جھنڈا نگر نیپال:کہنہ مشق استاذ مولانامحمد سلیم اثری کا انتقال پر ملال؛ ہزاروں سوگواروں کے درمیان سپرد خاک

جامعہ سراج العلوم السلفیہ میں 44 سالہ تدریسی خدمات؛ کئی نسلوں کی تربیت کی

2 فروری, 2023

جھنڈا نگر/ کئیر خبر
جامعہ سراج العلوم السلفیہ کے قدیم خادم کہنہ مشق استاذ مولانامحمد سلیم اثری کا آج جمعرات بتاریخ ٢ فروری بوقت صبح ساڑھے سات بجے مختصر علالت کے بعد بقضاے الہی انتقال کر گئے؛ انا للہ وإنا إلیہ راجعون- یہ خبر ملک و بیرون ملک ان کے ہزاروں شاگردوں اور عقیدتمندوں پر بجلی بن کر گری -جامعہ سراج العلوم السلفیہ میں انہوں نے 44 سالہ تدریسی خدمات انجام دیں؛ کئی نسلوں کی تربیت کی؛ جھنڈا نگر کے قبرستان میں آج بعد نماز عصر ہزاروں سوگواروں کے درمیان سپرد خاک سپرد خاک کر دے گئے – آسماں انکی لحد پر شبنم افشانی کرے
نماز جنازہ ناظم جامعہ سراج العلوم مولانا شمیم احمد ندوی کے زیر امامت ادا کی گئی –
اپنے استاذ محترم کے سانحہ ارتحال پر کئیر خبر کے چیف ایڈیٹر مولانا عبد الصبور ندوی نے اپنے رنج وغم کا اظہار کرتے ہویے کہا کہ ہم آج ایک مشفق و مربی سے محروم ہوگئے ہیں -مولانا مرحوم کا عمر بھر کا کردار بارش کی ان اولین بوندوں کی مانند رہا جو زمین کی جڑوں میں پیوست ہوکر کونپلوں کے نکلنے اور پھوٹنے کا ذریعہ بنتی ہیں- جھنڈا نگر اور بڑھنی میں شاید کوئی ایسا خاندان ہو جس کا کوئی نہ کوئی فرد مولانا کے زیر تربیت نہ رہا ہو؛ عظیم تدریسی خدمات رہی ہیں ؛ مولیٰ انہیں قبول فرماے اور غریق رحمت کرے –
کئیر خبر کے ایڈیٹر مولانا انور علی شاہ سلفی نے اپنے استاذ کو خراج عقیدت یش کرتے ہویے کہا ایک کہنہ مشق و بوریا نشین مدرس و مربی کے کوچ کر جانے پر آج دل بہت ملول ہے- خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں –
مولانا شمیم احمد ندوی ناظم جامعہ سراج العلوم السلفیہ نے مولانا کی وفات پر تعزیت کرتے ہویے لکھا : مولانا محمد سلیم اثری کا سانحہ وفات نہ صرف ان کے اہل خانہ ،ان کے لواحقین اور ان کے بچوں کے لئے ایک غم ناک،الم انگیز اور صبر آزما حادثہ ہےبلکہ جامعہ سراج العلوم ان کی وفات سےاپنے ایک تجربہ کار مدرس اور ایک سینئر استاد سے محروم ہوگیا
وہ یہاں کے شعبہ مکتب میں تقریبا چوالیس سال سے تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے انھوں نے جامعہ کے اس شعبہ میں 1979سے تدریس کی ذمہ داریاں قبول کی تھیں بعد میں 2002سے جب الہلال ہائ اسکول جامعہ کے زیر اہتمام قائم کیا گیا تووہ وہاں پر اردو اور عربی کے مدرس ہوگئے، پھر جب مکتب کو ازسرنو قائم کیا گیا تو ان کی خدمات یہاں دوںارہ منتقل ہوگئیں
وہ تقریبا تیس سال سے مکتب کے صدر مدرس تھے اور اپنی تفویض کردہ داریوں کو بطریق احسن انجام دے رہے تھے
وہ عرصہ سے دمہ کے مریض تھے اور شدید کھانسی کی شکایت تھی ادھرچند دنوں قبل پت کی تھیلی میں پتھری کی شکایت ہوئ جس کے لئے یہاں کے مشہور معالج ڈاکٹر انوار صاحب نے آپریشن کا مشورہ دیا جب کہ ان کی عمر اور دمہ وکھانسی کی تکالیف کی وجہ سے میں ذاتی طور پر اس سے متفق نہیں تھا بہرحال اللہ کا فیصلہ ہر رائے اورہر فیصلہ کے اوپر چلتاہے ،آپریشن کے بعد دو دن تک بظاہر طبیعت ٹھیک تھی اور بتدریج افاقہ ہورہاتھا جیسا کہ ان کے داماد مولانا شمیم سراجی نے مجھے بتایاتھا لیکن آج صبح ساڑھے سات بجے وقت موعود آپہونچا اور انھوں نے داعی اجل کو لبیک کہا فإنا لله وإنا اليه راجعون
وه ايك نيک طینت، متقی وپرہیزگار اور قناعت پسند وتقوی شعار شخص تھے ،اور ہر حال میں اللہ کے شکرگزاربندے اور راضی برضائے مولاتھے،
انھوں نے پوری تندہی اور اخلاص اور احساس ذمہ داری اور فرض شناسی کے ساتھ کافی طویل عرصہ تک جامعہ کی خدمت کی
اللہ تعالی انھیں ان خدمات کا نیک صلہ عطا فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ،ان کی بشری خطاووں ولغزشوں کو معاف فرمائے ،انکی نیکیوں کو شرف قبولیت سے نوازے اور ان کے بچوں کی حفاظت فرمائے اور ان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین
اللہ رب العالمین مولانا محمد سلیم اثری رحمہ اللہ کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے
مولانا عبد العظیم مدنی ناظم جامعہ خدیجہ الکبریٰ نے لکھا: جامعہ سراج العلوم کے قدیم ترین مشفق استاد جھنوں نے جھنڈانگر اور قرب وجوار کی کئی نسلوں کی تربیت فرمائی اور اپنی علمی وتدریسی خدمات سے مستفید فرمایا ایسے مستقل مزاج اور اپنے فن سے دلچسپی رکھنے والے کم ہوتے ہیں – اللہ رب العالمین ان کی خطاؤں سے درگذر فرمائے اور انھیں اپنے سایہ مغفرت میں جگہ دے-
ماہنامہ السراج کے معاون مدیر و جامعہ سراج العلوم کے استاذ مولانا سعود اختر عبدالمنان سلفی نے لکھا : تعلیمی و تدریسی حلقوں میں یہ خبر نہایت ہی رنج و غم کے ساتھ سنی اور پڑھی گئی کہ جماعت کے بزرگ عالم دین کہنہ مشق مدرس و منتظم جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر نیپال کے صدر مدرس استاد محترم مولانا محمد سلیم اثری صاحب/ رحمہ اللہ بقضائے الہی ایک مختصر علالت کے بعد رحلت فرما گئے۔
ناچیز مولانا کے ایک ادنیٰ شاگرد ہونے کی حیثیت سے بجا طورپر کہنے کا حق دار ہے اور اس میں ذرا بھی مبالغہ آرائی نہیں کہ مولانا موصوف نے کتنے لوگوں کو ایک اچھا انسان بنایا۔ مولانا ایک محنتی اور اپنے پیشہ میں حد درجہ مخلص انسان تھے۔ میں نے عرصہ چار برسوں تک سبقاً سبقاً آپ سے فیض حاصل کیا، بلکہ مولانا محترم میرے تمام بھائی بہن اور میرے گھر کے سارے بچوں کے استاد ہیں۔ مولانا کا انتقال ایک بہت بڑا تدریسی خلا اور جامعہ کے لیے زبردست تدریسی خسارہ ہے۔ اللہ اپنے فضل سے آپ کی وفات سے پیدا ہونے والے خلا کو پر فرمائے اور مولانا کی مغفرت فرما کر جنت الفردوس کا مکین بنائے۔آمین!
جامعہ کے ریکٹر ڈاکٹر عبد الغنی القوفی نے مولانا کی وفات پر لکھا : آج علی الصباح جامعہ سراج العلوم کے قدیم استاد مولانا محمد سلیم اثری صاحب کا انتقال ہو گیا. موصوف بہت ہی منکسر مزاج، متواضع اور سادہ ہاو بھاؤ کے اور نہایت بے ضرر قسم کے انسان تھے، جامعہ کے پرانے اور وفادار خادمین میں سے تھے، اللہ ان کی بشری لغزشوں سے درگزر فرمائے، لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے، جامعہ اور جامعہ کے منسوبین کے لئے یقیناً یہ ایک صبر آزما گھڑی ہے. اللہ ان کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے اور جنت الفردوس کو ان کا مسکن بنائے. آمین
معروف قلمکار و ناقد رشید ودود نے اپنے استاذ کے انتقال پر تعزیتی کلمات کچھ اس انداز میں لکھے ہیں:
پرسوں نرسوں خبر ملی تھی کہ استاذ محترم مولانا محمد سلیم اثری کا آپریشن ہوا ہے، آج خبر ملی کہ مولانا اب نہیں رہے، انا للہ و انا الیہ راجعون-
مولانا اثری سراج العلوم جھنڈا نگر کے مکتب میں استاذ تھے، ہم نے ہوش سنبھالا تو مولانا کو یہیں دیکھا اور آج تک مولانا یہیں تھے، سراج العلوم سے یہ تعلق مولانا نے نہیں چھوڑا موت نے چھڑوا دیا-
درجہ سوم سے درجہ پنجم تک ہم نے باقاعدہ مولانا سے پڑھا اور ہم کیا ہمارے گھر کا یا جھنڈے نگر کا شاید ہی کوئی بچہ ہو جسے مولانا نے نہ پڑھایا ہو، مولانا جتنا اچھا پڑھاتے تھے، اتنا ہی اچھا مارتے بھی تھے، بظاہر کھڑوس تھے لیکن دل کے اچھے تھے، لئے دیئے رہتے تھے، نہ کاہو سے دوستی نہ کاہو سے بیر بس اپنے کام سے مطلب اور ان کا کام تھا نسلوں کو سنوارنا، انہوں نے ہماری نسلوں کو سنوارا، ہمیں سنوارا لیکن خود ہمیشہ بکھرے رہے، زندگی بھر غربت کے ذریعے لگائے گئے زخموں کو مولانا سہلاتے رہے لیکن کھانس کھانس کر تازہ دم ہوتے رہے، کبھی تھکے نہیں ہمیشہ چلتے ہی رہے، جواں عمر بیٹے کی موت نے مولانا کی کمر جھکا دی، ان کی چال میں لڑکھڑاہٹ آ گئی، ضرورتوں کے پہاڑ نے مولانا کو کبھی تھکنے نہیں دیا تھا لیکن اب تھکن کا احساس ان کے چہرے مہرے سے ظاہر ہونے لگا تھا، مولانا اپنے گھر کے اکیلے کمانے والے تھے لیکن کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا، قناعت اور صبر نے ان کے چہرے پر طمانیت کا نور بکھیر دیا تھا، گئے تھے پتھری کا آپریشن کرانے لیکن موت کے بے رحم پنجوں نے انہیں جانبر نہ ہونے دیا-
خدا ہمارے مولانا کو اعلی علیین میں جگہ دے، ان کی لغزشوں سے درگزر کرے اور ان کے بچوں کا نگہبان ہو اور ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اپنے حصے کا چراغ جلا سکیں-

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter