ایران میں کانسی کے دورکا گواہ ’’شہر سوختہ

شبیر احمد تابش

15 اگست, 2018

شہر سوختہ نے قبل مسیح کےچاراَدوار دیکھے ہیں مگر المیہ یہ رہا کہ ہر دور میں اس شہر کی وسعت میں کمی ہوئی ۔ اس شہر کا پہلا دور 2100 سے 2300 قبل مسیح کاہے کانسی کے اس دور میں یہ شہر بلوچستان اور ایران کے صوبے کمران کے درمیان آباد ہوا، اس شہر کو کس نے آباد کیا، اس حوالے سے تاریخ کے صفحات خاموش ہیں۔ دوسرا دور 2300 سے 2500 ق م کا تھا، اس وقت اس شہر کا مجموعی رقبہ 247.09 ایکڑ تھا۔ تیسرا دور 2500 سے 2800 ق م کا تھا۔ اسی دور میں یہ شہر سمٹ کر 111.19 ایکڑ رقبے تک محدود ہو گیا، بعدازاں 2800 سے 3200 ق م کے دوران اس قدیم شہر کا رقبہ مجموعی طور پر 49.41 ایکڑ تک رہ گیا‘‘

یہ اَمر اظہر من الشمس ہے کہ دُنیا کی قدیم ترین تہذیب و تمدن کا ظہور دریائوں کے کنارے ہوا، دریائے سندھ کے کنارے جنم لینے والی تہذیب میں سندھ کا شمار ہمیشہ سرفہرست اور انفرادی رہا ہے، مگر محققین اس اَمر پر حیرت زدہ ہیں کہ سندھ کا عظیم شہر موئن جودڑو کے زوال کا سبب کیا رہا؟ حالاں کہ تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ 1700 ق م میں اس خطے کے وسیع شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے تھے۔ اس کا سبب شاید شدید ترین قحط سالی رہا ہو، لیکن سندھ کے مدھر لوک گیت، دیومالائی، دل چسپ کہانیاں، رسم و رواج اسی قدیم ترین تہذیب و تمدن کا تسلسل ہیں۔ دُوسری جانب خانیوال، وہاڑی، لودھراں، مظفرآباد، لیّہ، کوٹ اَدّو، رحیم یار خان، بہاول پور، فیصل آباد اور شیخوپورہ میں بھی سندھ کی تہذیب وتمدن کے اثرات ملتے ہیں۔ اُدھر انڈیا کی ریاست مہاراشٹر کے اضلاع راج کوٹ، احمد آباد، جام نگر، سریندرنگر، بڑوچ، امریلی، پارنگر، کچ، جوناگڑھ، مدیہ شوراشٹر سمیت سندھ میں بھی مجموعی طور پر ٭٭ورثے پر موئن جودڑو کے تہذیبی اثرات ملےت ہیں۔ اس کا تذکرہ معروف کتاب ’’آرکیالوجی آف شوراشٹر‘‘ میں بھی کیا ہے۔ اسی طرح سندھ کی تہذیب کے آثار افغانستان کے صوبے قندھار کے گوٹھ شاہ مقصود میں بھی ملتے ہیں ،جو قندھار شہر سے محض 55 کلومیٹر کے فاصلے پر اور خشک نغوز ندی کے کنارے پر واقع ہے۔ 51089 مربع کلومیٹر پر مشتمل یہ دڑو ہلمند ثافت میں دوسرے نمبر پر شمار ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ ہلمند ثقافت میں سندھ کا مرکزی کردار رہا ہے۔ اسی ثقافت کا پہلے نمبر پر شمار ہونے والا دڑا ’’شہر سوختہ‘‘ ہے۔ جو سیستان اور بلوچستان کے سنگم پر بہنے والی ندی ذیول سے 57 کلومیٹر، جب کہ ہلمند ندی کے کنارے زاہدان ذیول روڈ سے ملحقہ 373.11 مربع ایکڑ پر اس شہر کے آثار ملتے ہیں۔ شہر سوختہ فارسی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ’’جلا ہوا شہر‘‘ ہے۔

شہر سوختہ 2200 سے 2400 ق م کے درمیان اپنے تہذیب و ثقافت کے حوالے سے عروج پر تھا، مگر اس شہر کے بارے میں بھی قیاس ہے کہ یہ موسمو کے تغیرات کے سبب اُجڑا یا بیرونی حملہ آوروں کے ہاتھوں یہ تباہ ہوا، زلزلوں نے لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا۔ یہ اَمر تحقیق طلب ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ اس شہر کو انڈین یونیورسٹی میں بہ حیثیت پروفیسر تعینات ہونے والے برطانوی آرکیالوجسٹ سر مارک اورل اسٹین نے 1902ء کے دوران دریافت کیا تھا۔ لیکن 1967ء کے دوران اس شہر کی دوبارہ کھدائی کا آغاز اٹلی سے تعلق رکھنے والے ماہر آثار قدیمہ موریزیوتوسی اور ان کی ٹیم نے کیا۔ بعدازاں اس کام کو ایرانی ثقافت و ورثہ اور سیاحت آرگنائزیشن نے انی تحویل میں لے لیا، جن کے اراکین زاہدان یونیورسٹی شعبہ آرکیالوجی کے پروفیسر سعید منصور سید سجادی کی سربراہی میں اس شہر کی کھدائی جاری رکھی، کھدائی کے دوران 2300 سے 2700 قبل مسیح میں میسوپوٹیمیا جانے والا تجارتی راستہ برآمد ہوا، جس کے بارے میں محقیقن کا خیال ہے کہ اسی شاہراہ کے ذریعے سندھ اور ایران کے مابین تہذیبی اور تجارتی روابط تھے۔ ایران اور سندھ کے مراسم کا اندازہ یوں بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ 481 ق م میں ایرانی شہنشاہ ’’دارا‘‘ فوت ہوا تو اس کی قبر ’’نقش رستم‘‘ پر 3 ہندوستانی قوموں کی نمائندگی کرتے پتھر پر تراشیدہ مجسمے ملے ،جن کی پوشاک میں دھوتی، پٹکا، اور تلوار لٹکی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ایک پٹکے والا مجسمہ سندھ کے طرز ثقافت کی عکاسی کرتا ہے۔ اسی طرح خسرو کے دور میں جب ایرانی لشکر نے یونان پر حملہ کیا تو اس لشکر میں سندھ کے سپاہی شامل تھے۔ یونانی مؤرخ ہیروڈیٹس کے مطابق ’’اس دستے میں موجود پیدل سپاہیوں نے سوتی کپڑا ’’سنڈن‘‘ پہنا ہوا تھا۔لکڑی اور بید کے تیرکمان تھے اور ان تیروں کے منہ پر لوہے سے نوک دار بنایا گیا تھا، 700 ق م کے دوران سندھ کے تاجر ایرانی دریائوں کے ذریعے عراق پہنچتے تھے، اس سفر کے دوران شہر سوختہ ان کا عارضی پڑائو ہوتا تھا، مصر، عرب سمیت ایرانی سوداگر بھی دریائے سندھ کے کنارے اور سمندر کی ساحلی بندرگاہوں کے ذریعے کاروبار کرتے تھے۔ سائرس اعظم (558 تا 530 ق م) نے سندھ اور بلخ تک فتوحات کے بعد جو سکے رائج کئے وہ بھی سندھ کا سونا تھا۔ چونکہ سندھ کی تہذیب 5 ہزار ق م سے بھی کہیں قدیم ہے، اس لئے شہر سوختہ سے برآمد ہونے والی متعدد اشیاء میں سندھ کی تہذیب و ہنر سے گہری مماثلت ملتی ہے۔ مؤرخین کے مطابق ناپ تول اور علم نجوم قدیم سندھ اور شہر سوختہ میں ایک ہی وقت مروج ہوا تھا۔

آریاؤں کی سرزمین ایران جسے فارس بھی کہا جاتا تھا، یہ نام اس سلطنت کے حاکم ایرج نے دیا تھا، جو درحقیقت ایران بن افریدان تھا اور فارس میں اس کی اولادیں آباد تھیں، مگر اہل فارس میں اس امر پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ وہ سب ہی کیومرث کی نسل سے ہیں، یہی بات باعث شہرت ہے کہ کیومرث دراصل ایراج کا جدِ اَمجد تھا۔ ایران مغربی ایشیا کا بہت بڑا خطّہ ہے۔ رقبے کے لحاظ سے یہ دُنیا کا 8واں بڑا ملک ہے۔ اس خطّے کی سرحدیں افغانستان، کابل اور پاکستان کے صوبے بلوچستان سے ملتی ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ ایرانی ثقافتی میراث کی بہت سی قدریں سندھ کی ثقافت و تہذیب سے مشترک ہیں، فلسفہ، زبان و اَدب، تذکرہ، تاریخ، تصوّف، طب کی کتب، فنون لطیفہ، مصوّری، خطّاطی، ہنر نقاشی، دست کاری، معماری فارسی تہذیب کی روشن تصویریں ہیں، لیکن سندھ نے بھی اپنے قدیم رہن سہن، فکر و فلسفے کے گہرے نقوش ثبت کئے ہیں۔ موسیقی جس کی تاریخ انتہائی قدیم ہے، ماہرین موسیقی، سندھی موسیقی کو نا صرف دُنیا کی قدیم ترین موسیقی میں شمار کرتے ہیں بلکہ اسے چار حصوں میں بھی تقسیم کرتے ہیں۔ جن میں پہلا حصہ چین اور جاپان، دُوسرا حصہ برما، بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور سندھ، جبکہ تیسرا حصہ ایران، ترکی، وسط ایشیا اور عرب ممالک ۔ چوتھا حصہ افریقا و دیگر ممالک پر مشتمل ہے۔ ان سب کا علیحدہ علیحدہ رنگ ہے۔ سندھ نے اپنی موسیقی کو ترتیب دیا تو اس میں موسیقی کے ساز شرنائی، چنگ اور کھماج شامل کیا۔ شہر سوختہ میں موسیقی کے دلدادہ اپنی دُھنوں کے لئے سندھی موسیقی کے ساز بھی مستعمل کرتے تھے۔ یہ بات بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ مشہور کتاب کلیہ دمنہ سندھ کے راستے پہلے شہر سوختہ یا ایران پہنچی، ایران میں 3200 قبل مسیح کے دوران کانسی کے دور میں آباد ہونے والا شہر سوختہ اپنے نام اور قدامت کے حوالے سے دُنیا بھر کے سیاحوں اور ماہرین آثار قدیمہ کے لئے دل چسپی کا باعث اور اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے۔

شہر سوختہ نے قبل مسیح کےچاراَدوار دیکھے ہیں مگر المیہ یہ رہا کہ ہر دور میں اس شہر کی وسعت میں کمی ہوئی ۔ اس شہر کا پہلا دور 2100 سے 2300 قبل مسیح کاہے کانسی کے اس دور میں یہ شہر بلوچستان اور ایران کا صوبہ کمران ٭کے درمیان آباد ہوا، اس شہر کو کس نے آباد کیا، اس حوالے سے تاریخ کے صفحات خاموش ہیں۔ دوسرا دور 2300 سے 2500 ق م تھا، اور اس وقت اس شہر کا مجموعی رقبہ 247.09 ایکڑ تھا۔ تیسرا دور 2500 سے 2800 ق م تھا۔ اسی دور میں یہ شہر سمٹ کر 111.19 ایکڑ رقبے تک محدود ہو گیا، بعدازاں 2800 سے 3200 ق م کے دوران اس قدیم شہر کا رقبہ مجموعی طور پر 49.41 ایکڑ تک رہ گیا۔ رہائشی علاقہ 39.53 ایکڑ پر مشتمل ہے۔ اس شہر سے متعلق کئی روایت ملتی ہیں، اس میں ایک یہ ہے کہ، اس شہر میں خواتین ہی اپنے خاندانوں کی کفالت کی ذمے دار تھیں۔ شہر کے صنعتی حصے سے اعلیٰ معیار کی برآمد ہونے والی مشینری یہاں کی قدیم صنعت و حرفت کی عکاسی کرتی ہے، کہا جاتا ہے کہ شہر سوختہ میں کپڑا تیار کرنے کا ہنر سندھ سے ہی منتقل ہوا تھا، کیونکہ دُنیا میں لوگ اپنے بدن ڈھانپے کے لئے جانوروں کی کھالیں، درختوں کی چھالیں، پتّے استعمال کرتے تھے، اس وقت سندھ میں کپڑا مروّج تھا۔ ماہرین کے مطابق شہر سوختہ سے اب تک 120 اقسام کا معروف کپڑا اور ماہی گیری کے اوززار ملے ہیں۔ شہر کے مغرب میں 61.77 ایکڑ اراضی پر قدیم ترین قبرستان واقع ہے۔ ماہرین کے محتاط اندازے کے مطابق قبرستان میں 25 سے 40 ہزار قبریں ہیں۔

اَمن پسندی اور مذہبی رُجحان ہر دور کے انسانوں کی ضرورت رہے ہیں، مگر مختلف اَدوار میں اَمن بذریعہ ہتھیار یا مذہب بذریعہ جبر کی بنیاد بنایا گیا۔ جس کے سبب امن اور مذہب کے معنی و مفہوم مخصوص لوگوں میں تبدیل ہوگئے، لیکن شہر سوختہ کے باشندے نا صرف حقیقی طور پر پرامن تھے بلکہ انتہائی مذہبی بھی تھے۔کتاب یستاہ یا فساہ کو مقدس اہمیت حاصل تھی، جس کا وہ ہر روز وردان کرتے تھے، چونکہ انسان آگ، پانی، مٹّی اور ہوا کا مرکب ہے، قدیم سندھ میں پانی کی پوجاپاٹ ہوتی تھی۔ دُوسری جانب شہر سوختہ کےلوگ آگ کو مقدس سمجھتےتھے ، اس کی پوجا کرتے تھے۔ موئن جودڑو کی طرز پر شہر سوختہ میں بھی فراہمی و نکاسی آب کا مؤثر نظام تھا، رہائشی و صنعتی حصے میں قدرتی روشنی اور ہوا کا معقول بندوبست کیا جاتا تھا۔ یہاں کے باشندوں کی زندگی کے معمولات سورج کی پہلی کرن سے شروع ہوتے اور شام کے ملگجے اندھیرے پھیلنے تک ختم ہو جاتے تھے۔ صنعتی و رہائشی مکانات کی بنیادوں میں سخت پہاڑی پتھر، جبکہ سطح زمین سے اُوپر دیواروں کی تعمیر میں چکنی مٹی کا استعمال مروّج تھا۔ اس شہر میں قدیم فن تعمیرات کے اُصولوں کو مدنظر رکھا گیا، تا کہ لوگ ریگستانی ماحول میں محفوظ زندگی گزار سکیں۔ تاریخ معصومین کے مطابق ایران میں ناحور بن سارُغ کے دور میں شدید زلزلے معمول تھے، ممکن ہے شہر سوختہ کے مکین ان زلزلوں کے سبب آہستہ آہستہ دیگر خطوں میں جا بسے ہوں۔

کراچی سے شہر سوختہ 1256 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے ۔شہر تک پہنچنے کے لئے تقریباً 35 گھنٹے درکارہوتے ہیں۔ خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران حیدرآباد کے ڈائریکٹر احمد عبداللہ پور کے مطابق، شہر سوختہ یونیسکو میں آثار قدیمہ کی فہرست میں 1456 نمبر پر آتا ہے۔ حال ہی میں شہر سوختہ سے متعلقہ ایران کے اخبارات میں تصاویر شائع ہوئی ہیں جن میں اس بات کی جانب متوجہ کیا گیا ہے کہ سیاحوں اور راستے کو محفوظ بناتے ہوئے شہر سوختہ تک رسائی کو ممکن بنایا جائے۔ ایران اور بلوچستان کے ثقافتی ورثے کے ڈپٹی چیئرمین نے مشترکہ طور پر اس مسئلے کو نا صرف ایک منصوبے کے طور پر اہمیت دی بلکہ اسے مشترکہ طور پر پیش بھی کیا ہے۔ یہ اَمر بھی باعث مسرت ہے کہ ورلڈ ہیریٹیج کمیٹی کا دوحہ قطر میں 25 جون 2014ء کو 10 روزہ اجلاس منعقد ہوا۔ جن میں شہر سوختہ سمیت مزید 26 قدیم مقامات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر 161 ممالک میں آثار قدیمہ کی تعداد 1007 ہوگئی ہے۔ شہر سوختہ کانسی کے دور کی اہم ثقافت، سماجی، معاشی ترقی اور اہیمت کو اُجاگر کرتا ہے بلکہ مخصوص تمدن اور روایات کا غیرمعمولی گواہ بھی ہے۔ اس شہر میں مٹّی کے برتن بنانے اور ان پر مختلف جانوروں، پرندوں، پھولوں اور درختوں کی تصویرکشی کا رُجحان تھا۔ یہ شہر قیمتی دھاتوں، پتھروں کے برتنوں، جواہرات اور روغنی کاموں کے حوالے سے بھی ایک بڑے شہر کا پتہ دیتا ہے۔ یہ شہر استانی زندگی کے ابتدائی دور کے شہری منصوبہ بندی کی شاندار مثال ہے۔ شہر کے گرد صحرا کی بناء پر مسائل ہیں، لیکن کے مختلف حصوں میں پیچیدہ اور فن تعمیرات کے نمونے ملتے ہیں۔ کمروں، راہ داریوں اور رستوں کی بھول بھلیاں اس شہر میں دفاعی حکمت عملی کو اُجاگر کرتی ہیں۔ شہر سوختہ ایران کی ملکیت ہے، جو لاء فار پروٹیکشن آف نیشنل ہیریٹج 1930ء اور اس سے منسلک 1980ء میں رجسٹرڈ کی گئی۔ قومی ثقافتی ورثہ ایران کی 1966ء میں مرتبہ کردہ فہرست کے مطابق شہر سوختہ کانمبر شمار 542 ہے۔ اس شہرکے باشندوں نے نا صرف ریاضی اور سائنس کے میدان میں بہت زیادہ پیش رفت حاصل کرلی تھی،کھدائی کے دوران 12/13 سال کی ایک لڑکی کے ڈھانچے کے معائنے سے معلوم ہوا کہ، یہاں کے طبیب دماغ کی رسولی کی جراحت میں بھی ماہر تھے،شہر سوختہ کو دیکھ کر دُنیا کے مختلف اَدوار، ایران سمیت سندھ و دیگر تہذیب و تمدن کے نمایاں اثرات محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ یہ ہی نہیں اس شہر میں پہنچ کر موجودہ دور کے انسانوں کا تعلق قدیم ماضی کے درخشاں وقت سے جڑ جاتا ہے اور وہ اس شہر کی سحر انگیزی میں مبتلا رہتےہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے محکمہ ثقافت، ہیریٹج و سیاحت کے مطابق شہر سوختہ کو دیکھنے، تحقیقی سرگرمیوں کی تکمیل کے حوالے سے پاکستان سمیت دُنیا کے کونے کونے سے سیاحوں اور طالب علموں کی کثیر تعدادیہاںکا دورہ کرتی ہے۔ ان کے لیے سہولتوں کی فراہمی کا مناسب بندوبست کیا ہوا ہے جبکہ کئی کلومیٹر طویل لکڑی سے بنے پل نما راہ داری بنائی ہے تاکہ سیاح اس شہر کے گرد صحرائی ریت پر چلنے کے بجائے اس پر چل کر بآسانی شہر میں پہنچ سکیں۔

سورج سے سمت کا تعین

شہر سوختہ کی گلیوں کو بھول بھلیاں کہا جاتا ہے۔ کیونکہ جو ایک بار کسی بھی سمت سے ان گلیوں میں داخل ہو جائے تو وہ ان میں بھٹک جاتا ہے۔ بارہا کوششوں کے باوجود اسے ان گلیوں سے باہر نکلنے کا راستہ سجھ نہیں آتا پھراس ویران شہر میں راستہ بتانے کے لئے کوئی مکین نہیں ہے، اس لیے شہر سے باہر نکلنے کے لئے سورج کا سہارا لے کر دُرست سمت کا تعین کرنا پڑتا ہے۔

شہر کی انجانی ہولناکی

یہ شہر طلوع آفتاب کے بعد غروب آفتاب سے کچھ دیر قبل تک بہ آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ بجلی کا انتظام نہ ہونے کے سبب یہ شہر مکمل تاریکی میں ڈُوب جات اہے تو سیاحوں کے دل شہر کی انجانی ہولناکیوں سے تیز دھڑکنے لگتے ہیں، چنانچہ اس شہر کو دیکھنے کی خواہش رکھنے والے سیاح اس جانب سفر کا آغاز کرتے وقت اپنے سامان سفر میں ٹارچ، چارجنگ لائٹس، الیکٹرونکس لائٹس لازمی شامل کرتے یں شدید گرمی، صحرا کی تپتی ریت کی تپش میں پیاس کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے پینے کا پانی بھی یہاں آنے والے سیاح بڑی مقدار میں اپنے ساتھ لاتے ہیں۔

برتنوں پر دوڑتے جانور، کارٹون فلموں کا آغاز!

کارٹون فلمیں تو باقاعدہ یورپ میں شروع ہوئی، پھر ان میں بچوں کی دل چسپی، رُجحان کو مدنظر رکھا جانے لگا، یہ کارٹون فلمیں اب بچوں کے ساتھ، ساتھ بڑوں کے لئے بھی تیار کی جاتی ہیں، جن میں مار دھاڑ، تجسس، مقابلہ، شکست وف اتح کے علاوہ اخلاق باختہ مناظر بھی ہوتے ہیں مگر شہر سوختہ سے ایسے برتن برآمد ہوئے ہیں جن پر کارٹون فلموں کی طرز پر مناظر کو علیحدہ علیحدہ رنگوں میں پینٹ کیا گیا ہے کہ اگران برتنوں کو تیزی سے گول گھمایا جائے تو جانور دوڑتے محسوس ہوتے ہیں، ایسے برتنوں میں مٹّی سے بنا پیالہ زیادہ توجہ کا مرکز ہے جس پر جنگل میں ہرن کو دوڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔

پیروں تلے شہر سوختہ

ایران کے قومی عجائب گھر میں ایک علیحیدہ حصہ شہر سوختہ کا بھی ہے جو شہر سوختہ سے برآمد ہونے والے انسانی ڈھانچوں کو اسی کیفیت اور ماحول کو زمین میں تشکیل دے کر رکھا گیا ہے اور اس پر بھاری وسیع شیشے نصب کئے گئے ہیں، سیاح جب اس عجائب گھر میں آ کر اس حصے کو دیکھتے ہیں تو انہیں اسی شیشے پر بیٹھ کر اس ماحول اور ڈھانچوں کا معائنہ کرنا پڑتا ہے۔ عجائب گھر میں یہ حصہ سیاحوں کی توجہ کا خصوصی مرکز ہوتا ہے۔   

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter