ختم نبوت

سراج احمد برکت اللہ فلاحی

14 فروری, 2020

ختم نبوت ایک متفق علیہ حقیقت ہے۔ پوری امت اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ اب نبوت کا سلسلہ بند ہوگیا ہے۔ حضرت محمد مصطفیٰﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں۔ آپ ﷺکی صفت خاتم الانبیاء ہے۔ نبیوں کی آمد کا سلسلہ آپﷺ پر ختم ہوگیا ہے۔ اب قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ نبیوں اور رسولوں کا کام اب اس پوری امت کو انجام دینا ہے۔ انذار یعنی برے انجام سے اور اللہ کے عذاب سے ڈرانااور چوکنا کرنا، تبشیر یعنی اچھے انجام کی، جنت اور اللہ کے انعامات کی خوش خبری دینا، دعوت وتبلیغ، احقاق حق اور ابطال باطل اورشہادت حق کا کام اب اس امت کے علماء وصلحاء انجا م دیں گے۔
ختم نبوت پرقرآن واحادیث کے متعدددلائل ہیں۔ چند ایسے دلائل جو بہت واضح اور عام فہم ہیں، انہیں یہاں نقل کیا جارہاہے۔
قرآن کے دلائل:
۱۔ مَّا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلَکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَکَانَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْماً (سورۃ الاحزاب: ۰۴)
”محمد(ﷺ)تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے خاتم ہیں اورا للہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔“اس آیتِ کریمہ کی تشریح میں مشہور مفسرِ قرآن امام ابو جعفر محمد بن جریر الطبریؒ (متوفی ۰۱۳ ھ) نے لکھا ہے:”بمعنی أنہ آخر النبیین“ اس معنی میں کہ آپ آخری نبی ہیں۔ (تفسیر طبری، مطبوعہ دار الحدیث القاہرہ مصر ۹/۴۴۲)غرض اس آیتِ کریمہ کی متفقہ تفسیر سے ثابت ہوا کہ خاتم النبیین کا مطلب آخر النبیین ہے اور اسی پر اہلِ اسلام کا اجماع ہے۔
۲۔ ِ الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْناً (سورۃ المائدۃ: ۳) ”آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیاہے، اور اپنی نعمت تم پر تما م کردی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔“قرآن مجید نے صاف واضح کردیا ہے کہ دین اسلام مکمل ہوچکاہے، اب کسی نئی شریعت یا کسی نئے نبی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ گئی ہے۔
۳۔ وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا کَافَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَنَذِیْراً (سورۃ سبا: ۸۲) ”ہم نے تم کو تمام دنیا کے انسانوں کے لیے بشیر اور نذیر بناکر بھیجا ہے۔“
اس آیت میں مزید تاکید کے ساتھ اور بہت صاف لفظوں میں بیان کیاگیا ہے کہ سارے لوگوں کے لیے محمدﷺ کو نبی بنایا گیا ہے اور پوری انسانیت کے رسول آپﷺ ہی ہیں۔
۴۔ قُلْ یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّیْ رَسُولُ اللّہِ إِلَیْْکُمْ جَمِیْعاً(سورۃ اعراف: ۸۵۱) ”فرمادیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔“
اس کا انداز اور بھی زیادہ واضح ہے۔اس سے قبل انبیاء کسی خاص آبادی، قوم یا علاقہ کے لیے مبعوث کیے جاتے تھے۔ یہاں بالکل خطاب کے اسلوب میں تمام انسانوں کو مخاطب کرکے بات کہی گئی ہے کہ میں تم سب کے لیے اللہ کا رسول ہوں۔
۵۔ وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْن (سورۃ الانبیاء: ۷۰۱) ”میں نے تم کو تمام جہان والوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔“
اس آیت سے بھی اس بات کا صاف اشارہ ملتا ہے کہ نبی اکرمﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں۔غرض قرآن مجید کی یہ درج بالا پانچ آیات اس ضمن میں واضح ہیں کہ اللہ کے نبی حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں۔ اس کے علاوہ قرآنی تعلیمات اور جا بجا موجود اشارات بھی اس کی تائید کرتی ہیں۔
احادیث کے دلائل: ذخیرہئ احادیث میں ختم نبوت کے دلائل بکثرت ملتے ہیں۔ یہاں اختصار کے پیش نظر صرف چند احادیث نقل کی جارہی ہیں۔
1۔حضرت ا سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ بن ابی طالب سے فرمایا:أما ترضی أن تکون منی بمنزلۃ ھارون من موسی إلا أنہ لانبوۃ بعدی۔”کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہارا میرے ساتھ وہ مقام ہو جو ہارون کا موسیٰ کے ساتھ تھا، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے۔“ (صحیح مسلم:۲۳/۴۰۴۲، ترقیم دارالسلام:۰۲۲۶)
2۔حضرت جبیر بن مطعمؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:و أنا العاقب۔ اور میں عاقب یعنی آخری نبی ہوں۔ (صحیح بخاری: ۲۳۵۳،۶۹۸۴ و صحیح مسلم:۴۵۳۲)ابن شہاب الزہریؒنے العاقب کی تشریح میں فرمایا: ”الذی لیس بعدہ نبی“ وہ جس کے بعد کوئی نبی (پیدا) نہ ہو۔ (صحیح مسلم، ترقیم دارالسلام:۷۰۱۶)
اس حدیث کی تشریح میں امام سفیان بن حسین بن حسن الواسطی ؒ نے فرمایا:”آخر الأنبیاء“ (تاریخ المدینۃ لعمر بن شبہ ۲/۱۳۶، و المعجم الکبیر للطبرانی ۲/۲۲۱ ح ۶۲۵۱)
3۔ حضرت حذیفہ بن الیمانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وأنا المقفٰی۔اور میں مقفیٰ یعنی آخری نبی ہوں۔ (شمائل الترمذی:۶۶۳،۷۶۳)
4۔ حضرت ابو موسیٰ عبد اللہ بن قیس الاشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:أنا محمد و أنا أحمد و المقفیٰ…میں محمد ہوں، میں احمد ہوں اور المقفیٰ ہوں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۱۱/۷۵۴ ح۴۸۶۱۳ وسندہ صحیح، مسند احمد ۴/۵۹۳، صحیح مسلم:۵۵۳۲، دارالسلام: ۸۰۱۶)
5۔ حضرت ابو امامہ الباہلیؓ (صدی بن عجلان) نے بیان کیا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:وأنا آخر الأنبیاء و أنتم آخر الأمم۔ اور میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔ (سنن ابن ماجہ۷۷۰۴، صحیح ابن ماجہ۴۱۸، صحیح الجامع للالبانی ۵۷۸۷)
6۔ حضرت ثوبان (مولیٰ رسول اللہ ﷺ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:وإنہ سیکون فی أمتی کذابون ثلاثون کُلھم یزعم أنہ نبی، و أنا خاتم النبیین، لا نبی بعدی۔ اور بے شک میری اُمت میں تیس کذاب ہوں گے، ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے۔ اور میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (سنن ابی داود:۲۵۲۴ وسندہ صحیح)
7۔ حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:لوکان نبی بعدی لکان عمر بن الخطاب۔اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتے تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔ (سنن ترمذی:۶۸۶۳ و مسند احمد ۴/۴۵۱، مستدرک الحاکم ۳/۵۸ ح۵۹۴۴ وقال: ”ھذا الحدیث صحیح الإسناد ولم یخرجاہ“ وقال الذہبی: صحیح)
8۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:إن مثلی و مثل الأنبیاء من قبلی کمثل رجل بنی بیتًا فأحسنہ و أجملہ إلا موضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ و یتعجبون لہ ویقولون: ھلا وُ ضِعَتْ ھذہ اللَّبِنَۃُ؟ قال: فأنا اللبنۃ و أنا خاتم النبیین۔ بے شک میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس آدمی کی طرح ہے، جس نے بہت اچھے طریقے سے ایک گھر بنایا اور اسے ہر طرح سے مزین کیا، سوائے اس کے کہ ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ (چھوڑ دی) پھر لوگ اس کے چاروں طرف گھومتے ہیں اور (خوشی کے ساتھ) تعجب کرتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ اینٹ یہاں کیوں نہیں رکھی گئی؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا: پس میں وہ (نبیوں کے سلسلے کی) آخری اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔ (صحیح بخاری: ۵۳۵۳، صحیح مسلم: ۲۲/۶۸۲۲، دارالسلام:۱۶۹۵)
9۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:فضّلت علی الأنبیاء بست: أعطیت جوامع الکلم و نصرت بالرعب و أحلّت لی الغنائم و جعلت لی الأرض طھورًا و مسجدًا و أرسلت إلی الخلق کافّۃ و ختم بی النبیون۔
”مجھے انبیاء پر چھ فضیلتیں عطا کی گئی ہیں:مجھے جوامع الکلم (جامع کلام) عطا کیا گیا،رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی،میرے لئے مالِ غنیمت حلال کیا گیا،میرے لئے زمین کو پاک کرنے والی اور مسجد بنایا گیا،مجھے ساری مخلوق (تمام انسانوں اور جنوں) کے لیے رسول بنا کر بھیجا گیااور میرے ساتھ نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔ (صحیح مسلم:۳۲۵، دارالسلام:۷۶۱۱، مسند احمد ۲/۱۱۴، سنن ترمذی:۳۵۵۱)
10۔ حضرت سعید بن المسیب کی سند سے حضرت ابو ہریرہؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:لم یبق من النبوۃ إلا المبشرات۔نبوت میں سے سوائے مبشرات کے کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ لوگوں نے کہا: مبشرات کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا:الرؤیا الصالحۃ یعنی نیک خواب۔ (صحیح بخاری: ۰۹۹۶)
قرآن واحادیث کی ان ہی دلائل وبرائین کی روشنی میں یہ بات مسلم ہے کہ اب قیامت تک اگر کسی نے بھی اور کسی بھی ملک میں نبوت کا دعوی کیا تووہ صریح جھوٹا اور کذاب ہوگا۔ اس کی نبوت کو ماننے والا یا اس میں شک میں پڑجانے والا بھی مسلمان نہیں ہوسکتا۔ البتہ نبی اکرمﷺ کی احادیث میں موجود بشارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت سے پہلے متعدد نبوت کے جھوٹے دعویدار اٹھیں گے اور عوام الناس کو فتنہ میں مبتلا کریں گے۔ ان ہی میں سے ایک بدنام زمانہ مرزاغلام احمد قادیانی ہے۔
مزرا غلام احمد قادیانی(پیدائش 13 فروری 1835 وفات 26 مئی 1908) کی زندگی داغ دار ہے۔ تنازعات وتناقضات سے بھرپور ہے، وہ اپنے آپ کو کبھی مصلح امت کہتا ہے، کبھی عیسی مسیح کہتاہے،کبھی مہدی موعود کہتا ہے،تو کبھی نبی کہتا ہے اور کبھی ظلی نبی کہتا ہے۔اس کی تعلیمات میں نہ کوئی وزن ہے اور نہ کوئی جان ہے، اس کی کتابیں اور خطبات خوب صورت جلدوں اور اوراق میں شائع شدہ ضرور ہیں لیکن زبان وبیان انتہائی سوقیانہ، گھٹیا اور کم زور ہیں۔ اس کی زبان میں نہ کوئی فصاحت وبلاغت ہے اور نہ کوئی عصری معنویت ہے۔ اس کے لباس اور چہرے میں نہ کوئی نورانیت اور نہ ہی شرافت وبزرگی کے آثار ہیں۔ اس کے عادات وسلوک میں نہ کوئی امتیاز ہے اور نہ ہی اس کے اخلاق میں کوئی کشش ہے۔ اس کی زندگی میں نہ کوئی کاررنامہ ہے اور نہ کوئی قابل ذکر خدمات ہیں۔ اس کے متبعین اوصاف حمیدہ سے خالی ہیں۔ اس کی پوری زندگی،حتی کہ اس کی موت بھی نمونہ عبرت ہے۔ غرض وہ یکسر جھوٹا، مکار اور مغرب کا آلہ کار ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ نبوت کے ایک جھوٹے دعویدار کو کھڑا کیا گیا، اسے کچھ گر سکھائے گئے، اسے ایک کام دیا گیا، ایک مشن دیا گیا، افراد دئیے گئے، بڑا بڑا سرمایہ لگایا گیا، نتیجہ یہ ہے کہ وہ ظالم مرگیا لیکن اس کا مشن آج بھی زندہ ہے، اس لیے کہ اس کے پیچھے جو قوت کام کررہی ہے، وہ آج بھی اسلام کے خلاف متحرک ہے۔ نیپال میں بھی قادیانیت کا ٹولہ چالیس پچاس سال پہلے سے موجود ہے۔ اور قادیانیت کے باتنخواہ دعاۃ ومبلغین نیپال کے مختلف اضلاع میں سرگرم ہیں۔ جگہ جگہ ان کی سرگرمیاں انجام پارہی ہیں، ان کے مراکز اور دفاتر قائم ہیں۔ صنعتی میلوں اور بک فیسٹیولس میں یہ اپنا دعوتی بک اسٹال بے خوف ہوکر لگاتے ہیں اور مسلمانوں کو گم راہ کررہے ہیں۔ اور جاہل مسلمان دن بدن ان سے متاثر ہورہے ہیں اوراپنا دین وایمان کھوتے جارہے ہیں۔
قادیانیت یامرزائیت یا جماعت احمدیہ کی بنیاد 23 مارچ 1889کو لدھیانہ میں رکھی گئی۔ اس وقت قادیانیت ایک عالم گیر فتنہ بن چکا ہے۔ پوری دنیا میں اس کے خلاف علمائے اسلام اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، سعودی عرب، مصر اور دیگر اسلامی ممالک اور دنیا کے تمام ممالک کے علماء نے متفقہ فتوی اور بیان دیا ہے کہ قادیانیت دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ احمدی یا قادیانی مسلمان نہیں ہیں۔ مجلس تحفظ ختم نبوت، تحریک تحفظ ختم نبوت کے ناموں سے انجمنیں اور جماعتیں بنائی گئی ہیں۔بڑے بڑے اجلاس کا انعقاد کیا گیا ہے، متعدد کتابیں اور فولڈرس شائع کیے گئے۔مجلس تحفظ ختم نبوت نیپال بھی اسی مقصد کے پیش نظر قائم کی گئی ہے اور موقع موقع سے اس میدان میں اپنی سرگرمی انجام دے رہی ہے۔ تمام مسلمانان نیپال، علمائے کرام اور بالخصوص خطباء حضرات سے گزارش ہے کہ اپنے خطبوں، اصلاحی اجتماعات اور جلسوں میں ختم نبوت کوبھی موضوع بنائیں، عوام ا لناس کو قادیانیت کے فتنہ سے آگاہ کریں اور اس کی سرکوبی ومکمل خاتمہ کے لیے اپنی کوششیں تیز تر کردیں۔ دینی جماعتوں اور مدارس وجامعات کے ذمہ داران سے خصوصی التماس ہے کہ اپنے اثرورسوخ کا استعمال کریں اور مسلمانوں کو ساتھ لے کر اس فتنہ کو جڑ سے ختم کریں۔
اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کے دین وایمان کی حفاظت فرمائے اور امت کو قادیانیت کے فتنہ سے محفوظ فرمائے۔ آمین!

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter