اردو سفر نامہ کی فنی مباحث

راشدہ ادریس پاکپتن ، پاکستان ایم فل سکالرز شعبہ اردو یونیورسٹی آف اوکاڑہ

19 ستمبر, 2023

اردو ادب کی بات کی جائے تو اردو ادب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک شاعری اور دوسری نثر ، شاعری کی بھی مختلف اقسام ہیں اور نثر کی بھی مختلف اقسام ہیں ۔ سفر نامہ نثری اصناف میں غیر افسانوی صنف ہے سفر عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی "سیاحت”,” کوچ”,” روانگی” یا "مسافت” طے کرنے کے ہیں۔ ۔چونکہ سفر مختلف دشواریوں اور مشکلات سے طے کیا جاتا ہے۔ اس لیے سفر نامہ لکھنے کے لیے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ۔سفرنامہ کی مختلف تعریفیں مختلف ناقدین کے ہاں مختلف ملتی ہیں سفرنامہ کی تعریف کرتے ہوئے مرزا ادیب لکھتے ہیں:

"یہ کہنا سفرنامہ اور سیاحت میں یہ فرق ہے کہ سفرنامہ متغیر مقصد کی مجبوری سے بروئےکار آتا ہے اور سیاحت محض من کی ترنگ اور اپنا نام آپ ہے ۔ کچھ زیادہ صحیح نہیں ہے۔ سفرنامہ یوں بھی سیاحت کے مقابلہ زیادہ جامع تعریف نہیں ہے۔ اس میں سیاحت کے مقابلے میں زیادہ معنوی وسعت نہیں۔ سفرنامہ کی اصلاح تدریجی طور پر سفر کے موجود مفہوم کے مقام تک نہیں پہنچی”(1)

سفرنامہ کی خصوصیات معلومات کی فراہمی ہے۔ اردو میں وہی سفرنامہ اہمیت کا حامل ہوگا جس میں سفر نامہ نگار نے بہتر سے بہتر معلومات فراہم کی ہوگی ۔ ایک اچھا سفر نامہ وہی ہوگا جس میں سفر کے ساتھ ساتھ سیاحت کو خارجی مشاہدات کی بنیاد حقیقی اور سچی معلومات فراہم کی جائیں۔ ایسی معلومات فراہم کرنے کے لیے سفر نامہ نگار کو مشاہدات اور تجربات میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جب تک سفر نامہ نگار خود تجربات سے نہیں گزرے گا معلومات فراہم نہیں کر سکے گا

اس حوالے سے ڈاکٹر خالد محمود لکھتے ہیں:

"سفرنامہ نگار دوران سفر یا سفر سے واپسی پر اپنی ذاتی تجربات   و مشاہدات اور تاثرات و احساسات کو ترتیب دے کر جو تحریر رقم کرتا ہے وہ سفرنامہ ہے۔”(2)

سفرنامہ بیانیہ کی تکنیک پر لکھا جاتا ہے اگر سفرنامے کے واقعات کو ہم من و عن ترتیب دیں تو یہ آپ بیتی یا رپوتا ژ کی شکل اختیار کرے گا۔ سفر نامہ زیادہ تر واحد متکلم میں لکھا جاتا ہے۔

سفرنامہ ایسی صورت میں لکھنا چاہیے جو قارئین کی دلچسپی کا سبب بنے اور نئی معلومات فراہم کرے سفر نامہ میں وہی انداز اپنایا جاتا ہے جو مکتوب نگاری میں اپنایا جاتا ہے۔ اس میں وہی تاثر پیدا ہوتا ہے  جیسے خط لکھنے والا بھی کسی سے مخاطب ہوتا ہے اور سفرنامہ نگار بھی کسی سے مخاطب ہوتا ہے۔ اگر سفر نامہ نگار سفرنامہ کے آخر میں حالات و واقعات قلم بند کر دے تو سفرنامہ میں افسانے کا اسرار بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں:

” ابتدائی اور قدیم سفرنامہ بیانیہ تکنیک میں پیش کیے گئے تھے اور آج کا جدید سفرنامہ بھی اسی تکنیک میں لکھا گیا۔ سفرنامہ چونکہ واحد متکلم میں لکھا جاتا ہے۔ اس لیے اس میں فطری طور پر آپ بیتی کا انداز نظر آتا ہے۔ جس میں دلچسپی کا عنصر بڑھ جاتا ہے اور سفرنامہ نگار سفرنامہ کا ہیرو نظر آتا ہے۔(3)

سفر نامہ کے لیے تاریخی اور سماجی شعور ضروری ہے سفرنامہ اپنے اندر پوری کی پوری تاریخ لیے ہوئے ہیں یعنی سفرنامہ نگار جس علاقے کا بھی سفر کرتا ہے اس علاقے کی تاریخ کوبھرپور بیان کرتا ہے جس علاقے کی تہذیب و ثقافت کو وہ سفرنامے کا حصہ بنانا چاہتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس علاقے کی بھرپور تاریخ بیان کرے۔

سفرنامہ باقاعدہ تاریخ نہیں ہوتا لیکن تاریخ کا ایک باب ہوتا ہے سفرنامہ ایک اچھا ادیب اور سیاح لکھتا ہے جبکہ تاریخ ایک مؤرخ لکھتا ہے۔ اس حوالے سے جمیل الدین عالی لکھتے ہیں:

"تاریخ کی اہمیت و افادیت آج بھی اتنی ہی ہے جتنی پہلے تھی۔ آج بھی یہ مستقبل کی رہنمائی کا کام کرتی ہے۔ اس لیے سفر ناموں کی تاریخی اہمیت آج بھی مسلم ہے سفر ناموں سے ایسے بہت سے حالات و واقعات کا پتہ چلتا ہے جو عام تاریخی کتابوں میں نہیں ملتے۔” (4)

سفر کے اسلوب کی اگر بات کی جائے تو سفرنامہ کا اسلوب مسجع اور مقفٰی ہے ۔ سفر نامہ سادہ اور آسان زبان میں بھی لکھا جا سکتا ہے۔ سفرنامہ کو ایسی زبان دی جاتی ہے جو قاری کے لیے دلچسپی کا عنصر رکھے ۔ ظاہری بات ہے کہ سفرنامہ میں مشکل پسندی،  فارسیت یا تشبیہ و استعارات کا استعمال کیا جائے گا تو قاری معلومات تک رسائی نہیں پا سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ اسلوب سادہ اور آسان ہو اس لیے ڈاکٹر قدسیہ قریشی لکھتی ہیں:

"سفر ناموں کا سب سے بڑا اور اہم رول یہ ہے کہ انیسویں صدی کی دو نثر مقفٰی اور مسجع ہونے کے باوجود سفر ناموں کی نثر آسان ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں جہاں فورٹ ولیم کالج سے آسان نثر کا آغاز ہوتا ہے وہاں سے اردو نثر کو عوام سے قریب کرنے کا کام سفر ناموں نے بڑی حد تک کیا ہے”(5)

سفرنامہ لکھتے ہوئے اول شرط صداقت ہے۔ کیونکہ سفرنامہ سچے اور حقیقی واقعات پر مشتمل ہوتا ہے اس میں جھوٹ کے عناصر نہیں ہوتے اگر جھوٹ کے عناصر ہوں تو وہ سفرنامہ نہیں ناول یا داستان لکھے گا یہی بات ہے کہ اردو سفر نامہ حقیقت کے قریب تر ہے ۔

حوالہ جات

٭                                                                 مرزا ادیب ،سفرنامہ مشمولہ  ماہنامہ ، لاہور رابطہ کی علامت، جنوری 1988 ، ص 19

٭                                                         خالد محمود ڈاکٹر، اردو سفر ناموں کا تنقیدی مطالعہ، نئی دہلی، رابطہ قومی فروغ اردو زبان 2011 ،ص 22

٭                                                             ڈاکٹر انور سدید، اردو ادب میں سفر نامہ لاہور، رابطہ مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، 2006، ص 72

٭                                              جمیل الدین عالی، حرف جید، مشمولہ خواتین کے سفرنامہ تحقیقی  مطالعہ، کراچی انجمن ترقی اردو پاکستان، 2011 ص 6

٭                                                          قدسیہ قریشی ڈاکٹر، اردو سفر نامہ انیسویں صدی میں رابطہ فوٹو پرنٹر 1987، ص 353

 

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter