"باسودے کی مریم از اسد محمد خان”

مقالہ نگار: نرجس بتول ایم فل اسکالر یونیورسٹی آف سرگودھا

26 اگست, 2023

باسودہ لاہور کے ایک پوش علاقے کا نام ہے۔ افسانے کی کہانی مریم نامی خاتون کے ارد گرد گھومتی ہے۔ انہوں نے مصنف کے والد کو اپنا دودھ پلایا تھا اور جب وہ بزرگ ہو گئیں تو اپنے رضاعی بیٹے (مصنف کے والد کے پاس ہی مستقبل رہنا شروع کر دیا )۔ ان کے اپنے دو بیٹے تھے۔”ممدو اور "شتاب وہ دونوں باسودے میں رہتے تھے۔ مریم کے دل میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بہت محبت تھی۔ وہ ہر وقت درود و سلام کا ورد کرتی رہتی۔ مریم کے نزدیک دنیا کے بس تین ہی شہر تھے ۔ مکہ مدینہ اور با سوده – وہ اپنے رضاعی بیٹے  کے گھر میں راج کرتی تھی ۔ اپنے بیٹے کو دولہا میاں! اور بہو کو دلہین بیگم کہہ کر بلاتی تھیں۔

نہ جانے کب سے مریم ایک ایک  چونی جمع کر رہی تھیں کہ سرکار کے روضے پر حاضری دیں گی۔ اُن کو نماز اچھے سے پڑھنی نہیں آتی تھی پھر بھی نماز کی اور ادائیگی میں کوتاہی نہ کرتی۔ درود پاک اور کلمہ طیب بہت محبت اور دل لگی سے پڑھتیں۔ محرم آتے ہی ہی پہلے دس دن افسرده  رہتی۔ بچوں کو امام حسین کا فقیر بنا کر خود سارا دن (عاشورا) روتی رہتی ۔ وہ تب گھر میں کسی کو شور شرابہ بھی نہ کرنے دیتی۔

ادھر اُن کا اپنا بیٹا ممدو اپنے بھائی شتاب کے

 

ساتھ با سودے میں قیام پذیر تھا ۔ وہاں اُن کی

 

تھوڑی سی زمین اور کچھ بھیڑ بکریاں بھی تھیں۔ جن کی دیکھ بھال اور کاشت کاری کی ذمہ داری دونوں بھائیوں کی پر ہی تھی ۔ ممدو کی گال پر کوئی انفیکشن ہوا تو مرض.م بڑھ گیا ۔ بالآخر ڈاکٹروں نے اس کی گال میں سوراخ کر کے اُسے بیماری سے مکمل نجات دی۔ لیکن عمر بھر کا دھبہ لگ گیا۔ جب پہلی بار انہوں نے حج پر جانے کے لیے پیسے اکٹھے کئے تو وہ ممدو کے علاج میں لگ گئے۔ مریم بہت افسردہ ہوئیں لیکن با سودے سے واپس آکر بہت پریشان سے رہنے لگیں۔ ان کے رضائی بیٹے نے اُن سے کئی بار کہا کہ میں حج کروا دوں گا مگر   وہ نہ مانیں۔ مریم  اپنے رضاعی بیٹے کے بچوں کو بگاڑنے میں

 

ماہر تھیں۔ جب وہ ممدو کی  گال کا آپریشن کروا کے واپس آئیں تو  وہ حج کے لیے دوبارہ  سے پیسے جوڑنے لگیں۔ ان میں جیسے زندگی کی لہر سی دوڑ گئی۔ زندگی کی گاڑی یونہی چلتی رہے رہی ۔ پھر ایک دن شتاب کا خط آیا کہ ممدو کی حالت بہت خراب  ہے ۔ زمین اور بھیڑ بکریاں بک گئیں ہیں۔

مریم پھر اپنی جمع پونجی لے کر روتی باسو دے چلی

 

گئیں۔

ادھر ممدو کی موت ہو جاتی ہے ۔ واپسی پر مریم

اپنے مرے بیٹے کو بددعائیں دیتی ہے اور خود اس غم سے بستر مرگ پر آلگتی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اب حج پر کبھی نہ جاسکیں گی۔

مریم دلھین بیگم کے کان میں کہتیں ہیں کہ اب میں زندہ

 

نہیں رہوں گی میری طرف سے  تم حج ادا کر لینا۔ مریم کی موت کے کچھ عرصہ بعد دولہے میاں اور دلھین بیگم نے مریم کی طرف سے

حج ادا کیا ۔ اب مریم قبرستان میں جا بسی تھی اور

 

وہ بھی ہمیشہ کے لیے۔۔۔

 

افسانے کا پلاٹ بہت جاندار ہے تمام واقعات

 

کی کڑیاں آپس میں باہم مربوط ہیں۔

افسانے کے واقعات میں ترتیب پائی جاتی ہے۔

 

جو پوری کہانی کو موثر بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

 

"مریم” کا کردار افسانے کا بنیادی کردار ہے ۔

 

یہ ایسے بزرگوں کا نمائندہ کردار ہے جنہوں

نے اپنی ساری عمر ساده

 

لوحی میں گزاری اور مذہب کو اپنے ہر رشتے سے

ارفع سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنی اولاد

 

کو بھی آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت سے

 

والہانہ لگاؤ کی بدولت بہت بر

 

بھلا کہا۔

 

صبح و شام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجنا اور  حجورجی، حجورجی کہنا۔۔۔۔

 

عشق نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عملی اظہار ہے۔ مریم کی طرف سے  محرم میں

 

خصوصی تسبیح اور ذکر اذکار کا  اہتمام کرنا ، اہل بیت

 

سے بے لوث عقیدت و محبت کا غماز ہے۔ خصوصاً

 

نویں اور دسویں محرم  کوتو

 

یاد حسین علیہ السلام  میں

 

آنسو بہانا، اپنی آخرت کو سنوارنے کے مترادف ہے۔

مریم کا کردار روایتی ساس کے کردار سے بالکل مختلف ہے۔ وہ بہو کے ساتھ سختی اور روک ٹوک کی قائل نہ تھیں بلکہ بہو کو دلھین بیگم کہہ کر پکارتی تھی۔

یہ کردار ایسی ساسوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اپنی

 

بہوؤں کے ساتھ حسن سلوک رکھتی ہیں اور بچوں کی تربیت کرنے کے ساتھ انھیں کسی حد تک بگاڑنے کاکام بھی کرتیں تھیں۔

باسودے کی مریم کا کردار

 

بیوہ عورتوں کی

 

نمائندگی بھی کرتا

 

ہے کہ شوہر  کی وفات کے  بعد

 

مذہب اسلام سے سچی لگن کی بدولت

زندگی ب گزاری جا سکتی ہے۔

 

ثانوی کردار مصنف کا ہے جو

 

اپنی رضاعی ماں کو  اپنی سگی ماں کی طرح ہی عزت دیتا ہے۔

یہ ایسے افراد کا نمائندہ کردار ہے۔

جو ماں کے مرتبے اور اس کی عظمت سے بہ خوبی واقف ہے۔ ماں کے قدموں تلے  جنت ہے۔مصنف کا والد اس جنت کو سچ میں ہمیشہ کے لیے پالیتا ہے ۔

 

مصنف کی والدہ کا کردار بھی افسانے میں

ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ ساس بہو کی روایتی اور

ازلی اختلافات کا عکس بھی افسانے میں دیکھا جاسکتا ہے ۔

 

مریم بظاہر تو کٹر ساس نہیں پھر بھی بچوں کو اچھے برے سے

 

روکیتں ضرور تھیں۔

 

ایسے میں دلھین بیگم دو  تین دن  مریم سے کھینچی سی رہیں۔

 

مصنف کا ذاتی کردار لا پرواہ اور احسان

 

فراموش معاشرتی فرد کی

 

نشاندہی کرتا ہے۔

 

جسے نہ بزرگوں سے کوئی خاص انسیت تھی اور

 

نہ ہی کوئی خاص رغبت تھی ۔ محض باپ اور

 

ماں کی سختی کی وجہ سے  وہ مریم کا احترام کے ساتھ پیش آتا  تھا۔

 

جب مریم وفات پا گئیں تو مصنف اپنے والد کے کہنے پر بھی مریم کی قبر پر نہ گیا۔ مصنف کا کردار

 

خود غرضی اور بے حسی کے حامل افراد کا  نمائندہ

 

کردار  ہے جو ہمیں اپنے آس پاس بھی نظر آتا ہے۔

” میں گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنی خالہ کے گاؤں گیا ہوا تھا’ واپس آیا تو اماں مجھے دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ منجھلے تیری انا بوا گزر گئیں: لڑکے تجھے بگاڑنے والی گزر گئیں۔ ابا نے مجھے حکم دیا کہ میں مریم کی قبر پر ہو آؤں، میں نہیں گیا۔ میں کیوں جاتا ٹھنڈی مٹی کے ڈھیر کا نام تو مریم نہیں تھا۔ میں نہیں گیا۔ ابا ناراض بھی ہوئے مگر میں نہیں گیا۔”

 

ممدو کا کردار مریم کے

بیٹے کی صورت میں

 

سامنے آتا ہے۔ یہ بیمار اور ماں کی قدر

 

نہ کرنے والے بیٹے کے کردار کے طور پر عیاں ہوتا ہے۔

 

با سودے میں رہنے کے باوجود اس نے اپنی والدہ کو کبھی کوئی خط نہ لکھا اور جب اس کی طبیعت خراب ہوئی اس کے بھائی نے خط لکھ کر اپنی والدہ کو اطلاع دی۔ افسانے میں مکالماتی انداز بیان زیادہ نمایاں نہیں ہے۔ بیانیہ تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔ اسلوب سادہ مگر پرتاثیر ہے۔ مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ افسانہ با سودے کی مریم اردو کا شاہکار افسانہ ہے جو انسانی جذبات کیفیات اور ذہنی رجحانات کا بھرپور عکاس ہے۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter