علماء اور دعاۃ کی بیویاں۔۔۔ اپنے شوہروں کا صدقہ کریں !!!

سرفراز فیضی - ممبئی

20 ستمبر, 2022

 

انتساب: *زوجۂ محترمہ سکینہ بنت مولانا عبدالعلیم ماہر رحمہ اللہ*

~~~~~~

عام لوگوں کی بیویاں عام ہوتی ہیں اور خاص لوگوں کی بیویاں خاص ، اس کائنات میں سب سے خاص اللہ کےنبی محمد رسول اللہ ﷺ کی شخصیت تھی، اس لیے آپ کی بیویوں کو بھی سب سے خاص مقام عطا گیا، اللہ رب العزت نے ان کے بارے میں فرمایا ” لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ” کہ اے نبی ﷺ کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو ۔

تو جیسے نبی ﷺ کی شخصیت سارے انسانوں میں سب سے خاص تھی ویسے ہی نبی ﷺ کے حقیقی وارثین علماء کرام بھی سارے انسانوں میں سب سے خاص ہیں اور جیسے نبی ﷺ کی بیویوں سے کہا گیا کہ تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو ویسے ہی علماء کی بیویوں کو بھی عام عورتوں کی طرح نہیں ہونا چاہیے ، ان کا مقام اعلی ہے تو ان کا کردار بھی اعلی ہونا چاہیے، ان کی آرزوئیں ، تمنائیں عام عورتوں کی طرح سطحی نہیں ہونی چاہئیں،ان کی سوچ دنیا پرست عورتوں کی طرح پست اور گھٹیا نہیں ہونی چاہیے، صرف دنیا طلبی ان کی زندگی کا مقصد نہیں ہونا چاہیے، ان کی سیرت مثالی اور ان کا کردار نبی ﷺ کی بیویوں کے مشابہ ہونا چاہیے۔

 

اگر آپ ایک عالم اور داعی کی بیوی ہیں تو آپ کو سمجھنا چاہیے کہ آپ عام عورتوں کی طرح صرف اپنے شوہروں کی بیویاں نہیں ، آپ دعوت دین کے سفر میں ان کی ہم سفر ہیں ، آپ ان کا سہارا اور سپورٹ ہیں، گھر کے باہر ان کو دعوت کی جو اہم ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں ان کی ادائیگی آپ کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں، لہذا آپ کو ان کی قوت بننا ہے ، ان کی کمزوری نہیں، ان کی طاقت بننا ہے ، ان کی مجبوری نہیں، ان کی ہمت اور جرأت کو بڑھانا ہے ان کے راستے کا روڑا بن کر ان کے مشن میں حائل نہیں ہوجانا ہے ۔

 

ایک حقیقی داعی کی گھر کے باہر کی زندگی مسلسل فکرمندیوں سے عبارت ہوتی ہے، ہزار مسائل اس کے سکون کو غارت کر نے والے ہوتے ہیں، وہ مسلسل اہل باطل کی یلغاروں کے نشانے پر ہوتا ہے، ان یلغاروں کا سامنا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے گھر کے اندر کی زندگی پر سکون ہو، یہ گھر کے اندر کا سکون گھر کے باہر کی بے سکونی کا مقابلہ کرنے میں اس کی مدد کرتا ہے۔

 

اگر آپ اپنے شوہر کے لیے گھر میں سکون فراہم نہیں کریں گی تو اس کے لیے مصیبتیں دو گنی ہوجائیں گی، باہر کے ٹینشن کے ساتھ گھر کا ٹینشن اس کے حوصلے توڑ دے گا، ممکن کہ وہ ہمت ہار کر بیٹھ جائے یا دعوت کے راستے میں اس کی رفتار سست پڑ جائے جس کی ذمہ دار آپ ہوں گی۔

 

ایک عالم دین اور داعی الی اللہ کی بیوی ہونے کا مطلب ہے کہ آپ اپنے شوہر کی شریک سفر ہی نہیں شریک اجر بھی ہیں، عام عورتیں اپنے شوہروں کی خدمت کرتی ہیں تو ان کو شوہروں کی خدمت کا ثواب ملتا ہے، آپ اپنے شوہروں کی خدمت کرتی ہیں تو آپ کو شوہر کی خدمت کے ساتھ ساتھ ،دین کی خدمت کا ثواب بھی ملتا ہےاور اپنے شوہر کے ساتھ دعوت پر ملنے والے اجر میں بھی آپ ان کی حصہ دار ہوجاتی ہیں۔

 

آپ ایک روٹی بھی بناکر اپنے شوہر کو کھلاتی ہیں تو اس روٹی سے حاصل ہونے والی قوت آپ کا شوہر اللہ کے کلمے کو بلند کرنے اور اللہ کے دین کو عام کرنے پر لگاتا ہے، آپ کی دی ہوئی توانائی اللہ کے بندوں کی رہنمائی میں صرف ہوتی ہے، یوں آپ کا روٹی بنانا بھی دین کی خدمت ہے، کوئی عام عورت آپ کا مقابلہ کہاں کرسکتی ہے ؟

 

آپ کے شوہر کی دعوت سے کوئی بے نمازی نمازی بن جاتا ہے، دو روٹھے رشتے دار صلح کرلیتےہیں، کوئی جوان جہیز نہیں لیتا ، کسی عورت کو وراثت میں اس کا حصہ مل جاتا ہے، کوئی بدعتی بدعت سے توبہ کرلیتا ہے، کوئی قبر پرست قبرپرستی چھوڑی دیتا ہے، کوئی ولی پرست شرک سے تائب ہوجاتا ہے ان سب نیکیوں کا ثواب گھر بیٹھے آپ کے کھاتے میں جمع ہوتا جاتا ہے، شرط صرف یہ ہے کہ آپ کے نیت میں اخلاص اور للہیت ہو، پھر آپ ہر اجر میں شوہر کے ساتھ شریک ہوجاتی ہیں۔

 

اور کیونکہ دعوت پر ملنے والے اجر میں آپ اپنے شوہر کے ساتھ شریک ہیں تو دعوت کےراستے میں آنے والے صبر میں بھی آپ کو ان کے ساتھ شریک ہونا پڑے گا۔

 

خوب جان لیجیے کہ دعوت کوئی پھولوں کی سیج نہیں یہ کانٹوں کا تخت ہے، اس راستے میں مخمل کے قالین نہیں نوکیلے پتھر ہیں، اس لیے دعوت اور صبر لازم و ملزوم ہیں، یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں بار بار حق کی دعوت کے ساتھ صبر کی تلقین کی گئی ہے، اب کیونکہ آپ نے ایک عالم دین اور داعی الی اللہ کی دعوتی زندگی میں اس کے ہمسفر بننے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ کانٹے آپ کے قدموں تک بھی پہنچیں گے، یہ زخم آپ کے تلووں کو بھی لہو لہان کریں گے ، صبر کا یہ اجر آپ کے لیے اسی صورت میں ہے کہ آپ خالصتا اللہ کے لیے اس راستے میں آنے والی تکلیفوں کو برادشت کریں اور ان مصیبتوں پر صبر کرکے اجر کی امید رکھیں، جزع فزع اور شکوے شکایتوں سے اس عظیم اجر کو ضائع نہ کریں اور خود کو قربانیوں کے لیے تیار رکھیں ۔

 

وہ قربانیاں جو آپ کو اس راہ میں دینی ہے ان میں سب سے بڑی قربانی وقت کی قربانی ہے ۔

"وقت” ایک عالم اور ایک داعی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتا ہے، مستقبل میں اس کی کامیابی اور ناکامی، ترقی اور تنزل کا انحصار اسی بات پر ہوتا ہے کہ اس نے علم اور تعلیم کے میدان میں کتنے "وقت” کی سرمایہ کاری کی ہے، اس لیے ایک عالم اور داعی کی وقت کے ساتھ ایک ریس لگی ہوتی اور وقت کے ساتھ اس دوڑ میں کبھی کبھی فیملی پیچھے چھوٹ جاتی ہے اور ایک عالم دین اپنی بیوی کو اتنا وقت نہیں دے پاتا جتنی کی وہ مستحق ہے۔

 

وقت کی قلت علماء کا مسئلہ ہوتی ہے اور یہ مسئلہ ان کی بیویوں کو بھی متاثر کرتا ہے، صرف اس دور کی نہیں قدیم علماء کی بیویاں بھی وقت کے معاملہ میں اپنے شوہروں سے شکایت کناں رہتی تھیں، امام زہری رحمہ اللہ کی بیوی فرمایا کرتی تھیں ”والله لَهَذه الكتب أشدُّ عليَّ من ثلاثِ ضرائر!!“ کہ اللہ کی قسم! آپ کی یہ کتابیں مجھ پر تین سوکنوں سے زیادہ بھاری ہیں۔”

 

پھر دعوتی مصروفیات بھی وقت طلب سرگرمیاں ہوتی ہیں، دورس ومحاضرات ، دعوتی اسفار، تصنیف ، تالیف اور ترجمے کی مشغولیات ، تدریسی خدمات اور انفرادی ملاقاتوں کی ذمہ داریاں ایک عالم اور اس کی فیملی کے درمیان حائل ہوکر اس کو اپنی فیملی سے اور اس کی فیملی کو اس سے دور کردیتی ہیں ، ایک عالم اپنا وقت رسول اللہ ﷺ کی امت کے لیے وقف کردیتا ہے، لیکن جو وقت وہ امت کے لیے وقف کرتا ہے وہ صرف اس کا وقت نہیں ہوتا ، اس کی فیملی کا بھی وقت ہوتا ہے۔

 

اگر آپ ایک عالم دین کی بیوی ہیں تو ان نزاکتوں کو سمجھیں اور ان مجبوریوں کی وجہ سے اپنے شوہر کو عذر دیں ، شکایتیں کرکے اتنے عظیم اجر کو ضائع نہ کریں ، صبر ورضا کا مظاہرہ کرکے اپنے شوہر کی ہمت بڑھائیں، اس کے حوصلے کو بلند فرمائیں!

 

یاد رکھیں! بڑا مقام بڑی قربانیوں کے بغیر نہیں ملتا "جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے” آپ کا منصب بڑا ہے تو اس منصب کے تقاضے بھی بڑے ہیں اور ان تقاضوں کو نبھانے کے لیے قربانیاں بھی آپ کو بڑی دینی پڑیں گی، ایک عالم امت کے لیے صرف اپنے نہیں اپنی فیملی کے مفادات بھی قربان کرتا ہے، یہ اس کی عظمت کی دلیل اور اس للہیت کی علامت ہے، یہ آپ کے لیے سعادت اور خوش قسمتی کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے عالم وداعی بندے کی زوجیت کے لیے آپ کو منتخب کرکےاپنے دین کے لیے قربانی دینے کی خاطر آپ کو چنا ہے۔

 

کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، ایسے ہی ہر کامیاب داعی کے پیچھے اس کی ماں کے بعد سب سے بڑا کردار اس کی بیوی کا ہوتا ہے۔ نبی ﷺ نے عالم کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ عالم فضیلت عام عبادت گزاروں پر ایسے ہی جیسے چاند کی فضیلت تمام تاروں پر، آپ کا شوہر اگر چاند ہے تو آپ اس کے بغل میں جگمگانے والا ستارہ ہے جس نے اپنی ضوفشانیاں لٹا کر چاند کی روشنی کو جلا بخشی ہے۔

 

لہذا اپنے مقام کو سمجھیں اور اپنے ذمہ داریوں کے احساس کے ساتھ زندگی گزاریں ، مقام کی بلندی کا شعور زندہ رہے گا تو مصیبتوں پر صبر کرنا آسان ہو جائے گا۔

 

وقت کی قلت پر آپ کی تکلیف بجا ہے، لیکن یہ بھی سوچیں کہ آپ کا وقت کہاں خرچ ہورہا ہے؟ نبی کریم ﷺ کی امت کی اصلاح پر ، توحید کے پرچار میں ، شرک وبدعات ، ضلالات وخرافات کے قلع قمع کرنے پر ، بس آپ کی صبر ورضا کی ایک ادا آپ کو گھر بیٹھے کتنے بڑے اجر کا مستحق بنا رہی ہے۔

 

*آپ کا منصب عام لوگوں سے بلند ہے اس لیے آپ کی قربانیاں بھی عام لوگوں سے بڑی ہے، لوگ تو اللہ کو خوش کرنے کے لیے اپنا مال اللہ کے راستے میں صدقہ کرتے ہیں، آپ نے اپنا شوہر اللہ کے راستے میں صدقہ کیا ہے، آپ کے صدقے جیسا صدقہ کس کا ہوگا ، آپ کی عظمت جیسی عظمت کا کو نصیب ہوگی۔*

 

اللہ رب العزت کا فرمان ہے ” لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ” کہ تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیز اللہ کےلیے صدقہ نہ کردو۔

*لوگ اپنا محبوب مال صدقہ کرکے اللہ کہ رضا مندی چاہتے ہیں آپ نے تو اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنا محبوب شوہر اللہ کے راستے میں صدقہ کردیا ہے، آپ کی نیکی جیسی نیکی کس کی ہوگی ، آپ کی عظمت کے مقام کو بھلا عام سی عورتیں کہاں پہنچ سکتی ہیں۔ بس ایک شرط ہے ، کہ شکوہ شکایتوں سے پرہیز خالصتا اللہ کے لیے ہو، صبر کے سارے گھونٹ اجر کی امید پر پیے جائیں۔*

 

دوسری قربانی جو دین کےلیے آپ کو دینی ہے وہ ہے مالی قربانی ، کیونکہ علماء کے ساتھ مالی معاملات میں قوم کا تعاون ٹھیک نہیں،علماء ، دعاۃ ، ائمہ مساجد اور مدرسین کی تنخواہوں کا معیار اتنا بھی نہیں ہوتا کہ اپنی فیملی کی ضرورتیں پوری کرلیں ان کے شوق پورے کرنا تو بڑی بات ہوجاتی ہے ، اس لیے علماء کی بیویوں کو قدم قدم پر مالی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، دل مارنا پڑتا ہے، آروزئیں دبانی پڑ جاتی ہیں ، خواہشات کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے، لیکن ان مشکلات پر یہ سوچ کر صبر کیجییے کہ آپ کے شوہر نے دنیا کمانےکے بجائے آخرت کمانےکو ترجیح دی ہے ۔ اور آخرت کمانے کے راستےمیں دنیا کی مصبتیں تو آنی ہی ہیں۔

 

آخرت کمانے والے دنیاداروں کی طرح مادی آرزؤوں اور تمناؤں میں نہیں جی سکتے ، لہذا آپ کی خواہشات بھی دنیا دار عورتوں کی طرح پست اور سطحی نہیں ہونی چاہئیں، آپ کے لیے نبی ﷺ کی بیویاں اسوہ ہیں جن کے گھروں میں کئی کئی مہینے چولہے نہیں جلتے تھے اور ان مصیبتوں پر وہ اس لیے صبر کرتی تھیں کیونکہ انہوں نے دنیا کی زندگی تیاگ کر اللہ ، اس کے رسول ﷺ اور آخرت کو چنا تھا، آپ کو بھی یہی سوچنا ہےکہ آپ نے دنیا کو قربان کرکے دین کو چن لیا، آپ کی آئیڈیل امہات المومنین ہیں، آپ کا مقصد زندگی ان کی طرح مادی تمناؤں سے پاک ہے، آپ کا انتخاب صاف وشفاف ہے، آپ کا مقصود آخرت ہے۔

آخرت کے اجر کی حلاوت اگر ذہن میں ہوگی تو صبر کے گھونٹوں کی کڑواہٹ ختم ہوجائے گی۔ ان شـــــــاء اللـــــــہ تعالیٰ

 

تیسری بات یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ بہت ساری جاہلی رسومات کی بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہے ، علماء انبیاء کے وارث ہیں اس لیے ان بیڑیوں سے معاشرے کو آزاد کرانا اور نبی ﷺ کی سنتوں کو زندہ کرنا علماءکی ذمہ داری ہے، وہ سنتیں جو معاشرے کو قبول نہیں ہوتیں معاشرہ ان کو زندہ کرنے والے علماء کے خلاف کھڑا ہوجاتا ہے ، ایسےمیں آپ کو معاشرے کے خلاف اپنے شوہر کے ساتھ کھڑا ہونا ہے نہ کہ شوہر کے خلاف معاشرے کے ساتھ۔

 

نبی ﷺ کی بہت ساری سنتیں جن کو زندہ کرنا معاشرے کے نزدیک جرم ہے، تو جب اس جرم پداش میں معاشرے آپ کے شوہر کے خلاف کھڑا ہونائے تو دو کرداروں میں سے کسی ایک کردار کا انتخاب آپ کرسکتی ہیں۔

 

ایک کردار نوح علیہ السلام کی بیوی کا ہے جو اپنے شوہر کے خلاف معاشرے کے ساتھ کھڑی ہوگئیں اور دوسرا کردار حضرت خدیجہ کا جو معاشرے کے خلاف اپنے شوہر کے ساتھ کھڑی ہوئیں، اپنے محبت کے دامن میں ان کو پناہ دی، اپنا تن من، جان مال سب اپنے شوہر پر نچھاور کردیا ۔

 

آپ کو دیکھنا ہے کہ ان دو کرداروں میں سے آپ کو کون سا کردار نبھانا ہے اور آپ کون سا کردار نبھا رہی ہیں۔

 

سیرت نبوی ﷺ سے ایک اور مثال دیکھیے ! عرب معاشرے میں منہ بولے بیٹے سگے بیٹوں کی طرح سمجھے جاتےتھے اور ان کی بیویوں سے نکاح سگی بہؤوں کی طرح حرام سمجھا جاتا تھا، اللہ رب العالمین چاہتا تھا کہ معاشرے سے یہ جاہلی رسم ختم ہو تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو اس رسم کے خاتمے کے لیے آگے بڑھایا ، آپ نے سابقہ منہ بولے بیٹے زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مطلقہ حضرت زینب سے نکاح کیا، معاشرے کے منافقین اور مشرکین اور جاہلیت قدیمہ کے حامی نبی ﷺ کے خلاف کھڑے ہوگئے ، ایسا شدید پروپیگنڈہ کیا جس کے اثرات آج تک محسوس کیےجاتے ہیں ۔

 

لیکن ایسے نازک موقع پر نبی ﷺ کی بیویوں نے نبی ﷺ کا بھر پور ساتھ دیا، دل کی گہرائی سے آپ کے نکاح کو قبول کیا ، آپ کو برکت کی دعائیں دیں آپ ﷺ کی دلجوئی کی اور ولیمے کے بعد جب ہر بیوی کے گھر پر گئے تو ہر بیوی نے پوچھا ” کیف وجدت اھلک” ” آپ کی نئی بیوی کیسی لگی آپ کو”.

 

سوکن کا اضافہ کسی عورت کو پسند نہیں ہوتا، ازواج مطہرات کو بھی پسند نہیں تھا، لیکن ازواج مطہرات نے اپنی فطری ناپسندیدگی کو شریعت کا حکم پر حاوی نہیں ہونے دیا ۔

 

تو جیسے نبی ﷺ کی بیویاں جاہلیت قدیمہ کے خلاف اپنے شوہر کے ساتھ کھڑی ہوگئیں ویسے ہی جاہلیت جدیدہ کے خلاف آپ کو اپنے شوہر کے ساتھ کھڑا ہونا ہے، نبی ﷺ کی سنت کے ساتھ کھڑا ہونا ہے، صرف زبان سے یہ دعوے کافی نہیں کہ نبی ﷺ کی بیویاں ہمارے لیے آئیڈیل ہیں، عملا اپنے کردار سے آپ کو ثبوت دینا پڑے گا کہ واقعتا نبی ﷺ کی بیویاں آپ کے لیے آئیڈیل ہیں۔

 

جب ہم سیرت کی کتابوں میں صحابیات کا ذکر پڑھتے ہیں کہ مائیں اپنے بچوں کو، بیویاں اپنے شوہروں کو جہاد کے لیے تیار کرکے بھیجتی تھیں تو ہمارا ایمان بڑھ جاتا ہے، بلکہ ایمان کی شدت ایک مومنہ کے دل میں یہ خواہش پیدا کرتی ہے کہ ایسی سعادت کا موقع کاش اس کو بھی نصیب ہوسکتا ، تو جان لیجیے کہ جہاد صرف تلوار کا نہیں علم کا بھی ہوتا ہے، صرف کافر حکومتوں سے نہیں ہوتا اپنے معاشرے کی جاہلی رسومات کے خلاف کھڑا ہونا بھی جہاد ہے، آپ کا شوہر اگر سماج کی جاہلی رسومات کے خلاف کھڑا ہے تو آپ کو بھی ایک مجاہد مرد کی مجاہدہ بیوی کا رول نبھانا ہے، آپ کو اس کے ساتھ کھڑے ہوکر اس کا حوصلہ بڑھانا ہے، بلکہ اپنے ہاتھوں سے اس کو احیاء سنت اور جاہلیت ہے خلاف جہاد کے لیے تیار کرنا ہے، یہ آپ کے لیے سعادت ہی بات ہے کہ اللہ نے اس عظیم کار خیر کا موقع آپ کے نصیب میں رکھا ہے۔

 

آخری بات یہ ہے کہ آپ ایک عالم دین کی بیوی ہیں ، آپ کی عزت کے ساتھ آپ کے شوہر کی عزت وابستہ ہے اور آپ کے شوہر کی عزت کے ساتھ دین کی عزت وابستہ ہے ، لہذا آپ کو اپنی عزت کا خیال عام عورتوں سے زیادہ رکھنا چاہیے ۔

 

عام عورت غلطی کرتی ہے تو انگلیاں صرف اس کے کردارپر اٹھتی ہیں ، آپ سے کوئی غلطی سرزد ہوتی ہے تو لوگ یہ نہیں کہتے "فلاں عورت نے غلطی کی ہے ” لوگ کہتے ہیں "فلاں شیخ کی بیوی ایسی ہے ” یوں آپ کی غلطی سے آپ کے شوہر کی عزت مجروح ہوتی ہےاور اس کی عزت مجروح ہونے سے دین کی عزت مجروح ہوتی ہے ۔

لہذا یاد رکھیں ! آپ بہت خاص ہیں ، اس لیے آپ کا کردارزیادہ اعلیٰ ، آپ کے اخلاق زیادہ اچھے اور آپ کی سیرت زیادہ شفاف ہونی چاہیے ۔

اللہ ہم سب کو اخلاص نیت اور حسن عمل کی توفیق دے ۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter