظہار تعزیت کر سکے ۔ مرض الموت کی تفصیلات اس حیثیث سے ہمارے لیے باعث سکون ثابت ہوئیں کہ ماشاءاللہ آپ جب کبھی ہوش میں آئے اللہ کی توحید پر گفتگو کی ، لاا لہ الا اللہ کا ورد کیا ، سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے دیے ، اسلام کے غلبہ کی بات کی اور جامعہ امام ابن تیمیہ کو یاد کیا ۔
اے اللہ تیرا بندہ موحد تھا ، تیرے دین کا خادم تھا ، اسلام کا سپاہی تھا ،  شرک و بدعت کی ظلمتوں کو توحید و سنت کی ضیا پاشیوں سے مٹانے کا خواہشمند اور ساعی تھا، تیرے اس بندے سے بے شمار لوگوں نے مختلف سطحوں پر استفادہ کیا ، اے اللہ تو اسے بخش دے ، جنت الفردوس میں اسے اعلا مقام سے نواز ، اس کے چھوڑے ہوئے علمی فکری او ر دینی سرمایے  کو صدقہ جاریہ بنا اور اس کے وارثین کو حسن توفیق دے کہ وہ اس کے مشن کو مضبوطی سے آگے بڑھا سکیں ۔
ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter