وبائی امراض اور ہمارے معاشرتی رویے۔۔

7 اپریل, 2020

عبید فیضی ۔ سابق نمائندہ راشٹریہ سہارا ۔ لکھنئو۔

دنیا کی تاریخ، حوادثات اور قدرتی آفات سے بھری پڑی ہے، بعض حادثات وآفات نے تو انسانی آبادی کے بڑے حصے کو صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دیا۔ اور
بعض نے نسلوں کی نسلیں تباہ کردیں، جس کا واضح ذکر قرآن کریم میں بہی موجود ہے، اور وبائی امراض کی بہی کئ اقسام شمار کی گئی ہیں، کچھ امراض جواختلاط  کے سبب اور عدمِ اعتدال اور بگاڑ کی وجہ سے پیداہوتے ہیں وہ عموماً متاثرہ شخص تک محدودرہتے ہیں مگرکچھ امراض ایسے بھی ہیں جن کا تعلق کسی بیرونی محرکات سے ہوتا ہے‘ مثلاًکوئی گندہ ماحول‘ غیرمتوازن خوراک اور ایسے اعمال جوانسانی مزاج پر اثر انداز ہوجاتے ہوں‘ ان میں بعض ایسے ہیں جوجراثیم سے لگتے ہیں‘ ایسی بیماریوں کومتعدی اور وبائی امراض کہتے ہیں۔آج دنیا کے اکثر ممالک جن میں بالخصوص ترقی یافتہ ممالک شامل ہیں وہ جس اَبتری، بدحالی، بے چینی، بے سکونی اَور پریشانی سے دوچار ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں۔ کیوں کہ ایک ایسی وبا نے ان تمام ممالک کو جکڑ رکھا ہے جس نے نہ صرف معیشت کو تباہ حالی کے دہانے پر پہنچایا،  وبائی مرض کے پھیلنے سے عوام خوفزدہ اور ہر شخص غیر محفوظ کیفیت سے گزر رہا ہے ، یوں تو یہ وائرس چین کے شہر وہان سے شروع ہوا اور آہستہ آہستہ دنیا کے بیشتر ممالک کو اپنے لپیٹ میں لے لیا، جن میں اٹلی، یورپ، امریکہ، اسپین، فرانس،  ایران ، الغرض خطہ عرب یہاں تک کہ سعودی عرب میں اسی وبا کی وجہ عمرہ اور نماز باجماعت پر پابندی لگانی پڑی، آج ہر شخص حیران و پریشان ہے اَور ہر فرد کی زبان پر ایک ہی سوال ہے کہ ہم اِن حالات کا شکار کیوں ہو رہے ہیں اَور ہمیں اِن حالات سے نجات کب اَور کیسے ملے گی؟اِس کا جواب سیدھا سا ہے کہ اِن حالات کے اَسباب پر غور کیا جائے اَور جو اَسباب سامنے آئیں اُن کے اِزالہ کی کوشش کی جائے تو اِن حالات سے نجات مل سکتی ہے۔ہمیں قوم سے گلہ ہے کہ وہ ہمیشہ سے اَمراض کی نشاندہی تو کرتی ہے کہ یہ ہوگیا وہ ہوگیا لیکن اُن کے اَسباب کی طرف توجہ اَور دِھیان نہیں دیتی اَور نہ ہی اُن کے اِزالہ کی کوئی کوشش کرتی ہے۔
قرآن کریم نے ہمارے اچھے اور برے اعمال کے نتائج سے پہلے ہی ہمیں آگاہ کردیا ہے ، قرآن کریم کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے دُنیا میں آنیوالی آفات و مصائب و تکالیف کا سبب خود اُن کے اپنے اَعمال ہیں،چنانچہ سورۃ الروم کی آیت نمبر 41 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، ”خشکی اَور تری (یعنی تمام دُنیا) میں لوگوں کے (بُرے) اَعمال کے سبب بلائیں (مثلاً قحط،وبائ،طوفان) پھیل رہے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کے بعض اَعمال کا مزہ اُن کو چکھادے تاکہ وہ (اپنے اِن اعمال سے) باز آجائیں۔” اگر عالمی طاقتیں بحیثیت انسان اور اسلامی ممالک بحیثیت مسلمان اپنے اعمال پر نگاہ ڈالیں کہ ہم کس قدر دین سے نہ صرف دُور بلکہ دین سے بیزار بنے ہوئے ہیں، انبیاء کرام کی تعلیمات سے کس قدر بغاوت اَور سرکشی کا شکار ہیں اَور کس قدرتعلیمات انبیاء کی نافرمانی اَور بدعملی میں مبتلا ہیں۔ جس معاشرے میں سودی لین دین عام ہوجائے، رشوت خوری کاروباری حصہ بن جائے، بچے بچیوں کے ساتھ زِناکاری روز کا معمول بن جائے، جھوٹ بولنا ہماری عادت میں شامل ہوجائے، دھوکہ دینا اَمانت میں خیانت، ایک دُوسرے کے ساتھ ظلم و زیادتی، نااِنصافی، بے اِیمانی، بے حیائی، فحاشی، عریانی اَور اِن کے علاوہ کون سے گناہ ہیں جو ہم میں نہیں پائے جاتے۔ شادی بیاہ کی رسومات میں غیر شرعی حرکات و سکنات ، معاشرے میں جب وبائیں پھیلتی ہیں تب بہی ہمیں ہوش نہیں آتا، ہم بحیثیت مسلمان کتنا ذمہ دار ہیں، ہمارے کردار اس وقت بہی ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں اس وقت بہی ہمیں ہوش نہیں آتا کہ اب تو اپنی اصلاح کر لیں اپنے پڑوسیوں کے حقوق کا خیال کریں اپنے ارد گرد کے لوگوں کا ، اعزہ و اقارب اور مفلوک الحال کا خیال کریں، اس کے برعکس ہم ذخیرہ اندوزی مال و اجناس جمع کرنا شروع کردیتے ہیں ، دوسروں کی تکالیف سے منہ موڑ کر اپنی آسائش کا سوچتے ہیں ۔ یہی وہ اَسباب ہیں جن کی وجہ سے ساری قوم مصائب و تکالیف کا شکار ہے۔ جب تک لوگ اِن اَسباب کا اِزالہ نہیں کریں گے اللہ اَور اللہ کے رسول ﷺسے بغاوت اَور اُن کی نافرمانی و بدعملی کو نہیں چھوڑیں گے اُس وقت تک کبھی بھی یہ حالات نہیں بدلیں گے۔ آپ ﷺ نے معاشرے کی تباہ حالی کے پانچ اسباب بیان فرمائے ہیں ! پانچ چیزوں میں جب تم مبتلا ہوجائو اَور خدا نہ کرے کہ تم مبتلا ہو (تو پانچ چیزیں بطورِ نتیجہ ضرور ظاہر ہوں گی) (۱) جب کسی قوم میں کھلم کھلا بے حیائی کے کام ہونے لگیں تو اُن میں ضروری طاعون اَور ایسی ایسی بیماریاں پھیل پڑیں گی جو اُن کے باپ دَادوں میں کبھی نہیں ہوئیں۔ (۲) اَور جو قوم ناپ تول میں کمی کرنے لگے گی تو قحط اَور سخت محنت اَور بادشاہ کے ظلم کے ذریعے اُن کی گرفت کی جائے گی۔(۳) اَور جو لوگ اپنے مالوں کی زکوٰۃ روک لیں گے اُن سے بارش روک لی جائے گی (حتّٰی کہ) اگر چوپائے (گائے، بیل،گدھا، گھوڑا وغیرہ) نہ ہوں تو بالکل بارش نہ ہو۔ (۴) اَور جو قوم اللہ اَور اُس کے رسول ﷺکے عہد کو توڑدے گی،خدا اُن پر غیروں میں سے دُشمن مسلط فرمائے گا جو اُن کی بعض مملوکہ چیزوں پر قبضہ کرلے گا۔ (۵) اَور جس قوم کے بااِقتدار لوگ اللہ کی کتاب کے خلاف فیصلے دیں گے اَور اَحکامِ خداوندی میں اپنا اِختیار و اِنتخاب جاری کریں گے تو وہ خانہ جنگی میں مبتلا ہوں گے۔”(ابن ِماجہ)اگر مندرجہ بالا اقوال کا جائزہ لیں تو ہمارا معاشرہ ان برائیوں کا مسکن نظر آئے گا۔ آج دنیا اور اقوام متحدہ اور ترقی یافتہ ممالک کو یہ سوچنا چاہیئے کیا یہ روزانہ کی بنیاد پر مرنے والے بے گناہ انسانوں کے آہ کا بدلہ تو نہیں کشمیریوں کے ساتھ ظلم وبربریت اور انکے ساتھ غیر انسانی حصار انکے معصوم بچوں کے  بددعا تو نہیں، ملک شام، فلسطین میں مرنے والے ہزاروں معصوم بچوں کی سسکیوں کا بدلہ تو نہیں، اجڑنے والے گھروں سے نکلنے والی آواز سے آنے والے خدا کا قہر تو نہیں؟ مسلمانوں سمیت پوری دنیا کے حکمرانوں کیلئے سوچنے کا مقام ہے اور یہ حالات اسی بات کا تقاضا کر رہے ہیں کہ اپنے اعمال پر نگاہ کریں،  اور مسلمان ممالک سے حالات کا تقاضا ہے کہ تمام اللہ کی طرف رجوع کریں توبہ و اِستغفار کا اہتمام کریں اَور جس طرح بھی ممکن ہو برائی کے اِن اَسباب کو ختم کرنے کی کوشش اَور جدوجہد کریں۔اُن دُعاؤں کا اہتمام بھی کریں ، جو حضور ﷺ نے اَمراض سے بچنے کے لیے تعلیم دی ہے۔
آخر میں ہماری التجاء ہے قوم کے ہر فرد واحد سے ہر شخص بنفسیا اپنا محاسبہ کرے، اللہ کیطرف رجوع کرے،، ماضی کے کردہ گناہوں کی خلوص و للہیت سے معافی مانگے اپنے روز مرہ کے اعمال کا جائزہ لے سجود الی اللہ کرے انشاءاللہ رب العالمین ہمیں ضرور معاف کرے گا۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter