یک سطری تلازمِ افکار

محسن خالد محسنؔ (شعبہ اُردو، گورنمنٹ شاہ حسین ایسوسی ایٹ کالج،لاہور)

19 جولائی, 2023

زندگی ایک عجب سفر ہے جس میں انسان ہر طرح کے مشاہدات و تجربات سے گزرتا ہے۔ انسان کا ذہن ایک وسیع تخیلی آمجگاہ ہے جس میں ان  تخیل کی ان گنت دُنیائیں آباد ہیں جس کی تعمیر و تخریب ہر آن  برسر پیکار رہتی ہے۔ ایک معمولی اور سطحی خیال ذہن کے دوش پر ابھرتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے تجربے سے ڈھل کر سبق آموز قصہ بن جاتا ہے ۔ایک المناک حادثہ مرور ِ وقت کے ساتھ  مستقل ذہن سے محو ہو جاتا ہے۔ ایک معمولی چہرہ حواس مختل کر دیتا ہے۔ مثلِ یوسف پر ی پیکر نظر کو نہیں بھاتا۔ نا چاہتے ہوئے کوئی دل میں سمایا جاتا ہے اور ہر طرح سے لجاجت کے باوجود کوئی دامِ اسیر نہیں ہوتا۔ بے نیازی بڑھ جائے تو کوئی مد مقابل نہیں ٹھہرتا۔ گریہ زاری در آئے تو نشاط و امید  سراب محسوس ہوتا ہے۔ یہ سب کیا ہے۔ یہ انسانی تخیل کی پرواز ہے جس کی وسعت و وقعت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ۔

انسان جمود اور ساکن عنصر نہیں جس پر اثر نہیں ہوتا ۔یہ متحرک اور چلتا پھرتا، کھاتا پیتا،اُٹھتا بیٹھا،بات کرتا،سنتا،رائے دیتا اور رائے قبول کرتا، نصیحت کرتا اور عبرت بنتا، مثال کہلواتا اور عتاب سہتا ،مقام قبولیت سے ارزانئی مردود تک اس کا تعمیری و تخریبی سفر جاری رہتا ہے۔ یہ جو کچھ دیکھتا،سنتا، سوچتا،سمجھتا  ہے اس کے بارے میں اپنی رائے قائم کرتا ہے اور اپنے حلقہ احباب کو اس رائے پر پابند کرنے کی شعوری و لاشعوری کوشش بھی کرتا ہے۔ انسان بنیادی طور پر خوبصورت ہے اور اس کی خوبصورتی کا راز اس کا سوچنا،سمجھنا اور پرکھنا ہے ۔اس تخصیص اور انفراد کی بنیاد پر اسے دیگر مخلوقات سری و خفی سے امتیاز  ملا ہے جس پر یہ ازل سے نازاں ہے۔ ذیل میں  ایک انسان کی شخصیت  کے جملہ اختصاص کا اختصاریہ   بعنوان یک سطری تلازمِ افکار کی صورت پیش کیا ہے جس سے انسان کسی نہ کسی صورت،احوال،کیفیت میں مبتلا ضرور رہتا ہے۔ ان یک سطری متفرق مشاہدات و تجربات پر مبنی آرا کو  دل کی آنکھ سے پڑھیے اور وجدان  کے تفکر سے پرکھیے اور شعور کی کسوٹی پر  آنکیے۔

٭….خود کواس قدر سنوار کر مت رکھو کہ ذرا سا بگڑنے کی گنجائش باقی نہ رہے۔

٭….چائے محبت کا اظہار کرنے اور چاہت جتانے کا بہترین ذریعہ ہے۔

٭….رشتوں میں مفاد کی آمیزیش تالاب میں رُکے ہوئے پانی کی مانند سرانڈچھوڑنا شروع کر دیتی ہے۔

٭….رشتے اور دولت کے تقابل میں جیت ہمیشہ دولت کی ہوتی آئی ہے۔

٭…. رشتے بھی اُولاد کی طرح ہوتے ہیں جن میں سوتیلے پن کی گنجائش نہیں ہوتی۔

٭….بیماری اپنی ذات میں بہت معمولی ہوتی ہے مگرانسانی غفلت اسے موت کا بہانہ بنا دیتی ہے۔

٭….خوشحالی میں انسان رشتوں کو ٹھکرا تو سکتا ہے؛بدحالی میں اپنا نہیں سکتا۔

٭….بے تکلف ہونے سے بلا تکلف ہونا بہتر ہے۔

٭….انسا ن کی تلاش کا عمل اس کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے؛جس کا اختتام موت کی دریافت پر وقوع پذیر ہوجاتا ہے۔

٭….انسان کی کامیابی اور تکمیل ِ روحانی کا انحصار گھر کے صحت مند ماحول اوراُولادکی عمدہ تربیت و تعلیم پر منحصر ہے۔

٭….اپنے جھوٹا ہونے کا اقرار کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کسی جھوٹے انسان کو جھوٹا ہونے کے باجود سچا تسلیم کر لینا۔

٭….عشق ایک جذباتی کیفیت کے خلجان کا احساس ہے جس کی شدت شعور کے اختصاصی رویے کو زائل کر دیتی ہے۔

٭….جس پر رحم آتا ہو؛اس پر قہر نہیں آتا۔اس کے برعکس جس پر قہر آئے؛اُس پر رحم نہیں آتا۔

٭….جب تک موت زندگی کی حفاظت کرتی ہے،زندگی کو کوئی اور موت پچھاڑ نہیں سکتی۔

٭….کسی عمل پر نادم ہونے کا مطلب اس عمل سے ہمیشہ کے لیے تائب ہونے کا احساس ہوتا ہے۔

٭….جو شخص اپنے آپ کو معاف نہیں کرتا وہ کسی دوسرے شخص کو معاف کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔

٭….ان پڑھ مگر تربیت یافتہ عورت پڑھی لکھی مگرعدم تربیت یافتہ عورت سے ہزار گُنابرتر و افضل ہے۔

٭…. جس گناہ کی لذت؛ اذیت میں بدل جائے؛ایسے گناہ سے توبہ کا اختیار چھین لیا جاتا ہے۔

٭….پچھتاوا مثل ِ دیمک انسانی شخصیت کو چاٹ کرروح ِ انسانی کو لطائف ِ زیست سے محروم کر دیتا ہے۔

٭….سچا ہونے کے باوجود کسی شخص کو جھوٹا کہ دینے سے اس کی سماجی شخصیت جھوٹ سے منسوب ہو کر رہ جاتی ہے۔

٭….زندگی کے محدود کینوس پر لامحدود خواہشیں معلق رہتی ہیں؛جن کی ستائش آمیز تکمیل مکّرر بار ور نہیں ہوپاتی۔

٭….دو جھوٹے لوگوں میں کسی ایک کو سچا قرار دینا ہے اتنا ہی مشکل ہے جتنا دو سچے لوگوں میں کسی ایک کو جھوٹا قرار دینا۔

٭….کچھ رشتے لبوں کے درمیان محفوظ ہونے کے باجود غیر محفوظ رہتے ہیں۔

٭….ذات میں ذاتِ دیگر کا اعتماد؛وجودِ ذاتی کو تج دینے سے حاصل ہوتا ہے۔

٭….جاگتی آنکھوں سے دیکھے ہوئے خواب خوابیدہ تعبیر سے ضرور ہمکنار ہوتے ہیں۔

٭….اُس شخص کی قدر کیسے کی جا سکتی ہے جس نے اپنے فائدے کے لیے اخلاقی اقدار کو پامال کر دیا۔

٭….غلطی کرنے سے پہلے غلطی معاف کر دینے کا رویہ معاشرے کے امن اور خوشحالی کے تسلسل کی ضمانت ہے۔

٭….بعض دفعہ کسی کو خوش کرنے کے لیے زندگی بھر خود سے خفا رہنا پڑتا ہے۔

٭….اپنی ضروریات کو پس ِ پُشت ڈال کر دوسروں کے کام آنے والا درحقیقت اپنی ذات ہی کے کام آتا ہے۔

٭….رشتوں کے تقدس اور وقار کو برقرار رکھنے کے لیے انا اور نفسی خودداری کو مصلحتوں کی بھینٹ چڑھانا پڑتا ہے۔

٭….زندگی کے مسائل زندگی کا حُسن ہیں انھیں ختم نہیں کیا جا سکتا البتہ کم سے کم کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔

٭….آنے والا کل ایک خیال ہے،ایک اُمید ہے۔کون جانے کل ہم زندہ ہوں گے بھی یا کہ نہیں۔

٭….کسی کو حقیر نظر سے مت دیکھو؛ہو سکتا ہے کل وہ آپ کو اسی نظر سے دیکھے تو تم اسے برداشت نہ کر سکو۔

٭….محبت؛ عشق کی عمارت میں خِشت ِ اوّل کی حیثیت رکھتی ہے جبکہ عشق کے بغیر محبت کی عمارت اُستوار نہیں ہوسکتی۔

٭….محبت اور انَا میں کسی ایک کا انتخاب کرنا کمان سے نکلے ہوئے تیر کو موڑ کرکرکمان تلک لانے کے مترادف ہے۔

٭….تکلیف کا مفہوم یہ ہے کہ تکلیف دینے والے کو تکلیف کا احساس نہ ہو کہ وہ کسی کو تکلیف میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔

٭….خندہ پیشانی کے ساتھ مصائب کو برداشت کرنا صبر ہے جبکہ ہائے ہائے کر کے مصائب کو سہنا برداشت ہے۔

٭….آپ خلق ِ خُدا پر مہربان ہو جائیے؛خالق آپ پر مہر بان ہو جائے گا۔

٭….گمان کو حقیقت پر ترجیح دینا؛کامیابی کو مستقل ناکامی کے حوالے کرنا ہے۔

٭….کامیابی کا واحد ذریعہ ایمانداری ہے۔ ایمانداری سے کیا ہوا ہر کام اپنے اندر کامیابی کا یقین لیے ہوتا ہے۔

٭….تالاب میں چھلانگ لگا کر ڈوبکی لگانے کی کوشش تیراک کو چھلانگ کی لذت سے بھی محروم کر دیتی ہے۔

٭….دوست دُشمن بن جائے تو غم کیسا؟ افسوس اس پر ہے کہ ایک اچھا دُشمن دوست بننے کی خواہش کرے۔

٭….اگر میں چاہوں تو سب کچھ ممکن ہے،اگر میں ارادہ کر لوں تو ہر شکست خود کو فتح میں ملبوس کر لے۔

٭….جو لوگ بے لوث ہو کر اللہ کے بندوں کی خدمت کرتے ہیں رب اُنھیں ڈوبنے نہیں دیتا۔

٭….تنگ دستی میں اُف نہ کرنے کی بجائے شکر کرنے والوں پر رب تعالیٰ اپنی نعمتیں کُشادہ کر دیتا ہے۔

٭….دُنیا میں مشکل کاموں میں سے ایک مشکل کام اپنی ذات کو تمام تر معائب کے ساتھ خلوصِ قلب سے قبول کر لینا ہے۔

٭….عورت کو حوصلہ دینے والامرد اس کے ساتھ کھڑا ہو تو وہ دُنیا کی ہر آزمائش کا مقابلہ یقینا کر سکتی ہے۔

٭….بعض اُوقات ہم کسی کی خوشی کے لیے ایک مسکراہٹ قربان کرنا بھی گورا نہیں کرتے۔

٭….نفرت کا روئیہ اپنے اندر تخریب کا عُنصر رکھنے کے باوجود تعمیرکا پہلو لیے ہوتا ہے۔

٭….حاصل ہمیشہ لاحاصل کا سبق ہوتا ہے۔لاحاصل کی خواہش حاصل کی تسکین سے محروم کر دیتی ہے۔

٭….خیالات حقیقت سے قبل وساوس کا گورکھ دھندہ ہوتے ہیں۔

٭….محبت پھل دار درخت ہے جو پتھر مارنے والے کوجواب میں پھل دیتا ہے۔

٭….تخریب اپنے اندر پچھتاوے کا گہرا احساس رکھتی ہے جبکہ شکست اپنے اندر تعمیری پہلو کا لامتناہی سلسلہ آباد رکھتی ہے۔

٭….انسان زندگی اور موت کے درمیان  فقط”سانس“کے سہارے زندہ رہتا ہے۔ گویا انسان کی کُلی بساط فقط ایک” سانس” ہے۔

٭….رب تعالیٰ اور انسان کے درمیان محض عبادت اور بندگی کا تعلق نہیں ہے۔ اگر ایساہوتا تو ہماری تخلیق کی ضرورت پیش نہ آتی۔

٭….جو انسان موت پر کامل یقین رکھتا ہے وہ دُنیا کو ایک ضروری چیز سے زیادہ کبھی اہمیت نہیں دیتا۔

٭….بے عملی،کاہلی اور سُستی اللہ کے ہاں انتہائی ناپسندیدہ ترین فعل ہے؛ان سے بچا جائے۔

٭….کچھ جملے سُنے بغیر یاد رہتے ہیں جبکہ کچھ جملے بار بار دُہرانے سے یاد نہیں ہوتے۔

٭….عورت کا امتحان اس کی وفاداری سے نہیں؛ اس کے صبر سے ہوتا ہے۔

٭….فرض کی ادائیگی حصول ِ حق کی خواہش سے بے نیاز کر دیتی ہے۔

٭….انسان کو باشعور اور با اخلاق بنانا دُنیا کا مشکل ترین کام ہے جسے ہم با آسانی کر لینے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

٭….بعض اُوقات کسی کی ایک مسکراہٹ کا قرض سود سمیت ادا کرنا پڑتاہے۔

٭….احسان لینے سے پہلے یہ سوچ لو کہ احسان لوٹانے کا حوصلہ کہیں تمھاری خودداری کو بد کرداری میں نہ بدل دے۔

٭….محبت کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے مگر! آپ کسی کا یہ حق اپنے لیے ضبط نہیں کر سکتے۔

٭….دُنیا میں کوئی کام اس وقت تک مشکل ہوتا ہے جب تک اسے مشکل سمجھا جائے۔

٭….دُنیاوی عبادت میں ]حاصل[ کی غرض شامل ہوجائے تو عبادت "تسکین”کی لذت سے محروم ہو جاتی ہے۔

٭….اُولاد کے سہارے دُنیا میں اپنا ذکرباقی رکھنے کی خواہش در اصل مفلوج زدہ فکر اور اپاہج سوچ کی علامت ہے۔

٭….طاقتور کو اس کی طاقت کا احساس دلاتے رہنے سے ایک دن اس کی طاقت کا زعم زائل ہوجاتا ہے۔

٭….کمال یہ نہیں کہ انسان کامیاب ہو جائے بلکہ کما ل یہ ہے کہ انسان ناکام ہونے کا اعتراف وقار انہ  عجزسے کرے۔

٭…..جھوٹ بول کر انسان جس کا فائدہ سوچتا ہے وہ سچ بول کر آپ کے جھوٹ میں فائدہ ڈھونڈتا ہے۔

٭……مرد کو اکثردولت کا متلاشی پایا جبکہ عورت دولت والے مرد کی تلاش میں مارے مارے پھری۔

٭….کم عقل انسان شعور نہیں رکھتا؛اس لیے اکثررب تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے احساس سے محروم رہتا ہے۔

٭….باطن میں جھانک کر دیکھو گے تو قدرت کے تماشا گاہ کو اپنا منتظر پاؤ گے۔

٭…..کسی کو کچھ دینے سے پہلے لینے کا حوصلہ پیدا کرو۔کیوں کہ جس نے کبھی کچھ لیا ہی نہیں وہ کسی کو دے کیا سکتا ہے؟

٭….بڑا دل رکھنے والا اکثر حوصلہ چھوڑ دیتا ہے جبکہ حوصلہ رکھنے والا چھوٹا دل رکھنے کے باوجود منزل کو پا لیتا ہے۔

٭…. زندگی اور آزمائش کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے؛دونوں کو کسی صورت الگ نہیں کیا جاسکتا۔

٭….ماضی اور مستقبل کو تباہ کر لینے والا حال کو بچالیتا ہے جبکہ حال کو تباہ کر لینے والا ماضی و مستقبل کو بھی تباہ کر لیتا ہے۔

٭….بدترین حالات کے باوجود بہترین حالات کی طرف سفر جاری رکھناکامیابی کی علامت ہے۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter