اردو افسانے میں علامت نگاری (1960 -1980)

مقالہ نگار شگفتہ خوشی شعبہ اردو یونیورسٹی آف اوکاڑا

12 ستمبر, 2023

افسانہ مختصر قصہ یاکہانی کا نام ہے جس میں زندگی کے کسی ایک پہلو کی عکاسی کی جاتی ہے افسانہ بدلتے دور کے ساتھ ساتھ ہیت اور موضوع کے لحاظ سے بدلتا رہا ہے افسانے میں علامت نگاری بھی اسی بدلتے دور کا تقاضا ہے علامت کی تعریف لکھتے ہوئے آل احمد سرور لکھتے ہیں:

”تنقید نے اب تک لفظ کے استعمال پر پوری توجہ نہیں کی ہے سب سے بڑی وجہ اصطلاحات میں ملتی ہے ہم سمبولزم کے لیے رمزیت اشاریت دونوں استعمال کرتے ہیں سمبل کی علامت کا استعمال بھی کرتے ہیں“۔

علامت کسی شے یا واقعہ کا متبادل نہیں ہے علامت دراصل تصور کا متبادل ہے علامت اشیاء کو نہیں بلکہ اشیاء کے تصور کو سامنے لاتی ہے  علامت کے بارے میں ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں:

”اپنی ذات کے قید خانے اور لفظ کے کال کوٹھری سے باہر آ کر ذات کے امکانات اور وجود کے فاصلوں کو طے کرنا ہی علامت کا سب سے بڑا کام ہے اس اعتبار سے دیکھیے تو علامت کو الگ کر کے دکھانا گمراہ کن ہے “۔

اردو میں علامتی افسانے کا آغاز 1960 میں باقاعدہ طور پر ہوتا ہے اس دہائی میں افسانہ نگاروں نے باقاعدہ طور پر علامتی رجحان کو سامنے رکھا ان افسانہ نگاروں نے بیانیہ کی بجائے علامتوں اساطیروں کو وسیلہ اظہار بنایا علامتی افسانہ نگاروں میں پہلا نام انتظار حسین کا ہے ۔انتظار حسین نے اپنے علامتوں کے ذریعے قاری کے اندر دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے انتظار حسین کے علامتی افسانوں میں ”زرد کتا“،  ”آخری آدمی“،   ” کایا کلب“،  ” کشتی“ عام  ہے ا س حوالے سے” زرد کتا “سے مثال ملاحظہ ہو :

”یا شیخ زرد کتا کیا ہے؟ فرمایازرد کتا تیرا نفس ہے میں نے پوچھا نفس کیا؟ فرمایا نفس کا معنی دنیا ہے۔“

علامتی افسانہ نگاروں میں انور سجاد کا نام آتا ہے۔ انہوں نے علامتوں اور استعاروں کے ذریعے نچلے طبقوں کی عکاسی کی ہے۔  ان کے علامتی افسانوں میں”چوراہا“،   ”استعارے“،  ”بچھو“،   ”غار نقش“،  ”کونپل“،   ”سفید کاغذ“ عام ہے۔”کونپل “سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو  :

”اب صرف ایک دھاگا رہ گیا جس کے سہارے پورٹ ریٹ کیل پر ٹنگی ہے چھپکلی اپنا دایاں پاؤں اٹھائے ماتھے کے تمغے پر جھپٹا چاہتی ہیں وہ فرش پر لیٹا اپنے جسم کے نشخج پر قابو پا کر حواس مجتمع کرتا ہے“۔

خالدہ حسین جدید اردو افسانے کا اہم نام ہے خالدہ حسین کا پہلا افسانہ”دل دریا“ تھا جو ”ادبی لطیف“ میں شائع ہو چکا ہے۔اس کے بعد ان کے تین افسانوی مجموعے منظر عام پر آتے ہیں ”پہچان“،  ”دروازہ“،  ”مصروف عورت“ان افسانوی مجموعوں میں انہوں نے زندگی کو علامت کے طور پر لیا ہے اور علامت کے ذریعے انہوں نے زندگی کے مسائل کو بیان کیا ہے انہوں نے انسان کے آخری وقت کے جذبات کو اپنی کہانیوں کا حصہ بنایا اس حوالے سے اقتباس ملاحظہ ہو :

”عین وقت میرے ہاتھ نے بڑھ کر آئینہ اٹھایا اس آئینے کو دیکھ کر مجھے بے فائدہ ہونے کا یقین آیا میں خود اپنے ساتھ برسوں سے زندہ تھا اب محض نام سے اپنے اپ کو پہچانتا ہوں مگر یہ پہچان اوپر ہی تھی سخت چھلکے کے اندر بیج کا گودا اور اس گودے کی کوئی شکل نہیں ہوتی اس لیے اس کا کوئی نام نہیں ہوتا  مگر پھر بھی اس کی ایک پہچان ہوتی ہے“۔

آزادی کے بعد اردو افسانے میں ترقی آئی اس میں بلراج مین را کا نام آتا ہے انہوں نے اپنے افسانے میں علامیت اور تجریدیت سے کام لیاان کے موضوعات میں داخلی اور خارجی تصادم ہے اس حوالے سے ان کا افسانہ ”پورٹ ریٹ ان بلیک اینڈ بلڈ“ اہم ہے انہوں نے بوسیدہ اور مفلوج حقائق پر بات کی ہے بلراج مین را نے نفسیاتی اور سماجی پیشکش کے لیے پریم چند کی تقلید کی اس حوالے سے ان کا افسانہ ”گنبد کے کبوتر“ اہم ہے  اس حوالے سے اقتباس ملاحظہ ہو :

”اس علاقے کے تمام دوستوں کے ہاں سین دادا نے جی بھر کے انجوائے کرنے کے بعد واپسی کا ارادہ کیا جن کے قدم لڑکھڑا رہے تھے گلابی نشہ پورے وجود پر طاری تھا ریزہ کی لمحاتی قربت نے انہیں عجیب کیف و سرور میں سرشار کر رکھا تھا“۔

ادب پر جس طرح باقی تحریکیں اثر انداز ہوئی ہیں عین اسی طرح علامتی تحریک بھی ادب پر اثر انداز ہوئی ہے علامت نگاری کے اثرات افسانہ پر وسیع سے وسیع تر ہوتے گئے اور اردو میں اس تحریک کے زیر سایہ دلچسپ کہانیاں سامنے آئی ہیں افسانہ نگاری میں یہ دور اردو افسانے کا سنہری دور مانا جاتا ہے

 

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter