جہیز ۔ مسلم سماج میں موجود ایک بھیانک برائی

سراج احمد برکت اللہ فلاحیؔ

6 دسمبر, 2018

مسلم سماج  اللہ ورسولﷺ پر ایمان رکھتاہے، کتاب وسنت کی تعلیمات کو برحق مانتا ہے ، اسلام کو اللہ کا پسندیدہ دین تصور کرتا ہے ، نیکیوں سے محبت اور برائیوں سے نفرت کرتا ہے، اسلامی شریعت اور بالخصوص عائلی نظام کو باعث رحمت مانتا ہے ، حلال وحرام کے احکام کو تسلیم کرتا ہے اور آخرت میں اللہ کی خوشنودی وجنت کا طالب ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج کا مسلم سماج اسلامی تعلیمات سے دور ہے ، نہ صرف یہ کہ اسلامی اخلاق و آداب اوراعلیٰ قدریں مفقود ہیں بلکہ  متعدد برائیوں میں لت پت ہے ۔ جاہلانہ رسوم ورواج میں الجھ کررہ گیاہے۔ ان ہی برائیوں میں سے ایک بہت بڑی اور بھیانک برائی شادی بیاہ کے موقع پر جہیز کا لین دین ہے۔

جہیز لغوی اعتبار سے سامان سفر کو کہتے ہیں۔ یعنی کسی لمبے سفر پر نکلتے وقت آدمی جو زادراہ ساتھ میں رکھتاہے اسی کو جہیز کہتے ہیں۔ عرف عام میں لڑکی کے گھر والے شادی کے موقع سے لڑکی کو یا لڑکی کے نام پر داماد کو اور داماد کے گھر والوں کو جوسازوسامان اور اسباب زندگی دیتے ہیں، اسی کو ہمارے یہاں جہیز کہاجاتاہے۔ جوروزمرہ استعمال ہونے والے گھریلوسامان ، موٹر سائیکل  اور کار کی شکل میں بھی ہوتاہے اور چیک، نقد، یا زمین کی شکل میں بھی ہوتا ہے۔

کتاب وسنت میں زندگی کے دیگر احکام کی طرح شادی بیاہ کی تعلیمات اور احکام بھی موجود ہیں۔ شادی بیاہ انسان کی بنیادی اور فطری ضرورت ہے۔لڑکی یا لڑکا جب بالغ ہوجائے اور شادی کی عمر کو پہنچ جائے تو والدین کوئی اچھا ، مناسب اور دیندار رشتہ دیکھ کر بات طے کرلیں ۔فریقین کاجس دن اور جگہ پر اتفاق ہوجائے ، اس دن چنداحباب کسی مجلس میں جمع ہوکر نکاح پڑھوادیں اور اگلے روز شادی کرنے والے مرد کی جانب سے خوشی ، اللہ کاشکر اور اعلان واظہار کے پیش نظر ایک معمولی دعوت ولیمہ کا اہتمام ہوجائے۔ جس میں پاس پڑوس کے لوگ اور وہ قریبی رشتہ دار جو بآسانی شریک ہوسکتے ہوں شریک ہوں، زوجین کو مبارک باد دیں اوران کے لیے دعائے خیر کریں۔

قرآن مجید میں نکاح کرنے اور کرانے کا حکم ہے۔ احادیث کی کتابوں میں کتاب النکاح کے تحت سینکڑوں احادیث ہیں ۔ ان میں صرف لڑکی یا لڑکا کی رضامندی، منگیتر کو دیکھنے،والدین کی سرپرستی،  خطبہ نکاح، اظہار مسرت ،ولیمہ اور دعائے خیرکے تبادلہ کا ذکر ملتا ہے ۔آج کل شادی بیاہ کے نام پر جو چیزیں رواج پاگئی ہیں  جیسےمنگنی، بارات ، جہیز،منہ دکھائی، سلامی، فلاں فلاں کا حق ، مختلف ناموں سے پیسوں یا  تحفوں کا لین دین وغیرہ  کا ذکر قرآن اور احادیث کی کتابوں میں کہیں نہیں ملتاہے۔احادیث میں جہیز کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ واضح رہے کہ حضرت علیؓ اور فاطمہؓ کی شادی کے موقع پرجو چند سامان مہیا کرائیے گئے تھے وہ حضرت علیؓ کے پیسوں سے لیا گیا تھا اور نبی اکرمﷺ چوں کہ حضرت علیؓ کے بھی سرپرست تھے اس لیے آپ ﷺنے اس میں دل چسپی لی اور اس کا انتظام کرنے میں مددکی تھی۔

اسلام میں نکاح کو آسان سے آسان بنایا گیا ہے ۔ جب رشتہ کی بات آئے تو بات چیت کا آغاز لڑکی والے بھی کرسکتے ہیں اور لڑکا والے بھی کرسکتے ہیں۔ بات چیت فائنل کرنے یا منگنی کے لیے بس اتنی سی بات کافی ہے کہ فریقین ضروری معلومات اور تعارف ایک دوسرے کو دے دیں، لڑکی لڑکا چاہیں تو ایک دوسرے کو دیکھ لیں اور اپنی پسند کا اظہار کردیں ۔

چند مخصوص  اور بہت قریبی رشتہ داروں کے علاوہ کسی بھی اہل ایمان سے شادی ہوسکتی ہے، پاس پڑوس میں، گاؤں وقرب وجوار میں،ملک وبیرون ملک میں کہیں بھی مناسب رشتہ پسند آجائے تو شادی ہوسکتی ہے۔ شادی میں برادری اور مسلک کی کوئی قید نہیں ہے ۔بڑی عمر کے آدمی کا چھوٹی عمر کی عورت سے اور چھوٹی عمر کے مرد کا بڑی عمر کی عورت سے بھی ہوسکتی ہے۔ کنوارہ کی شادی بیوہ سے  اور بیوہ یا مطلقہ کی شادی  کنوارہ سے بھی ہوسکتی ہے۔ہاں گھریلو اعتبارسے اپنے ہی معیار اور ماحول کی شادی زیادہ آسان اور موزوں ہوتی ہے اور زوجین کے لیے نباہ  آسان ہوتا ہے۔  سن شعور کوپہنچنے کے بعد کسی بھی عمر میں نکاح کیا جاسکتاہے۔ صبح ہویا شام، دن ہو یارات کسی بھی وقت کیا جاسکتاہے۔ مسجد ہو یا مدرسہ، گاؤں ہو یا شہر، گھرآنگن ہو یا کوئی پروگرام ہال کہیں بھی نکاح کیا جاسکتاہے۔ لڑکی لڑکا اوران کے سرپرست حضرات ہوں تو کسی بھی عوامی مجلس میں نکاح ہوسکتاہے جس میں لڑکا اپنی استطاعت کے مطابق مہر دے گا اور ایجاب وقبول ہوجائے گا۔ مہر روپیہ پیسہ بھی ہوسکتا ہے اور کوئی معنوی چیز بھی ہوسکتی ہے۔مہر فوری طور پر بھی دیاجاتاہے اور مجبوری ہو تو موخر بھی کیا جاسکتاہے۔ پہلے صرف نکاح ہواور کچھ مدت بعد رخصتی ہویا نکاح اور رخصتی ایک ساتھ ہو،دونوں شکلیں جائز ہیں۔غرض کہ اسلام میں نکاح حددرجہ آسان ہے۔

شادی بیاہ خالص دینی معاملہ ہے ۔ دین ہی کی بنیاد پر اس کا آغاز ہونا چاہیے ۔ شادی بیاہ کے سارے امور دین کے دائرہ میں رہ کر ہی انجام دینا چاہیے۔ ایسی صورت میں زندگی خوش گوار ہوگی۔خطبہ نکاح میں جو منتخب آیات پڑھی جاتی ہیں ان میں بار بار تقوی اور دینداری کی بات کہی گئی ہے۔اور حدیث میں ہے کہ شادی کے لیے لڑکیوں میں چار خوبیاں دیکھی جاتی ہیں ۔ خوبصورتی، مالداری، خاندان اور دینداری، تم دیندار لڑکی کاانتخاب کرو۔ ان چاروں خوبیوںمیں دینداری ہی اصل خوبی ہے جو افضل  اور دائمی  ہے اور سب پر بھاری بھی ہے۔ باقی چیزیں یاتو عمر کےساتھ زائل ہوجانے والی ہیں، یا عارضی اور غیریقینی ہیں ۔  

موجودہ وقت میں جہیزہی کی وجہ سے شادی بیاہ بہت بھاری بھرکم اور بڑا خرچیلا کام بن کر رہ گیاہے۔ جہیز کا ایک ایک سامان جمع کرنے میں مہینے بلکہ سال لگ جاتے ہیں۔ نکاح انتہائی مشکل ترین ہوگیاہے اور زناوبدکاری جیسی برائی ایک عام سی بات ہوکر رہ گئی ہے۔نئی نسل اس  برائی کو بس ایک کھیل سمجھنے لگی ہے۔ حدیث میں ہے کہ سب سے بابرکت شادی وہ ہے جس میں سب سے کم خرچ کیا گیا ہو۔

آج دیکھاجارہاہے کہ جہیز کے نام پر بڑی تعداد میں سامان مانگے جاتے ہیں ۔ موٹر سائیکل، کار، بیڈبستر، کرسیاں، صوفہ ، بکس، الماری، کولر ، فریج،انورٹر، واشنگ مشین، سلائی مشین، مختلف اشیاء سے بھراہوا ٹرنک اور نہ جانے کیا کیاہوتاہے۔ لڑکی والے چاہے جتنا سازوسامان  دے دیں اس میں کمی اور نقص باقی ہی رہتی ہے۔ باقاعدہ سامانوں کے نام بتابتا کر پوری بے شرمی سے جہیز کا مطالبہ کیا جاتاہے۔ اور نہ لانے کی صورت میں اپنی ہی بہو کوموقعہ موقعہ سے جملے کسے جاتے ہیں اور زندگی بھراسے طعنہ دیا جاتاہے۔ بلکہ اس کی زندگی اجیرن کردی جاتی ہے۔ کبھی طلاق کی نوبت آتی ہے تو کبھی بہو اپنی جان سے ہی کھیل جاتی ہے۔  اس لئے اس بات کو خوب سمجھ لیجئے:

جہیز فضول خرچی ہے ۔  شادی میں بلاضرورت سامانوں کی لمبی فہرست بنانا، سامان تعیش کا اضافہ کرنا، اور مختلف اشیاء کے نام پر کئی کئی لاکھ بلکہ کروڑوں تک خرچ کردیاجاتاہے۔جوسراسر فضول خرچی اور ناجائز عمل ہے۔

جہیز تباہی ہے ۔ اس کی وجہ سے اخلاق واقدار تباہ ہوگئے ۔ حیاء وشرم کا جنازہ اٹھ گیا ، عفت وپاک دامنی پارہ پارہ ہوگئی ، گھریلو اور عائلی زندگی سے محبت ومودت اور ہم دردی ختم ہوکر رہ گئی ہے۔

جہیز ایک لعنت ہے، ہرمسلمان اس کو برابھلا کہتاہے، جہیز لینے والوں کو بری نگاہ سے دیکھتا ہے ، ان کو لعن طعن کرتاہے، اس کی وجہ سے سماج میں بھائی چارہ اور اخوت  و محبت رخصت ہوگئی ہے۔ اللہ کی برکتیں اور رحمتیں بھی چھن گئی ہیں۔

جہیز ڈاکہ زنی ہے۔ اس میں ایک آدمی دوسرے آدمی  کے گھر سے  شادی کے بہانےڈھیرسارا سامان ناحق دن دھاڑے لوٹ کر چلاآتاہے۔

جہیز رسوائی ہے اس کی وجہ سے شوہر اپنی ہی بیوی کی نگاہ میں رسوا ہوتا ہے اور شوہر  اپنی بیوی سے واقعی احترام ومحبت کبھی نہیں پاسکتا ہے۔ سسرال والوں کی نظر میں بھی ذلیل اور خود غرض ہوجاتاہے۔

جہیز بے شرمی ہے ۔ بیوی کے لائے ہوئے سازوسامان سے گھر سجانے والا اور اس کے بیڈبستر اور دیگر سامان زندگی سے لطف اندوز ہونے والا مرد بے شرم ہی کہلائے گا۔

جہیز آفت ہے، اس کی وجہ سے تقوی اور دینداری کی روح اور اس کے سارے مظاہر جل کر راکھ ہوگئے ہیں۔عزت اور بڑائی کا معیار اب تقوی نہیں رہا ۔ مالدار لوگ ہی اب بڑے اور عزت دار سمجھ لیے گئے ہیں۔

جہیز موت ہے، اس کی وجہ سے نہ جانے کتنی بچیاں خودکشی کرلیتی ہیں ، نہ جانے کتنی بچیوں کو رحم مادر میں ہی قتل کردیاجاتاہے، نہ جانے کتنے والدین پھانسی لگالیتے ہیں، نہ جانے کتنی نوجوان لڑکیا ں جہیز کی وجہ سے شرم وحیاء ، عفت وپاکدامنی ، والدین کی عزت وناموس، اور دین وایمان کو تیاگ بیٹھتی ہیں۔

جہیز غیراسلامی رسم ہے، جو ہندوانہ رسوم ورواج اور غیراسلامی روایات سے مسلم سماج میں داخل ہو گیاہے۔ نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرام ؓکی زندگی میں اس کاکوئی تصور نہیں ملتاہے۔

جہیز ایک متعدی گناہ یعنی گناہوں کو جنم دینے  والا گناہ ہے اس کی وجہ سے حرام کاروبار، سود، وراثت میں اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی، بیوی اور اس کے اہل خانہ کے ساتھ غیراخلاقی حرکتیں اور بدسلوکی غرض کئی گناہ جنم پاتے ہیں۔

جہیز کی وجہ سے مسلم سماج کی صورت حال بہت خراب ہوگئی ہے۔ شادیوں میں تاخیر، بے پردگی، زناوبدکاری، قطع رحمی، فضول خرچی ، سودی لین دین، پردیس کی نوکری، ریاکاری، فضول خرچی، غرض کئی سماجی برائیاں ہیں جوجہیز کی وجہ سے ہمارے سماج میں پنپ رہی ہیں بلکہ سماج کو کھائے جارہی ہیں اور دینی شناخت گم ہوتا چلاجارہاہے۔ بدکاریاں عام ہوگئی ہیں اور عفت وپاک دامنی عنقا ہوتی جارہی ہے۔

کیا امیر کیا غریب، کیا شہری کیا دیہاتی، کیا پڑھے لکھے لوگ کیا جاہل عوام، کیا دین دار کہے جانے والے افراد کیا بے دین لوگ، کوئی محفوظ نہیں ہے۔ پورا مسلم سماج جہیز کے جال  میں پھنسا ہواہے۔ گھر گھر اس سے تباہ اور پریشان ہے ۔ اس کی جڑیں بہت گہری ہوگئی ہیں ۔

آج ضرورت ہے کہ سماج کو جہیز سے روکا جائے ، اس رسم بد کو ختم کیا جائے، اور اس گناہ عظیم سے مسلم سماج کو مکمل پاک کیا جائے ۔ اس کی روک تھام کے لیے درج ذیل تدابیر اختیار کرنے کی شدید ضرورت ہے۔

1۔ اپنی، اپنے بال بچوں کی یا اپنے گھر والوں کی بلا جہیز شادی کرکے عملاً جہیز کے خلاف مہم کا حصہ بنیں۔

2۔دین کے حوالہ سے اور خود اپنا اثرورسو خ استعمال کرکے اپنے خاندان اور رشتہ ادروں کو بلا جہیز شادی بیاہ کے لیے مجبور کریں۔

3۔خطبات جمعہ میں جہیز کی حقیقت اور اس کی شناعت بیان کریں۔ فضول خرچی کاانجام اور اس کےنقصانات بتائیں اور وراثت کا اسلامی تصور سمجھائیں۔

4۔ گاؤں گاؤں میں دین دار اور بااثرلوگوں کی چھوٹی چھوٹی مجلس منعقد کریں اورکمیٹی بنا کر اس کے ذریعہ جہیز کے خلاف سب کو متحد کریں۔ اورمتحدہ محاذ بناکراپنے گاؤں سے عملاً اس کو ختم کریں۔

5جہیز اور بارات والی شادیوں میں ہرگزہرگز شرکت نہ کریں ۔ اس سے ان کی حوصلہ شکنی ہوگی اور  ایسے لوگ جہیز نہ لینے کے لیے مجبور ہوں گے۔

6۔خطبہ نکاح میں بلالحاظ اور بلاخوف لومۃ لائم جہیز کی حقیقت، اس کی قباحت اور اس کا حرام ہونا بیان کریں اور برملا قسم دلا کر جہیز کے لین دین سےدور رہنے کا اعلان و اظہار کروائیں ۔

7۔جہیز کے بجائے لڑکیوں کو وراثت میں حصہ دینے کی تلقین کریں۔ جولوگ عورتوں کو  مال وراثت میں حصہ نہیں دیتے ہیں  ان کواس کے لئے تیار کریں اور نہ دینے کی صورت میں ان کا سماجی بائیکاٹ کریں۔

8۔نکاح کی مجلس مسجدوں میں منعقد کریں اور کرائیں۔ خرچ کم ہوگا، گناہ کی جرات سرد ہوگی اور نبیﷺ کی ہدایت پر عمل کرنے کا داعیہ بھی پیدا ہوگا۔

9۔شادی بیاہ کی اسلامی تعلیمات اور بالخصوص رسول اللہﷺ  اور صحابہ کرامؓ کی شادیوں کے واقعات عوام الناس کے سامنے بیان کریں۔

10۔ اپنے حلقہ تعارف واحباب میں خود آگے بڑھ کر بلاجہیز شادی بیاہ طے کریں اور کرائیں۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter