’’اسرائیلی انتخابات میں بھی تبدیلی کے نعرے‘‘

9 اپریل, 2019
اسرائیل میں منگل کو عوام یہ فیصلہ کر رہے ہیں کہ اگلی مدت کے لیے وہ حکومت وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کے ہی حوالے کریں یا پھر  سیاست میں نووارد سابق فوجی سربراہ اقتدار سنبھالیں گے۔
انتخابات پر نظر رکھنے والے مبصرین کے مطابق سخت مقابلے کے بعد اس بات کا امکان ہے کہ ایک بار پھر دائیں بازو کے سیاست دان نتن یاہو بہت کم فرق سے جیت جائیں تاہم ان کو حکومت بنانے کے لیے اتحاد تشکیل دیتے وقت طویل اور مشکل مذاکرات سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔
اب تک سامنے آنے والے رائے عامہ کے جائزے بتاتے ہیں کہ کرپشن کے الزامات کے باوجود نتن یاہو اتحادی حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں ہوں گے۔
دوسری جانب وزیراعظم کے امیدوار سابق فوجی سربراہ بنی گانتز نے اپنی سکیورٹی خدمات کو سامنے لاتے ہوئے نتن یاہو کوانتخابات میں سخت چیلنج دیا ہے۔
بنی گانتز کا کہنا ہے کہ وہ اس نقصان کا ازالہ کریں گے جو نتن یاہو نے اپنی’ تقسیم کرنے کی سیاست‘ سے ملک کو پہنچایا ہے۔
حالیہ انتخابات کو 69 سالہ نیتن یاہو کے لیے ریفرنڈم سمجھا جا رہا ہے جن کی شہرت ملک کو معاشی اور دفاعی لحاظ سے مضبوط کرنے کی ضمانت ہونے والے رہنما کی ہے تاہم ملک میں بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی مبینہ کرپشن کی وجہ سے تبدیلی ضروری ہے۔
بن یامین نتن یاہو نے اپنے انتخابی منشور اور مہم میں عوامی پسندیدگی کے لیے ایسی باتیں کی ہیں جن کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ ان سے اسرائیلی عربوں اور دوسروں کے خلاف نفرت پھیلی۔
ماضی کی طرح ان انتخابات سے تین روز قبل بھی نتن یاہو نے ایک متنازع اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ کامیاب ہونے پر مقبوضہ غرب اردن پر بنائی گئی بستیوں ضم کریں گے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو بڑے پیمانے پر غرب اردن تک پھیلانے سے علاقے میں فلسطینیوں کے ساتھ دو ریاستی حل کی امیدوں کو مزید موہوم کر دے گا۔
خیال رہے کہ یہ اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے حامیوں یہ ایک پرانی کوشش ہے۔
انتخابات سے قبل نتن یاہو نے خود کو اسرائیل کے لیے انتہائی ضروری سیاست دان کے طور پیش کیا ہے۔ انہوں نے اپنے پرانے اتحادی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، روسی صدر ولادی میر پوتن اور برازیل کے جیر بولسنارو سے ملاقاتیں کی ہیں ۔
نتن یاہو نے ٹرمپ کی جانب سے یروشیلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے اور گولان کی پہاڑیوں پر اس کی ملکیت ماننے کو بھی اپنی کامیابی کے طور پر پیش کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ غرب اردن کی بستیوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کے منصوبے سے بھی امریکی صدر آگاہ ہیں۔
اسرائیل کی ایک مقامی نیوز سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے نتن یاہو نے کہا کہ ’میرے علاوہ اور کون ہے جو یہ سب کر سکتا ہے؟ سچ بتائیں؟‘
 نتن یاہو نے کہا کہ وہ کون ہے جو دنیا کے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے؟ وہ کون ہے جو امریکی کانگریس کے سامنے کھڑا ہوسکتا ہے؟ وہ کون ہے جو عوامی رائے کو اس طرف موڑ سکتا ہے؟
امریکی صدر کی طرح نتن یاہو نے بھی خود پر لگے الزامات کو سازش قرار دیتے ہوئے ان صحافیوں کی توہین کی جو ایسی خبریں دیتے ہیں۔
  •  ’یہ تبدیلی کا وقت ہے‘

دوسری جانب ان کے مخالف 59 سالہ گانتز نے انتخابی مہم میں نتن یاہو پر کرپشن کے الزامات لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ تبدیلی کا وقت ہے۔‘
اعتدال پسند جماعتوں کے اتحاد کی سربراہی کرنے والے گانتز نے نتن یاہو کے بستیوں کو ضم کرنے کے اعلان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دائیں بازو کے ووٹ لینے کی ایک کوشش ہے۔
 اس مسئلے پر اپنی پوزیشن بتاتے ہوئے گانتز نے کہا کہ وہ عالمی حمایت یافتہ امن منصوبے کے حق میں ہیں جس سے اسرائیل مغربی کنارے کے علاقے میں سکیورٹی کنٹرول حاصل ہوگا۔
انہوں نے اس معاملے پر کسی بھی یک طرفہ اقدام کی مخالفت کی۔
 گانتز نے اسرائیلی فوجی ریڈیو پر کہا کہ ’اس وقت تبدیلی کی ضرورت ہے اور یہی موقع ہے کہ تبدیلی لائی جائے۔‘
مبصرین کے مطابق رائے عامہ کے جائزے بتاتے ہیں کہ 120نشستوں والی اسرائیلی پارلیمان میں کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی۔ دونوں بڑے اتحاد 30نشستیں کم لیں گے جن کو چھوٹی جماعتوں کی حمایت کے حصول کے لیے مذاکرات کرنا پڑیں گے۔
اگر نتن یاہو انتخابات میں کامیا ب ہوتے ہیں تو وہ سابق وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان کا ریکارڈ توڑ دیں گے۔
وزیراعظم منتخب ہو نے کی صورت میں اس سال کے اختتام پر وہ 13سال سے زائد عرصہ برسراقتدار رہنے والے رہنما بن جائیں گے۔
  • بن یامین نتن یاہو کو بدعنوانی کے الزامات کا سامنا 

دوسری جانب یہ خدشہ بھی ہے کہ کامیابی کی صورت میں نتن یاہو پر مقدمہ بھی چل سکتا ہے اور وہ پہلے اسرائیلی وزیراعظم ہوں گے جن پر فرد جرم عائد کی جائے گی۔
 ملک کے اٹارنی جنرل نے اعلان کیا ہے کہ وہ نتن یاہو پر رشوت، فراڈ اور عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچانے پر فردجرم عائد کریں گے۔
اسرائیلی قانون کے مطابق فردجرم عائد ہونے پر وزیراعظم کو ہٹایا نہیں جا سکتا جب تک ان کا جرم ثابت نہ ہو جائے اور اپیل کے تمام دستیاب فورم سے رجوع نہ کر لیا جائے۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter