آہ! حافظ عبد الحکیم فیضی رحمہ اللہ : مختصر حالات ؛ تاثرات؛ نثر و نظم

متعدد اصحاب قلم

12 ستمبر, 2018

حافظ عبد الحکیم فیضی رحمہ اللہ سابق صدر شعبہ حفظ جامعہ سلفیہ بنارس  مورخہ ١١ ستمبر ٢٠١٨ کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے تھے بعض اصحاب قلم کے تا ثرات موصول ہویے ہیں انھیں نشر کیا جارہا ہے – چیف ایڈیٹر

 

حسن و اخلاق کا پرتو تھے حافظ عبدالحکیم فیضی رحمہ اللہ: عبدالعظیم مدنی
جھنڈانگر نیپال سے مولانا زاہد آزاد جھنڈانگری کے اطلاع کے مطابق جامعہ سلفیہ بنارس کے سابق استاذ شعبۂ حفظ جناب حافظ عبدالحکیم فیضی رحمہ اللہ کا ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں صبح ۹؍ بجے تدفین عمل میں آئی۔
انسان کے اعمال صالحہ میں شخصیت و کردار حسن و اخلاق ہی شخصیت کو سنوارتے اور بناتے ہیں، کچھ لوگ حسن اخلاق کے اعلیٰ معیار پر فائز ہوتے ہیں اور ان کی زندگی کا مقصد تعلیم و تعلم سے ہوتا ہے، انہیں صفات و کردار کے مالک تھے حافظ فیضی رحمہ اللہ، جنہیں رحمہ اللہ لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے، ان خیالات کا اظہار مشرف جامعہ خدیجۃ الکبری نے کیا۔
مولانا عبدالعظیم مدنی ناظم جامعہ خدیجۃ الکبریٰ نے کہا کہ انسان دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے مگر اپنے اخلاق و کردار کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتا ہے، آپ حسن اخلاق کا اعلیٰ نمونہ تھے، مولانا عبدالمنان سلفی خطیب جامع مسجد جھنڈانگر نے کہااللہ تعالیٰ حافظ رحمہ اللہ کی مغفرت فرمائے، ان کی لغزشوں کو معاف کرے، ان کی طویل قرآنی خدمات کو قبول فرمائے، واضح رہے کہ لگ بھگ پچاس سالوں تک آپ قرآن پڑھتے اور پڑھاتے رہے، اللہ ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق بخشے، مولانا مطیع اللہ مدنی شیخ الحدیث جامعہ خدیجۃ الکبریٰ نے کہا: استاذ محترم حافظ عبدالحکیم فیضی نے ہمیں جامعہ سلفیہ میں قرآن کی تعلیم دی، آپ ایک نہایت ہی رحم دل اور سنجیدہ فکر انسان تھے، آپ کے احباب و نیاز مندوں کا وسیع حلقہ تھا، شاگردوں کی تعداد بہت بڑی ہے، آپ نیک انسان تھے، صلاۃ کی پابندی ایسی کی کمزوری کے باوجود برابر مسجد آتے رہے، آپ کی خوبیاں تھیں زیادہ اللہ ان کی نیکیاں قبول فرمائے، مہتمم جامعہ نے کہا کہ آپ مہمان نواز، علم دوست، دوستوں کے دوست ہی نہیں دشمنوں کے بھی دوست تھے۔ مولانا عبدالقیوم مدنی، مولانا محمد اکرم عالیاوی وغیرہ نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔
آپ جامعہ رحمانیہ بنارس میں ۱۹۷۷ء ؁ میں طلبہ جامعہ کو تجوید سکھانے پر مامور ہوئے، آپ ۱۹۴۴ء ؁ شنکر نگر، ضلع بلرام پور نامی معروف علمی بستی میں پیدا ہوئے، حافظ صاحب رحمہ اللہ جھنڈانگر نیپال کے سب سے بڑے خاندان خانوادۂ میاں محمد زکریا رحمہ اللہ کے سب سے بڑے داماد تھے، آپ نہایت ہی نضیف و صاف ستھری شخصیت کے مالک تھے، آپ کا کپڑا ہمیشہ بے داغ ہوا کرتا تھا، آپ نے ایک باوقار اور بھر پور زندگی گزاری، پسماندگان میں ۶ بیٹے حافظ عبدالولی ،مولانا عبدالعلی، حافظ عبدالقوی، عبدالحئی، عبدالعلیم، عبدالآخر اور چار بیٹیاں پوتے پوتیاں اور نواسیاں و احفاد کی ایک بڑی تعداد ہے، اس وقت خانوادہ میاں محمد زکریا ایک بڑے غم میں مبتلاء ہے اللہ ان کے حسنات کو قبول فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین
واضح رہے کہ آپ کی پوری عمر تعلیم و تحفیظ قرآن کریم میں گزری ہے، بنارس میں وہ ۱۹۷۸ء ؁ سے ۲۰۱۷ء ؁ تک شعبۂ تحفیظ میں پڑھاتے رہے۔یہ ان کے اعلیٰ اخلاق اور دین اسلام سے محبت کا منہ بولتا ثبوت تھا کہ نماز جنازہ میں علماء، طلباء، قراء کرام اور جامعہ سلفیہ بنارس سے مولانا اسعد اعظمی مدنی ، مولانا ظل الرحمن فائق سلفی، مولانا معین الدین مدنی، جامعہ سلفیہ کے شعبۂ حفظ کے تمام اساتذہ حافظ صاحب کے جگری دوست ماسٹر احمد حسین و مولانا محمد عیسیٰ سلفی، مؤ سے خطیب اعلیٰ مولانا عبدالشکور صاحب اثری، جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر و کلیہ عائشہ صدیقہ کے اساتذہ و طلبہ کے علاوہ عوام الناس کی ایک بڑی تعداد صبح ۹؍ بجے جھنڈانگر کے قبرستان میں موجود تھی۔
آپ کی نماز جنازہ آپ کے بڑے صاحبزادے مولانا عبدالعلی فیضی نے پڑھائی۔
اللہ آپ کے تسامحات کو معاف فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین
مطيع الله مدني 
 استاذ محترم حافظ  عبد الحکیم فیضی کا انتقال ہو گیا  عمر پوری مقرئ قرآن کریم  کے طور پہ گزری  تعلیم وتدریس کا آغاز کہاں سے کیا پتہ نہیں مگر شروع میں موضع ملگہیا سدھارتھ نگر میں درس دیا ہے 1977 -78  میں  جامعہ رحمانیہ بنارس میں شعبہ حفظ میں مقرر ہوے اور طلبہ رحمانیہ بنارس کو تجوید سکھانے پر مامور ہوے
یہی میرا  جامعہ رحمانیہ کا پہلا سال تھا  مجھکو آپ سے شرف تلمذ حاصل ہے
کہانی تجوید کی تعلیم کی لمبی ہے
2017 تک بنارس میں تعلیم قرآن کریم کی خدمت کرتے رہے
موصوف  شنکر نگر نامی معروف علمی بستی میں پیدا  ہوے  عمر بوقت وفات 75 سال ہوگی
حافظ صاحب  ایک بہتر اخلاق کے حامل تھے خاص انداز رہن سہن کا تھا نرالا طرز نظافت پسند اتنے کہ نا قابل بیان
 احباب اور ننیاز مندوں کا وسیع حلقہ تھا  شاگرد وں کی تعداد بڑی  ہے  آپ نیک  انسان  تھے  صلاہ کی پابندی ایسی کہ بیماری کے ایام میں وہ کمزوری کے باوصف مسجد آتے
حق گو ایسے کہ پروآ  نہ کرتے
خوبیاں تھیں زیادہ    اللہ نیکیاں قبول فرماے اور خطاؤں سے درگزر کرنے اور جنت دے
اشفاق سجاد سلفی
 جامعہ سلفیہ، بنارس کے سابق استاذ حافظ عبدالحکیم فیضی گونڈوی کا سانحہ ارتحال
——————————————————————–
مادر علمی جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم)، بنارس کے شعبہ تحفیظ القرآن الکریم کے قدیم وموقر استاذ حافظ وقاری عبدالحکیم فیضی گونڈوی کا آج بتاریخ 11/ ستمبر 2018 بروز منگل بوقت 11/ بجے دن طویل علالت کے بعد انتقال ہو گیا، انا للہ وإنا إلیہ راجعون!!، نماز جنازہ کل 12/ ستمبر کو 9/ بجے دن جھنڈانگر، نیپال میں ادا کی جائے گی!!
محترم حافظ صاحب کو میں نے پہلی بار 1992 میں جامعہ اسلامیہ فیض عام/ مئو میں دیکھا۔ آپ اور آپ کے زندگی کے یار ماسٹر احمد حسین صاحب جامعہ آئے ہوئے تھے۔ گورا چہرہ، لمبی داڑھی، دراز قد اور صاف شفاف پوشاک میں ملبوس پہلی بار ہی میں آپ سے متاثر ہو گیا۔ پھر 1993 میں جب میں جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم)، بنارس پڑھنے گیا تو پھر آپ کو قریب سے دیکھتا اور محسوس کرتا گیا۔
آپ با رعب شخصیت کے مالک تھے۔ شعبہ حفظ کے طلبہ کے علاوہ دوسرے طلبہ آپ سے دور ہی رہتے۔ آپ صاف رہتے اور اپنے طلبہ کو بھی صاف رہنے کے عادی بناتے تھے۔
شعبہ حفظ آپ کے دم سے ممتاز تھا۔ آپ اس شعبہ کے رئیس ہوتے تھے۔ آپ اتنا شاندار چلاتے تھے کہ کبھی جامعہ کے ناظم اعلی اور شیخ الجامعہ کو شعبہ حفظ کے تئیں کوئی فکر نہیں ہوتی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جامعہ کا یہ شعبہ جامعہ سے الگ ہے۔ اس کا جامعہ سے کوئی تعلق نہیں ۔
آپ ایک مخلص استاذ تھے۔ ذمہ داری کا آپ کو مکمل احساس تھا۔ کبھی ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی برتتے نہیں دیکھا۔ اور کمال کی بات یہ کہ دوران کلاس کبھی بھی استنجا تک کرنے کے لئے کلاس سے اٹھتے نہیں دیکھا۔
آپ اپنے تمام طلبہ کو بالعموم اور جھارکھنڈ کے طلبہ کو بالخصوص بڑے عزیز رکھتے تھے۔ حافظ عبدالغفار پوکھریا اور حافظ امام الدین، سلیا، دیوگھر کو بہت مانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب برادرم حافظ امام الدین نے "جمعیۃ السلام والتعلیم” نامی ٹرسٹ کو کھولا اور اس کے زیر اشراف شعبہ تحفیظ قائم کیا، اور اس کے افتتاحی پروگرام منعقدہ 17/ فروری 2013 میں آپ کو مدعو کیا تو آپ نے دعوت قبول فرمائی اور اپنے محترم یار ماسٹر احمد حسین بستوی/ حفظہ اللہ کے ساتھ تشریف لائے، شعبہ حفظ کا افتتاح فرمایا اور اپنے شاگرد کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ اس موقع سے جمعیۃ السلام کے رجسٹر میں اپنا زیارت نامہ تحریر فرمایا ۔ برادرم امام الدین نے 2014 میں "جمعیۃ السلام والتعلیم” کا عربی میں تعارف نامہ شایع کرنے کا ارادہ کیا تو مجھ سے تیار کر دینے کی درخواست کی۔ میں نے عربی میں(جمعیۃ السلام والتعلیم: تعریف،اھداف۔ نشاطات۔ مشاریع۔ اعضاء۔ انطباعات۔ التماس) کے نام سے ایک تعارف نامہ تیار کر دیا جو مطبوع ہے۔ اس میں محترم حافظ عبدالحکیم فیضی / رحمہ اللہ کے اردو انطباعات وتاثرات کی تلخیص کا عربی میں ترجمہ کر کے شامل کیا گیا ہے،  جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے اور شاگرد کی ترقی کی تڑپ کا آئینہ دار ہے۔
جماعت کے ایک اونچے درجے کے حافظ وقاری اور اعلی درجے کے معلم واستاذ کی رحلت یقینا ایک خلا پیدا کر جائے گی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کی بشری لغزشوں سے درگزر فرمائے، آپ کے اعمال وکارناموں کو شرف قبولیت بخشے، آپ کے سیکڑوں تلامذہ کو صدقۃ جاریہ بنائے،  آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے، آمین!!(غم زدہ: آپ کا ایک ادنی معتقد: اشفاق سجاد سلفی، جھارکھنڈ۔ استاذ جامعہ امام ابن تیمیہ۔ بہار)

آخری ملاقات…
٢ رمضان بتاریخ ١٩مئ روانگی)قطر( کا دن تھا صبح فجر کی نماز کے بعد ملاقات کی غرض سے نانا محترم)استاذ جامعہ سلفیہ( کے کمرے میں داخل ہوتے ہی آنکھیں اشک بار ہوگئیں عجیب و غریب کیفیت تھی مرض میں مبتلا چھوڑ کر جانے پر دل بالکل مطمئن نہ تھا..اس وقت بستر سے اٹھنے کی طاقت نہیں تھی بیٹھے بیٹھے ہی نم آنکھوں سے گلے لگایا اور ہمیشہ کی طرح یہ کہتے ہوئے رخصت کیا جاؤ بیٹا اللہ تمہیں سلامت رکھے اور سفر آسان کرے ہمیشہ نماز کی پابندی کرنا حلال روزی تلاش کرنا گویا پیروں تلے زمین کھسک گئ جب انھوں نے یہ کہا کہ اس زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں کب اللہ کی منظوری آجائے اب شاید ملاقات نہ ہو سکے…اور آخر کار مورخہ ١١ستمبر بروز منگل ان چند روزہ زندگی اور ہم سب کو روتا ہوا مالک حقیقی سے جا ملے…انالله وإنا إليه راجعون
میری بد نصیبی کی آخری لمحات میں ان کے پاس نہیں تھا بہر حال اللہ کو شاید یہی منظور تھا…اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے نیک اعمال کو قبول فرمائے ان کی لغزشوں کو در گزر فرمائے انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه واكرم نزله وادخله الجنةالعلى )آپ کا غم زدہ نواسا خبیب ریاض

 

صاحب خلوص وايمان ، حافظ قرآن جناب عبد الحكيم فيصى رحمه الله استاذ جامعه سلفيه بنارس كي وفات پر ایک قلبى تعزیتی نظم
ایمان کی تابش تھے    عبد الحکیم فیضی
اخلاص کی کاوش تھے عبد الحکیم فیضی
قرآن کے حافظ تھے     یہ رتبئہ عالی تھا
سجدوں کی حفاظت سے بیدار نمازی تھا
قرآن سکھانے سے بہتر تھا    سبھی میں تو
کردار کی دولت سے گوہر تھا سبھی میں تو
قرآں کی شفاعت سے مسرور ترا دل ہے
ایمان واطاعت سے     معمور ترا دل ہے
قرآن کی خدمت سے   اک لذت پنہاں تھی
کیا خوب تلاوت تھی  اک آتش سوزاں تھی
تو بخش دے فیضی کو انصر کی دعائیں ہیں
رحمت کی نظر کردے تیری ہی نگاہیں  ہیں !
شریک غم : انصر نیپالی

 عزير نجم

قد طرق آنفا طبلة أذنى نبأ وفاة الحافظ عبد الحكيم الذى لم يزل يعانى من سكرات الموت الذى كان جاثيا على عتبة حياته .
لا مرية فى أن الحياة ظل زائل ،وعر ض عارض ،ومتاع مستعار ،وأنفاس منفوسة، وأيام معدودة ،هى كحبة ماء ظهرت على وجه البحر ثم فنيت،أشعة من نور تلألأت ثم ابتلعتها ظلمة الليل ،شفاجرف هار ينهار بمن عليه فى هوة الفناء ،
فإن فى الأموات عبرة للأحياء
فاستعدوا( أيها الأحياء) لأهوال تركبونها ،وهاد ونجاد تمرون بها ….
وستقوم قيامتكم فتخففت وسادتكم
رحم الله الفقيد وناله بالمن والكرم واكتنفه

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter