منٹو کے مضامین میں کردار نگاری

مقالہ نگار : نرجس مقالہ نگار نرجس بتول ایم فل اسکالر یونیورسٹی آف سرگودھابتول ایم فل اسکالر یونیورسٹی آف سرگودھا

3 ستمبر, 2023

 

لفظ "Essay”   لاطینی لفظ "Exagium” سے لیا گیا ہے۔ جس کے لغوی معنی کسی بھی عام مسئلے کو سادہ ترین الفاظ میں پیش کرنا۔

اس حوالے سے مضمون نویسی کی تعریف یوں ہوگی:

” یہ تحریر کا ایک ایسا چھوٹا سا ٹکڑا ہے جو کسی مضمون، خیالات یا واقعات پر معلومات کے اظہار کے ساتھ ساتھ ایک لکھاری کی رائے بیان کرتا ہے۔”

(۱)

منٹو نے مضمون نگاری کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی۔ ہمیں ان کے مضامین میں معاصر شخصیات کے کرداروں کا عکس ملتا ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ منٹو کی مضمون نگاری میں ہمیں کردار نگاری کے نقوش بھی واضح طور پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ منٹو ہندوستانی حکمرانوں کی مخالفت کرتے تھے۔ انہوں نے ایک مضمون "ہندوستان کو لیڈروں سے بچاؤ” کے نام سے لکھا۔ اس مضمون میں وہ براہ راست ہندوستانی حا کمین وقت کے طرز حکومت پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ منٹو چاہتے ہیں کہ ہندوستان حکمرانوں سے آزاد اور پاک ہونا چاہیے کیونکہ یہ حکمران اپنے اختیارات کا صحیح استعمال نہیں کرتے۔ وہ اپنی طاقت، اختیار اور اقتدار کا ناجائز فائدہ اٹھا کر کمزور اور بے بس طبقے کے لیے مسائل بڑھاتے چلے جا رہے ہیں۔ اگرچہ منٹو مذہبی طور پر مسلمان نہیں تھا تاہم وہ خلفائے راشدین کے نظام حکومت سے بہت مطمئن تھے۔ایک ایسا نظام حکومت جس میں کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں کی جاتی رہی۔ جس میں تمام انسان برابری کے معیار پر پرکھے جاتے۔ جس میں حکمران وقت راتوں کو بھیس بدل بدل کر عوام کی خیر خواہی میں خود کو ہمہ تن مصروف رکھتے۔ منٹو کرسی پر بیٹھنے والے حکمران وقت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ ان کے مطابق اختیار ہونے کے باوجود کرسی پر بیٹھنا اور حکم صادر کرنا نااہل حکمرانوں کے افعال ہیں۔ وہ خلفائے راشدین کی حیات طیبہ کو عملی طور پر ہندوستان پر لاگو کرنے کے خواہاں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکمران وقت خود کو عوام کا خادم عملی طور پر ثابت بھی کریں۔ منٹو ہندوستانی لیڈروں کے جابرانہ رویے، نا انصافی، حقوق و فرائض میں عدم توازن اور عام طبقے کے استحصال اپنے ان آنکھوں سے دیکھ رہے تھے لہذا وہ ہندوستان پر اچھے لیڈر کی حکومت چاہتے تھے۔ ایک اچھے لیڈر کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے منٹو لکھتے ہیں:

"ہندوستان کو بے شمار لیڈروں کی ضرورت نہیں جو نئے نئے سے نیا راگ الاپتے رہے ہمارے ملک کو صرف ایک لیڈر کی ضرورت ہے جو حضرت عمر کا سا اخلاص رکھتا ہو، جن کے سینے میں اتاترک کا ہسپانیہ  جذبہ ہو، جو برہنہ پا اور گرستہ شکم آگے بڑھے اور وطن کے بے لگام گھوڑے کے منہ میں باگیں ڈال کر اسے آزادی کے میدان کی طرف مردانہ وار لے جائے”۔

(۲)

منٹو جن حالات میں اپنی زندگی گزار رہے تھے ان میں معاشرتی فسادات سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ مسلمان اور ہندو دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ انسانیت اور اخلاقیات اپنا معیار کھو چکی تھیں۔ انسانی رشتوں اور قدروں کی پامالی کی جا رہی تھی۔ کسی کی آبرو، جاگیر، مال کچھ بھی تو محفوظ نہیں تھا سب داؤ پر لگا تھا۔ ان حالات سے ذہنی طور پر نجات پانے کے لیے منٹو جب امرتسر پہنچے تو وہاں بھی خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ یہاں کچھ امن و امان ہوگا لیکن جب آنکھوں سے وہی فسادات منٹو نے خود دیکھے تو انہیں یقین سا ہو گیا کہ پورا ہندوستان ہی اسی آگ کی لپیٹ میں ہے۔ انہوں نے اس دور کے مسلمانوں کا کردار بھی اپنے ایک مضمون "آتش آلود اپیل”  میں وضاحت سے بیان کیا ہے۔ اس حوالے سے سعادت حسن منٹو لکھتے ہیں:

"قصر آزادی کی تعمیر فرقہ ورانہ فسادات کے شکار انسانوں کے لہو اور خود غرض لیڈروں کے نمائشی پراپیگنڈے سے نہیں ہو سکتی۔ اس لیے کہ ان لوگوں کا وجود نہ صرف آزادی اور اخوت کی راہ میں سنگ گراں ہے بلکہ انسانیت کے جسم پر ایک کاری ضرب ہے۔ یہ لوگ اصلی رد بن کر وطن کی گردنوں پر مرد تسمہ پا کی طرح سوار ہیں۔ اس لیے ضرورت ہے کہ ان فساد پرور لیڈروں کا مقابلہ کیا جائے اور ہر چہار اکتاف سے ان پر لعنتیں برسائ جائیں۔ جو ہر کام پر نوجوانان وطن کی امیدوں کو ان کے ولولوں کا گلا گھوٹ رہی ہیں۔”

(۳)

ترکی پسند تحریک کا مقصد انسان دوستی کا عزم تھا۔ اس تحریک کا بنیادی منشور سامراج سسٹم کی حوصلہ شکنی کرنا۔ مزدور اور محنت کش طبقے کی نمائندگی کرنا تھا۔ اس دور میں سرمایہ دار معاشی طور پر مضبوط ہو رہے تھے جبکہ مزدور طبقے کی معاشی حالت ابتر ہو رہی تھی۔منٹو خود بھی مختلف رسائل اور اخبارات میں اپنی لکھتے تھے لیکن انہیں وقت پر ان کا معاوضہ نہیں ملتا تھا۔ اس لیے منٹو ہندوستانی ایڈیٹروں سے بھی نالاں نظر آتے تھے۔ ہر انسان اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پیشہ اختیار کرتا ہے لیکن اگر بروقت اسے محنت کا صلہ نہ ملے تو انسان پریشان ہو جاتا ہے۔ منٹو کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے اپنے دور کے ایڈیٹروں کی پکاسی کچھ ان الفاظ میں کی ہے:

"مجھے شکایت ہے ان سرمایہ داروں سے جو ایک پرچہ روپیہ کمانے کے لیے جاری کرتے ہیں اور اس کے ایڈیٹر کو صرف 25 یا 30 روپے ماہوار تنخواہ دیتے ہیں اور ایسے سرمایہ دار خود تو بڑے آرام سے زندگی بسر کرتے ہیں لیکن وہ ایڈیٹر جو خون پسینہ ایک کر کے ان کی دولت میں اضافہ کرتے ہیں ان کے آرام دہ زندگی سے ہمیشہ دور رکھے جاتے ہیں”۔

(۴)

 

منٹو اردو ادب کے واحد مصنف ہیں جنہوں نے عورت کے مسائل، نفسیات اور حالات پر کھل کر لکھا۔ جب انہوں نے طوائف پر قلم اٹھایا تو ان کی زندگی کے کسی بھی پہلو کو پوشیدہ نہیں رکھا اور جب انہوں نے باعزت خواتین کے بارے میں لکھا پھر بھی بہادری سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ منٹو کے دور میں کچھ خواتین کوٹھوں سے اٹھ کر فلم انڈسٹری میں اپنا نام بنانے میں کامیاب ہو گئیں۔ جن میں ستارہ، پارویوی اور شاہدہ کے نام نمایاں ہیں۔ منٹو کا نظریہ ہے کہ شریف عورتیں سینما یا فلم انڈسٹری کی زینت نہیں بنتیں۔ ایسی خواتین جو پہلے کوٹھوں پر امرا کے دل بہلایا کرتی تھیں اور اب بڑے پردے پر آ کے اپنے حسن کے جلوے دکھاتی ہیں۔ یہ خواتین گھریلو اور خاندانی نہیں ہو سکتیں۔ منٹو کو بن باپ کے پرورش پانے والی خواتین سے دلی ہمدردی ہے۔ وہ خواتین جو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہ ہو سکیں۔ منٹو اپنے دل میں ان کے لیے بھی ایک گرم گوشہ رکھتے ہیں۔منٹو نے اپنے مضامین میں اپنی معاصر خواتین کی کردار نگاری بھرپور انداز میں کی ہے۔اس حوالے سے ان کا مضمون "شریف عورتیں اور فلمی دنیا” ہے۔ جس میں وہ دونوں قسم کی خواتین کے بارے میں اظہار رائے پیش کرتے ہیں:

"جن شریف عورتوں کو والدین کا سایہ نہ ملا۔ جو تعلیم سے بے بہرا ہیں۔ جن کو خود پیٹ بھرنے کا سامان کرنا پڑا۔ وہ سڑک پر پتھر کی طرح جدا ہو گئیں۔ انہیں لامحالہ ٹھکرے کھانا پڑیں گی، کچھ تاب نہ لا کر مر گئیں، کچھ سڑکوں پر بھیک مانگنے لگیں، کچھ ہسپتالوں میں داخل ہو گئیں، کچھ محنت مزدوری کے ذریعے سے اپنا پیٹ پالنے لگیں اور کچھ زندگی کی ایک آگ سے گزر کر ایک ایسے تنور میں جا گریں جو ہمیشہ گرم رہتا ہے۔ وہ پیشوا بن گئیں۔ ویشیا پیدا نہیں ہوتی ،بنائی جاتی ہیں یا خود بنتی ہیں۔ جس چیز کی مانگ ہو منڈی میں ضرور آئے گی۔ مرد کی نفسیاتی خواہشات کی مانگ عورت ہے۔ خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہو چنانچہ اس مانگ کا اثر یہ ہے کہ ہر شہر میں کوئی نہ کوئی چکلا موجود ہے۔ اگر آج یہ مانگ دور ہو جائے تو یہ چکلے خود بخود غائب ہو جائیں گے”۔

(۵)

منٹو نے ہندوستانی فلمی دنیا کے حوالہ سے بھی اپنا مضمون "ہندوستانی فلم سازی” تحریر کیا  جس میں انہوں نے سوشل فلم کے نوجوانوں پر منفی اثرات کا تفصیلی بیان کیا ہے۔ ترقی پسند دور کا نوجوان کچھ خواب دیکھ رہا تھا،اچھے مستقبل کے خواب، الگ وطن کے حصول کے خواب، اپنی محنت کے بل بوتے پر کچھ کرنے کے خواب  اپنے خاندان اور اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے کی خواب، وہ اپنی طاقت، صلاحیت کا مثبت انداز میں استعمال کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا جبکہ 1913ء میں جب مسٹر ڈی- جے- پالکے نے ہندوستان تہذیب میں پہلی فلم بنائی تو اس نے نوجوانوں کو کھوکھلا کرنا شروع کر دیا۔ فلمی دنیا کی چہل پہل رنگینی دیکھ کر نوجوان طبقہ ذہنی طور پر بیمار ہونا شروع ہو گیا۔ ان کی صلاحیتیں زنگ آلود ہو گئیں۔ ان کے ذہن صرف فلم کی دنیا تک محدود ہو کر رہنے لگے۔ وہ اپنی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی کرنے لگے۔ وہ اپنی فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی برتنے لگے۔ وہ زندگی کے حقائق کو تسلیم کرنے سے عاری رہنے لگے اور جب اخبارات میں فلمی دنیا کے حوالے سے خبریں شائع ہوتیں  تو ان اخبارات کی مانگ بڑھ جاتی۔ بات صرف یہیں تک محدود نہ تھی نوجوان نسل طوائفوں کے عاشق ہونے لگے اور نوجوان نسلر جنس اور حسن کے غلام ہوتے ہو گئے۔ فلمی دنیا کے کرداروں کے حوالہ سے منٹو لکھتے ہیں:

"ہندوستان میں ابھی تک آرٹ کے صحیح معنی پیش نہیں کیے گئے۔ آرٹ کو خدا معلوم کیا چیز سمجھا جاتا ہے۔ یہاں آرٹ ایک رنگ سے بھرا ہوا برتن ہے۔ جس میں ہر شخص اپنے کپڑے بھی بھگو لیتا ہے لیکن آرٹ یہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ تمام لوگ آرٹسٹ ہیں جو اپنے ماتھوں پر لیبل لگائے پھرتے ہیں۔ ہندوستان میں جس چیز کو آرٹ کہا جاتا ہے ابھی تک میں اس کے متعلق فیصلہ نہیں کر سکا کہ کیا ہے؟ ہندوستانی صنعت فلم سازی جن دو لفظوں کے ساتھ برا سلوک ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک آرٹسٹ ہے اور دوسرا شاہکار ہے۔ ڈائریکٹر سے لے کر سٹوڈیو میں تختے ڈھونکنے والے مزدور تک سب کے سب آرٹسٹ ہیں۔” ہریش چندر” سے لے کر "ستارہ” تک جتنے فلم بنے ہیں۔ سب کے سب شاہکار ہیں۔ اس سے یہ ہوا کہ آرٹ اپنی قدر و منزلت کھو بیٹھتا ہے اور شاہکار شاہکار نہیں رہا”۔

(⁶)

منٹو کے دور میں طوائفوں کا چرچا عام رہا۔ طوائفیں بھرے بازار میں اپنی عزت کو فروخت کرتیں۔ عورت کا سب سے بڑا چال چلن اس کی نیک دامنی اور اس کا کردار ہوتا ہے۔ چند پیسوں کی خاطر اپنی عزت کو بھرے بازار میں نیلام کر دینا ان کا پیشہ ہے۔ اس حوالے سے منٹو کا ایک مضمون "عصمت فروشی” منظر عام پر آتا ہے۔ منٹو طوائف سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق طوائف خود نہیں بنتی، حالات اور مجبوریاں اسے طوائف بننے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ مرد اس معاشرے کا اہم ستون سمجھا جاتا ہے۔ اگر مرد کا کردار کمزور ہے تو اس پر انگلی اٹھانے والا کوئی بھی نہیں ہوگا اور اگر عورت کا کردار داغدار ہے تو معاشرہ اسے مرنے کے بعد بھی معاف نہیں کرتا۔ امرا جب طوائف کے کوٹھے پر جاتے ہیں تب انہیں اپنی شرافت کی پامالی کا پاس نہیں رہتا لیکن جب طوائف کو عزت دینے کی بات آئے تو یہی  یہی مرد انہیں اپنا نام دینا بھی پسند نہیں کرتے۔ عورت طوائف کے روپ میں جب بھی معاشرے کا حصہ بنی ہے  اسے حقارت کی نظروں سے ہی دیکھا گیا ہے۔ یہ نہیں سوچا گیا کہ طوائف بھی ایک عورت ہے۔ اس کے اندر بھی جذبات، احساسات محرومیاں، خواہشات موجود ہیں۔ طوائف کو صرف جسم فروشی  کا مرکز ہی سمجھا گیا۔ اس حوالے سے منٹو لکھتے ہیں کہ:

مقام تاسف ہے کہ مردوں نے اس پر کبھی غور نہیں کیا۔ مرد اپنے دامن پر ذلت کے ہر دھبے کو عصمت فروش عورت کے دل کی سیاہی سے تدبیر کرے گا۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ عورتوں میں خواہ وہ کسبی ہوں یا غیر کسبی ہوں۔ 99 فیصد ہی ایسی ہوں گی جن کے دل عصمت فروشی کی تاریک تجارت کے باوجود بدکار مردوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ روشن ہوں گے۔ موجودہ نظام کے تحت جس کی باگ دوڑ صرف مردوں کے ہاتھ میں ہے۔ عورت خواہ عصمت فروش ہو یا باعصمت ہمیشہ دبی رہی ہے۔ مرد کو اختیار ہوگا کہ وہ اس کے متعلق جو چاہے رائے قائم کرے”۔

(۷)

میکسم گورکی ایک روسی ادیب تھا۔ جس کو روس میں اخلاقیات اور حقیقت نگاری کا بانی سمجھا جاتا ہے۔روس کی ادبی تاریخ میں میکسم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے کہ اس نے بچپن میں ہی ادب پر اپنی گہری چھاپ چھوڑ دی۔ اس کا والد ایک دکاندار تھا۔ اس کا دادا جابرانہ مزاج رکھتا تھا۔ اس کے برعکس میکسم کی دادی نہایت رحم دل خاتون تھیں۔ گور کی 1769ء میں پیدا ہوا۔ گورکی نے روسی معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اپنے ذمہ لیا اور اپنی داستان حیات کو  15 برس کی عمر میں ایک کتاب میں محفوظ کر لیا۔ جسے پڑھنے والے قاری بہت متاثر ہوئے۔ منٹو بھی  گورکی کے کردار سے بہت متاثر تھے۔ انہوں نے گورکی کے بارے میں لکھا:

"میکسم گورکی اب روس کی جمہوریت پسند دنیا کی سب سے زیادہ اہم اور مشہور شخصیت تھی۔ مالی نقطہ نظر سے بھی اسے بہت اہمیت حاصل تھی۔ اس کی تصنیف کا پیدا کردہ روپے کا حصہ انقلاب کی تحریک میں صرف ہوتا رہا۔ خرچ کا یہ سلسلہ 1917ء کے اختتام تک جاری رہا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گورکی اپنی کتابوں کی مقبولیت اور حیرت افزا فروخت کے باوجود اپنی محنت کے ثمر سے پوری طرح لطف نہ اٹھا سکا”۔

(۸)

 

"سرمایہ ذمیندار” کے نام سے منٹو نے ایک مضمون تحریر کیا۔ جس میں کسان ،مزدور اور سرمایہ دار تینوں طرح کے کرداروں پر مفصل بحث کی گئی ہے۔  منٹو کے مطابق جب مزدور محنت مشقت کرتا ہے تو اسے بہت سے  سخت حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن وہ اپنی عزت نفس کو مجروح ہونے نہیں دیتا جبکہ غریب صرف پیدا ہی اس لیے ہوا ہے کہ وہ سرمایہ دار کا ظلم اور جبر برداشت کر سکے۔ کسان ہمارے لیے اناج اگاتے ہیں۔ اگر کسان نہ ہوں تو سرمایہ داروں کی دکانیں اناج سے خالی رہیں۔ جبکہ معاشرتی استحصال کا  عالم یہ ہے کہ سرمایہ دار طبقہ خود کو ہی افضل سمجھتا ہے وہ کسانوں اور  مزدوروں کی محنت کو بھول جاتا ہے۔ جن کی بدولت آج وہ پیسہ کما رہا ہوتا ہے۔ بدلے میں انہیں’ ان کی مزدوری کا پورا معاوضہ دینے کی بجائے کم پیسے دیئے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے منٹو لکھتے ہیں:

"اگر ایک دکاندار ضرر رساں اور خراب اشیاء مزدوروں کے پاس فروخت کرتا ہے یا روٹی اور دیگر ضروریات زندگی کو جنھیں وہ کوڑیوں کے مول خریدے اور روپوں کے دام بیچ کر یہ دعوی کر لے کہ وہ ایمانداری ایسے لوگوں کو ضروریات مہیا کرتا ہے۔ اگر سگریٹ ،شراب اور آئینے بنانے والا کارخانہ یہ بلند و بانگ دعوے کر لے کہ وہ مزدوروں کے لیے کام مہیا کر کے ان کا روزی رساں بنا ہے۔ اگر کوئی افسر جو سالانہ ہزاروں پونڈ حاصل کرتا ہے۔ یہ یقین دلائے کہ وہ قوم کی خدمت کر رہا ہے اور اگر ذمہ دار یہ لاف زنی کرے کہ وہ زراعت کے بہترین اصولوں سے اپنے گاؤں میں خوشحالی پھیلا رہا ہے۔ یہ دعوے آج دہراے جا سکتے ہیں۔ جب کے ہزاروں غریب کسان بھوکے مر رہے ہیں۔ ذمہ دار کئی ایکڑ زمین میں آلو صرف اس غرض سے کاشت کر رہا ہے کہ ان سے شراب کشید کی جا سکتی ہے۔ تو کل یہ حالات نہ رہیں گے اور یہ دروغ و دعوی فضا کو متعفن نہ کریں گے”۔

 

(۹)

عالمی ادب میں مضامین کی اپنی الگ پہچان ہے۔ جس میں مضامین کو مکالوں انشاء پردازی کے نمونوں کی صورت میں بانٹ دیا جاتا ہے۔ کچھ علمی یا ادبی مضامین ہوتے ہیں اور کچھ صرف تخیل کے سہارے انشاہ پردازی کا زور دکھاتے ہیں۔ ایسے مضامین کو حوادث ذہن کا نام دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے مضامین سب سے پہلے فرانس میں لکھے گئے اور ” مان ٹین "کو اس کا پہلا بانی سمجھا جاتا ہے اور اسی نے مضامین کو "Essay” کا نام دیا۔انگریزی میں مضمون نگاری کا آغاز” بیکن ” سے ہوا اور اس کے بعد وکٹورین عہد میں ہندوستان کی تاریخ کے بارے میں مختلف مضامین ملتے ہیں۔ اس عہد کے بعد "لیمپ”،  "میتھیو آرنلڈ” ، "کارلب” اور "پل” وغیرہ جیسے مضمون نگار سامنے اتے ہیں۔ جنہوں نے تاریخ، معاشیات، دینیات، ادبی تنقید اور دوسرے شعبوں میں قابل ذکر مضامین لکھے اور انہی کی

بدولت مضمون نگاری نے باقاعدہ فن کی شکل اختیار کر لی۔

اردو میں مضمون نگاری باقاعدہ طور پر انگریزی ادب کے اثرات کے باعث آئی۔ لیکن اصل میں مضمون نگاری سرسید کے رسالہ "تہذیب الاخلاق” سے پیدا ہوئی۔ اس کا پہلا شمارہ 24 دسمبر 1970ء کو شائع ہوا۔ حقیقی طور پر اس رسالے نے اردو مضمون نگاری کی بنیاد ڈالی۔ اس میں سر سید، محسن الملک، وقار الملک، چراغ علی، ذکا اللہ، ڈپٹی نذیر احمد، محمد حسین آزاد اور وحید الدین سلیم پانی پتی وغیرہ لکھتے رہے۔ ان مضمون نگاروں کے موضوعات پر نظر ڈالنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی البتہ یہ کہنا بجا ہے کہ انہی مضمون نگاروں کی بدولت اور سرسید احمد خان کی رہنمائی میں اردو ادب میں مضمون نگاری کی بنیاد پڑی۔تہذیب الاخلاق میں لکھنے والے سب مضمون نگاروں کا لکھنے کا اسلوب بہت مخصوص تھا۔ جس نے آنے والے مضمون نگاروں کے لیے راہیں ہموار کیں۔ منشی سجاد حسین اور احمد علی شوق نے ظریفانہ مزاج سے مضامین لکھے۔ شرر اور چکبست کے مشہور معرکے نے اس میدان میں اضافہ کیا۔ صحافتی مضامین مولانا عبدالکلام آزاد نے لکھے۔ جنہوں نے بیسویں صدی کے آغاز سے "الہلال” اور "البلاغ” میں ایک نئے اسلوب کی طرح ڈالی۔ان میں شائع ہونے والے مضامین نے رنگ و آہنگ سے ایک پوری نسل کو متاثر کیا۔ 1935ء کے بعد ترقی پسند تحریک نے بے شمار مصنفین پیدا کیے اور اس تحریک کے زیر اثر مختلف شعبوں میں مہارت رکھنے والے مضمون نگار سامنے آئے۔ اس دور کے مضامین کا مطالعہ اور مشاہدہ کیا جائے تو ہمیں ان مضامین میں گہری معنویت نظر آتی ہے۔ سطحی اور پھیکے پن کی بجائے یہ مضامین پر تاثیر نظر آتے ہیں۔ ایسے میں دوسرے انشاء پرداز بھی مضمون نگاری کی طرف آئے جو باقاعدہ طور پر مضمون نگار نہیں تھے۔ ان میں ایک اہم نام منٹو کا بھی تھا۔منٹو بنیادی طور پر افسانہ نگار تھے لیکن وہ صحافت کے ساتھ بھی کافی عرصہ وابستہ رہے تو وہ مضمون نویسی سے بھی آشنا ہو گئے۔ یہ مضامین ادبی سیاسی اور  سماجی نظریات کے حوالہ سے لکھے گئے اور ادب میں ان کی امتیازی شان  ہے۔ یہ مضامین ہمیں منٹو کی زندگی اور ان کے فن کو سمجھنے میں راہنمائی کرتے ہیں ۔ بطور مضمون نگار ہمیں منٹو کے سٹائل کو سمجھنے میں آسانی ملتی ہے۔ منٹو کے مضامین کو ہم تین حصوں میں بانٹ سکتے ہیں۔ ادبی و سیاسی مضامین، سماجی اور علمی مضامین  شامل ہیں۔ ان کے مضامین کا پہلا مجموعہ 1940ء میں "اردو اکیڈمی لاہور” سے شائع ہوا۔ ان دنوں وہ "آل انڈیا ریڈیو” کے ساتھ منسلک تھے۔ یہ مضامین  لاہور سے شائع ہونے سے پہلے’ مختلف رسالوں میں شائع ہو چکے تھے اور ان کے اکثر مضامین ایسے بھی ہیں۔ جو باقاعدہ طور پر کسی مجموعے کا حصہ نہیں ہیں۔ امریکی خاتون "لزبی فلیمنگ” نی منٹو پر تحقیق کا کام کیا ہے۔ انہوں نے منٹو کے مضامین کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے ان کی تعداد محض 40 بتائی ہے اور انہوں نے منٹو کے صرف دو مجموعوں کی نشاندہی کی ہے کہ جن تک مصنفہ کی بھی رسائی نہیں ہو سکی۔ منٹو کے اکثر مضامین مختلف رسائل میں فرضی ناموں سے بھی شائع ہوتے رہے۔ جو اب تلف ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود منٹو کے تقریبا سو مضامین ایسے ہوں گے۔ جو ان کے مختلف مجموعوں اور رسائل میں نظر آتے ہیں۔ ان کی تفصیل کچھ یوں ہے:

  • ہمایوں” لاہور ،مئی ۱۹۳۵ روسی ادب نمبر” روسی ادب سے متعلق مضامین۔
  • ہمایوں "لاہور، ستمبر ۱۹۳۵ فرانسیسی ادب نمبر ” فرانسیسی ادب سے متعلق ” ۳ مضامین
  • عالمگیر ” لاہور ۱۹۳۷ روسی ادب نمبر ۲ مضامین "

 

4-"شاعره ” آگره سالنامه ۱۹۴۲  ا مضمون

  • منٹو کے مضامین ۱۹۴۲

۲۱ مضامین

  • منٹو کے افسانے افسانوں کا مجموعہ ۱۹۴۴ امضمون
  • گورکی کے افسانے ۔ ۔۔۔۔ ۱۹۴۹ ا مضمون
  • لذت سنگھ افسانوں اور مضامین کا مجموعہ ۱۹۴۷

ا مضمون

  • ٹھنڈا گوشت افسانوی مجموعه ۱۹۵۰

ا مضمون

  • یزید ۱۹۵۱

ا مضمون

  • اوپر نیچے درمیان افسانہ کا مجموعہ ۱۹۵۴

۲۳ مضامین، چچا سام کے نام خطوط

  • تلخ ترش شیریں مضامین کا مجموعہ ۱۹۵۴

۱۹ مضامین

  • سرکنڈوں کے پیچھے افسانوں کا مجموعہ

ا مضمون

  • شکاری عور تیں ( خاکے ) یہ مجموعہ منٹو کے انتقال کے بعد شائع ہوا

۳ مضامین

  • لاؤڈ سپیکر ۱⁰ خاکے
  • ماہنامہ علم و ادب سیالکوٹ سالگرہ نمبر ۱۹۵۲

ا خاکہ

  • گنجے فرشتے ۱۳ خاکے
  • ہفت روزہ نصرت لاہور کشمیر نمبر ۱۹۶۰

ا خاکہ

منٹو کے ادبی مضامین کی تعداد کم ہے۔  ان اپنے ہی ادبی نظریات ہیں۔ منٹو کے مضامین کے مجموعہ میں ایک مضمون "مجھےکچھ کہنا ہے” ان کے دوسرے مجموعے میں لذت سنگ میں "سفید جھوٹ” کے نام سے شائع ہوا۔ منٹو پر فحش نگاری کا الزام لگایا گیا لیکن حقیقت میں منٹو فحش نگار نہیں تھا بلکہ اس نے ہمارے معاشرے کے ناسوروں کی نشاندہی کی۔ ایسے ناسور۔۔۔ جو آنے والی نسلوں کو تباہ کرنے کی طاقت رکھتے تھے۔  منٹو کی تحریروں میں’ چاہے وہ افسانہ ہو یا خاکہ ہو یا مضمون  ہو’ اس میں اثر انگیزی ضرور ملتی ہے۔ وہ اپنے خاص اسلوب سے اپنی زبان کو منوانے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں سلیقہ مندی نظر آتی ہے۔ وہ تشبیہات، استعارات یا دوسری علامتوں کا سہارا نہیں لیتے بلکہ اپنی کیفیت کو سمجھانے کے لیے دل پذیر انداز استعمال کرتے ہیں۔ ان کے مضامین میں کہیں کہیں طنز کا رنگ جھلکتا ہے۔ جس سے ان کی تلخی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ تلخی ان کے ہم اثر مشرقین اور نقادوں کے الزامات کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ مجموعی طور پر منٹو نہ صرف اعلی پائہ کے افسانہ نگار ہیں بلکہ وہ مختلف موضوعات کو مضمون کی صورت میں قلم بند کرنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter