شادی :سراپا رحمت یا سراسر زحمت

تحریر:پروفیسر محسن خالد محسنؔ (شعبہ اردو:گورنمنٹ شاہ حسین ایسوسی ایٹ کالج،لاہور)

27 مئی, 2023

بنیادی طور پر ہماری شادی دو ٹوٹے پھوٹے، پریشان حال اور برباد مرد عورت کی زندگی کا ایک نیا دور ہوتا ہے؛جسے ایک دوسرے کا مرہم بنانے کی بجائے (بد قسمتی سے) نشتر بنا لیا جاتا ہے۔شادی سے پہلے والی زندگی شادی کے بعد والی زندگی پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے اور اکثر منفی طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔ شادی سے پہلے طرح طرح کی جذباتی سرگرمیوں سے گزر کر آئے ہیں؛بارہ پندرہ سال کی عمر کے کرش،سولہ اٹھارہ سال کی عمر کے افیئرز،بیس بائیس سال کی عمر کے عشق؛ہمارے بچوں میں چھوڑتے ہی کیا ہیں؛وہ تو پہلے ہی ٹوٹ جاتے ہیں؛پہلے ہی سڑ جاتے ہیں؛گل جاتے ہیں۔ اچھے معاشروں کی اچھی شادیاں اور برے معاشروں کی بری۔پاک معاشروں کی پاک شادیاں اور گندے معاشروں کی گندی۔شادی معاشرے کا اثر لیتی ہے او رمعاشرے پر اثر بھی ڈالتی ہے۔ ایک ایسے فوارے کی طرح؛جو فوارہ بھی ہے اور ویسٹ پانی کا گٹر بھی۔پانی بھی نکل رہا ہے ارو بہہ کر نیچے گٹروں میں بھی جارہا ہے۔ یہ بات کہنا مشکل ہے کہ شادی کو بہتر بنایا جا ئے؛تب معاشرہ بہتر ہو گا کہ معاشرے کو بہتر بنایا جائے تو شادی بہتر ہوگی۔میں تو کہتا ہوں شادی کو بہتر بنایا جائے تو معاشرہ بہتر ہو جائے گا،لیکن کیونکہ اس کام میں ذمہ داری میرے سر پر آتی ہے؛اس لیے بہت سے لوگ کہیں گے: نہیں؛پہلے معاشرہ بہتر بنایا جائے؛پھر شادی بہتر ہو جائے گی۔ یہاں بھی ہماری چوائس،اپنی اپنی فطرت کے مطابق ہوگی؛جب لوگوں کو گندے معاشرے سے فائدہ ہو رہا ہے؛چاہے مالی نہ سہی،چاہے ذہنی اور جذباتی اور سجمانہ ہی سہی؛وہ معاشرے کو ٹھیک کرنے کی کوشش کیوں کرے گا؛وہ اپنی شادی کو بہتر بنانے کی کوشش کیوں کرے گا۔جن ترجیحات کو سامنے رکھ کر رشتہ کیا جاتا ہے؛جس ذہنیت سے کیا جاتا ہے؛وہ رشتے کی چار دیواری،رشتے کا نقشہ بن جاتی ہیں۔ اب آپ نے اسی طرح رہنا ہوتا ہے اور اسی طرح موو(زندگی گزارنا)ہوتا ہے۔ جس طرح کانقشہ بنایا ہے۔ آپ نے رشتہ لڑکے کی فیملی دیکھ کر کیا تھا؛بعد میں لڑکے کا کریکٹر ڈھونڈنے لگے ہیں؛اس کی عادتیں ٹھیک کرنے لگے ہیں۔آپ نے رشتہ لڑکے کی انکم(مالی حیثیت) دیکھ کر کیا تھا؛بعد میں اس کی شکل و صورت کو رونے لگے ہیں۔ رشتہ کرنے اور رشتہ نبھانے کے لیے ترجیحات ایک جیسا رکھنی پڑتی ہیں۔دراصل ہمارے آئیڈیل بہت اونچے ہوتے ہیں؛ہماری پرفیکشن کا معیار بہت اعلیٰ ہوتا ہے؛بالکل اسی طرح جس طرح پرفیکٹ مسلمان کا تصور ہوتا ہے؛ہم کتنا ہی اچھا انسان کیوں نہ دیکھ لیں؛ہمیں کسی نہ کسی حوالے سے کوئی خامی نظر آجاتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا وہ خامی نہیں ہوتی؛وہ خامی ہوتی ہے؛صرف ہم نے اسے اگنور(نظر انداز) کرنا نہیں سیکھا ہوتا۔ہم اُس کی خوبیوں کی تعریف کرنے کی بجائے؛اُس کی اس خامی کو دور کرنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں اوربھول جاتے ہیں کہ خود ہمارے اندر ایسے بے شمار خامیاں موجود ہیں۔شادی کا بھی یہی حال ہے اور میاں بیوی کا بھی۔شادی کا ایک برا وقت وہ ہے جو قدرتی طور پر؛بیرونی عوامل کے پیش نظر آتا ہی نہیں ہے اور دوسرا وہ ہے جو ہم ہر روز،ہر ہفتے میں ایک دو دن،مہینے میں دو چار دفعہ؛خود لے آتے ہیں:ایک دوسرے پر اپنے احسانات ثابت کرتے ہوئے؛ایک دوسرے کے دل میں اپنی محبت اور احساس پیدا کرتے ہوئے اور ایک دوسرے سے اپنی تعریف سننے کے حربے استعمال کرتے ہوئے۔ ہر شادی میں ایسے دن آتے ہیں جب انسان تنگ آجاتے ہیں؛جب برداشت ختم ہو جاتی ہے اور ان کا دل چاہتا ہے آج؛اسی وقت اپنی شادی ختم کر لیں اور کچھ کر بھی لیتے ہیں؛لیکن زیادہ تر خوش قسمت کسی مصلحت کے تحت اپنا ارادہ ملتوی کر دیتے ہیں اور اگلے ہی دن حالات بہتر ہوئے دیکھ کر شکر کرتے ہیں کہ کل کوئی فیصلہ نہیں کر لیا تھا۔وہ ایک لمحہ جب کوشش کے باوجود میاں بیوی ایک دوسرے کو سمجھ نہیں پاتے اور سمجھاتے سمجھاتے لڑ پڑتے ہیں؛جب میاں بیوی ایک دوسرے سے ساری عمر نہ بولنے اور ہمیشہ کے لیے علاحدہ ہو جانے کا فیصلہ کر کے بھی بول پڑتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہا نھوں نے کیا سوچا تھا۔جب یونہی کسی دن باتوں باتوں میں اتنی خوشی محسوس ہوتی ہے کہ ڈر جاتے ہیں؛کہیں جدائی نہ پڑ جائے؛جب ایک دوسرے سے اتنے تنگ آتے ہیں؛دل کرتا ہے دوسرا مر جائے؛جان چھوٹے ایک ہی بار؛جب کسی ایک کی جان کو خطرہ لاحق ہوتا ہے اور دوسرا رو،رو کر دُؑائیں کرتا ہے؛اللہ اسے زندگی دے دے اور اس کی جگہ اسے مار دے۔شوہر اور بیوی کی لڑائی فضول اور بے تکیی چیزوں پر ہونا ایک عام سی بات ہے؛اکثر میاں بیوی ان لڑائیوں سے تنگ پڑ جاتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ بے تکی اور بیکار کی لڑائیاں انھیں زیادہ شرمندہ کراتی ہیں اور انھیں اپنی عقل پر شک ہونے لگتا ہے۔ ایک بیوی کا کہنا ہے کہ ایک بار وہ اپنے ایم اے اردو شوہر سے اس بات پر لڑ پڑی کہ وہ "کھیل” کا مطلب ٹھیک نہیں لے رہا تھا۔ لڑائی اس قدر شدت اختیار کر گئی کہ وہ ساری رات روتی رہی اور شوہر ناراض ہو کر ڈرائنگ روم میں سویا رہا۔ایک عورت کہتی ہے مجھے اپنے شوہر کی چھینکوں سے بہت چڑ ہے۔ ایک تو چھینک کی آواز غیر معمولی اونچی ہوتی ہے؛دوسرا اس میں کوئی ڈرا دینے والی چیز بھی شامل ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جس طرف بھی منہ کر کے چھینکتا ہے؛ایسا نقشہ بناتا ہے کہ انسان چونک جاتا ہے۔یہ چھینک تھی یا کیا تھا۔ میں اسے کہتی ہوں ہاتھ آگے رکھ لیا کرو؛یا بازو،تو وہ کہتا ہے؛ایک ہی بات ہے۔ اس عورت کا کہنا ہے کہ خشک اور منحنی سی چھینکیں لینے والے شوہر ایک عطا ہیں۔عام طور پر مردوں کو بھی عورتوں کی طرح بیویوں کی شکایت رہتی ہے کہ بیویاں گھروں میں بڑے رف سے کپڑے پہن کر رکھتی ہیں اور اچھی طرح بن ٹھن کر نہیں رہتیں۔حالانکہ وہ خود بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ جاب سے واپسی پر یا چھٹی والے دن ٹراؤزر اور ٹی شرٹ پہن رکھتے ہیں یا دُھوتی بشرٹ،گھسی پٹی شلوار قمیص اور کچھ شریف النفس تو ننگ دھڑنگ رہنے میں زیادہ کمفرٹ فیل کرتے ہیں اور کچھ بنیان کو ہی کافی سمجھتے ہیں۔ شوہروں کی بہت بڑی تعدا د لانگ شرٹ پہننے کو ہی مردانہ وجاہت کا اظہار سمجھتی ہے؛کیا کریں (صاحب!)بنیادی طور پر ہم سمجھ نہیں پاتے؛ہماری شادیوں کے خراب ہونے کے پچانوے فیصد ذمہ دار ہمارے وہ کام اور اقدامات ہوتے ہیں جو ہم کسی بہت بڑے مسئلے،کسی بڑی خرابی سے بچپنے کے لیے کرتے ہیں۔ کوئی انسان اپنی شادی کو خراب نہیں کرنا چاہتا؛وہ جو کچھ کر رہا ہوتا ہے؛اسے ٹھیک رکھنے کے لیے کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن شادی اس کی ٹھیک رکھنے کی کوششوں سے ہی خراب ہوتی جا رہی ہے؛اسے اندازہ ہی نہیں ہو پاتا۔میاں بیوی کے درمیان بڑی بڑی مشہور منفی سچوایشنز(صورت احوال) بھی دراصل منفی نہیں ہوتیں۔ بد تمیزی، جھوٹ، غصہ، ناراضی، لڑائی جو نظر آتی ہے؛ہوتی نہیں ہے۔بد تمیزی کے پیچھے عزت؛جھوٹ کے پیچھے سچ؛غصے کے پیچھے محبت؛ناراضی کے پیچھے اپنائیت اور لڑائی کے پیچھے اعتماد اور اعتبار نظر آرہا ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری شادی کی بہت سی تکلیفیں ہماری غلط انڈر سٹینڈنگ(غلط فہمی) کی وجہ سے ہوتی ہیں۔میاں بیوی کا رشتہ ایک سوشل کنٹریکٹ ہے؛جہاں سنو یہی رٹ الاپ رہے ہیں لوگ۔ مجھے اس لفظ کی سمجھ نہیں آرہی؛ پتہ نہیں کیا مطلب ہے سوشل کنٹریکٹ کا۔ میرے خیال میں کنٹریکٹ تو مالی معاملے میں کسی ٹھیکے کو کہتے ہیں؛کسی معینہ مدت کے لیے۔ شادی پتہ نہیں کیسے کنٹریکٹ میں شامل ہو گئی ہے(یا کر دی گئی ہے)بہت سے گھرانوں اور علاقوں میں شادی شدہ عورت سفید یا سیاپ رنگ پہننے کو بدشگونی خیال کرتی ہیں۔ان کے خیال میں یہ بیواؤں کے رنگ ہیں۔ شوہر جیسا بھی ہو وہ اس کی زندگی کی خیر مانگتی ہیں۔میں کہتا ہوں اگر کسی خاندان یا ملک میں شادی شدہ مرد سُرخ رنگ پہننا بدشگونی خیال کرتے اور کہتے یہ رنڈوؤں کا رنگ ہے تو شائد کوئی مرد باز نہ آتا؛جان بوجھ کر پہنتے۔ یہ ہے مردوں کی سوچ(کیا کِیا جائے)میری بیوی نے میرے لیے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں؛یہاں تک کہ بڑا بننے کے کئی ایک مواقع مجھ پر قربان کر دیے۔ اپنے آپ کو بڑا بنانے کی بجائے مجھے بڑا بنایا۔ جب بھی کہیں بات کرنے کا موقع ملا۔یہی کہا۔میں تو اس کی سنتا ہی نہیں؛میں نے تو ہمیشہ اپنی مرضی کی ہے؛لوگوں نے مجھے رشک اور ستائش کی ملی جلی نگاہوں سے دیکھا۔ مجھے ایک کٹر اور راسخ العقیدہ مرد مانا اور اپنی بے زبان،معصوم بیوی پر میری غیر مشروط بڑائی تسلیم کی۔ شادی کے اوائل دنوں میں بندہ اپنی بیوی کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتا ہے؛اکثر وقت بھی نکل آتا ہے لیکن پیسے نہیں ہوتے؛درمیانی عمر میں پیسے بھی ہوتے ہیں اورجی بھی چاہتا ہے لیکن وقت نہیں نکلتا۔آخری  عمر میں پیسے بھی ہوتے ہیں؛وقت بھی ہوتا ہے لیکن جی ہی نہیں چاہتا۔ عجیب بے ترتیبی کا شکار رہتی ہے شادی۔میر اایک دوست کہتا ہے: پروفیسر صاحب ! میری بیوی میرا کوئی کام نہ کرے،میں اپنی جرابیں خود سنبھال لوں گا،میں پرفیوم بھی خود لگا لوں گا،بس خدا کے لیے میرا یقین کر لے؛کہ میں اس کی کئیر (خیال)کرتا ہوں،اپنی تمام تر نالائقیوں  اور حرامزدگیوں کے باوجود میں اس کی کئیر کرتا ہوں،بہت کچھ بنانا چاہتا ہوں اس کے لیے؛بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں۔بات دراصل یہ ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کو اپنی مشکلات اور تکلیفیں شئیر نہیں کرتے؛دوسرے کو سرے سے کوئی اندازہ ہی نہیں ہوتا؛آپ اس سے کس بات پر نالاں ہیں اور جب کبھی آپ بتاتے ہیں تو اس کی ٹھوڑی گریبان تک لٹک جاتی ہے۔وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا؛آپ کو اس سے یہ شکائیت ہو سکتی ہے؛لیکن ایسا ہوتا ہے۔کہتے ہیں بیوی کو تنقید کا نشانہ بنانا؛کوئی نہ کوئی قصور نکالتے رہنا؛اسے ثابت کرنا کہ ہر خرابی کی وجہ، ہر پریشانی کی جڑ ہے؛اپنا نہ کوئی قصور شمار کرنا۔نہ ذمہ داری،کمانے کھانے کے علاوہ اور کام ہی کیا ہے آپ کے ذمے،وہ کر لیا تو سب ختم،بیوی کے نام ڈالنے، اسے کسی نہ کسی حوالسے سے کمتر ثابت کرنا،گھر اور باہر اس کی رائے کو اہمیت نہ دینا اور اگر کبھی وہ پوچھے:آپ ایسا رویہ کیوں رکھ رہے ہیں،کوئی جواب نہ دینا، ٹال دینا۔ یہ ہیں وہ حالات (کرتوت)جو شادی کو برباد کر دیتے ہیں۔ زندگی میں اچھے برے دن آتے رہتے ہیں؛اصل بات یہ ہوتی ہے کہ آپ نے انھیں کس طرح فیس کیا،شادی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے،شادی دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ لاابالی،سیلانی اور سر پھرے لوگ؛اگر اپنے آپ کو بہتر نہیں بناتے تو بہت جلد اس کام سے نکل جاتے ہیں۔ شادی بطور انسان،ہمارے اصل کردار، ہماری اصل اخلاقیات کو سامنے لاتی ہے؛ہماری اچھائی برائی خود ہمارے اوپر واضح ہو جاتی ہے؛چھوڑہں اس بہانے کو، دوسرے نے یہ کہا،دوسرے نے وہ کیا،اس نے سنا نہیں،اُس نے بات نہیں مانی؛اصل بات یہ ہے کہ آپ میں برداشت اور حوصلے کی کمی تھی،آپ میں سچائی پر کھڑے ہوئے کی ہمت نہیں تھی اور آپ اپنے اور اپنے پارٹنر کی اصل شخصیت کا سامنا کرنے کے قابل نہیں تھے۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کی ساری شادیاں  اند دیدہ قابلِ علاج بیماروں کا شکار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ساری زندگی میں نے سانس بھی لینا ہو تو اپنی بیوی سے پوچھ کر لیتا ہو۔ تم کھاتے کس طرح ہو،تم سوتے کس طرح ہو، تم سانس کس طرح لیتے ہو؛اور اس طرح کے کئی جملے کہہ کہہ کر اس نے میری آنکھ جھپکنے تک پر پابندی لگا رکھی ہے۔ وہ بھی اس کے خیال میں؛میں انسانوں کی طرح نہیں جھپکتا(ان ساری پابندیوں کے باوجود میں خوش اور مطمئن ہوں)

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter