بانی مملکت شاہ عبدالعزیزرحمہ اللہ اورمملکت سعودی عرب کاقیام

از:عبدالحکیم عبدالمعبود مدنی

30 ستمبر, 2023

سعودی عرب عالم اسلام اورعالم عرب وعجم کی سب سے بڑی اسلامی ،انسانی ،عدل وانصاف کی حکمرانی اورامن وشا‌نتی کی نمائندگی کرنے والی ایک مثالی مملکت ہے۔ اس مملکت کے بانی یوں تو شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود ہیں جو 15 جنوری 1877ء کو پیدا ہوئے تھے مگر اس سلطنت کے قیام کی جدوجہد کا آغاز 18 ویں صدی میں ہی ہوا تھا،اس زمانے میں نجد میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں اورحکومتیں قائم تھیں اور ہر ریاست کا الگ الگ حکمران ہوتا تھا۔  1725ء میں آل سعود خاندان کے سربراہ امیر سعود بن محمد بن مقرن رحمہ اللہ کی وفات ہوئی ،امیر سعود بن محمد رحمه الله کے چار صاحبزادے تھے جنھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ نجد میں ایک مثالی اسلامی سلطنت قائم کریں گے۔امیر سعود بن محمد رحمہ اللہ کے سب سے بڑے صاحبزادے کا نام محمد بن سعود تھا۔ وہ درعیہ کے حکمران بنے اور انھوں نے اس علاقے کے معروف مصلح اور بے باک عالم دین شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی مدد سے درعیہ میں اپنی حکومت قائم کی اور آہستہ آہستہ اسے مستحکم کرنا شروع کیا۔

امیرمحمد بن سعود اور شیخ محمد عبدالوہاب رحمھما اللہ کے درمیان 1745ء میں ایک تاریخی ملاقات ہوئی جس میں دونوں نے عہد کیا کہ اگر کسی وقت امیر محمد بن سعود نجد و حجاز میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تو وہاں وہ شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے توسط سے صحیح اسلامی عقائد کو رائج کریں گے۔

1765ء میں امیر محمد بن سعود اور 1791ء میں شیخ محمد بن عبدالوہاب کی وفات ہو گئی۔ اس وقت تک جزیرہ نما عرب کے بیشتر علاقے پر آل سعود خاندان کی حکمرانی قائم ہو چکی تھی۔

امیر محمد بن سعودرحمہ اللہ کے بعد امام عبدالعزیز علاقے کے حکمران بنے مگر 1803ء میں انھیں قتل کر دیا گیا۔ امام عبدالعزیز کے بعد ان کے بیٹے امیر سعود بن عبدالعزیزحکمران بنے جو 1814ء میں وفات پا گئے۔

امیرسعود کے بیٹے عبداللہ ایک بڑے عالم دین بھی تھے۔ ان کے دور حکمرانی میں ان کے علاقے کا ایک بڑا حصہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور درعیہ سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں آ گیا۔امام عبداللہ بن سعود قیدی بنا لیے گئے اور انھیں استنبول لے جا کر پھانسی دیکرسزائے موت دے دی گئی۔مگر جلد ہی ان کے بھائی مشاری بن سعود اپنی حکومت واپس لینے میں کامیاب ہو گئے مگر وہ زیادہ عرصے تک حکمرانی نہ کر سکے اور ان کا علاقہ دوبارہ سلطنت عثمانیہ کے قبضے میں چلا گیا۔اس کے بعد اُن کےبھتیجے شہزادہ ترکی بن عبداللہ ریاض کو فتح کرنے میں کامیاب رہے، جس پر وہ 1824ء سے 1835ء تک برسراقتدار رہے۔

اگلی کئی دہائیوں تک جزیرہ نما عرب پر تسلط کے لیے مصر، سلطنت عثمانیہ اور دیگر عرب قبائل میں تصادم ہوتے رہے۔ اس خاندان کے ایک حکمران امام عبدالرحمن تھے، جو 1889ء میں بیعت لینے میں کامیاب ہوئے۔امام عبدالرحمن کے بیٹے شاہ عبدالعزیز تھےجوایک مخلص،توحید پرست، بھادر،بیباک،نڈراور مہم جُو شخصیت تھے، 1900ء میں انھوں نے اپنے والد کی زندگی میں ہی ان کی کھوئی ہوئی سلطنت واپس لینے اور اسے وسعت دینے کی کوششیں شروع کر دیں۔1902ء میں انھوں نے ریاض شہر واپس فتح کرلیا اور اسے اپنی امارت کا دارالحکومت قرار دیا۔اوراسی طرح یکے بعد دیگرے فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انھوں نے الاحساء،قطیف اور نجد کے متعدد علاقوں کو بھی اپنی امارت میں شامل کر لیا۔

سلطنت عثمانیہ کے آخری دور میں حجاز پر (جس میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے علاقے شامل تھے) شریف مکہ حسین کی حکمرانی تھی، جنھوں نے 5 جون 1916ء کو ترکی کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔حسین کو نہ صرف عربوں کے مختلف قبائل کی بلکہ برطانیہ کی تائید بھی حاصل تھی۔7 جون 1916ء کو شریف مکہ حسین نے حجاز کی آزادی کا اعلان کیا۔21 جون کو مکہ پر ان کا قبضہ مکمل ہوا اور 29 اکتوبر کو انھوں نے پورے عرب کا حکمران ہونے کا باضابطہ اعلان کر دیا۔ ساتھ ہی انھوں نے تمام عربوں کو دعوت دی کہ وہ ترکوں کے خلاف جنگ کا اعلان کریں۔ 15 دسمبر 1916ء کو حکومت برطانیہ نے حسین کو شاہ حجاز تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔اسی دوران امیر عبدالعزیز ابن عبدالرحمن آل سعود نے مشرقی عرب کا ایک بڑا حصہ مسخر کر لیا اوردھیرے دھیرے حجاز کی طرف رخ کرنا شروع کردیا،چنانچہ5 ستمبر 1924ء کو انھوں نے حجاز کو بھی فتح کر لیا۔حجاز کے علاقے میں قتل وغارت اورلوٹ کھسوٹ مچی تھی اس لئے حجازکی عوام نے نیک اور صالح شخص امیر عبدالعزیز بن عبدالرحمن کا ساتھ دیا اور شریف مکہ شاہ حسین نے حکومت سے دست بردار ہو کر اپنے بیٹے علی کو شاہ حجاز بنا دیا۔ مگر امیر عبدالعزیز کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی اور عوامی مقبولیت وتایید کے باعث انھیں بھی اپنا تخت چھوڑنا پڑا۔13 اکتوبر 1924ء کو شاہ عبدالعزیز نے مکہ معظمہ بھی فتح کر لیا۔5 دسمبر 1925ء کو انھوں نے مدینہ کا اقتداربھی حاصل کر لیا۔ جسکی وجہ سے19 نومبر 1925ء کو شریف مکہ علی نے اقتدار سے مکمل دستبرداری کا اعلان کیا اور یوں جدہ بھی شاہ عبدالعزیز کے زیرنگیں ہو گیا۔ 8 جنوری 1926ء کو شاہ حجاز عبدالعزیز ابن عبدالرحمن آل سعود نے ایک خصوصی تقریب میں مملکت نجد و حجاز کے مکمل اختیارات سنبھالنے کا اعلان کر دیا۔شاہ عبدالعزیز کی طاقت اور مقبولیت کے پیش نظر

20 مئی 1927ء کو برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں پر جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھےانکی کی حکمرانی کو تسلیم کر لیا۔ پورے نجد و حجاز پر مکمل حکمرانی اورکنٹرول کے بعد ایک ایسے نام کی حاجت محسوس ہوئی جو صدیوں کی جد جہد، اور خا‌ندان کی قربانیوں کاعکس جمیل ہو،چنانچہ 23 ستمبر 1932ء کو شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نےاپنی حکومت کانام ’المملکة العربیة السعودیة‘ رکھ دیا۔جسے پوری دنیا نے تسلیم کرلیا۔شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اسے قرآن وسنت کےمطابق چلانے اور خلافت راشدہ کی طرز حکمرانی کی طرح آگے لے جانے کااعلان کردیا،حدود وقصاص کا نفاذشروع ہوگیا، توحید وسنت کا چرچا عام ہوگیا،ہرطرف عدل و انصاف کا بول بالا ہونے لگااور اس طرح پورے حجاز اور نجد کے علاقوں میں پھیلی ہوئی شرک وبدعت اور سماجی انارکی کاخاتمہ ہوا اورمکمل طریقے سے پوری سلطنت میں ہرسو امن وامان اور شانتی واطمینان  کا بول بالا ہوگیا،قرآ‌ن وسنت کی بالادستی اور توحید کی حقیقی دعوت اور اخلاص‌وایمانداری نیز عدل وانصاف کی حکمرانی کی وجہ سے اللہ تعالی نے ریگستان کے اس علاقے کو لالہ زار کردیا اوردیکھتے دیکھتے ہرطرف پٹرول کے ذخائر کی نشاندہی ہونے لگی جسکی وجہ سے 1933ء میں شاہ عبدالعزیز نے کیلیفورنیا پٹرولیم کمپنی کے ساتھ تیل نکالنے کا معاہدہ کیا۔ابتدائی چند برس جدوجہد میں بسر ہوئے مگر 1938ء میں جب کیلیفورنیا پٹرولیم کمپنی کے ماہرین ناکام ہو کر ملک لوٹنے ہی والے تھے کہ اچانک ایک کنویں سے خزانہ ابل پڑا اور اتنا تیل نکلا کہ جس پر وہ ماہرین خود بھی دنگ رہ گئے۔

یہ واقعہ نہ صرف سعودی حکمرانوں اور کیلیفورنیا کمپنی کے لیے حیران کُن تھا بلکہ پورے جزیرہ نما عرب کے لیے ایک معجزہ تھا۔ تیل کی دریافت نے سعودی عرب کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور مملکت میں خوشحالی کا دور دورہ ہو گیا۔

9 نومبر 1953ء کو شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود وفات پا گئے۔رحمہ اللہ و غفرلہ ۔انکے بعدیکے بعد دیگرے انکے جھاندیدہ اورنیک وصالح بیٹے حکمراں بنتے رہے ،موجودہ حکمران شاہ عبدالعزیزکے لائق وفائق بیٹے شاہ سلمان اورانکے جواں سال ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان -ایدھم اللہ-نے توہر میدان میں بلندیوں کے جھنڈے گاڑدئے ہیں اورتیل کی قدرتی دولت پر انحصار نہ کرتے ہوئے ویژن 2030کے ذریعہ معاشی استحکام کے دوسرے ذرائع تلاش کرنےکاھدف مقررکیاہےجسکے نتیجہ میں ملک معاشی ترقی کے ساتھ ہرمیدان میں بلندیوں کو چھورہاہےاور اپنی ہمہ جہت اسلامی سوچ اورانسانی خدمات کی وجہ سے صف اول میں شمار کیے جانےلگاہےاور اگر کچھ نہ بھی ہو تو حجاج کرام کی صحیح معیاری خدمت اور حرمین شریفین کی اعلی تعمیرو توسیع ہی انکی نیک نامی اورسلطنت کی شہرت کے لئے کافی ہے۔آج سعودی عرب پوری دنیا میں امن وسلامتی  کے قیام کے ساتھ ارھاب ودھشت گردی کی تمام شکلوں کو مٹانے اورانسانیت واخلاق مندی کی بنیادوں کو مضبوط کرنے اورپوری دنیا میں دعوت توحیدکو عام کرنےمیں اپنی ایک شناخت اورمثال رکھتا ہے،اورحقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو سعودی عرب ایک مثالی مملکت اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں کی ایک دھڑکن بن چکا ہے،لاکھوں لوگ وہاں روزگار اورتجارت سے جڑے ہوئے ہیں ،اورعالم عرب واسلام بلکہ پوری دنیا پر آنے والی قدرتی آفات ومصائب میں سعودی حکومت اوراسکے حکمران سب سے پھلے مدد کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہیں ،ابھی مراکش کے زلزلے اور لیبیامیں آئے ہویے طوفانوں میں سعودی عرب ہزاروں ٹن غذائی امدادوریلیف پھونچاچکا ہے۔اللہ کرے اسکے سخی دل اورتوحیدپرست حکمراں دنیاکی قیادت وسیادت میں اورآگے بڑھیں اورخیروانسانیت اوردعوت توحید سنت کاکام پوری دنیاتک اسی طرح پھونچتارہے۔چونکہ 23ستمبر1932ءمیں شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نے نجد وحجازکےعلاقوں کو متحد کرکے مملکت سعودی عرب نام رکھ کر پوری دنیا میں اسے تسلیم کروایا تھا اسی لیے اس دن کوالیوم الوطنی یعنی قومی دن مقررکردیاگیا،اسی مناسبت سے مختلف قسم کی  تقریبات اورضیافتی محفلوں کا اہتمام کیاجاتاہے تاکہ تاریخ کو یادکیاجاسکے ۔سعودی عرب کے مخلص حکمرانوں اوروہاں کے تمام عوام وخواص کو یہ

  دن مبارک ہو،اللہ سے دعاہےکہ وہ مملکت کی حفاظت فرمائے اوراسکی خدمات وقربانیوں کا بھترین بدلہ انھیں دنیا وآخرت میں عطا فرمائے اوراسکا جھنڈا ہمیشہ لہراتا ،چمکتااور آسمان کی بلندیوں کو چھوتارہے۔وماتوفیقی الاباللہ

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter