میں ہوں اور ماتمِ اک شہرِ آرزو

7 فروری, 2019

خان جاوید اختر ایک بے باک نڈر قلمکار و صحافی ہیں سماجی برائیوں اور دھرم کے نام پر ہو رہی ٹھیکہ داریوں پر گہری نظر رکھتے ہیں معاشرتی مسایل کے حل پر بیباک راۓ پیش کرتے ہیں ان کی تحریریں بنا لاگ لپیٹ کے سماج کو بہت کچھ پیغام دے جاتی ہیں- ع ص  

میں کیا اور میری بساط کیا کہ شہر نگاراں کے کچھ کریہہ چہروں کو آئینہ دکھاؤں جو اسلام کے نام پر اسلام ہی کا دھندہ کر رہے ہیں….
جس طرح وہ اور ان کا ضمیر بازاری ہے وہ اسلام کو دنیا کے سامنے ایسا ہی پیش کرنا چاہتے ہیں….
اختر جاوید! تم بڑے روسیاہ ہی سہی! گناہوں کا ایک پٹارہ آئے دن تم اپنی آخرت کے لیے تیار رکھتے ہو لیکن یہ کہہ کر اپنے ضمیر کو تسلی دے لو کہ تم نے اسلام، دین اور مذھب کے نام کبھی کوئی دکان نہیں کھولی اور تمہارے اندر اتنا دم بھی نہیں کہ کھول سکو۔
یہ مولوی لق لق اور ان جیسے لقلقیوں کا کام ہے بھلا تم کہاں اور یہ مقدس کام کہاں ؟
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا….
عرض نیاز کچھ یوں ہے کہ کل مولانا لق لق کے ایک اسکول ٹیچر سے ملاقات ہوئی۔ علیک سلیک کے بعد پوچھ بیٹھا… اب بھی لق لق کے اسلامک فرضی اسکول ثم جعلی کالج میں پڑھا رہی ہو؟
کہنے لگی نہیں تو…..! کب کا چھوڑ چکی ہوں۔
"چھوڑ چکی یا نکال دی گئی؟”
کہنے لگی سر وہاں چھوڑنے کی نوبت کہاں آتی ہے؟
خدائے بزرگ جب جس کو چاہتے ہیں اپنی بنائی ہوئی شدادی اور چندے کی جنت سے کان پکڑ باہر کرتے ہیں..
میں نے کہا خدا تو مختار کل ہوتا ہے.. جو چاہے سو آپ کرے لیکن خدا حرام خور نہیں ہوتا کہ کسی کی سیلری ہضم کرجائے…
اچھا یہ بتاؤ اس نے تمہیں سیلری دی…..؟
برجستہ گویا ہوئی:
"یہ خدائے یزداں نہیں بلکہ خدائے اہرمن ہے…. مجھ سے پہلے صرف چھ مہینوں میں ایک دو چار نہیں بلکہ چھبیس سے اٹھائیس ٹیچروں کو محض سیلری غصب کرنے لیے نکال چکا ہے….”
پھر غصیلے بمبیا لہجے بولی….!
اس حرام خور کو بہت ذلت دے کے آئی ہوں….!
میں نے کہا….! کیسی ذلت اور کیونکر ذلت. ….! ایسے لوگ عزت اور ذلت دونوں سے بے نیاز ہوتے ہیں
….
اس کا جواب تھا…
سر آپ نے صحیح کہا….
میں نے تو اسے اسلام کا حوالہ دیا اور کہاں کہ تم رات دن اسلام، اللہ، قرآن اور مسلمان کی بات کرتے ہو لیکن آر یو ٹوٹلی حرام اور بہت کچھ
میں نے کہا افسوس….. تم نے اپنے اتنے سارے ذلیل الفاظ ضائع کردیے… یہ کہیں اور کام آتے… یہاں تو آوے کا آوے کالا ہے…. تم نے اقبال کا نام سنا ہے….. کہنے لگی….. وہی سارے جہاں سے اچھا والے….. میں نے کہان ہاں…. وہی…انہوں کہا ہے
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد مومن پر کلامِ باحیا ہے بے اثر( یہاں مومن سے مراد لقلقی مومن ہے)

میں نے کہا وہ خدائے اہرمن بعد میں بنا ہے پہلے وہ مولانا لق لق تھا چندہ خور لقلق اور آج بھی لق لق ہے….. ابھی ایک دوسال قبل کی بات ہے مولانا لق لق کی آنجہانی تصویریں ممبرا کوسہ کے ہر گلی نکڑ پر اس حدیث ِ رسول کے ساتھ آویزان تھیں کہ مزدور کی مزدوری پسینہ سوکھنے سے پہلے ادا کردو۔ لیکن یہ دھرم کا ٹھیکیدار اتنا بڑا بے ایمان نکلا کہ مزدور کی مزدوری تو جانے دیں انکے پسینے کو بھی عرقِ انفعال سمجھ کر بیچ کھایا…. بھلا کون ہے جس نے اسلام کے اس ٹھیکدار مولانا لق لق کے یہاں مزدوری کی ہو اور لق لق نے اسے ٹھگا نہ ہو اسے برابر اجرت دی ہو…؟
ہر مزدور شاکی ہے….
یہ کہانی صرف ایک لق لق کی نہیں بلکہ دھرم کے نام پر دھندہ کرنے والے بیشتر ٹھیکداروں کی ہے چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان…
دھرم کو آپ بزنس بنائیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ یہ آپ کا دھرم ہے آپ من مرضی اسے استعمال کریں۔ لیکن خدا کے لیے دھرم کے ساتھ بے ایمانی مت کریں۔ بلکہ ساری بے ایمانیاں ہم ادھرمیوں کے واسطے چھوڑیں..
ہم خدا کی قسم دین کےنام پر کچھ نہیں کریں گے….
نہ بین الاقوامی چندہ ایجنسی چلائیں گے، نہ بچوں سے چندہ کرائیں گے… ہم سے جو بھی بے ایمانیاں ہوں گی وہ کم ازکم دھرم کے نام پر نہیں ہوں گی لوگ اسلام کو برا بھلا نہیں کہیں گے۔ کیونکہ ہم پہلے ہی سے ادھرمی اور لبرل ہیں۔۔۔۔۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter