ٹرمپ سے مستقل امن کے طریقۂ کار پر بات ہو گی: شمالی کوریا

11 جون, 2018

ایجنسیاں 11 جون *2018

شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ کم جونگ-ان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے منگل کو ہونے والی ملاقات میں ’مستقل امن کے طریقۂ کار‘ پر بات کریں گے۔

ملاقات سے ایک دن قبل ملک کے سرکاری ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے بیانات سے اس بات کے امکانات بڑھ گئے ہیں کہ شمالی کوریا اور امریکہ کے درمیان ’ایک نئے تعلق کا آغاز‘ ہو سکتا ہے۔

دونوں ممالک کے سربراہان اس تاریخی ملاقات کے لیے سنگاپور پہنچ چکے ہیں۔

اس ملاقات کے بارے میں کم جونگ-ان کا کہنا ہے کہ ’پوری دنیا دیکھ رہی ہے‘، جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اس سربراہ ملاقات کے بارے میں اچھا محسوس کر رہے ہیں۔

پیر کی صبح اس سلسلے میں ایک ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ سنگاپور میں ’ماحول میں جوش و خروش ہے۔‘

امریکہ چاہتا ہے کہ شمالی کوریا اپنے جوہری ہتھیار ختم کر دے، لیکن یہ واضح نہیں کہ اس کے بدلے میں شمالی کوریا کیا مطالبہ کرتا ہے۔

دونوں سربراہان الگ الگ ہوٹلوں میں ٹھہرے ہیں جو زیادہ دور نہیں ہیں۔ شمالی کوریا کے سربراہ سنگاپور کے فائیو سٹار ہوٹل سینٹ ریگس میں قیام پذیر ہیں جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ نصف میل کی دوری پر شنگریلا میں رکے ہیں۔

کم جونگ ان اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان یہ تاریخی ملاقات تفریحی جزیرے سینٹوسا پر ہو گی۔

شمالی کوریا نے کیا کہا ہے؟

شمالی کوریا کی سرکاری نیوز ایجنسی کے سی این اے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنما جزیرہ نما کوریا کے لیے ’امن کے مستقل اور دیرپا طریقۂ کار‘ پر بات کریں گے۔ جزیرہ نما کوریا میں ’جوہری ہتھیاروں کی تخفیف‘ اور مشترکہ مسائل پر بھی بات ہوگی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’تبدیلی کا دور‘ شروع ہونے والا ہے۔

جنوبی کوریا کے خبر رساں ادارے یونہاپ نے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے سینیئر سفارتکار پیر کو ملاقات کریں گے تاکہ ایک معاہدے کا مسودہ اپنے اپنے رہنماؤں کو پیش کر سکیں۔

شمالی کوریا میں سرکاری میڈیا عموماً اپنے رہنما کے دوروں پر تبصرے نہیں کرتا تاہم اس مرتبہ اخبار روڈونگ سنمن میں شائع ہونے والے اداریے میں کہا گیا ہے کہ ’ہم نئے دور کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک نیا تعلق قائم کریں گے۔‘

اداریے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’جزیرہ نما کوریا میں ایک مستقل اور پرامن حکومت کے قیام، مشترکہ خدشات کے حل بشمول جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے معاملے پر وسیع تر اور عمیق بات چیت ہو گی۔‘

اخبار کا کہنا ہے کہ ’اگر ماضی میں کسی ملک سے ہمارے تعلقات مخاصمانہ رہے بھی ہیں تو ہمارہ رویہ یہی ہے کہ اگر وہ قوم ہماری خودمختاری کا احترام کرتی ہے تو ہم بات چیت کے ذریعے حالات معمول پر لانے کی کوشش کریں گے۔‘

ایک غیر روایتی معاہدے کا فن

جان سوپل، بی بی سی کے مدیر برائے شمالی امریکہ

روایتی سیاست ہمیں شاید اس مقام پر نہ لا سکتی جہاں ہم آج کھڑے ہیں۔ ہم آج یہاں اس لیے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے تلوار اٹھا کر روایتی سفارت کاری کے رویے کو کاٹ کر یہاں تک راستہ بنایا ہے۔

امریکی صدر کہہ چکے ہیں کہ انھوں نے اس بات چیت کے لیے زیادہ تیاری نہیں کی ہے۔ اس کی ضرورت بھی نہیں تھی جبکہ دیکھا جائے تو جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنا، اس کی تعریف کیا ہوگی، اس کی تصدیق کیسے ہوگی، کتنا وقت لگے گا، جواب میں کس قسم کی امریکی اقتصادی امداد مل سکتی ہے، تحفظ کے لیے کیسی ضمانتیں طلب کی جائیں گی یا کون سی پابندیاں اٹھانے کو کہا جائے گا، اور اور اور، یہ سب بہت پیچیدہ معاملات ہیں۔

آپ بات چیت کے مرکزی کمرے سے ملحقہ کمروں میں موجود حکام کے اضطراب کا اندازہ کر سکتے ہیں جو اس بات کے منتظر ہوں گے کہ انھیں بتایا جائے کہ ہمارے دور میں امن ہوگا یا پھر کہ بات چیت ناکام رہی اور ہم گھر جا رہے ہیں۔

اگرچہ کم جونگ-ان سے یہ ملاقات ایک طویل سفر کا آغاز ہے لیکن کم از کم یہ آغاز ہو تو رہا ہے۔ کیا روایتی سیاست سے ہم کبھی اس مقام تک آ سکتے تھے؟

صدر ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ انھیں عموماً یہ جاننے میں پانچ سیکنڈ کا وقت لگتا ہے کہ ان کی مدمقابل سے کیسی نبھے گی سو واحد امید یہی ہے کہ دونوں کی اچھی نبھے۔

دونوں سربراہان کیسے پہنچے؟

امریکی صدر کینیڈا میں جاری جی سیون سربراہی اجلاس میں شرکت کے بعد ایئر فورس ون پر اتوار کو سوار ہو کر سنگاپور ہہنچے۔

جیسے ہی وہ اپنے طیارے سے باہر آئے تو ان کا استقبال سنگاپور کے وزیر خارجہ ویوین بالاکرشن نے کیا۔

دوسری جانب کم جونگ ان چین سے حاصل کردہ طیارے پر وزیر خارجہ ری یونگ ہو، وزیر دفاع کوانگ چول اور اپنی بہن کم یو جونگ کے ہمراہ پہنچے۔

کم جونگ ان مرسڈیز بینز لیموزین میں 20 گاڑیوں کے کانوائے کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے۔

بعد میں انھوں نے سنگاپور کے وزیراعظم لی ہیسن لونگ سے ملاقات کی اور ان کی میزبانی پر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا: ’اگر سنگاپور میں منگل کو ملاقات کامیاب رہی تو تاریخ سنگاپور کی کوششیں تاریخ میں لکھی جائیں گی۔‘

بات یہاں تک کیسے پہنچی؟

صدر ٹرمپ اور کم جونگ-ان کے تعلقات گذشتہ ڈیڑھ برس میں اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ کبھی وہ تندوتیز جملوں کا تبادلہ کرتے نظر آئے تو اب وہ بالمشافہ ملاقات کرنے جا رہے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدِ صدارت کے پہلے برس میں شمالی کوریا سے امریکہ کے تعلقات شدید کشیدہ رہے اور وجہ تھی اس کے متعدد میزائل تجربات جو اس نے عالمی تنبیہ کے باوجود کیے۔

امریکی صدر نے یہاں تک کہا کہ اگر شمالی کوریا نے امریکہ کو دھمکانا بند نہ کیا تو اسے ’آتش و غضب‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انھوں نے کم کو ’لٹل راکٹ مین‘ بھی کہا۔

اس کے جواب میں کم جونگ-ان نے انھیں ’خبطی‘ اور ’سنکی‘ قرار دیا۔

وائٹ ہاؤس کے دباؤ کے باوجود شمالی کوریا نے ستمبر 2017 میں اپنا چھٹا جوہری تجربہ کیا جس کے بعد شمالی کوریا کے رہنما نے اعلان کیا کہ ان کے ملک نے جوہری طاقت بننے کا مشن مکمل کر لیا ہے اور اس کے میزائل امریکہ تک مار کر سکتے ہیں۔

تاہم 2018 کے آغاز میں شمالی کوریا نے جنوبی کوریا کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کی کوششوں کا آغاز کیا اور وہاں منعقدہ سرمائی اولمپکس میں اپنے کھلاڑی بھیجے۔

مارچ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریائی رہنما کی جانب سے بالمشافہ ملاقات کی دعوت قبول کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔ اس کے بعد سے اس سربراہ ملاقات کی تیاریاں جاری ہیں مگر یہ سفر آسان نہیں رہا ہے۔

ایک وقت ایسا بھی آیا جب صدر ٹرمپ نے اس ملاقات کو منسوخ بھی کر دیا لیکن کچھ سفارتی کوششوں کے بعد یہ بحال ہو گئی اور اب منگل کو دونوں رہنما ملنے والے ہیں۔

بشکریہ بی بی سی اردو

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter