فضائل و مسائل عشرہ ذوالحجہ

ابوحماد عطاء الرحمن المدنی / المرکز الاسلامی کاٹھمنڈو 

25 جون, 2023
ذوالحجہ  کے ابتدائی دس دن خاص اہمیت کے حامل ہیں قرآن حدیث کی دلائل کی روشنی میں ان دنوں میں فرائض و نوافل اور نیک اعمال کا اجرو ثواب باقی ایام میں کی جانے والی عبادات سے افضل و برتر ہے۔  فرمان باری تعالیٰ ہے: ” والفجر ولیال عشر . ”  فجر کی قسم اور دس راتوں کی قسم۔
اکثر مفسرین کے نزدیک یہاں دس راتوں سے مراد ذو الحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں، جن کی مزیدجن کی مزید فضیلت اس حدیث میں ہے۔  سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”  ما العمل فی أیام العشر أفضل منہا فی ھذہ ، قالوا: ولا الجهاد في سبيل الله؟ قال: ولا الجهاد إلا رجل يخاطر بنفسه وماله فلم يرجع بشيئ ” بخارى.  ذوالحجہ کے دس دنوں سے افضل کوئی عمل نہیں۔  صحابہ نے عرض کیا؛ کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپﷺنے فرمایا: جہاد بھی نہیں مگر وہ شخص جو اس حال میں نکلا کہ اس نے اپنی جان اور مال کو خطرے میں ڈالا پھر کچھ بھی ساتھ لے کر نہیں پلٹا” ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عشرہ ذوالحجہ میں کئے گئے اعمال کا ثواب دیگر دنوں کے اعمال سے زیادہ ہے ۔ البتہ ایسا مجاہد جو جان و مال لے کر غلبہ اسلام کے لئے دشمنان دین کے خلاف برسرپیکار رہے اور راہ جہاد میں تن من دھن قربان سے قربان ہوجاۓ۔
عشرہ ذوالحجہ افضل ہے یا رمضان المبارک کا آخری عشرہ؟
واضح رہے کہ ان دونوں عشروں کی فضیلت کے متعلق کتاب وسنت میں متعدد دلائل موجود ہیں۔  اب ان میں سے افضل عشرہ کون سا ہے تو اس بارےمیں صحیح اور درست موقف یہ ہے کہ سال بھر کے دنوں میں سے عشرہ ذوالحجہ افضل ہے اور سال بھر کی راتوں میں سے رمضان کی آخری دس راتیں افضل ہیں۔ اس بارے میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فتویٰ بڑا ممد ومعاون ہے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ عشرہ ذوالحجہ اور رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں سے کون سا افضل ہے؟ تو آپ نے جواباً فرمایا: ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن رمضان کے آخری دس دنوں سے افضل ہیں اور رمضان کے آخری عشرہ کی راتیں ذوالحجہ کی دس راتوں سے افضل ہیں۔  حافظ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : جب عاقل اور سمجھدار شخص اس پر غور و خوض کرے گا تو وہ اس کو شافی و کافی پاۓ گا کیونکہ ذوالحجہ کے دس دنوں کے علاوہ ایام کے اعمال اللہ کو دس ذوالحجہ کے اعمال سے زیادہ محبوب نہیں اور ان ایام میں یوم عرفہ، یوم نحر اور یوم ترویہ بھی ہیں۔  (جو خاص فضیلت  کے حامل ہیں) اور رمضان کی آخری دس راتیں شب بیداری کی راتیں ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ رات بھر عبادت کیا کرتے تھے اور ان راتوں میں شب قدر بھی ۔  چنانچہ جو شخص اس تفصیل کے بغیر جواب دے گا اس کے لئے ممکن نہیں کہ وہ صحیح دلیل پیش کرسکے۔ مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ 25/286
عرفہ کے روزہ کی فضیلت: عرفہ کا روزہ انتہائی فضیلت کا حامل ہے کہ اس دن کے روزے سے دو سالوں، یعنی ایک سال گزشتہ اور سال آئندہ کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں لہذا اس دن کے روزے کا اہتمام کرنا انتہائی مستحب عمل ہے ۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ” صیام يوم عرفة احتسب على الله أن يكفر السنة التي قبله والسنة التي بعده”. مسلم
"میں اللہ تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ عرفہ کے دن کا روزہ ایک سال گزشتہ اور ایک آئندہ سال کے گناہ کا کفارہ ہے”۔
علماۓ کرام بیان کرتے ہیں کہ  عرفہ کا روزہ دو سالوں کے گناہوں کے کفارہ بنتا ہے سے مراد صغیرہ گناہ ہیں۔ اگر صغیرہ گناہ نہ ہوں تو کبائر میں تخفیف واقع ہوتی ہے اور اگر روزہ دار صغائر وکبائر سے پاک ہو تو اس مناسبت سے درجات بلند ہوتے ہیں۔ چنانچہ ملاعلی قاری مرقاۃ شرح مشکاۃ المصابیح میں امام الحرمین کا قول بیان کرتے ہیں: ” عرفہ کا روزہ صغیرہ گناہ مٹا دیتا ہے ”  اہل السنہ والجماعہ بھی اسی موقف کے قائل ہیں، البتہ کبیرہ گناہ توبہ یا رحمت الہی ہی سے مٹتے ہیں۔ پھر اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ عرفہ کا روزہ اگلے سال کے گناہوں کا کفارہ کیسے بنتا ہے حالانکہ اس سال کے گناہ آدمی پر ہوتے ہی نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ اس روزہ دار کو آئندہ سال کے گناہوں سے محفوظ رکھے گا اور ایک قول یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے رحمت اور ثواب سے اس قدر نوازے گا کہ یہ رحمت و ثواب گزشتہ آئندہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاۓ گا۔  تحفۃ الأحوذی 3/373
کیا عرفہ کا روزہ مکہ مکرمہ کی تاریخ کے مطابق رکھا جائے گا؟
عرفہ کا روزہ سعودی عرب کی تاریخ کے مطابق رکھا جائے یا ہر علاقے کے لوگ قمری تاریخ کے حساب سے روزہ رکھیں؟
موجودہ دور میں یہ ایک اشکال پیدا کرکے یوم عرفہ کی تعیین میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور یوم عرفہ کی آڑ میں اس مقدس روزہ کو ایک پیچیدہ مسئلہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔  حالانکہ اس موقف کے قائل علماء رمضان کے روزوں ، دیگر نوافل روزوں اور اور شب قدر کی تعیین میں تو قمری تقسیم کو تسلیم کرتے ہیں لیکن یوم عرفہ سے دھوکا کھا کر اس کو سعودی تاریخ سے نتھی کرنے کی فضول کوشش کی جاتی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس موقف کو تسلیم کر لیا جائےتو تمام اسلامی دنیا سعودی یوم عرفہ کے مطابق روزہ رکھ ہی نہیں سکتی۔ کیونکہ مشرقی ممالک سحری سعودی وقت سے دو یا تین گھنٹے قبل شروع ہوتی ہے اور افطاری بھی ان سے پہلے ہوتی ہے۔ اسی مناسبت سے تو مشرقی لوگ سعودی تاریخ کے مطابق روزہ رکھ ہی نہیں سکتے اور بعض مغربی ممالک میں جب یوم عرفہ ہوتا ہے تو وہاں عید الاضحی منائی جا رہی ہوتی ہے تو اس غیر منصفانہ تقسیم سے تو مغربی ممالک کے مسلمان یوم عرفہ کے روزہ کی فضیلت سے محروم رہیں گے کیونکہ عید الاضحی کے دن روزہ رکھنا ممنوع ہے۔
اس اعتراض کا تسلی بخش جواب اس فتویٰ میں ملاحظہ کریں۔
سوال: سیف الرحمن صدیقی سوال کرتے ہیں کہ عرفہ کا روزہ نویں ذی الحجہ کو رکھنا چاہیے یا جس دن مکہ میں عرفہ ہوتا ہے؟  خواہ ہمارے یہاں ذوالحجہ کی سات یا آٹھ تاریخ ہو۔
جواب: حافظ عبد الستار حماد جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں : کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ یوم عرفہ کا روزہ رکھنے سے گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ” صحیح مسلم۔
رسول اللہ ﷺ رسول رحمت ہیں اور آسان دین لے کر آئے ہیں ۔  اس رحمت اور آسانی کا تقاضہ یہ ہے کہ عرفہ کا روزہ نویں ذوالحجہ کو رکھا جائے ، سعودیہ میں یوم عرفہ کے ساتھ اس کا مطابق ہونا ضروری نہیں۔ اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:
 میں نے علامہ البانی کی تصانیف میں خود اس روایت کو دیکھا ہے لیکن اب اس کا حوالہ مستحضر نہیں۔ اس روایت میں یوم عرفہ کے الیوم التاسع کے الفاظ ہیں۔جس کا معنی یہ ہے کہ نویں ذوالحجہ کو روزہ رکھاجائے۔
تیسیر اور رحمت کا تقاضا اس طرح ہے کہ اس امت کو عبادت کی بجا آوری میں اپنے احوال و ظروف سے وابستہ کیا گیا ہے۔  اگرچہ ہم آج سائنسی دور سے گزر رہے ہیں لیکن آج سے چند سال قبل معلومات کے یہ ذرائع میسر نہ تھے جن سے سعودیہ میں یوم عرفہ کا پتہ لگایا جاسکتا اب بھی دیہاتوں اور دراز کے باشندوں کو کیسے پتہ چلے گا کہ سعودی میں یوم عرفہ کب ہے تاکہ وہ اس دن روزہ کا اہتمام کریں۔  لہذا اپنے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے نویں ذوالحجہ کا تعین کرکے عرفہ کا روزہ رکھ لیا جائے۔
روئے زمین پر ایسے بھی خطے موجود ہیں کہ سعودیہ کے لحاظ سے یوم عرفہ کے وقت وہاں رات ہوتی ہے ان کے لئے روزہ رکھنے کا کیا اصول ہوگاہوگا؟  اگر انہیں عرفہ کے وقت روزہ رکھنے کا پابند کیا جائے تو وہ رات کا روزہ رکھیں گے حالانکہ رات کا روزہ شرعاً ممنوع ہے اور اگر وہ اپنے حساب سے روزہ رکھیں گے تو عرفہ کا روزہ ختم ہوچکا ہوگا اس لئے آسانی اسی میں ہے کہ اپنے حالات و ظروف کے اعتبار سے روزہ رکھا جائے۔
ہمارے ہاں پاکستان میں یوم عرفہ کو سات یا آٹھ ذوالحجہ ہوتی ہے ۔ کچھ مغربی ممالک ایسے بھی ہیں کہ وہاں یوم عرفہ کو ذوالحجہ کی دس تاریخ ہوتی ہے ۔ اگر سعودیہ کے اعتبار سے انہیں عرفہ کے دن کا روزہ رکھنے کا مکلف قرار دیا جائے تو وہ اپنے لحاظ سے دس ذوالحجہ کو روزہ رکھیں گے حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے اس دن روزہ رکھنے سے منع کیا ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ اپنے حساب سے نویں ذوالحجہ کا روزہ رکھیں۔
ہمارے اور سعودیہ کے طلوع غروب میں دو گھنٹے کا فرق ہے۔ اگر عرفہ کے روزہ کو سعودیہ میں یوم عرفہ سے وابستہ کیا جائے تو جب ہم روزہ رکھیں گے تو اس وقت سعودیہ میں یوم عرفہ کا آغاز نہیں ہو ہوگا۔ اسی طرح جب ہم افطار کریں گے تو سعودیہ کے لحاظ سے یوم عرفہ ابھی باقی ہو ہوگا ۔  یہ الجھنیں صرف اس صورت میں دور ہو سکتی ہیں کہ ہم اپنے روزہ کو سعودیہ سے وابستہ نہ کریں بلکہ اپنے حساب سے نویں ذوالحجہ کا تعین کر لیں۔ ان وجوہات کا تقاضا ہے کہ عرفہ کا روزہ ہم اپنے لحاظ سے نویں ذوالحجہ کو ہی رکھیں خواہ یوم عرفہ ہو یا نہ ہو۔
فتاویٰ اصحاب الحدیث 1/220
قربانی کا ارادہ کرنے والا نہ سر کے بال کٹوائے اور نہ منڈاۓ ، نہ مونچھیں کترواۓ ، نہ زیر ناف کے بال صاف کرے، نہ زیر بغل بال اکھاڑے، اور نہ ناخن ترشواۓ، تا وقتیکہ وہ قربانی نہ کر لے۔ یہ تمام کا ایسے شخص کے لئے ناجائز و ممنوع ہے۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ” إذا دخلت العشروأراد أحدكم أن يضحي فلا یمس من شعره وبشره شيئا” مسلم
جب دس ذوالحجہ( ذوالحجہ کا چاند طلوع ہو) کا آغاز اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کرنا چاہے تو وہ اپنے بال اور جلد کے کسی حصہ کو نہ لے۔  (بدن کے کسی حصہ سے بال نہ اترواۓ).
گویا قربانی کا ارادہ رکھنے والا شخص ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں جسم کے کسی بھی حصے کا بال نہ کاٹے، نہ مونڈے، نہ اکھاڑے، نہ ہی ناخن ترشواۓ ان ایام میں یہ کام حرام ہیں۔
عید الاضحی کی نماز کے بعد پہلے دن یا قربانی کے دنوں میں بہیمۃ الأنعام ( مثلاً بکری، بھیڑ، گاۓ اور اونٹ) میں سے کسی جانور کو شرعی طریقے پر بطور قربانی  تقرب ذبح کرنا قربانی کہلاتا ہے۔
قربانی کرنے والے کا صحیح العقیدہ مسلمان ومتبع کتاب و سنت ہونا اور شرک و بدعت سے پاک وصاف ہونا ضروری ہے اور جس کا عقیدہ خراب ہو اس کا کوئی عمل قابل قبول نہیں ہے۔
حدیث سے ثابت ہے کہ چار جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے۔
واضح طور پر کانا جانور، واضح طورپر بیمار، واضح طورپر لنگڑا، اور بہت زیادہ کمزور جانور جو کہ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو۔
قربانی کا سارا گوشت خود کھانا یا ذخیرہ کرلینا جائز ہے اور اس کے تین حصے کرکے ایک حصہ اپنے لئے، ایک غریب مسکین لوگوں کے لئے اور ایک رشتہ داروں اور دوستوں کے لئے مخصوص بھی جائز ہے بلکہ یہ بہتر ہے۔۔
اللهم صل وسلم وبارك على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين.
ابوحماد عطاء الرحمن المدنی
المرکز الاسلامی کاٹھمنڈو

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter