محسن نقوی کے حالات زندگی

مقالہ نگاران: مریم عبدالغفور ۔ عائشہ ذوالفقار

7 دسمبر, 2023

 

تعارف:

محسن نقوی اردو کے مشہور شاعر تھے ان کا مکمل نام سید غلام عباس تھا لفظ محسن ان کا تخلص تھا اور لفظ نقوی کو تخلص کے ساتھ استعمال کرتے تھے لہذا بحثیت ایک شاعر انہوں نے اپنے نام کو محسن نقوی میں تبدیل کر لیا اور اسی نام سے مشہور ہو گئے

پیدائش:

محسن نقوی 5 مئی 1947ء کو محلہ سادات، ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے محسن نقوی کا شجرہ نسب پیر شاہ جیونہ سے جا ملتا ہے حضرت سید پیر شاہ جیونہ کروڈیہ کا نسب نامہ حضرت سید جلال الدین نقوی البخاری سے ہوتا ہوا امام علی نقی سے جا ملتا ہے اس وجہ سے آپ نقوی سید کہلائے۔

انہیں جو ناز ہے خود پر نہیں بے وجہ محسن

کہ جس کو ہم نے چاہا ہو وہ خود کو عام کیوں سمجھے

تعلیم کا آغاز:

ابتدائی تعلیم گھر کے قریبی سکول سے حاصل کی پھر گورنمنٹ کالج محسن روڈ ملتان سے گریجویشن کی ڈگری مکمل کی۔ جامعہ پنجاب ایم اے اردو کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ ایم اے اردو کی تعلیم کے درمیان پہلا مجموعہ کلام پیش ہوا ایم اے اردو کے بعد عرصہ عراق سے بھی تعلیم حاصل کی۔

ریزہ ریزہ ہے میرا عکس تو حیرت یہ ہے محسن

میرا آئینہ سلامت ہے تو پھر ٹوٹا کیا ہے؟

خاندان سے تعلق:

آپ کے والد کا نام سید چراغ حسین، دادا کا نام سید مہر حسین تھا اور نانا کا نام سید غلام سرور شاہ تھا۔ پاکستان بننے کے بعد ڈیرہ غازی خان غلہ منڈی میں سادات آرٹ کے نام سے والد کی دکان تھی ان کے والد سینڈل بنانے کا کام کرتے تھے سید محسن نقوی کے بھائی سید فرات عباس شاہ تھے ان کی پانچ بہنیں ہیں۔ سید محسن کی اولاد میں سید اسد نقوی اور سید عقیل محسن نقوی ہیں یہ دونوں اردو شاعری سے وابستہ تھے محمد و آل محمد کے ثنا خوان ہیں۔ ان کی بیٹی قرۃ العین تھی۔ جس کو ہم نے چاہا ہو وہ خود کو عام کیوں سمجھے۔

خطابات سے نوازا گیا:

محسن نقوی کو اردو ادب میں بہت سی خطابات سے نوازا گیا 1994ء میں صدر پاکستان کی طرف سے تمغہ حسن کارگردگی سے نوازا گیا انہیں اقبال ثانی کے خطاب سے نوازا گیا۔

ہم رشک آسمان تھے ابھی کل کی بات

کچھ حادثوں سے گر گئے محسن زمین پر

ازدواجی زندگی:

1968ء میں اپنے چچا خادم حسین کی صاحبزادی سے نکاح کیا یہ محبت پسند شاعر تھے اپنی زندگی انہوں نے بہت پیار سے گزاری اپنی بیوی سے ان کا بہت لگاؤ تھا محسن نقوی کی بیوی ہر مشکل اور آسان وقت میں ان کا ساتھ دیتی تھیں۔ ان کے ساتھ کی وجہ سے انہیں اپنی مشکل بھی مشکل نہ لگتی تھی چنانچہ انہوں نے اپنی زندگی انتہائی سادہ اور محبت سے گزاری انہیں اپنی بیوی کے ساتھ ذہنی اور دلی سکون ملتا تھا اس طرح ان کی زندگی پرسکون رہی۔

پہلے خوشبو کے مزاجوں کو سمجھ لو محسن

پھر گلستان میں کسی گل سے محبت کرنا

سیاست سے دلچسپی:

یہ سیاست سے دلچسپی رکھتے تھے پاکستان پیپلز پارٹی کو پسند کرتے تھے ان کے جلسوں میں خطاب اور شاعری کرتے تھے دو مرتبہ قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑا مگر جیت حاصل نہ ہو سکی بےنظیر کی پہلی حکومت میں محسن نقوی کو ان کی دانشوری کی وجہ سے مشیر خاص تعینات کیا۔ احمد فراز جیسی شخصیت ان سے متاثر تھی ان کو سیاست میں ایک الگ مقام حاصل تھا۔

ادبی خدمات:

محسن نقوی ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے جہاں انہیں بے پناہ شہرت حاصل ہوئی بعد میں محسن نقوی ایک خطیب کے روپ میں سامنے آئے۔ مجالس میں ذکر اہل بیت اور واقعات کربلا کے ساتھ ساتھ اہل بیت پہ لکھی ہوئی شاعری بیان کرتے تھے سید محسن نقوی نے اردو ادب میں نئی ایک شاعری روشناس کروائی۔ وہ مجالس میں ذکر اہلِ بیت پر خطابات اور شاعری کیا کرتے تھے شاعری کے ساتھ ساتھ وہ مرثیہ نگاری کے فن پر مہارت رکھتے تھے لوگ ان کے اثر سے نہ نکل پاتے۔ کربلا کے واقعات پر اور تاریخ پر ان کی شاعری بہت مقبول ہے اور آج بھی بہت پڑھی جاتی ہے ان کی شاعری میں نہ الف لیلہ کی محبت کا تاثر ملتا ہے بلکہ نظام دنیا اور ان کے حکمرانوں کے خلاف بھی لکھا جو اپنی عوام کے خلاف اقدامات کرتے رہے۔

آپ اپنی شاعری میں مختلف پہلوؤں کو بیان کرتے تھے سیاسی ہوں یا سماجی، معاشرتی ہوں یا معاشی ایسے سب پہلو پر روشنی ڈالی مگر ادب میں انہیں وہ مقام نہ ملا جن کے وہ حقدار تھے لیکن انہیں انہوں نے اپنی پوری زندگی اردو ادب پر نچھاور کر دی۔

پڑا ہے واسطہ محسن محبت کے یزیدوں سے

یہاں ہم اپنی آنکھوں میں بھی پانی رکھ نہیں سکتے

 

اتنا آسان نہیں شہر محبت کا پتہ محسن

خود بھٹکتے ہیں یہاں راہ بتانے والے

رہائش گاہ:

1980ء میں علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں ایک گھر تعمیر کروایا جس کا نام نقوی رضا ہاؤس رکھا۔ وہاں ہی وہ رہائش پذیر رہے یہ گھر ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔

 

وفات:

پھر ایک دن طلوع آفتاب غروب ہوگیا 15 جنوری 1996ء کو 48 سال کی عمر میں شر پسند دہشت گردوں کی جانب سے حملہ کر کے مون مارکیٹ لاہور میں شہید کر دیا گیا پر حق کو کی تقدیر ایسی ہی ہوتی ہے پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق 45 گولیاں لگی تھیں۔

یہ ہم سے کس نے لہو کا خراج مانگا

ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے

وفات سے قبل انہوں نے یہ شعر پڑھا۔

لے زندگی کا خمس علی کے غلام سے

اے موت آ ضرور مگر احترام سے

 

عاشق ہوں اگر ذرا بھی اذیت ہوئی مجھے

شکوہ کروں گا تیرا میں اپنے امام سے

ان کی نماز جنازہ علامہ آغا سید حامد علی شاہ نے ناصر باغ لاہور میں ادا کروائی پھر ان کا جسد خاکی ڈیرہ غازی خان میں منتقل کیا گیا جہاں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ کربلا شریف ڈیرہ غازی خان سپرد خاک کر دیا گیا ان کے قتل کے ایف آئی آر میں رضا بصرہ کو نامزد کیا گیا۔ ایف آئی آر 13/96 جرم 302 تھانہ علامہ اقبال ٹاؤن صدر درج کروائی گئی۔

تصانیف:

محسن نقوی نے بہت ساری کتابیں، شعر و شاعری، نظمیں اور گیت لکھے۔ ان کی فہرست درج ذیل ہے

بند قبا 1969ء

برگ صحرا 1978ء

ریزہ حرف 1985ء

عذابِ دید 1990ء

طلوعِ اشک 1992ء

رختِ شب 1994ء

خیمہ جاں 1996ء

موج ادراک، فرات فکر، حقِ عَلہ

غزل:

محسن نقوی نے 47 غزلیں لکھیں جن میں چند ایک یہ ہیں

  • شکل اس کی تھی دلبروں جیسی
  • سانسوں کے اس ہنر کو نہ آساں خیال کر
  • نظارہ جمال میں شامل ہے آئینہ
  • مغرور ہی سہی مجھے اچھا بہت لگا
  • لگے نہ کیوں خود سے تجھ کو پیارا کبھی سمندر کبھی ستارہ
  • کچھ تو عہد خوں فشانی اور ہے
  • کب سے اس نے اپنایا اس طرح کا ہو جانا
  • ہوائے ہجر میں جو کچھ تھا اب کے خاک ہوا
  • ظلم سہہ کر بھی سمجھتا ہوں کہ تو میرا ہے
  • اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

نظم:

محسن نقوی نظموں میں بھی کمال کا درجہ رکھتے تھے انہوں نے 23 نظمیں لکھیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔

  • تمہیں کس نے کہا تھا؟
  • رہرو جادۂ بقا بھی میں
  • اے میری بے سہاگ تنہائی
  • اب اپنے پھیکے ہونٹوں پر
  • برہم نہ ہو تم فہم کو نہ نظراں پر
  • کچھ اس قدر بھی تو آسان نہیں عشق تیرا
  • ابھی کہاں ہے وہ سماعت
  • ریشم زلفوں نیلی انکھوں والے اچھے لگتے ہیں
  • پہلی پہلی محبتوں کا خمار
  • کھنڈر آنکھوں میں غم آباد کرنا

 

سید محسن نقوی نے فلم حسن بازار کے لیے گیت بھی لکھا۔

"لہروں کی طرح تجھے مرنے نہیں دیں گے”

جس کی وجہ سے اس فلم کو بیسٹ لائف ایوارڈ بھی ملا۔

 

محسن نقوی کی شاعری کا فکری مطالعہ

مقالہ نگار ۔۔ مریم عبدالغفور

 

عشق نبیﷺ/ آل رسولﷺ سے محبت:

محسن نقوی کی شاعری میں حضور پاک اور آل رسولﷺ سے والہانہ محبت و عقیدت نظر آتی ہے۔ آپ کا شعری مجموعہ حق ایلیاء اس بات کا واضح ثبوت ہے اس طرح اس شعری مجموعے میں آل رسول سے محبت، کربلا کا ذکر اور کچھ انبیاء کرام کا ذکر بھی کیا گیا ہے اس کے علاوہ مرثیہ نگاری اور قطعات میں بھی آپ کا کوئی ثانی نہیں ان کی نظموں کے نام حضرت حسین، کربلا، حجاب امامت، محمد اور حسین، یعقوب اور حسین ہیں۔

آنکھوں میں جاگتا ہے سدا غم حسین کا

سینے میں سانس لیتا ہے ماتم حسین کا

مٹی میں مل گئے ہیں ارادے یزید کے

لہرا رہا ہے آج بھی پرچم حسین کا

تصورِ انسان :

تصور انسان شاعر کی نفسیات کے مطابق ہوتا ہے جیسی انسانی نفسیات ہوگی ویسا ہی تصور انسان لکھنے والے کے ہاں موجود ہوگا محسن نقوی کی شاعری میں بھی تصور انسان جا بجا موجود ہے۔

آدمی بے کفن لاش ہے اور بس

آدمیت عزادار ہے اور کیا

 

یہ سوچ کر ہنس پڑے ستارے

انسان فلک پر اجنبی ہے

 

ایک اور شعر ہے

سات کون دیتا ہے منزل تک

ساتھ چلتی ہے رہ گزر تنہا

 

تصور حیات:

شاعر جس زاویے سے جس نقطہ نظر سے اپنی زندگی کو دیکھتا ہے یا پرکھتا ہے وہ تصور حیات ہے محسن کے ہاں تصور حیات کا اندازہ اس شعر سے لگایا جاتا ہے۔

ہر گھڑی رائیگاں گزرتی ہے

زندگی اب کہاں گزرتی ہے

محسن کے ہاں زندگی میں درد اور مایوسی ملتی ہے محسن رومانویت پسند شاعر ہیں لیکن ان کی شاعری میں زندگی کا تصور قنوطیت سے لبریز ہے۔

اسے جکڑا ہوا تھا زندگی نے

سرہانے موت بیٹھی رو رہی تھی

تصور موت:

امجد خان (سکالر جامعہ یونیورسٹی آف پشاور) لکھتے ہیں کہ محسن نقوی خواہش مرگ و انکشاف کا شاعر ہے باقی شعراء نے تصور موت کو بس بیان کرنے کی حد تک برتا ہے کئی شعراء نے زندگی سے تنگ آ کر خودکشی کے تصور کو اپنایا تو کسی نے جبر مسلسل قرار دیا۔ باقی شعراء کے ہاں تصور موت کے چیدہ چیدہ خاصے تو پائے جاتے ہیں لیکن وہ باقاعدگی، ربط اور ارتقائی صورت ناپید ہے جو محسن نقوی کے ہاں موجود ہے محسن اگر حالات سے دل برداشتہ ہوتے ہیں تو وہ اپنے آپ سے ہی بغاوت پر اترآتے ہیں۔

حبسِ دنیا سے گزر جاتے ہیں

ایسا کرتے ہیں کہ مر جاتے ہیں

ان کے ایک شعر کا خوبصورت سا مصرعہ

"مرنے کو یہ زندگی کی تہمت بھی کم نہیں”

 

تصور عشق:

محسن نقوی کی شاعری میں عشق کے بیان میں درد اور رنج پایا جاتا ہے ان کی شاعری میں درد اور غم جگہ جگہ بکھرا نظر آتا ہے۔

یہ عشق بھی کیا ہے اسے اپنائے کوئی اور

چاہتا ہوں میں کسی اور کو یاد آئے کوئی اور

 

ایک دل ہے کہ بسایا نہیں جاتا ہم سے

لوگ صحراؤں کو گلزار بنا دیتے ہیں

 

تصور حسن:

محسن چونکہ رومانوی شاعر ہیں تو ان کے ہاں تصور حسن اور اس کی موضوع نیت نمایاں ہے وہ کبھی خود کو مخاطب ہو کر کہتے ہیں

یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسن

وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تیری آنکھیں

 

کون سی بات ہے تم میں ایسی

اتنے اچھے کیوں لگتے ہو

 

ہجر:

ہجر کا موضوع کلاسکی شعراء کا پسندیدہ موضوع ہے محبوب سے جدائی عاشق کو بے چین کر دیتی ہے ایسے ہی محسن نے ہجر کے دوران پریشانی، بے چینی اور درد کو بیان کیا ہے۔

درد کی شام دشت ہجرآں سے

صورت کارواں گزرتی ہے

 

 

 

 

کبھی جو غم نے گھڑی بھر تھک کر سانس لیا

میں خوش ہوا شب ہجرِ یار ڈھلنے لگی

تنہائی:

کلاسکی شعرا نے تنہائی کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ تنہائی روایتی عشق کی پیدا کردہ صورت ہے محبوب وصل سے انکار کر دیتا ہے تو عاشق تنہا ہو جاتا ہے ایسی ہی صورت محسن نقوی کی شاعری میں موجود ہے تنہائی پر ان کا خوبصورت سا شعر ہے۔

 

آپ کی آنکھ سے گہرا ہے میری روح کا زخم

آپ کیا سوچ سکیں گے میری تنہائی کو

 

رومانویت:

محسن نقوی چونکہ رومانوی شاعر ہیں اس لیے ان کی شاعری میں رومان کا عنصر نمایاں ہے۔

تیرے بدن سے جو چھو کر ادھر بھی آتا ہے

مثال رنگ وہ جھونکا نظر بھی آتا ہے

 

تمہیں جب روبرو دیکھا کریں گے

یہ سوچا ہے بہت سوچا کریں گے

 

جذبہ حب الوطنی:

حب الوطنی سے مراد وطن کی محبت کا اظہار ہے محسن نقوی نے دوسرے شعراء کی طرح اپنی شاعری میں اسی جذبے کا اظہار کیا ہے۔

یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج مانگا

ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے

 

معاشرتی زندگی کا بیان:

محسن کی شاعری میں کہیں کہیں معاشرتی پہلو بھی بیان کیے گئے ہیں جن کے موضوعات میں لالچ، امن، فساد اور دیگر معاشرتی برائیاں اور رویے ہیں ان کا خوبصورت سا قطع جو معاشرتی زندگی پر لکھا گیا ہے۔

 

جب ہوس چار سو بکھر جائے

آدمی امن کو ترستا ہے

جب زمین تیرگی سے اٹ جائے

آسمان سے لہو برستا ہے

محسن نقوی کی شاعری کا فنی مطالعہ

 

مقطع:

مقطع عربی زبان کا لفظ ہے یہ قطع کے لفظ اخذ کیا گیا ہے جس کے معنی کاٹنے یا قطع کے ہیں اصطلاح میں مقطع غزل کا آخری شعر جس میں شاعر تخلص استعمال کرتا ہے مقطع کہلاتا ہے۔ آخری شعر میں اگر شاعر تخلص نہ استعمال کرے تو وہ غزل کا اخری شعر یا عام شعر کہلائے گا مقطع نہیں کہلائے گا محسن کی غزل کا مقطع یہ ہے

رات بھر جلتے ہیں جگنوؤں کی طرح

دلوں کے زخم بھی محسن کمال ہوتے ہیں

 

دکھ ہی ایسا تھا کہ محسن ہوا گم سم  ورنہ

غم چھپا کر اسے ہنستے ہوئے اکثر دیکھا

 

قافیہ:

قافیہ عربی زبان کا لفظ ہے قافیہ کا لفظ قفوس ماخوذ ہے جس کے معنی پیروی کے ہیں جبکہ اس کے لغوی معنی پیچھے آنے والے پے در پے آنے والے کے ہیں اصطلاح میں قافیہ سے مراد ہم آواز الفاظ ہیں جو غزل کے ہر شعر میں آخر پے ہوتے ہیں

 

ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی

میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی

اس شعر میں وحشت اور محبت قافیہ ہے

 

ردیف:

درد کی شام دشت ہجراں سے

صورت کارواں گزرتی ہے

اس شعر میں محسن نقوی نے ہجر کی شام کے گزرنے کے منظر کو کارواں سے تشبیہ دی ہے۔

 

تلمیح:

تلمیح عربی زبان کے لفظ لمح سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی ہیں اشارہ کرنا

شاعری کی اصطلاح میں تلمیح سے مراد ایک لفظ یا الفاظ کا مجموعہ جس کے ذریعے سیاسی، تاریخی یا اخلاقی واقع کی طرف اشارہ کیا جائے یعنی اس شعر کے مطالعہ کے بعد پورا واقعہ ذہن میں آتا ہے محسن نقوی کے ہاں یہ بھی تلمیحات کا استعمال کیا گیا ہے۔

مٹی میں مل گئے ہیں ارادے یزید کے

لہرا رہا ہے اج بھی پرچم حسین کا

اس شعر میں شاعر محسن نقوی نے واقعہ کربلا کی طرف اشارہ کیا ہے

 

تقابلی جائزہ

 

محسن نقوی نے شاعری کا اغاز زمانہ طالب علمی سے ہی کیا ان کا سب سے اہم حوالہ شاعری ہے لیکن اس کے علاوہ انہوں نے اپنے موضوعات الف لیلہ تک ہی محدود نہ رکھے بلکہ حکمرانوں، انسانی نفسیات،  معاشرہ ، روپے واقعہ کربلا اور دنیا میں ازل سے جاری معرکہ حق و باطل ہے محسن نقوی مرثیہ نگاری کے علاوہ قطعہ نگاری میں بھی کمال فن رکھتے تھے ان کی شاعری میں رومان اور درد کا عنصر نمایاں ہے ان کی شاعری نوجوانوں میں بہت مقبول ہوئی محسن نقوی کی شاعری کا ایک بڑا حصہ اہل بیت سے منسوب ہے انہوں نے کربلا پر جو شاعری لکھی ہے وہ پوری دنیا میں پڑھی اور پسند کی جاتی ہے۔

 

کہا جاتا ہے کہ آخری مشاعرے میں پڑھی جانے والی ایک نظم کی وجہ سے ادب کے اس چمکتے چراغ کو دہشت گردوں کی فائرنگ سے بجھا دیا گیا ان کی پوسٹ مارٹم کے رپورٹ مطابق محسن نقوی کے جسم میں 45 گولیاں لگیں۔

 

عمر اتنی تو عطا کر میرے فن کو خالق

میرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو تر سے

 

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter