حرمين شريفين کی حرمت کتاب وسنت کی روشنی میں

قمر الدين رياضي استاذ جامعة سراج العلوم السلفية نيبال

14 جنوری, 2024

جس شخص کو بھی ادنی علم وبصیرت ہوگااس سے یہ بات مخفی نہ ہوگی کہ شریعت اسلامیہ میں حرمین شریفین کا مقام ومرتبہ کیا ہے، حرمین شریفین کا تقدس اس کےیہاں عیاں ہوگا، کیونکہ قرآن کریم اوراحادیث نبویہ میں اس کی خوب وضاحت کی گئی ہے، لیکن بطور تذکیر اس کی حرمت کے حوالے سے کچھ چیزیں ذکر کی جارہی ہیں تاکہ اس کا تقدس ہر مسلمان کے دل میں تا قیامت باقی رہے۔
قرآن کریم میں صاف طور سے اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اس روئے زمین پر اللہ کی عبادت کے لئے سب سے پہلا گھر جو تعمیر کیا گیاوہ خانہ کعبہ ہے، اس گھر کی تعمیراللہ کے خلیل سیدنا ابراہیم اور ان کے لخت جگرحضرت اسماعیل علیہما السلام کے مبارک ہا تھوں پایہ تکمیل تک پہونچی، ارشاد باری تعالی ہے:(ان أول بیت وضع للنا س للذی ببکۃ مبارکا وہدی للعالمین٭فیہ آیات بینات مقام ابراہیم ومن دخلہ کان امنا)ترجمہ:اللہ تعالی کاپہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ میں ہے جو تمام دیناکے لئے برکت اور ہدایت والا ہے۔جس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں مقام ابراہیم ہے اس میں جو آجائے امن والا ہو جاتاہے۔
مذکورہ آیات میں اللہ تعالی نے خانہ کعبہ کا مسلمانوں کی عبادت کا پہلا گھر قراردیتے ہوئے اس کو باعث برکت وہدایت قراردیاہے، جوبھی اس میں داخل ہوجائے مامون ہوگا، اور مقام ابراہیم کو اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی قراردیا ہے۔ ان تمام امور سے مکۃ المکرمہ کی حرمت اظہر من الشمس ہوجاتی ہے۔یہی نہیں بلکہ خانہ کعبہ کولوگوں کے توبہ کی جگہ ومثابت قرار دیاگیا، ارشادباری تعالی ہے:(واذ جعلناالبیت مثابۃللناس وامنا)ترجمہ:ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لئے ثواب اور امن وامان کی جگہ بنائی۔
ایسے ہی شہر رسول ﷺمدینہ طیبہ کے متعلق احادیث نبویہ میں فضیلتیں وارد ہوئی ہیں، چنانچہ امام مسلم کی وہ روایت جس کو صحابی رسول حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:(اللہم ان ابراہیم حرم مکۃ فجعلہا حرما وانی حرمت المدینۃ حراما مابین مأزمیہا أن لا یہراق فیہا دم ولا یحمل فیہا سلاح لقتال ولا تخبط فیہا شجرۃ لا لعلف)ترجمہ:اے اللہ بلا شبہ ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کی حرمت کا اعلان کیا اور اسے حرم بنایا، اور میں نے مدینہ کو اس کے دونوں پہاڑوں کے درمیان کو حرمت والا قرار دیا کہ اس میں خون نہ بہایا جائے، اس میں لڑائی کے لئے اسلحہ نہ اٹھایا جائے اور اس میں چارے کے سوااس کے درختوں کے پتے نہ جھاڑے جائیں۔
نصوص شرعیہ میں حرم مکی وحرم مدنی کے حدود متعین کئے گئے ہیں، ان کے حدودمیں کفار ومشرکین کو داخل ہونے سے منع کیا گیاہے، حرم مکی کے حوالے سے اللہ تعالی نے فرمایا:(یایہا الذین آمنواانما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجدالحرام بعد عامہم ہذا)ترجمہ: اے ایمان والو! بیشک مشرکین بالکل ہی ناپاک ہیں وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائیں۔
اس آیت کریمہ میں کفار ومشرکین کو مکمل طور سے حدود حرم مکی میں داخل ہونے سے منع کیا جارہا ہے، کسی کافر کے لئے جائز نہیں کہ وہ حدود میں داخل ہو۔یہاں ایک بات ضرور ملحوظ رکھی جائے کہ علماء کرام حرم مکی اور حرم مدنی دونوں کی حرمت میں تفریق کرتے ہیں، چنانچہ حرم مکی کے حدوود میں کلی طور پر مشرکین کے داخلے کو حرام قرار دیتے ہیں جب کہ حرم مدنی میں بغرض مصحلت وضرورت جائز قراردیتے ہیں، چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:(علماء کرام فرماتے:غیر مسلم حجاز(بشمول مدینہ منورہ)کے سفر کرسکتے ہیں،انہیں روکا نہیں جائے گا،تاہم انہیں تین دن سے زیادہ ٹھہرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جیساکہ امام شافعی رحمہ اللہ اور ان سے اتفا ق رکھنے والے کہتے ہیں، البتہ حرم مکی کے حدود میں غیر مسلموں کو کسی بھی صورت میں داخل ہونے کی اجازت نہ ہوگی)۔
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(عمر بن عبدالعزیزرحمہ اللہ نے ولید بن عبد الملک دور خلافت میں مسجد نبوی کی تعمیر وترمیم کے لئے نصرانی مزدوروں کواجرت پر رکھا تھا)۔اسی طرح ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(غیر مسلمین کو حجاز کے علاقے میں مستقل رہائش کے لئے اجازت نہیں دی جاسکتی، تاہم انہیں داخل ہونے کی اجازت دینا درست ہے کیونکہ وہ لوگ خلفاء راشدین عمر بن خطاب اور عثمان غنی رضی اللہ عنہما اور ان کے بعد کے خلفاء کے دورحکزمت میں وہاں جایا کرتے تھے، ہاں بلااجازت یہ داخل نہیں ہوسکتے ہیں، حجاز میں مشرکین کا داخل ہونامسلمانوں کی ضرورت ومصلحت کی خاطر ہے،اور یہ حاکم وقت کی رائے پر موقوف ہے کہ انہیں وہاں داخل ہونے کی اجازت دے یا نہ دے۔
اسی طرح علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(غیر مسلموں کو مدینہ منورہ میں کسی مصلحت وضرورت کے تحت داخل ہونے کی اجازت دینا جائز ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے نجران سے آنے وفدکو مسجد نبوی میں ٹھہرایا تھااور جس آیت میں مسجد حرام میں مشرکوں کے داخل ہونے کی ممانعت ہے اس میں مدینہ منورہ شامل نہیں ہے)۔اسی طرح بعض روایتوں میں وارد ہے کہ قبیلہ بنو ثقیف کو بھی نبی کریم ﷺنے مسجد نبوی میں ٹھہرایا تھا۔
حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا میں اس خبر کوخوب شیئر کیا گیا جس میں ہندوستانی وزیراسمرتی ایرانی نے مدینہ منورہ کی زیارت کی،اس معاملہ کولیکرمملکت سعودی عرب پر نقد کیاگیا، یہاں تک کہ عالم اسلام میں جواس حکومت کے جہود وخدمات ہیں اس پر پانی پھیر دیاگیا، اور وہاں کے حکمرانوں پر سخت جملے کسے گئے، لیکن دوسروں پر انگلی اٹھانے والوں کو پہلے خود اپنے بارے میں غور کرنا چاہیے تھاکہ کس طرح سے ہمارا معاشرہ شرک وبدعات کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے، غیراللہ سے جاجتیں طلب کرنا، غیروں کے نام پر نذرونیاز ہمارے معاشرے کاشیوہ بن چکا ہے، اور یہ ایساگناہ ہے جس کو اللہ تعالی معاف نہیں کرے گا۔اوررہا مسالہ حرم مدنی میں کفارومشرکین کے دخول کا،توجب نبی کریمﷺ نے سے عمل خود ثابت ہے چاہے اسلام سے قبل ثمامہ بن اثال کا مسجد نبوی میں باندھے رکھنا، یا قبیلہ بنوثقیف و نجران کے وفدکومسجد نبوی میں ٹھہرانا وغیرہ توپھر کیوں کر لوگوں کو اعتراض ہوسکتا ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے، اور عقیدہ توحید کو حرزجان بنانے کوتوفیق بخشے۔ آمین یارب العالمین۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter