امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے درمیان بدھ کے روز بات چیت ہوئی جس میں دونوں سربراہان نے قومی سلامتی اور ایران کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے جمعرات کے روز بتایا کہ دونوں شخصیات نے قومی سلامتی کے مشترکہ مفادات کو مضبوط بنانے کے سلسلے میں امریکا اور اسرائیل کے درمیان تعاون پر بات چیت کی۔ اس کے علاوہ خطے میں ایران کی شرپسندی کی سرگرمیوں پر روک لگانے کی کوششیں بھی زیر بحث آئیں۔
اس موقع پر نیتن یاہو نے تہران پر نئی پابندیاں عائد کرنے سے متعلق ٹرمپ کے ارادے کا خیر مقدم کیا۔
مئی 2018 میں واشنگٹن کی جانب سے ایرانی جوہری معاہدے سے یک طرفہ طور پر علاحدہ ہونے کے بعد سے خلیج کے تزویراتی علاقے میں کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔
اس علاحدگی کے بعد واشنگٹن نے ایک بار پھر تہران پر سخت پابندیاں عائد کر دیں۔ اس کے نتیجے میں ایران مذکورہ جوہری معاہدے سے متوقع اقتصادی فائدوں سے محروم ہو گیا۔ معاہدے کے بقیہ فریق روس، چین، فرانس، برطانیہ اور جرمنی ابھی تک سمجھوتے میں شامل ہیں۔
برطانیہ کے آخری اعلان کے مطابق ایرانی بحری جہازوں نے بدھ کے روز آبنائے ہرمز کے راستے گزرنے والے ایک برطانوی تیل بردار جہاز کو روکنے کی کوشش کی۔ اس پر برطانیہ کی رائل نیوی مذکورہ تیل بردار جہاز کی مدد کے واسطے ایک فریگریٹ بھیجنے پر مجبور ہو گئی۔
تہران نے غیر ملکی بحری جہازوں کے ساتھ کسی بھی مقابلے کی تردید کی ہے۔
جمعرات کے روز خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے ایک برطانوی سیکورٹی ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ برطانیہ نے ایرانی پانی سے گزرنے والے برطانوی جہازوں کے لیے جہاز رانی کا سیکورٹی لیول بلند ترین سطح پر کر دیا ہے۔ ذریعے نے باور کرایا کہ برطانیہ خلیج میں اپنے سمندری مفادات کا دفاع کرنے کے لیے پر عزم ہے تاہم وہ جارحیت کے لیے کوشاں نہیں۔
ادھر امریکی مرکزی کمان کے ترجمان کیپٹن بِل اوربین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی جہاز رانی کو درپیش خطرے کو بین الاقوامی سطح پر حل کرنا لازم ہے۔ انہوں نے کہا کہ "عالمی معیشت تجارت کے آزادانہ بہاؤ پر انحصار کرتی ہے۔ لہذا تمام ممالک کا یہ فرض ہے کہ وہ عالمی ترقی اور بہبود کے اس مرکزی عنصر کا تحفظ کریں”۔
واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرانس کی وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ علاقائی امن و استحکام اور جہاز رانی کی آزادی کے موقف پر سختی سے قائم ہے۔
آپ کی راۓ