عمران خان کی کامیابی کا راز

مظہر عباس

28 جولائی, 2018

’’سچ کہوں تو 70ء اور 80ء کی دہائی میں مجھے سیاست میں قطعاً دلچسپی نہیں تھی۔‘‘یہ الفاظ ہیں پاکستان کے متوقع وزیراعظم عمران خان کے جو انہوں نے اپنی کتاب ”عمران خان – ایک پرسنل ہسٹری ” میں لکھے ہیں۔ 22سال قبل 1996ء میں لاہور کے زمان پارک میں عمران خان نے جس تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تھی 25جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں وہی تحریک انصاف زبردست کامیابی سے ملک کی سب سے اکثریتی جماعت بن کر ابھری ہے۔ کرکٹ اور سیاست دونوں میدانوں میں عمران خان کی کامیابی کا آخر راز کیا ہے؟ میرے خیال میں اس بے مثال کامیابی کے پیچھے ان کی مستقل مزاجی اور عزم صمیم ہے۔ عمران خان نے 25 جولائی کو اپنی 22 سالہ سیاسی زندگی میں تین طرح تاریخ رقم کی۔ (1) عمران خان نے پانچ حلقوں سے منتخب ہوکر ذوالفقار علی بھٹو کا ریکارڈ توڑ ڈالا جو تین حلقوں سے منتخب ہوئے تھے۔(2) پی ٹی آئی پہلی جماعت بن گئی جس نے دوسری مدت کے لئے خیبرپختونخوا میں کامیابی حاصل کی اور اس کی پوزیشن مزید مستحکم ہوئی۔ (3) پی ٹی آئی وفاق میں حکومت بنانے والی پہلی جماعت بن گئی جو کراچی کو بھی مین سٹریم سیاست میں لیکر آئی ، قبل ازیں ساری جماعتیں جو وفاق میں حکومت سازی کرتی آئی ہیں وہ کراچی میں اکثریت حاصل نہیں کرپاتی تھیں۔ کرکٹ اور سیاست دونوں میدانوں میں ابتدائی ناکا میو ں کے بعد

مستقل مزاحی اور پختہ ارادوں کی وجہ سے بالآ خر کامیابی نے عمران خان کے قدم چومے۔ 2008ء سے لیکر حالیہ الیکشن تک انہوں نے نوجوانوں اور خواتین میں مقبولیت حاصل کی اور اپنے ووٹ بنک میں اضافہ ہوا۔ دوسری بات یہ کہ ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ ایک ایسی امید کو ظاہر کرتا ہے جو کسی دوسری بڑی جماعت میں نظر نہیں آتی ۔ ایک اور وجہ یہ ہو سکتی کہ انہیں اس سے قبل آزمایا نہیں گیا جبکہ مخالف جماعتوں پی پی اورن لیگ اپنے ماضی کی وجہ سے بھی ووٹروں کو متوجہ نہ کر سکیں اور ان کے بارے میں مایوسی کا عنصر نمایاں رہا۔ عمران خان نے 2008ء میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا جب سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت سے ایک سیاسی خلا پیدا ہو گیا اور پھر آصف زرداری کے بارے میں ووٹرز کی جو رائے بنی اس نے اس خلاء کو مزید گہرا کیا اور عمران خان اور ان کی جماعت نے اس خلا ءسے فائدہ اٹھایا ۔ پنجاب میں پی ٹی آئی نے پیپلزپارٹی کو بڑا نقصان پہنچایا۔ پی پی اور ن لیگ کی فرینڈلی اپوزیشن نے بھی عمران خان کو واحد اپوزیشن لیڈر بن کر ابھرنے میں مدد کی۔ اس طرح 2013ء کے انتخابات کے بعد ایم کیو ایم میں مسلسل دھڑے بندی نے عمران خان کو کراچی میں پائوں جمانے میں مدد دی۔ کراچی والے جماعت اسلامی کی طرف لوٹ کر نہیں گئے۔ اس کی بجائے انہوں نے 2013ء اور 2018ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو ایم کیو ایم کے متبادل کے طور پر چنا۔ کراچی اور کے پی کے نتائج کو دیکھا جائے تو عمران خان کی جماعت نے مذہبی جماعتوں کے ووٹ بینک کو بھی کافی نقصان پہنچایا ہے۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام دونوں جماعتوں کےسربراہان سراج الحق اور مولانا فضل الرحمان کے پی میں اپنی آبائی نشستوں سے ہار گئے۔ پی ٹی آئی کے کراچی میں جیتنے کی تین وجوہات ہیں۔ (۱) ایم کیو ایم کا چار دھڑوں میں تقسیم ہونا اور اس کی قیادت کا پیدا کردہ کنفیوژن۔ (۲) تحریک لبیک نے بہت سوں کو حیران کر دیا گو کہ ان کا پہلا الیکشن تھا پھر بھی ان کے امیدواروں نے 15 ہزار سے 40 ہزار ووٹ حاصل کئے اور کراچی سے صوبائی اسمبلی کی 2 سیٹیں بھی لے اڑے سب سے حیران کن لیاری کا علاقہ تھا جہاں تحریک لبیک کے امیدوار نے بلاول بھٹو سے زیادہ ووٹ حاصل کئے۔ پی ٹی آئی 2013ء میں کراچی سے 8 لاکھ سے زائد ووٹ لیکر سیاسی تجزیہ کاروں کو حیران کر دیا تھا جب اس نے قومی اسمبلی کی ایک جبکہ صوبائی اسمبلی کی3 سیٹیں جیت لیں اور یہ تعداد چار بھی ہو سکتی تھی مگر پارٹی کراچی میں زیادہ منظم ہوئی۔ کراچی میں 2013ء کی نسبت پی ٹی آئی نے دو گنا ووٹ حاصل کئے ۔عمران خان اور عارف علوی نے 90 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے ہیں۔ اس سے جماعت اسلامی کے ووٹ بینک کو خاصا نقصان پہنچا۔ میرا یقین ہے کہ ایم کیو ایم جماعت اسلامی کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ 5سال میں ایم کیو ایم کے ساتھ جو کچھ ہوا خاص طور پر 22 اگست کے بعد ایم کیو ایم میں جو تقسیم ہوئی اس کا سارا فائدہ پی ٹی آئی نے اٹھایا۔ حالیہ نتائج پاک سر زمین پارٹی کیلئے بھی آنکھیں کھولنے کے مترادف ہیں کیونکہ اس نے عمران کی دعوت کے باوجود پی ٹی آئی کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انکار کیا تھا۔ 2013ء میں خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک کی حکومے نے صحت ، تعلیم اور پولیس کے نظام کو جس طرح بہتر کیا اس نے بھی پی ٹی آئی کو 2018ء میں اسے ملک گیر کامیابی سے ہمکنار کر دیا ہے۔پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما غلام احمد بلور نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے پی ٹی آئی امیدوار کی جیت کا اعتراف کر کے بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے۔ اس طرح عمران خان تمام جماعتوں کے مضبوط ووٹ بنک پر نقب لگا کر اور نچلے طبقے سے لے کر اپر کلاس تک اپنا مضبوط ووٹ بنک مستحکم کر نے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter