صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم اور روسی حکام کے درمیان ساز باز کی تحقیقات کرنے والے رابرٹ ملر کی ٹیم کے بعض تفتیشی افسران نے انکشاف کیا ہے کہ ان کی تحقیقاتی رپورٹ میں صدر کے خلاف بعض اہم شواہد موجود ہیں۔
امریکی اخبارات نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے بدھ کو اپنی رپورٹس میں دعویٰ کیا ہے کہ رابرٹ ملر کی ٹیم کے ارکان اٹارنی جنرل ولیم بر کی اس رائے سے متفق نہیں کہ رپورٹ میں صدر کے خلاف ایسے شواہد نہیں ہیں کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوسکے۔
اٹارنی جنرل نے 24 مارچ کو رابرٹ ملر کی رپورٹ کا چار صفحات پر مشتمل خلاصہ خط کی صورت میں ارکانِ کانگریس کو بھیجا تھا۔
خط میں اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ رابرٹ ملر کی ٹیم کو ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ صدر ٹرمپ یا ان کی انتخابی مہم کے کسی ذمہ دار نے 2016ء کا صدارتی انتخاب جیتنے کے لیے روس کے ساتھ کوئی ساز باز کی تھی۔
خلاصے میں اٹارنی جنرل نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ رابرٹ ملر نے اپنی رپورٹ میں یہ نہیں کہا کہ صدر نے خود پر عائد الزامات کی تحقیقات میں رکاوٹ ڈالی تھی۔ لیکن خط کے مطابق ملر نے صدر کو اس الزام سے مکمل بری الذمہ بھی قرار نہیں دیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا تھا کہ رابرٹ ملر کی رپورٹ میں صدر کے متعلق کوئی حتمی نتیجہ یا سفارش نہ ہونے کی وجہ سے وہ اور ڈپٹی اٹارنی جنرل روڈ روزنسٹین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ صدر کے خلاف کسی قسم کی قانونی کارروائی کا کوئی جواز نہیں۔
لیکن نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ رابرٹ ملر کی ٹیم سے منسلک تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل نے ان کی تحقیقات کے نتائج درست طور پر پیش نہیں کیے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ رابرٹ ملر کی ٹیم کو یقین ہے کہ انہوں نے صدر کے خلا ف تحقیقات کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے الزام سے متعلق جو شواہد اکٹھے کیے ہیں وہ "بہت اہم اور سنگین نوعیت” کے ہیں۔
آپ کی راۓ