استاذ محترم حافظ عبد الحکیم فیضی کا انتقال ہو گیا عمر پوری مقرئ قرآن کریم کے طور پہ گزری تعلیم وتدریس کا آغاز کہاں سے کیا پتہ نہیں مگر شروع میں موضع ملگہیا سدھارتھ نگر میں درس دیا ہے 1977 -78 میں جامعہ رحمانیہ بنارس میں شعبہ حفظ میں مقرر ہوے اور طلبہ رحمانیہ بنارس کو تجوید سکھانے پر مامور ہوے
یہی میرا جامعہ رحمانیہ کا پہلا سال تھا مجھکو آپ سے شرف تلمذ حاصل ہے
کہانی تجوید کی تعلیم کی لمبی ہے
2017 تک بنارس میں تعلیم قرآن کریم کی خدمت کرتے رہے
موصوف شنکر نگر نامی معروف علمی بستی میں پیدا ہوے عمر بوقت وفات 75 سال ہوگی
حافظ صاحب ایک بہتر اخلاق کے حامل تھے خاص انداز رہن سہن کا تھا نرالا طرز نظافت پسند اتنے کہ نا قابل بیان
احباب اور ننیاز مندوں کا وسیع حلقہ تھا شاگرد وں کی تعداد بڑی ہے آپ نیک انسان تھے صلاہ کی پابندی ایسی کہ بیماری کے ایام میں وہ کمزوری کے باوصف مسجد آتے
حق گو ایسے کہ پروآ نہ کرتے
خوبیاں تھیں زیادہ اللہ نیکیاں قبول فرماے اور خطاؤں سے درگزر کرنے اور جنت دے
اشفاق سجاد سلفی
جامعہ سلفیہ، بنارس کے سابق استاذ حافظ عبدالحکیم فیضی گونڈوی کا سانحہ ارتحال
——————————————————————–
مادر علمی جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم)، بنارس کے شعبہ تحفیظ القرآن الکریم کے قدیم وموقر استاذ حافظ وقاری عبدالحکیم فیضی گونڈوی کا آج بتاریخ 11/ ستمبر 2018 بروز منگل بوقت 11/ بجے دن طویل علالت کے بعد انتقال ہو گیا، انا للہ وإنا إلیہ راجعون!!، نماز جنازہ کل 12/ ستمبر کو 9/ بجے دن جھنڈانگر، نیپال میں ادا کی جائے گی!!
محترم حافظ صاحب کو میں نے پہلی بار 1992 میں جامعہ اسلامیہ فیض عام/ مئو میں دیکھا۔ آپ اور آپ کے زندگی کے یار ماسٹر احمد حسین صاحب جامعہ آئے ہوئے تھے۔ گورا چہرہ، لمبی داڑھی، دراز قد اور صاف شفاف پوشاک میں ملبوس پہلی بار ہی میں آپ سے متاثر ہو گیا۔ پھر 1993 میں جب میں جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم)، بنارس پڑھنے گیا تو پھر آپ کو قریب سے دیکھتا اور محسوس کرتا گیا۔
آپ با رعب شخصیت کے مالک تھے۔ شعبہ حفظ کے طلبہ کے علاوہ دوسرے طلبہ آپ سے دور ہی رہتے۔ آپ صاف رہتے اور اپنے طلبہ کو بھی صاف رہنے کے عادی بناتے تھے۔
شعبہ حفظ آپ کے دم سے ممتاز تھا۔ آپ اس شعبہ کے رئیس ہوتے تھے۔ آپ اتنا شاندار چلاتے تھے کہ کبھی جامعہ کے ناظم اعلی اور شیخ الجامعہ کو شعبہ حفظ کے تئیں کوئی فکر نہیں ہوتی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جامعہ کا یہ شعبہ جامعہ سے الگ ہے۔ اس کا جامعہ سے کوئی تعلق نہیں ۔
آپ ایک مخلص استاذ تھے۔ ذمہ داری کا آپ کو مکمل احساس تھا۔ کبھی ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی برتتے نہیں دیکھا۔ اور کمال کی بات یہ کہ دوران کلاس کبھی بھی استنجا تک کرنے کے لئے کلاس سے اٹھتے نہیں دیکھا۔
آپ اپنے تمام طلبہ کو بالعموم اور جھارکھنڈ کے طلبہ کو بالخصوص بڑے عزیز رکھتے تھے۔ حافظ عبدالغفار پوکھریا اور حافظ امام الدین، سلیا، دیوگھر کو بہت مانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب برادرم حافظ امام الدین نے "جمعیۃ السلام والتعلیم” نامی ٹرسٹ کو کھولا اور اس کے زیر اشراف شعبہ تحفیظ قائم کیا، اور اس کے افتتاحی پروگرام منعقدہ 17/ فروری 2013 میں آپ کو مدعو کیا تو آپ نے دعوت قبول فرمائی اور اپنے محترم یار ماسٹر احمد حسین بستوی/ حفظہ اللہ کے ساتھ تشریف لائے، شعبہ حفظ کا افتتاح فرمایا اور اپنے شاگرد کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ اس موقع سے جمعیۃ السلام کے رجسٹر میں اپنا زیارت نامہ تحریر فرمایا ۔ برادرم امام الدین نے 2014 میں "جمعیۃ السلام والتعلیم” کا عربی میں تعارف نامہ شایع کرنے کا ارادہ کیا تو مجھ سے تیار کر دینے کی درخواست کی۔ میں نے عربی میں(جمعیۃ السلام والتعلیم: تعریف،اھداف۔ نشاطات۔ مشاریع۔ اعضاء۔ انطباعات۔ التماس) کے نام سے ایک تعارف نامہ تیار کر دیا جو مطبوع ہے۔ اس میں محترم حافظ عبدالحکیم فیضی / رحمہ اللہ کے اردو انطباعات وتاثرات کی تلخیص کا عربی میں ترجمہ کر کے شامل کیا گیا ہے، جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے اور شاگرد کی ترقی کی تڑپ کا آئینہ دار ہے۔
جماعت کے ایک اونچے درجے کے حافظ وقاری اور اعلی درجے کے معلم واستاذ کی رحلت یقینا ایک خلا پیدا کر جائے گی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کی بشری لغزشوں سے درگزر فرمائے، آپ کے اعمال وکارناموں کو شرف قبولیت بخشے، آپ کے سیکڑوں تلامذہ کو صدقۃ جاریہ بنائے، آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے، آمین!!(غم زدہ: آپ کا ایک ادنی معتقد: اشفاق سجاد سلفی، جھارکھنڈ۔ استاذ جامعہ امام ابن تیمیہ۔ بہار)
صاحب خلوص وايمان ، حافظ قرآن جناب عبد الحكيم فيصى رحمه الله استاذ جامعه سلفيه بنارس كي وفات پر ایک قلبى تعزیتی نظم
ایمان کی تابش تھے عبد الحکیم فیضی
اخلاص کی کاوش تھے عبد الحکیم فیضی
قرآن کے حافظ تھے یہ رتبئہ عالی تھا
سجدوں کی حفاظت سے بیدار نمازی تھا
قرآن سکھانے سے بہتر تھا سبھی میں تو
کردار کی دولت سے گوہر تھا سبھی میں تو
قرآں کی شفاعت سے مسرور ترا دل ہے
ایمان واطاعت سے معمور ترا دل ہے
قرآن کی خدمت سے اک لذت پنہاں تھی
کیا خوب تلاوت تھی اک آتش سوزاں تھی
تو بخش دے فیضی کو انصر کی دعائیں ہیں
رحمت کی نظر کردے تیری ہی نگاہیں ہیں !
شریک غم : انصر نیپالی
⊃عزير نجم
قد طرق آنفا طبلة أذنى نبأ وفاة الحافظ عبد الحكيم الذى لم يزل يعانى من سكرات الموت الذى كان جاثيا على عتبة حياته .
لا مرية فى أن الحياة ظل زائل ،وعر ض عارض ،ومتاع مستعار ،وأنفاس منفوسة، وأيام معدودة ،هى كحبة ماء ظهرت على وجه البحر ثم فنيت،أشعة من نور تلألأت ثم ابتلعتها ظلمة الليل ،شفاجرف هار ينهار بمن عليه فى هوة الفناء ،
فإن فى الأموات عبرة للأحياء
فاستعدوا( أيها الأحياء) لأهوال تركبونها ،وهاد ونجاد تمرون بها ….
وستقوم قيامتكم فتخففت وسادتكم
رحم الله الفقيد وناله بالمن والكرم واكتنفه
آپ کی راۓ