دیوانگی سے فرزانگی تک!

تحریر:پروفیسر محسن خالد محسنؔ (شعبہ اردو:گورنمنٹ شاہ حسین ایسوسی ایٹ کالج،لاہور)

15 جون, 2023

زندگی حوادث کی جا ہے۔ یہاں جو کچھ کارفرما ہے ؛عجب صورت لیے متحرک ہے۔ انسان،کائنات اور تعقل کی اس مثلث میں توازن کیسے ممکن ہوگا؟انسان کائنات کی تسخیر میں تعلق کے سبھی اسَرار کو وا کرتے ہوئے دریافت و ایجادات کے طلسم میں مبتلا ہے۔ زندگی،خوشی اطمنان کا دائرہ کیا ہوا اور روح  کی سرشاری کے کیا معنی ؟ انسان دراصل ایک ہیولا ہے یوں کہیے کہ ایک بگولا ہے یوں سمجھیے کہ ایک پھونک ہے یا اس طرح دیکھ لیجیے کن اور فیکون کا درمیانی خلا ہے۔

یہ مشکل اور گنجلک باتیں سید باسط علی شاہ صاحب کی ہیں جنھیں میں فرزانہ کہتا ہوں کیوں کہ وہ دیوانگی سے گزر کر فرزانگی کی وادی میں قد دھر چکے۔ ان کے ساتھ سیکڑوں راتیں گزریں اور  بیسویوں دن بیتائے۔ ان کی صحبت میں دُنیا اور مافہیا سے متصل ہر چیز کے بارے میں  منفرد اور جداگانہ تصور ملتا ہے۔ حیران کر دینے والی سچائیاں، ناقابل یقین داستانیں، انمول  جملے، مقیش فقرے اور دلآویز  انداز بیان سے کشید اقتباسات پیشِ خدمت ہیں۔

٭…..بات یہ ہے کہ آپ نے تنقید کی،کیڑے نکالے،تحقیر کی،گھٹیا ثابت کیا کسی کو، کسی کے کام کواور اس خوف سے کہ دوسرا بھی آ پ کے ساتھ ایسا نہ کرے،اپنے آپ کو بچایا اور چھپایا،غلط ظاہر کیا اور جب آپ کوکوئی مقصد ہاتھ نہ آیا،تو آپ نے کہا:آپ(یعنی مجھے) سمجھا نہیں جا رہا۔ آپ کو کوئی اہمیت نہیں دی جار رہی؛لہذا آپ اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھیں گے بہت سے کاموں سے،آپ اپنی ذاتی زندگی میں کسی کو مداخلت نہیں کرنے دیں گے اور آپ کی تنہائی آپ کے پارٹنر کی قربت سے روشن نہیں ہوگی کبھی،حالانکہ آپ پہلے دن سے آج تک غلط ہیں۔

٭…..میں سمجھتا ہوں؛اگر آپ بہت پڑھے لکھے ہیں، بہت عقلمند ہیں اور آپ کی وائف واجبی تعلیم کی مالک ہے، اتنی چالاک اور سوشل نہیں ہے اور آپ سمجھتے ہیں؛آپ بہت سی باتیں گول کر سکتے ہیں؛چھپا سکتے ہیں،اپنی مرضی کے اینگل سے بتا سکتے ہیں،چاہے ذاتی؛خواہ گھریلو،تو یہ آپ کی بھول ہے۔ بیوی کے پاس اصل بات اور سچ بات تک پہنچنے کی عجیب و غریب صلاحیت ہے، آپ کی خوش قسمتی یہ ہے کہ وہ اس سے واقف نہیں ہے؛اسے کھٹکتا ضرور ہے؛لیکن وہ اسے توجہ نہیں دیتی؛وہم سمجھ لیتی ہے،اگنور کر دیتی ہے،لیکن پتہ اسے لگ جاتا ہے۔

 

٭…..ایک بات یاد رکھیں: مثبت سوچ کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔ زندگی کے ناخوشگوار پہلوؤں پر سوچنا چھوڑ دیں۔مثبت سوچ کا مطلب ہے کہ آپ انھیں مثبت طریقے سے حل کرنے کا سوچیں؛ہماری زندگی کی ہر ناخوشگوار چیز کسی منفی سوچ کی وجہ سے سامنے آتی ہے اور اسے کسی مثبت سوچ ہی سے دور کیا جاسکتا ہے۔

٭…..آپ نے کبھی غور کیا؛آپ سوتے،جاگتے،اُٹھتے بیٹھتے، اپنے آپ میں باتیں کرتے رہتے ہیں،آپ کا دماغ مختلف لوگوں سے ڈائیلاگ میں مصروف رہتا ہے۔ آپ مختلف عنوانات اور موضوعات پر سوچتے اور دلائل دیتے رہتے ہیں؛توجہیات بیان کرتے رہتے ہیں گفتگو کے جتنے انداز ہیں؛آپ ان سب میں اظہار کرتے ہیں۔اگر آپ کے دماغ میں چلنے والا یہ تھاٹ پروسیس(سوچنے کا عمل) منفی ہے تو آپ منفر طرز فکر کے انسان ہیں اور اگر مثبت ہے تو مثبت طرز فکر کے۔ اپنی طرز فکر کو مثبت رکھیں۔

٭…..ہم عجیب لوگ ہیں؛اپنی بات پرڈٹے رہنے اور اپنے آپ کو برباد کر لینے والے،ویسے ہمارے اندر کچھ نہ ہو لیکن اپنوں کے لیے ضد اور انَا کمال کی ہوتی ہے۔ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو زندگی بھر کا سبق سکھانے کے لیے ہم نشان عبرت بن جاتے ہیں، ہم مستقل اذیت میں رہناقبول کر لیتے ہیں لیکن اپنے موقف کو بدل کر، کسی خوشگوار احساس میں جانا پسند نہیں کرتے۔اہم انا میں بھی اذیت برداشت کرنے سے گریز ہیں؛لیکن انا کو چھوڑنے کے احساس کی اذیت برداشت کرنے سے گریز کرتے ہیں،چاہے اس میں بہتری اور خوشی کے کتنے ہی امکانات کیوں نہ موجود ہوں۔

٭…..ہمارے اندر محبت ہے ہی نہیں،ہم محبت سے بھرے ہوئی ہی نہیں،ہمارے اندر سے کسی کے لیے محبت کہاں سے نکلے۔ ہمارے اندر خوشی ہے ہی نہیں۔ ہم نے خوشی محسوس ہی نہیں کی کبھی، ہم کسی کو خوش کیسے رکھیں۔ ہم کسی دوسرے کو وہی دیتے ہیں جو ہمارے اندر بھرا ہوا ہوتا ہے۔ ہمارے گھر اور ہمارے معاشرے نے، آپ دیکھیں تو سہی آپ اپنے پارٹنر سے جس چیز کی توقع رکھتے ہیں،وہ اس کے اندر ہے بھی کہ نہیں۔

٭…..بچپن سے ہی میرا بہترین دوست،میرا بہترین اُستاد،میری پسندیدہ کتاب، میرے ہمسائے اور اس طرح کے دوسرے مضمون لکھ لکھ کر جھوٹ بولنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ہمیں نہ اپنے آپ کو دیکھنا آتا ہے نہ اپنی چوائس کو اور نہ اپنے صحیح اور غلط ہونے کو۔ ہم ایک آئیڈیل کوپالتے ہیں اور اسے ہی دل و دماغ میں بسائے رکھتے ہیں۔ وہ آئیڈیل ہمیں لوگوں کے نقائص،لوگوں کی خامیاں دیکھنا سکھاتا ہے اور خوبیوں سے بیگانہ رکھتا ہے۔ شادی کے اندر نقائص دیکھنے کی یہ عادت کھل کر سامنے آتی ہے اور ہمیں اپنے پارٹنر میں سوائے خامیوں کے کچھ اور نظر ہی نہیں آتا۔ ظاہر ہے ہم حقیقی انسان دیکھنے کے عادی ہی نہیں ہوتے۔

٭…..پیدائشی امیر ہونا بڑے مزے کی بات ہوگی،لیکن اچھی خاصی غربت کے بعد امیر ہونے کا بھی ایک اپنا ہی مزہ ہے۔میں نے کوئی ایسا غریب نہیں دیکھا جو امیر نہ بننا چاہتا ہو، جو اپنے غریب ہونے پر اپنے آپ کو کوستا نہ ہو، جو غریب گھر میں پیدا ہونے پر پچھتاتا نہ ہو، جب دُنیا میں موجود ہر انسان امیر ہونے کی کوشش کررہا ہے،تو امیری اور دولت کی اہمیت کیسے نہیں رہتی۔ کیا مرد اور کیا عورت،کیا غریب گھرو ں کی عورتیں غریب گھروں میں پیدا ہونے پر پچھتاتی نہیں ہیں۔ کیسے نہیں اہمیت پیسے کی عورت کے نزدیک؟دُنیا سیاست پر اکھٹا نہیں ہو سکی، علوم و فنون پر، معاشرت پر،مذہب ہر اکھٹا نہیں ہو سکی، آرٹس پر،لسانیات پر، کلچر پر اکھٹا نہیں ہو سکی،لیکن بزنس پر اکھٹا ہو جائے گی،تجارت پر ہو جائے گی،کیونکہ پیسہ ایسی چیز ہے جس کے سامنے کسی چیز کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ پیسہ صرف کاغذ یا پتیل،سلور کے ٹکڑے نہیں ہیں،یہ ایک زبان، ایک رویے، ایک ذہنیت کا نام ہے۔

٭…..مرد مرد کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے تو جرم ہے؛عورت کے ساتھ کرتا ہے تو وہ عورتوں کے حقوق کی پامالی بن جاتا ہے۔ اگر کوئی بھائی کو قتل کرتا ہے تو قتل ہے،بہن کو قتل کرتا ہے تو معاشرے میں عورتوں کے حقوق کا قتل ہو جاتا ہے۔اگر کوئی اپنے بیٹے کو قتل کر دیتا ہے تو ظکم ہے، بیٹی کو قتل کر دے تو عورتوں کے حقوق کا تحطٖ خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ اگر بیوی شوہر کی ناک میں دم کرتی ہے تو شوہر نااہل ہے اور اگر شوہر بیوی کو ناکوں چنے چبواتا ہے تو عورتوں کا مقام اور احترام جاتا رہتا ہے۔ یہ عجب معمہ ہے صاحب!

٭….. ہم سب ایک جیسی عزت نفس کے مالک نہیں ہوتے اور مختلف عزت نفس والے؛جنھیں عرف عام میں کم عزت نفس والے لوگ کہا جاتا ہے؛حقیر نہیں ہوتے،بس مختلف ہوتے ہے۔یہ ایزی کوئینگ،نرم خو،نرم مزاج،بردبار،عفودرگزر کے عادی لوگ ہوتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں ان کی عزت نفس نہیں ہے؛وہ بے عزت،ذلیل اور حقیر ہیں؛حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ وہ بس معاف کر دیتے ہیں اور زندگی میں ان کا طریقہ محبت،خلوص اور تابعداری ہوتا ہے۔ یہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں بہت خوش ہیں۔یہ ایک دوسرے کے لیے وفاداری کا دم بھرتے ہیں اور ایک دوسرے پر یقین رکھتے ہیں۔

٭…..اچھائی کی بات کرو تو لگتا ہے تصور و تخیل کی بات ہو رہی ہے؛کیونکہ ساری کی ساری اچھائی اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے۔اسی طرح برائی کی بات کرو تو لگتا ہے کہ حقیقت بتائی جار ہی ہے؛کیونکہ ساری کی ساری برائی انسان کی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ اس کے باوجود برائی کے سامنے اچھائی کی مقدار بہت زیاد ہ ہے۔

٭…..ہم خوشیاں تلاش کرتے ہیں اور ہمیں خوشیاں نہیں ملتیں۔ہمارے ناخوش ہونے کی وجوہ میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ ہمیں ان چیزوں کو ماننا پڑتا ہے جنھیں ہم نہیں ماننا چاہتے۔ہمیں یہ سوچ کر زندگی گزارنا پڑتی ہے کہ ہم غلط ہیں۔ خوشی ان لوگوں کو محسوس ہوتی ہے جو سمجھتے ہیں وہ ٹھیک ہیں۔

٭…..اگرآپ نے زندگی میں کوئی اچھا کام کیا ہے یا کر رہے ہیں اور دوسروں کو اس اچھے کام کا بالکل پتہ نہیں لگنے دے رہے تو خدا کے لیے اسے شئیر کریں،بتائیں،سامنے لائیں،دوسروں کو پتہ لگنے دیں۔ وہ پھیلے گا،بڑھے گا، بے شمار ہو جائے گا،ضائع نہیں ہوگا۔مقبول ہو جائے گا۔

٭…..انسان کے اپنے اندر کوئی خلا نہ ہو،بطور ٹیچر؛سب سے اچھی بیوی ثابت ہوتی ہے اور ٹیچر سب سے اچھا شوہر ثابت ہو تا ہے۔ استاد میں برداشت زیادہ ہوتی ہے۔وہ اکتاتا نہیں ہے؛وہ اپنے پارٹنر کی اس وقت تک جان نہیں چھوڑتا جب تک وہ ٹھیک نہ ہو جائے، در اصل استاد بہت بڑی شخصیت ہے۔ بچوں سے ڈیل کرتا ہے؛اس لیے لوگوں کو اس کی صلاحیتوں کا اندازہ نہیں ہوتا؛ورنہ دوسروں کو سمجھنے اور دوسروں کے ساتھ چلنے کی جو صلاحیت ٹیچر میں ہوتی ہے وہ کسی اور میں بہت کم دیکھی گئی ہے۔ میرے خیال میں ایک استاد ایک بہترین لائف پارٹنز ثابت ہوتا ہے۔

٭…..جو کچھ آپ کو بچپن میں ملا اور جو کچھ آپ نے اپنے بچوں کو دیا؛اس میں کمپیرزن(تقابل/موازنہ) کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ انھیں اچھی زندگی ملی ہے،انھیں یہ خود احذ کرنے دیں اور اگر وہ نہ بھی کریں تو کوئی بات نہیں۔آپ بس بچوں کو اپنے بچپن کے بارے میں بتاتے رہیں:آپ کہاں رہتے تھے وہ علاقہ کیسا تھا،آپ کے ہمسائے کیسے تھے،آپ کا گھر کیسا تھا،آپ کو اپنے گھر کی کون کون سی چیز سب سے زیادہ اچھی اور کون سی سب سے زیادہ بری لگتی تھی۔ آپ کہاں چھپتے تھے،کہاں کھیلتے تھے،آپ کو اپنے بچپن کی کھیلوں میں کون سا کھیل زیادہ پسند تھا۔ اپنے بچوں سے اپنا بچپن شیئر کریں۔

٭…..لوگ اعمال کا رونا روتے رہتے ہیں،ہم ٹھیک نہیں ہیں؛ہمارے اعمال ٹھیک نہیں ہیں؛ہم نے اسلامی اصولوں کو فراموش کر دیا ہے،وغیرہ وغیرہ۔ لیکن میاں بیوی کے تعلق کی بات ہو تو شوہر اپنے آپ کو اسلامی اصولوں کا مرقع پیش کرتا ہے۔اسے اپنا کوئی کام غیر اسلامی نظر ہی نہیں آتا؛وہ اپنا ہر عمل عین اسلامی ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

٭…..ہمارے ہاں زیادہ تر ماں باپ بچوں کی تعلیم و تربیت میں دلچسپی لیں تو انھیں اخلاقیات سے متعلق کچھ روائیتی نصیحتوں کے علاوہ اور کچھ سوجھتا ہی نہیں ہے۔الیمہ یہ ہے کہ اس کوشش میں بھی وہ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر پاتے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ انھوں نے بچوں کو مثبت سوچ اور زندگی کا مقصد نہیں دیا ہوتا۔ میں کہتا ہوں۔بچے کے اندر کچھ کرنے کی خواہش پیدا ہو جائے؛اس کی اخلاقی تربیت اپنے آپ ہو جاتی ہے۔

٭…..ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے بچے کس سوسائٹی کا حصہ بننے جا رہے ہیں اور انھیں کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ روزگار ہماری زندگی کا سب سے بڑا پہلو ہے اور ہمارے دوسرے بہت سے معاملات اسی پہلو کے گرد گھومتے ہیں۔ ہمارے بچے کا روزگار کیسا ہونا چاہیے؛کیا ہونا چاہیے؛ہمیں اس بارے میں بہت کلیر(واضح) ہونا پڑے گا۔ اس بات کو فی الحال ایک طرف رکھ دیں کہ روزگار بچے کی مرضی کا ہونا چاہیے۔

٭…..دراصل ہمارے آئیڈیل بہت اونچے ہوتے ہیں؛ہماری پرفیکشن کا معیار بہت اعلیٰ ہوتا ہے؛بالکل اسی طرح جس طرح پرفیکٹ مسلمان کا تصور ہوتا ہے؛ہم کتنا ہی اچھا انسان کیوں نہ دیکھ لیں؛ہمیں کسی نہ کسی حوالے سے کوئی خامی نظر آجاتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا وہ خامی نہیں ہوتی؛وہ خامی ہوتی ہے؛صرف ہم نے اسے اگنور(نظر انداز) کرنا نہیں سیکھا ہوتا۔ہم اُس کی خوبیوں کی تعریف کرنے کی بجائے؛اُس کی اس خامی کو دور کرنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں اوربھول جاتے ہیں کہ خود ہمارے اندر ایسے بے شمار خامیاں موجود ہیں۔شادی کا بھی یہی حال ہے اور میاں بیوی کا بھی۔

٭…..انڈر سٹیڈنگ بھی عجیب چیز ہے؛ہم سمجھتے ہیں انڈ سٹیڈنگ کے رزلٹ اچھے ہی نکلیں گے شاید،انڈر سٹیڈنگ ہمیں اکھٹا رکھنے میں ہی مدد دے گی؛انڈ سٹیڈنگ کے رزلٹ برے بھی نکل سکتے ہیں؛انڈر سٹیڈنگ ہمیں جدا کر بھی سکتی ہے؛ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا،بعض دفعہ جو رکھٹے رہ رہے ہوتے ہیں؛بیس پچیس سال سے،انھیں ایک دوسرے کی کوئی انڈر سٹیڈنگ نہیں ہے؛لیکن جو علاحدہ ہو گئے ہیں؛تین چار سال بعد؛وہ ایک دوسرے کو خوب انڈر سٹینڈ کر چکے ہیں۔

٭…..ہمارے ہاں کام انجوائے کرنے والے بہت کم لوگ ہیں۔ہر بندہ بے دلی سے کام پر جاتا ہے اور گالیاں دیتا ہوا،واپس آتا ہے۔ واپسی پر اس کا خیال ہوتا ہے،گھر پہنچ کر بیوہ بچوں میں بیٹھوں گا؛ آرام کروں گا،لیکن گھر پہنچے پر بیوی نے کوئی مشقت طلب کام نکالا ہوتا ہے کرنے کے لیے۔ کوئی ناخوشگوار موضوع چھیڑا ہو یا ویسے ہی منہ بنایا ہوا ہو؛توبندے کا دل کرتا ہے دیوار سے سر پھوڑ لے؛یا واپس کام پر چلا جائے۔

٭…..ہم تو ایورج(متوسط) سے لوگ ہیں،میں اور میری بیوی،ایک دوسرے سے سوائے بچوں کے؛ہمیں کوئی توقعات نہیں تھیں۔ ہم نے بچوں کی پیدائش سے پہلے پیمپرز،ڈے کئر لوشنز، نیڈو، اولٹین وغیرہ کی باتیں تو کی ہوں گی لیکن ہماری ذہنی اور جذباتی زندگی کتنی تبدیل ہو گی؛ہم نے سوچا بھی نہیں تھا۔ آپ لوگوں کو بہرحال؛اس بارے میں اچھی طرح غور کر لینا چاہیے،آپ یہ نہ سوچیں بستر کے ساتھ چھوٹا سا کریڈل رکھ لینے سے معاملہ حل ہو جائے گا۔

٭…..بندے کے پاس بے شمار پیسہ ہو، بے پناہ وقت ہو، وجاہت و جوانی کا شاہکار ہو، لفظوں کا کھلاڑی ہو، ایک ایک ادا، ایک ایک نخرہ اطلس و کمخواب میں تولتا ہو، ایک ایک لفظ،ایک ایک جملے پر ہیرے جواہرات لٹاتا ہو، عالیشان محل، نوکروں کی ریل پیل،گاڑیاں، باندیاں عیش و عشرت کی کوئی چیز کم نہ ہو، پھر بھی،عورت خوش ہوگی، گارنٹنی سے نہیں کہا جا سکتا۔

٭…..ہم اپنے دفتر اور کام کی جگہ کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لینے کے عادی ہوتے ہیں۔ہم ایسے بات کرتے ہیں جیسے ہمارے باس اور کولیگ ہم سے پوچھ کر چلتے ہیں اور ہمارا بہت احترام ہے وہاں۔ہم اپنی لیاقت اور اہمیت کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔ا گر آپ کو یہ سب محسوس ہوجاتا ہے تو اپنے شوہر کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے یہی محسوس کروائیں کہ آفس اور ورک پلیس پر اس کی بہت اہمیت ہے اور اسے بہت عقلمند انسان سمجھا جاتا ہے۔

٭…..آپ کی زندگی میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں؛جن کا تعلق سلام دُعا کی حد تک ہوتا ہے،کبھی کبھی کوئی فون، کوئی فیس بک شئرینگ،کوئی اتفاقیہ ملاقات،اور بس۔وہ آپ سے کوئی فائدہ بھی نہیں لیتے اور شائد کوئی فائدہ دیتے بھی نہیں ہیں۔ ان کا تعلق محض آپ سے منسلک رہنے کا تعلق ہوتا ہے، وہ صرف آپ سے وابستہ رہنا چاہتے ہیں،صرف یہ اطمینان رکھنا چاہتے ہیں کہ آپ انھیں اور وہ آپ کو جانتے ہیں۔ وہ آپ سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتے،لیکن آپ سے تعلق کا اعتماد انھیں کوئی نہ کوئی فائدہ دے جاتا ہے۔ اور کیسی بات ہے، بعض دفعہ آپ کو اس کا پتہ لگ جاتا ہے اور آپ انھیں اس خفیف سے تعلق کا،اس ذاتی سے اعتماد کا فائدہ بھی نہیں اٹھانے دیتے،آپ اسے بھی بیچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

٭…..جہالت کبھی خوش قسمتی یا نعمت نہیں ہو سکتی۔جہالت جھوٹ ہے۔ جب تک دنیا سے جھوٹ  ختم نہیں ہو جاتا، جہالت ختم نہیں ہو سکتی۔جہالت ایک طرح کا علم ہے۔ جو تاریکی سے پھوٹتا ہے اور تاریکی میں ڈوب جاتا ہے،جہالت خدا ناشناسی کا علم ہے شائد۔علم کا متضاد جہالت نہیں،کم علمی ہے اور جہالت کا متضاد علم نہیں مزید جہالت ہے۔

٭…..روحانیت وہ علم ہے جس نے ننگ کا احساس دلایا، جب انسان نے شجر ممنوعہ کو چکھا اور جس علم نے کہا پتے باندھ لو،وہ سائنس ہے۔انسان کا پتوں سے اپنا ننگ ڈھاپنا سائنس کی ابتدا تھی،وہ پہلا مسئلہ تھا اور وہ پہلا حل، وہی سوچ،سوچنے کا وہی طریقہ،آج یک سارے مسائل حل کرنے میں کارفرما ہے اور اسے ہی سائنس کہتے ہیں،وہی سوچ،سوچنے کا وہی انداز، تجربے اور مشاہدے کا محرک ہے،اور وہی اس کی بنیاد۔

٭…..بعض دفعہ انسان زندگی میں جو چاہتا ہے اسے ملتا ہے،جسے چاہتا ہے، رکھتا ہے، جسے چاہتا ہے چھوڑ دیتا ہے۔ لیکن ایک انسان اسے دسترس سے باہر معلوم ہوتا ہے،وہ اسے اچھا لگنے لگتا ہے، وہ اس اس محبت کرنے لگتا ہے،اسے پانے کے خواب دیکھنے لگتا ہے، اس تک پیغام پہنچاتا ہے۔ دوسرا انسان مزاحمت کرنا ہے، اسے اس میں کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہوتی، سوائے اس کے کہ وہ اسے پانے کے لیے بیتاب ہے۔ وہ کسی کو اپنی خواہش کرتے سن کر موم ہو جاتا ہے اور اس انسان سے جواباً محبت کرنے لگتا ہے؛وہ اسے حاصل ہونے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ پہلے تو اس سے نہیں اپنے آپ سے محبت ہے، اپنی اس عادت سے محبت ہے کہ اس نے جو چاہا،پایا، جس چیز کی خواہش کی،ملی، اور ایسا ہی ہوتا ہے، جب دوسرا پہلے کو حاصل ہو جاتا ہے تو سب کچھ ایک دم سے ختم ہو جاتا ہے، پہلے کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔

٭…..بعض دفعہ ہم نے جانے انجانے میں کوئی بات کی ہوتی ہے: ہمیں اس طرح کے لوگ اچھے لگتے ہیں، اس طرح کے کام کرتے ہوئے، اور ہمارے پارٹنر نے ویسا بننے کے لیے اپنے آپ کو بدلنا شروع کر دیا ہوتا ہے،اور ہمیں معلوم تک نہیں ہوتا، اور ہم یہی شکایت کرتے رہتے ہیں،وہ پہلے جیسا نہیں رہا، اس میں یہ تبدیلی آگئی ہے، وہ چینج ہو گئی ہے، اور ہمیں یاد تک نہیں رہتا، اسے اس کام پر ہم نے خود لگایا تھا،اور ہمیں محسوس تک نہیں ہوتا، وہ یہ سب کچھ ہمیں خوش کرنے کے لیے کر رہا ہے۔

٭…..بعض دفعہ آپ کے ذہن میں محبت کا کوئی نقشہ ہوتا ہے، آپ سمجھتے ہیں،آپ کا پارٹنر اس طرح بولے، اس طرح کرے تو محبت ہوگی، نہیں تو نہیں ہوگی، یہ غلط ہے، آپ کے پارٹنر کے ذہن میں بھی محبت کا کوئی نقشہ ہوگا،ذاتی سا، بنا بنایا،اور جب آپ اس طرح پیش نہیں آتے ہوں گے، تو وہ اسے محبت نہیں سمجھتا ہوگا، ہر انسان نے محبت کا اظہار کرنے اور محبت کا اظہار سننے کا کوئی ذاتی تصور قایم کیا ہوتا ہے، دوسروں کو اس کا بالکل پتہ نہیں ہوتا۔

٭…..بات بھلا کیا ہے، ہم ذہنی، جسمانی اور روحانی طور پر خوبصورتی سے بد صورتی کی طرف سفر کرنے والے لوگ ہیں،کیونکہ ہم علم سے انکار کرتے ہیں،اگر ہمارے یقین علم پر مبنی ہوں تو ہمیں جامد نہ کریں،حرکت دیں اور ہم بدصورتی سے خوبصورتی کی طرف سفر کریں۔ ہم معصوم پیدا ہوتے ہیں اور گنہگار مرتے ہیں، حالانکہ ہمیں گناگار پیدا ہو کر معصوم مرنا چاہیے۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter