💥رفض وتشیع کا پھیلتا جال اور ہماری لا پرواہی💥

ڈاکٹر اجمل منظور مدنی

11 مئی, 2018

موجودہ دور کے تحریکی اپنے مرشدوں کی نصیحتوں اور ہدایات کی روشنی میں ایرانی شیعہ روافض کو یار غار پکا مسلمان ماننے سے کم پر راضی ہی نہیں ہیں۔ قطر کو چھوڑ کر سعودی اور دیگر عرب ریاستوں کو طاغوتی حکومت اور ایرانی رافضی ریاست کو اسلامی جمہوریت اگر نہ مانیں تو انہیں اپنے دین وایمان میں شبہ ہونے لگتا ہے۔ اسی لئے آج جب ہم کہتے ہیں کہ تمام دشمنان اسلام بشمول شیعہ روافض کے خلاف سارے سنی مسلمانوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے تو سارے تحریکی پیج وتاب میں مبتلا ہونے لگتے ہیں اور کہنے لگتے ہیں کہ یہ تو صہیونی سازش ہے بلکہ آج سارے طاغوتی طاقتوں کے خلاف تمام شیعہ سنی مسلمانوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ طاغوتی طاقت اور شیعہ سنی اتحاد کس کی ہدایت اور کس کے اشاروں کی روشنی میں کہتے ہیں اب یہ اس قدر جگ ظاہر ہو چکا ہے کہ اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔
💥لہٰذا ایرانی روافض کا سنی مسلمانوں کے تعلق سے کیا عقیدہ اور نظریہ ہے یہ تحریکیوں کی یارانہ روش کی روشنی میں سمجھنے کے قابل ہے۔ چنانچہ روافض کے مرشدوں کی ہدایات کی روشنی میں نعوذ باللہ ابو بکر صدیق اور عمر بن خطاب ۔رضی اللہ عنھما۔ دونوں کافر ہیں اور ہر وہ شخص کافر ہے جو ان دونوں سے محبت کرے۔
اگر آپ کو شک ہو تو شیعوں کے بہت بڑے پیر و مرشد اور علامہ ملا باقر مجلسی کی مشہور زمانہ اور ان کے یہاں مستند مانی جانے والی کتاب بحار الانوار جلد نمبر 30 صفحہ 373 ضرور دیکھیں جہاں یہ عبارت لکھی ہوئی ہے: ((أبو بكر وعمر كافران، كافر من أحبهما))
💥چنانچہ آج کے رافضی شیعہ اسے صرف عقیدہ ہی کے طور پر نہیں مانتے بلکہ عملاً اسے کر کے دکھاتے بھی ہیں۔ کسی بھی تقریب کی افتتاحی واختتامی مجلس میں یا کسی کو شیعہ بناتے وقت یہ روافض ضرور ان چند جلیل القدر صحابہ سے اپنی براءت کا اظہار کرتے اور نعوذ باللہ ان کے طاغوت، کافر اور جہنمی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
💥پہلے اس بینر کو دیکھیں جس میں بوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کو کافر لکھا ہوا ہے جسے ایک کٹر شیعہ رافضی لے کر کھڑا ہے۔ پھر اس ویڈیو کو سنیں جس میں ان جلیل القدر صحابہ اور امہات المومنین کو یہ روافض جہنمی ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں نیز ان سے براءت کا اظہار کر رہے ہیں:
https://youtu.be/OgrgLbZ6nSs
💥پھر دیکھیں اس دوسرے ویڈیو کو جس میں ایک رافضی عالم ایک کانفرنس کے اندر خطاب کر رہا ہے: (( لن يتوقف هذا النصر إلى بغداد وإلى دمشق بل يستمر إلى عقر دارهم وسنحرر أرض الجزيرة العربية والحجاز وسنعيد منطقتنا في المنطقة الشرقية ومكة والمدينة والحجاز ۔۔۔۔۔۔۔۔)).
ترجمہ: ہماری یہ فتح صرف بغداد اور دمشق تک نہیں رکے گی بلکہ انہیں ہم آخر تک پیچھا کریں گے اور جزیرہ عرب اور حجاز کی سر زمین کو آزاد کر کے رہیں گے اور اپنے علاقے کو سعودی مشرقی علاقے، حجاز اور مکہ مدینہ میں واپس کر کے رہیں گے۔
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1368662446580372&id=100003098884948
💥پھر اس بورڈ کو بھی دیکھیں جو ایران کے شہر شہر میں لگا ہوا ہے جس میں شیعہ رہبروں کی طرف سے چھوٹے بچوں کو یہ پیغام لکھا ہوا ہے کہ بیٹے سو جا یہ امن وسلامتی والا ملک ایران ہے دمشق، غزہ، قاہرہ اور بغداد نہیں ہے۔
💥پھر پڑھیں اس تازہ ترین رپورٹ کو جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ روافض کس طرح صلیبیوں کی طرح مال وزر کا استعمال کر کے پورے افریقہ کے سنی مسلمانوں کو شیعہ روافض بنانے کا عزم رکھتے ہیں اور اس کے لئے کس طرح اپنے علماء، ذاکروں اور تاجروں کے علاوہ سیاسی سفارت کاروں اور عسکری ملیشیاؤں تک کو استعمال کرتے ہیں:
((شام پر بھرپور توجہ مرکوز کرنے کے باوجود ایران نے براعظم افریقہ میں اپنے اثرو نفوذ میں توسیع کی کوششوں میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ ایران اس براعظم میں مفت سماجی خدمات کے نیٹ ورک کی صورت میں اربوں خرچ کر رہا ہے۔ اس نیٹ ورک میں ہسپتال، یتیم خانے، 100 سے زیادہ دینی مدارس کے قیام، سیمینارز اور کانفرنسز کے انعقاد کے علاوہ رشوت اور بخشیش شامل ہے جو حکومتوں کی "مالی امداد” کے نام سے پیش کی جاتی ہے۔
افریقہ کے لیے ایران کی خارجہ پالیسی کے اہداف میں وہاں کے مسلم معاشروں میں اپنے نظریات کی منتقلی، دہشت گرد کارروائیوں کے لیے راہ ہموار کرنا، مشرق وسطیٰ کے لیے ہتھیار بھیجنا، خام یورینیم تک رسائی، بین الاقوامی پابندیوں سے تجاوز، ہتھیار اور جوہری پروگرام کے لیے لوازمات کی خریداری شامل ہے۔
عالمی برادری پر لازم ہے کہ وہ اس پالیسی کے خاتمے کے لیے پُرعزم فیصلہ کرے بالخصوص جب کہ افریقہ میں کروڑوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ایرانی ہلالِ احمر تنظیم افریقہ کے 12 ممالک میں شفا خانوں کی نگرانی کر رہی ہے۔
براعظم افریقہ کی آبادی 1.2 ارب نفوس پر مشتمل ہے جن میں نصف مسلمان ہیں۔ ان میں اکثریت شمالی افریقہ میں مصر سے موریتانیہ تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ تمام ممالک انقلابی نظریات کی برآمد اور اندرونی معاملات میں مداخلت کے حوالے سے ایران کے طریقہ کار کو جان گئے ہیں۔
افریقہ کے جنوبی صحراء میں کروڑوں لوگ رہتے ہیں جن کو تعلیم سمیت بنیادی خدمات کی شدید ضرورت ہے۔ ایسے میں المصطفی یونیورسٹی ائمہ کی تربیت اور دیگر فکری اور مذہبی سرگرمیوں کے تحت ایران کے تعلیمی بازو کا کردار ادا کر رہی ہے۔
اس یونیورسٹی کا صدر دفتر ایران کے شہر قُم میں ہے اور اسے براہ راست رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کی نگرانی میں چلایا جا رہا ہے۔ دنیا کے مختلف براعظموں کے کم از کم 60 ممالک میں اس یونیورسٹی کی شاخیں ہیں جہاں 40 ہزار ائمہ کو تعلیم وتربیت دی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ گذشتہ دس برسوں میں یونیورسٹی کے ایران میں مرکز اور بیرون ممالک شاخوں سے تقریبا 45 ہزار طلبہ فارغ التحصیل ہوئے۔ افریقہ کے 17 ممالک میں یونیورسٹی کی مرکزی شاخیں ہیں۔ ان کو 30 ممالک کی ذیلی شاخوں کی سپورٹ حاصل ہے۔ ان کے تحت مجموعی طور پر 100 اسلامی مدارس اور مراکز کا انتظام و انصرام چل رہا ہے۔ اس وقت المصطفیٰ یونیورسٹی کی ایران اور ایران سے باہر شاخوں میں 6 ہزار افریقی مذہبی شخصیات اسباق اور کورسز میں شریک ہیں۔
افریقہ میں ایران کا کردار "فلاحی اور تعلیمی” پہلوؤں تک محدود نہیں بلکہ اس کا اہم کردار ایک ایسے پلیٹ فارم کے طور پر ہے جہاں سے جنگجو تنظیموں کو میزائل اور ہتھیار بھیجے جا سکیں۔ یاد رہے کہ اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے اکتوبر 2012ء میں سوڈان کے اندر ایران سے مربوط ایک اہم کارخانہ تباہ کر دیا تھا۔
علاوہ ازیں سعودی عرب اور یمن کے مغرب میں واقع افریقی ملک جیبوتی بھی تہران کا ایک اہم حلیف رہا۔ ایران نے اس کی بندرگاہیں حاصل کرنے کے عوض وہاں پارلیمنٹ اور ایک تجارتی مرکز بنانے پر کروڑوں ڈالر خرچ کر ڈالے۔ جیبوتی کے مثالی محل وقوع کے سبب ایران یمنی حوثیوں کو ہتھیار پہنچانے کے لیے ایک محفوظ راستہ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ جیبوتی آبنائے باب المندب کے نزدیک واقع ہے جو بحر احمر کو خلیج عدن سے ملاتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل جیبوتی نے ایران سے تعلقات ختم کر کے اپنی بندرگاہوں کو بند کر دیا تھا اور عرب اتحاد کا حامی بن گیا۔
کئی افریقی حکومتوں نے، جن میں نائیجیریا نمایاں ہے،ایرانی ہتھیاروں اور گولہ بارود کی کھیپوں کو ضبط کیا جو فلسطینی اور افریقی عناصر کے لیے بھیجی جا رہی تھیں۔ اس دوران میں ایرانی پاسداران انقلاب سے تعلق رکھنے والے گروہوں کا بھی انکشاف کیا گیا تھا۔
ایران اپنے دست راست یعنی لبنانی ملیشیا حزب اللہ کو بھی استعمال کر رہا ہے جو افریقہ اور لاطینی امریکا میں ہجرت کرنے والی لبنانی شیعہ کمیونٹی کے حلقوں میں اثر و رسوخ کی حامل ہے۔
افریقی اور لاطینی امریکا کی حکومتیں متعدد مرتبہ حزب اللہ کے زیر انتظام گروہوں کا انکشاف کر چکی ہیں جو منی لانڈرنگ کے دھندے، ہتھیاروں اور منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔
افریقہ کے استحصال کا ایران کے خطرناک جوہری پروگرام کی پیش رفت میں اہم کردار رہا ہے۔ ایران نے نمیبیا، ملاوی اور بالخصوص نیجر کی کانوں سے نکالے جانے والے یورینیم پر بھرپور طریقے سے ہاتھ صاف کیا۔
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے براعظم افریقہ کے حالیہ دورے میں یہ بات واضح طور پر سامنے آئی کہ تہران اقوام متحدہ اور اس کی ذیلی کمیٹیوں میں افریقی ووٹوں کے حصول کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
سال 2011ء سے 2013ء کے درمیان کالے دھن کو سفید بنانے کے اسکینڈل کے بعد باباک زنجانی اور رضا ضراب کے نیٹ ورکس کے خاتمے سے انکشاف ہوا کہ افریقی ملک گھانا سونے کے ایک اہم ذریعے کے طور پر ایران کے لیے کتنی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔اقوام متحدہ اور کئی بین الاقوامی حلقوں اور پلیٹ فارمز میں جنوبی افریقہ نے متعدد مرتبہ ایران کے حق میں ووٹ دیا۔))
https://urdu.alarabiya.net/…/برّاعظم-افریقہ-میں-ایران-کی-سر…
💥نوٹ:
قارئین کرام! آج ضرورت ہے رفض وتشیع کے فتنہ دراز کو ختم کرنے کی، سولہویں صدی عیسوی میں صفوی دجال کی رکھی ہوئی مجوسی بنیاد کو کھودنے کی، 1979 میں برپا کی ہوئی خمینی فسادی انقلاب کو جڑ سے اکھاڑنے کی۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بجا فرمایا تھا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس کو فتح کرنے سے پہلے جنگ قادسیہ میں مجوسی فارسیوں کا قلعہ قمع کیا تھا۔ صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں سے بیت المقدس کو آزاد کرانے سے پہلے مصر سے رافضی فاطمیوں کا صفایا کیا تھا۔ صلاح الدین ایوبی سے پوچھا گیا: تقاتل الشيعة الرافضة – الدولة العبيدية في مصر – و تترك الروم الصليبيين يحتلون القدس”؟
صلیبیوں کو چھوڑ کر پہلے مصر کے فاطمیوں سے کیوں لڑ رہے ہیں؟ تو جواب دیا: "لا أقاتل الصليبيين و ظهري مكشوف للشيعة”۔ رافضی شیعوں کے ہوتے صلیبیوں سے کیسے لڑ سکتا ہوں۔
لہذا آج بھی فلسطین کو آزاد کرانے سے پہلے خمینی ظالم حکومت کو سبق سکھانا پڑے گا۔
مذکورہ حقائق کی روشنی میں اگر ترکی کے تحریکی صدر اردگان اور ان کے سارے مرید توحید پرستوں کے خلاف رافضی شیعوں کا ساتھ دینے کے لئے ہمیشہ تیار رہیں تو آخر انہیں توحید کا دشمن اور رفض وتشیع کا دلدادہ نہ کہا جائے تو پھر کیا کہا جائے؟!

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter