ڈاکٹر جاوید آغا بطور نثر نگار بحوالہ "سلسلے رفاقت کے”

مقالہ نگار : ناصر باجوہ بی ایس اردو یونیورسٹی آف اوکاڑا

26 اکتوبر, 2023

ڈاکٹر جاوید آغا بیسویں صدی کے نامور محقق ،نقاد ،نثر نگار اور شاعر ہیں­ـ آپ کا شمار پاک و ہند کے بڑے شعرا میں ہوتا ہےـ آپ نے شاعری کے ساتھ ساتھ نثر میں بھی   طبع آزمائی کی ـنثر  کے اظہار کے لیے آپ نے مکتوب نگاری کا چناؤ کیاـ  آپ   ضلع سرگودھا کی تحصیل شاہ پور اور اس کے قصبہ چھاوریاں میں پیدا ہوئے ـآپ کی  کتب  میں  "رقص بسمل”، "پریشان کر گیا کوئی”،  ” کون کسی کا ہوتا ہے”،  "راستے کھو گئے”، "صاحب ادراک” ، شر سنگیت ” اور” تیسری آنکھ کا ن نوحہ” شامل ہیں­ـ آپ کی خطوط کی کتاب آپ کے فرزند” آغا علی رضا "نے” سلسلے رفاقت کے” کے نام سے ترتیب دی ہے ـآپ پر مختلف  یونیورسٹیوں نے تحقیقی مقالہ جات لکھوائےـ سرگودھا یونیورسٹی سے آپ کی شخصیت پر ایم اے اور ایم فل کا مقالہ لکھا گیا ـیونیورسٹی آف لاہور میں  ایم فل مقالہ لکھا گیا ـہزارہ یونیورسٹی میں ایم فل کا مقالہ لکھا گیاـ آپ کی شخصیت پر لا  تعداد مضامین لکھے گئے ـبیرون ممالک میں سے بنگلہ دیش میں آپ پر تحقیقی مقالہ  لکھا گیا ـانڈیا میں ابرار مجیداور ڈاکٹر خورشید طلب نےآپ پر تحقیقی مقالہ  جات لکھےـ یو کے سے عاطف مسعود نے آپ پر تحقیقی مقالہ لکھاـ

خط  نصف  ملاقات ہوتا ہےـ خط لکھنا ایسا  فن ہے جس میں زندگی کی تمام تر حقیقتوں کو بیان کیا جاتا ہےـ اردو میں خطوط نگاری کا باقاعدہ  آغاز اسد اللہ خان غالب نے کیا ـغالب کے  بعد سر سید ،محمد حسین آزاد، نواب محسن الملک،  شبلی نعمانی ، مولانا حالی، داغ دہلوی ،امیر مینائی،مہدی افادی ،اقبال ،فیض احمد فیض، ناصر کاظمی اور  منٹو نے بھی خطوط لکھےـ "ڈاکٹر خورشید اسلام "خط  کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

"خط چھوٹی چھوٹی باتوں سے بنے جاتے ہیں ـچھوٹی باتوں میں  ہی دنیا کا   لطف ہےـزندگی میں لمحے قیمتی ہوتے ہیں ۔۔۔ دنیا کے سارے خط ایک فقرے سے شروع ہوتے ہیں اور ایک فقرے پر ختم ہو جاتے ہیں ـوہ فقرہ بہت  مختصر بھی ہے اور بے کنار بھیـ” ہم اور تم انسان” ہیںـ اس ایک فقرے میں انسانیت بھی ہے اور خط لکھنے کا اصول بھی ہےـمفہوم بھی یہی ہےـ سازو سامان بھی  ہے اور نشانہ بھی یہی ہے ـ”

جباوید آغا  کی زندگی ایک ایسی خار بھری وادی ہے جسے سوچ کر دل دہل جاتا ہےـ  وہ افسردہ زندگی کے باوجود بھی جستجو کرتے دکھائی  دیتے ہیں اور پھر امیدکے  نظریات کو بھی سامنے لے کر آتے ہیں ان کی زندگی میں غم تو ہیں  لیکن وہ  غم کو اپنی زندگی پر حاوی نہیں ہو نےدیتےـ آگے بڑھنے کے عادی ہیں اور اپنی زندگی کو ایک مقام تک لے جانے کے عادی ہیںـ مثال ملاحظہ ہو :

"رات زخمی ناگن کی طرح بل کھاتی ہوئی گزر رہی ہےـ  کائنات پر گہرا سکوت طاری ہے ـ نیلگوں آسمان پر ابر کے آوارہ ٹکڑے رو ئی کے  گالوں کی طرح تیر رہے ہیںـ تمام عالم خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے ـایسے میں بھی ایک شخص ہے جو ہاتھ میں تمہارا نامہ تھامے   بے قراری کے جہنم میں جل رہا ہےـ جانے کیا ہے وہ چیز جو اسے ایسا کرنے پہ مجبور کر رہی ہے ـشاید تمہاری یاد ہے ـ”

جاوید آغاکے نزدیک محبت ایک ایسا جذبہ ہے جس میں محرومی اور احساس کمتری پائی جاتی ہے ـوہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے اسی احساس کا سہارا لیتے ہیںـ وہ ماضی پرستی میں جیتے دکھائی نہیں دیتےـ  اپنے  ملک کے حال کو روشن بنانا چاہتے ہیں ـ

ان کے خطوط کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ  انسان  دوستی  کا نعرہ 1936 میں ترقی پسند تحریک نے لگایا ـجاوید آغا کے خطوط میں ترقی پسند نظریات ملتے ہیں ـوہ جب کسی انسان کے افسردہ دیکھتے ہیں تو ان کا دل ٹوٹ جاتا ہے ـوہ اس انسان کی مدد کرنے کے لیے ہر ممکن  کوشش کرتے ہیں ـانسان دوستی کے حوالے سے مثال ملاحظہ فرمائیں:

” یہ لوگ ماضی کے پچھتاوے کو زندگی کا رنگ بنا دیتے ہیں اور حسین  مستقبل کے جادو ئی  سپنوں کو  ذہن پر مسلط کر لیتے ہیں ـان کا "حال” بےمعنی سا ہو کر رہ جاتا ہے صرآ اج کے لیے زدہ رہنے والے لوگ  خوشیوں سے اپنے دامن کو لبریز کر لیتے ہیں ـان کی اپنی  نیند ہوتی ہے جاگنا اپناـ جانے والے یا آنے والے کل کا روگ یا  سپنا  کیا دے سکتا ہےـ دو آنسو جھوٹی مسکراہٹـ”

ڈاکٹر جاوید  آغا کا طرز نگارش  محمد حسین آزاد کی طرح ہےـ ان کی نثر  میں خلوص، محبت اور خوبصورتی پائی جاتی ہے ـ ان کے اسلوب میں شعر و سخن  اور مسجع و مقفع  عبارتیں پائی جاتی ہیںـ ڈاکٹر جاوید  آغا کے اسلوب کے بارے میں "غلام عباس گوندل "لکھتے ہیں:

” حسن بتانے میں تجربے میں نہیں آتا بلکہ محسوس کرنے سے تھوڑا بہت گرفت میں آتا ہے ـان کے خطوط کا بھی یہی حال ہےـ خلوص بھری نظر ایک ایک سطر سے  باہمی تعلق کی شدت کا رس ٹپکتا ہوا خوبصورت پر  اثر  چھوٹے  بڑے جملے  سطر بہ سطر زندگی کے بارے میں بصیرت افروز نقاد،  شعر و سخن کی باریکیوں،  شعر کا بر محل استعمال،  زمانی اور مکانی خوابوں میں کوائف کا شخصی حوالے سے بیان گویا تعلقات کی اخلاص بھری ایک کائنات ہے جو ان کے خطوط میں   موجود ہےـ اتنا کچھ شخصی اور ذاتی ہونے  کے وجود ادب کے قاری کے لیے بھی ان میں بہت کچھ ہےـ خطوط کے پیراگراف کے  پیراگراف تخلیقی نثر کے نمونے ہیںـ قارئین مطالعہ کریں گے تو  یقین ہے کہ تخلیقی نژر کے قحط کے زمانے میں ہوا کا جھونکا  محسوس کریں گے”ـ

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter