دنیا کے 71ممالک میں توہین مذہب قابل ِسزا جرم

2 نومبر, 2018

رپورٹ: صابر شاہ

دنیا کے 71ممالک میں توہین مذہب قابل ِسزا جرم ہے۔الہامی کتاب توریت میں بھی مذہب کی اہانت پر موت کی سزا کا ذکر ملتا ہے۔اسلامی ممالک میں اردن میں توہین مذہب کی سزا نسبتاً کم یعنی تین سال قید اور جرمانہ ہے۔تفصیلات کے مطابق،ایسے دور میں کہ جب مذہبی آزادی اور آزادی اظہار رائے تنازعات میں گھری نظر آتی ہے، ایسے میں یونائیٹڈ اسٹیٹس کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی کی 2017کی رپورٹ میں دنیا کے 71ممالک کی نشان دہی کی گئی ہےجہا ں گستاخانہ خیالات اور توہین مذہب قابل سزا جرم ہیں۔جنگ گروپ اور جیو ٹیلی وژن نیٹ ورک کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق گستاخانہ خیالات کی سزائوں میں جرمانے سے سزائے موت تک کی سزائیں شامل ہیں۔تاہم ، 86فیصد ممالک میں گستاخانہ قوانین کے تحت قید کی سزائیں دی جاتی ہیں۔مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا میں گستاخانہ پابندیاں، استثنا سے زیادہ معمول ہیں ، جہاں 20میں سے 18قومیں اسلام کے خلاف باتوں کو قابل سزا جرم سمجھتی ہیں۔اس کے علاوہ یہاں کے 14ممالک میں ارتداد بھی قابل سزا جرم ہے۔

ایران اورپاکستان خطے میں ایسے دو ممالک ہیں جہاں سزائے موت قانون کا حصہ ہے، گو کہ افغانستان اور سعودی عرب میں بھی ایسا ہی ہے۔2013میں سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکن رعیف بداوی نے ایسا بلاگ تحریر کیا تھا جس میں ملک کے مخصوص نظریے اور مذہبی رہنما پر تنقید کی گئی تھی، جس پر انہیں 1000کوڑوں کی سزا سنائی گئی تھی۔امریکا میں گستاخی یا مذہبی عقائد کی بے حرمتی آئین کی پہلی ترمیم کے خلاف ہے، جس کے سبب کانگریس ، اظہار رائے کی آزادی کی تلخیص سے رکی ہوئی ہے۔فلم ، دی مریکل کے سبب بہت سے یورپی ممالک ممالک میں احتجاج شروع ہوگئے تھے ، ان میں پیرس بھی شامل ہے ، جہاں اس فلم کو گستاخانہ مواد پر مبنی سمجھا گیا ۔امریکا میں اس فلم کے ریلیز ہونے پر احتجاج ایک مرتبہ پھر شروع ہوگئے تھے ، جس کے بعد 1951میں حکام کو اس فلم کا لائسنس منسوخ کرنا پڑا۔گو کہ امریکامیں نفرت انگیز تقریر جرم نہیں ہے ، تاہم اگر مذہبی انتشار کی نیتعدالت میں ثابت ہوجائے تو کیس رجسٹرڈ ہوجاتا ہے۔ برازیل میں گستاخی قابل سزا جرم ہے ، وہاں وہاں ایک ماہ سے ایک سال تک کی سزا جرمانے کے ساتھ ہوسکتی ہے۔

کینیڈا میں بھی قانون کے تحت ہتک آمیز باتیں جرم سمجھی جاتی ہیں ، لیکن وہاں 1935سے اب تک کسی پر مذہبی اہانت کا مقدمہ نہیں چلا۔اسلامی ممالک میں اردن ایسا ملک ہے جہاں گستاخی کی سزا دیگر ممالک کے مقابلے میں ہلکی ہیں یعنی وہاں اس جرم کی سزا صرف تین سال قید اور جرمانہ ہے۔متحدہ عرب امارات میں گستاخی کے لیے شرعی سزائیں متعین ہیں۔ملائیشیا میں مذہبی اہانت پر تین سال تک قید اور 1ہزار ڈالرز جرمانہ تک کی سزائیں ہیں۔مئی 2016 میں انڈونیشیا کی ریاست جکارتہ کے عیسائی گورنر کو اسلام کے خلاف بات کرنے پر دو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔انڈونیشیا میں اس جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا 5برس ہے۔نائیجیریا اور صومالیہ میں مذہبی اہانت پر سزائے موت کی سزا دی جاتی ہے۔سوڈان میں بھی مذہبی اہانت اور نفرت انگیز تقریر پر زیادہ سے زیادہ 40کوڑوں کی سزا دی جاتی ہے، جب کہ اس کے علاوہ چھ ماہ قید اور بھاری جرمانے بھی کیے جاتے ہیں۔یورپ کے بیشتر ممالک میں بھی مذہبی اہانت کے حوالے سے قوانین موجود ہیں۔اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ میں یہ قابل سزا جرم ہے۔پولینڈ، آئرلینڈ، یونان، اٹلی اور روس میں اب بھی مذہبی اہانت پر فوجداری مقدمات ہوتے ہیں گو کہ عملی طور پر ایسا بہت کم ہوتا ہے۔

برطانیہ میں مذہبی اہانت پر آخری مرتبہ سزا 1921 میں دی گئی تھی ، جب جان ولیم گوٹ کو 9ماہ کی سزا سنائی گئی تھی۔البتہ برطانیہ میں مذہبی اہانت پر آخری مرتبہ سزائے موت 1697 میں دی گئی تھی۔سلمان رشدی نے 1988 میں مذہبی اہانت پر مبنی ناول لکھا تھا ، جس پر دنیا بھر کے مسلمان سراپا احتجاج ہوئے تھے ، تاہم برطانوی ہائوس آف لارڈز نے اسے سزا دینے سے انکار کردیاتھا۔ہائوس آف لارڈذ کا کہنا تھا کہ یہ قانون صرف عیسائی عقیدوں کے تحفظ کے لیے ہے۔حالاں کہ ایرانی مذہبی عالم آیت اللہ خمینی نے 1989 میں سلمان رشدی کی موت کا فتویٰ دیا تھا۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کچھ روز قبل ہی یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے فیصلہ دیا کہ اسلام کی عظیم شخصیات کی اہانت کو آزادی اظہار رائے کا تحفظ حاصل نہیں ہے۔یہ کیس ایک آسٹریاکی خاتون لائی تھیں ، انہیں توہین مذہب پر سزا سنائی گئی تھی اور 546ڈالرز جرمانہ کیا گیا تھا۔ڈنمارک میں مذہبی اہانت کے قانون کے تحت سزا 1938میں سنائی گئی تھی جب ایک نازی گروہ کو سزا دی گئی تھی۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter