نیپال میں مسلمانوں کی حق تلفیوں کا لآ متناہی سلسلہ

محمد ہارون انصاری

7 مئی, 2018
«محمد ہارون انصاری
نیپال میں نئی حکومت کی تشکیل کے بعد مسلمانوں کی  حق تلفی کا معاملہ سامنے آیا ہے ۔جبکہ جمہوریہ نیپال میں سبھی لوگوں کے حقوق یکساں ہیں جیسا کہ جدید تدوین شدہ آئین میں اس بات کی وضاحت صاف طور پر موجود ہے مگر موجودہ حکومت مسلمانوں کے جائزحقوق و مستحکم کرنے کے بجائے ان کے ساتھ دوہرا سلوک کررہی ہے ۔
ابھی حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ میں یہ بات گردش کررہی تھی کہ موجودہ سرکار نے مسلمانوں کے رسمی چھٹی کونہ صرف نظرانداز کی ہے بلکہ سرے سے عام رسمی چھٹیوں کے تیار شدہ فہرست سے نام ہی غائب ہے۔ جس پر مسلم تنظیموں نے متعلقہ ادارے اور وزارت کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تاکہ اس بات کا اعادہ ہوسکے ۔اگر حکومت کی سطحی سوچ اور مکروفریب بات کریں تو ایام انتخاب کے دوران ووٹنگ کے لئے متعینہ تاریخ بھی کچھ اسی طرح تھی۔جبکہ عالمی طور پر ہرکس وناکس کو اس بات کا علم ہے کہ مسلم برادری پورے ایک ماہ رمضان کا روزہ رکھتی ہے جس میں آمد ورفت اور قطارمیں لگنے کی صعوبت کو جھیلنا مشکل کام ہے پھر بھی یکسر نظرانداز کیا گیا اسی طرح ایس ایل سی امتحان کا معاملہ بھی ہے،اور پھر تربھون یونیورسٹی میں مسلم طلبہ کے ساتھ بڑپیمانے پرمت بھید ایسا نہیں کہ حکومت اور اس کے تحت چلنے والے ادارے اور وزارت کو اس بات کا علم نہیں ۔ایسے بے شمار واقعات ہیں جسے اس جمہوریہ ملک میں مسلم برادری کو جھلینا پڑرہا ہے آوازیں بھی وقت اور ضرورت کے لحاظ سے اٹھتی ہیں اور دب بھی جاتی ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ جمہوریت کہتے کس کو ہیں آیا ملک میں رہنے والے شہری کویکساں سہولیات مہیا کرائی جائیں یا کچھ خاص طبقہ کے لئے ہی سہولیات کو محدود رکھا جائے۔جبکہ جمہوریت کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہر مکتب فکر کو اپنے عقیدے اور مذہب کی بنیاد پر رہنے جینے کا حق حاصل ہو شاید ہمارے رہنماء عوام کے حق رائے دہی سے رہبر بن تو جاتے ہیں مگر انہیں اس بات کا قطعی ادراک نہیں ہوتا کہ وہ ڈکٹیٹر شہنشاہ کے زیر اثر ہیں یا ڈکٹیٹر جمہوری نظام کے زیر اثر؟۔
اگر ہم پارٹی کی بات کریں اور اس کے زیر نگرانی چلنے والی ذیلی تنظیموں کا نیپال میں موجودہ حکومت جس نے مسلمانوں کے عیدین کی چھٹیوں کی کٹوتی کی اسی نے ’’نیپال  مسلم اتحاد‘‘ قائم کیآ  اب جمہوریہ ملک میں مسلم برادری جو اس زعم میں اپنے حق رائے موجودہ عبوری سرکارکو دی کہ ہمیں انصاف ملے گا اس زاویہ کے پیش نظر کہ مسلمانوں کے حقوق کی بات اپنے ایجنڈے میں شامل رکھے تھے وہ ایک قسم کا صریح فریب تھا یا کچھ اور؟
ایسے میں پیارے نبیﷺ کی بات یاد آتی ہے کہ ’’الکفر ملۃ واحدۃ‘‘آج نیپال مکمل طور پرسات صوبوں پر منقسم ہے مگر فیصدی تناسب کے لحاظ سے وزراء کی تعداد بھی صرف نظر کا شکارہے۔معاملے کا اختتام اسی پر بس نہیں ہوتا ہے بلکہ ایک قدم آگے چل کر دیکھیں تو پتہ ہوگا کہ جس سہولیات ہماری سرکار نیپالی اسکول کالجز کو فراہم کرتی ہے ان سبھی سے مسلم کالجز اور مدارس کو نظرانداز کیا جارہا ہے ۔ یہ بات اب سوچنے کی نہیں بلکہ حق رائے دہی کے وقت جاگنے سوچنے اور سمجھنے کی ہے لیکن بات آکر اس جگہ ٹھہر جاتی ہے کہ کو ن سی سیاسی جماعت ہے جو مسلمانوں کا بہی خواہ ہے اگر سبھی ایجنڈے کو اٹھاکر دیکھا جائے تو سبھی ایک جیسے اور ایک حمام میں ننگے نظر آئیں گے۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter