ذہن ارجمند، زبان ہوش مند؛ آہ! مولانا اسرار الحق قاسمی

ابو اشعر فھیم

7 دسمبر, 2018

آج #ہندوستان میں ایک ایسا شخص ہم سے اچانک جدا ہوگیا، جو #ذہن ارجمند، #زبان ہوش مند اور #دل درد مند کا مالک تھا،
جس کا قلم، قدم اور قول و قلب ہمیشہ قوم کے لیے چلتا رہا، اس کا آخری قول اور بول بھی قوم کے روشن مستقبل ہی کے لیے تھا، اس کی آخری سانس بھی ملت کو گرمی پہونچا گئ، جو ایک مکتب سے اٹھا اور عوام کے اعتماد پر #مقتدرہ اعلیٰ یعنی #پارلیامنٹ تک پہونچا،
یہ داڑھی اور ٹوپی والا اور سانولی رنگت والا فقیرِ باصفا بغیر کسی باڈی گارڈ کے پورے ملک اور گاؤں گاؤں پہونچتا رہا، اس نے مئو ناتھ بھنجن کو بھی اپنی سر گرمیوں اور تقریری صلاحیتوں سے فائدہ پہونچایا، ان کا آخری خطاب مسلم انٹرکالج کے وسیع و عریض کیمپس میں محترم سالم انصاری صاحب سابق ممبر آف پارلیامنٹ کی قیادت میں ہوا، جہاں ملت کے اس عظیم محسن عالم دین اور ممبر پارلیامنٹ نے قوم کو خطاب کیا ، وہ مئو میں سالم انصاری صاحب کے مہمان رہے، مئو میں مولانا ابصارالحق قاسمی اور اویس طرفدار صاحبان سے بھی ان کی قربت رہی، وہ #مئو کے پروگراموں کو ہمیشہ ترجیح دیتے تھے، جب بھی انہیں آواز دی گئ، انہوں نے لبّیک کہا _
مسلم انٹر کالج میں ہونے والی ان کی دردمندی اور ہوش مندی والی تقریر کانوں میں آج بھی رس گھول رہی ہے،
پارلیامنٹ جانے سے پہلے بھی ان کی تحریریں مولانا اسعد مدنی مرحوم کی تقریروں کی شکل میں پارلیامنٹ میں پہونچ رہی تھیں، بعد میں اللہ نے انہیں خود عوامی ؤوٹ کی بنیاد پر پارلیامنٹ میں پہونچادیا، وہ گرجنے اور برسنے والے آدمی نہیں تھے، وہ ملک کے شروانی والے #سالار ملّت والے قائد نہیں تھے، وہ فقیر اور بے لوث آدمی تھے، جب انہیں سالار ملّت نے بہار پہونچ کر خصوصا کشن گنج میں ان کو ایک اسکیم کے تحت شکست دینے کی کوشش کی تو عوام نے مخالف کی نہ صرف شروانی اتروادی بلکہ مولانا کے # گمچھے کو ایسے وقت میں پارلیامنٹ میں لہرادیا جب ہر طرف نفرت و نفاق کا کیچڑ تھا اور اس میں ہر طرف صرف #کمل کا پھول ہی کھلا تھا، مولانا کا #ہاتھ اس نازک وقت میں بھی مضبوط رہا، وہ حکمت و بصیرت کے آدمی تھے وہ بیان و گفتار سے زیادہ عمل اور کردار پر یقین رکھتے تھے، گفتار کے غازیوں کے سامنے وہ ہمیشہ حکمت کی بنیاد پر خاموش رہتے تھے _
اہل قلم ، صحافی اور ان کے خاص متعلقین ان کی زندگیوں کے مختلف گوشوں اور ان کی عظیم خدمات پر روشنی ڈالیں گے،
ایک #بڑی داڑھی والے نے علی گڈھ میں ایک مسلم کالج بنایا تھاجسے بعد میں علی گڈھ مسلم یونیورسیٹی کا درجہ حاصل ہوا ،
اس داڑھی والےنے ایک بڑا کام یہ کیا کہ بہار میں اور وہ بھی #کشن گنج میں علی گڈھ مسلم یونیورسیٹی کا کیمپس قائم کرانے میں میں اپنی پوری صلاحیت صرف کردی،
وفات سے ڈھائی گھنٹے پہلے تک ان کی سرگر میاں جاری رہیں، وہ زندگی بھر قوم کے بیچ رہے، اور ان کی وفات بھی قوم کے بیچ ہی ہوئی، ان کا دن تو چھوڑییے ان کی آخری رات بھی قوم کی نذر ہی رہی،
مولانا کو اگر ہم بہترین خراج عقیدت پیش کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں مولانا کے تعلیمی، سماجی، سیاسی اور رفاہی کاموں کو آگے بڑھانا ہوگا، اور ان کے ادھورے خوابوں میں رنگ بھرنا ہوگا، _
ہمارے ممدوح #مولانا اسرار الحق قاسمی کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں میں ڈھانپ لے اور انہیں اعلیٰ علّیین میں جگہ دے _
#غم زدہ
#ابو اشعر فھیم

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter