نظیر اکبر آبادی عوامی شاعر

مقالہ نگار :سیرت فریاد جی سی یونیورسٹی آف سیالکوٹ

16 مئی, 2023

نظیر اکبر آبادی کا اصل نام شیخ ولی محمد تھا۔آپ سترہ سو پینتیس دہلی میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد کا نام محمد فاروق تھا۔ آپ کی بیوی کا نام تہورالنساء تھا۔ آپ تاج گنج دہلی میں رہتے تھے۔آپ نے وہاں کے ایک مدرسہ سے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ ان کے والد سرکاری ملازم تھے۔ نظیر کے بارے میں کچھ نقاد ان کے دہلوی ہونے پر اصرار کرتے ہیں۔ انیسویں صدی کے آخر تک تذکرہ نویسوں اور نقادوں نے نظیر کی طرف سے لاپرواہی برتی۔ ان کی زندگی پر پردے پڑے رہے پھر وہ آگرہ منتقل ہوگئے۔ جہاں انہوں نے بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا ۔نظیر کئی زبانیں جانتے تھے لیکن عربی زبان نہیں جانتے تھے۔ اس بات کا اعتراف انہوں نے خود کیا۔ وہ جو زبانیں جانتے تھے ۔ان کو مقامی بولیاں کہنا زیادہ مناسب ہے۔ نظیر اکبر آبادی کا دیگر مکتبوں مدرسوں کی طرح اپنا بھی ایک مکتب تھا۔ جو شہر کے مختلف مقامات پر رہا لیکن سب سے زیادہ شہرت وہاں ہوئی جہاں آپ دوسرے بچوں کے علاوہ آگرہ ایک تاجر کے بیٹوں کو بھی فارسی پڑھاتے تھے

 

نظیر کی مالی حیثیت کمزور رہی۔بھرت پور حیدرآباد اور اودھ کے شاہی درباروں سے ان کے لیے سفری خرچ بھیجے گئے لیکن انہوں نے آگرہ کو چھوڑنا مناسب نہ سمجھا۔

نظیر کے بارے میں جس بھی نقاد محقق اور ادیب نے لکھا ہے اس نے ان کی سادگی اخلاق و عادات حلم اور فروتنی کا تذکرہ بہت اچھے انداز میں کیا ہے ۔اس دور میں ادبی شخصیات درباری وظیفہ خواری سے مستفید ہو رہی تھی ۔ایسے میں انہوں نے اپنا دامن شاہی درباروں سے بچا کر اپنے اعلی کردار کا ثبوت دیا۔ان کے بارے میں لوگوں کے مختلف نظریات تھے ۔کسی نے ان کو قریشی کہا ۔کسی نے سید کہا ۔کسی نے انہیں مذہب امامیہ سے منسوب کیا لیکن سچ بات یہ ہے کہ وہ صوفی مشرف اور صلح کل انسان تھے۔ انہوں نے ہندو مذہب پر بھی نظمیں لکھیں کہ ہندو شاعر خود بھی ایسے شاعری نہیں کر سکتے تھے ۔ان کی بعض غزلوں میں میر تقی میر اور مرزا غالب کا رنگ بھی نظر آتا ہے۔ انہوں نے اپنا کلام جمع نہیں کیا۔ان کی وفات کے بعد لالہ بلاس رائے کے بیٹوں نے ان کے کلام کو جمع کیا اور پہلی بار ان کا کلام کلیات نظیر اکبر آبادی کے نام سے شائع ہوا ۔ان کے کلیات کا سن اشاعت معلوم نہیں۔ فرانسیسی مستشرق گارساں دتاسی کا خیال ہے کہ نظیر کا پہلا دیوان 1820ءمیں دیوناگری رسم الخط میں شائع ہوا۔ بعد میں ان کا کلیات بہت سے اضافوں کے ساتھ اٹھارہ سو ستاسٹھ میں شائع ہوا۔ انہوں نے طویل عمر پائی۔

لٹکتی چال مدمھاتی چلے بچھو کو جھنکاتی

ادا دل میں لے جاتی عجیب سمدھن ہماری

نظیر اکبر آبادی کا مشاہدہ بہت قوی تھا ۔طبعیت کے اعتبار سے آپ سادہ اور درویشی مزاج کے مالک تھے یہی وجہ ہے کہ اس دور میں میر تقی میر اور مرزا محمد رفیع سودا جہاں غزل اور قصیدہ میں طبع آزمائی کر رہے تھے۔ وہاں آپ نے عام طبقے کے لوگوں کے مسائل پر نظمیں لکھنا شروع کیں یعنی وہ عوامی شاعری کرتے تھے ۔اٹھارہ سو تیس میں وہ فالج کی وجہ سے انتقال کرگئے۔اس دور میں جہاں دیگر شعرا عشق غم ہجر وصال کے موضوعات پر شاعری کر رہے تھے ۔وہیں نظیر اکبر آبادی نے عوام کے مسائل کو اپنی شاعری میں جگہ دی۔ اسی بنا پر آپ کو عوامی شاعر کہا جاتا ہے۔

تھا ارادہ تری فریاد کریں حاکم سے

وہ بھی اے شوخ تیرا جاننے والا نکلا

ہر ادیب اور شاعر اپنے دور کے ساتھ ساتھ اپنی تہذیب کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ نظیر اکبر آبادی کے دور میں مختلف مقامات پر میلے لگتے تھے۔ میلہ دراصل تہذیب و ثقافت کا بیان ہوتا ہے ۔میلے میں اس علاقے کی ثقافت کو تہذیب کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں میلوں کی ثقافت کو کھل کر بیان کیا۔ اس حوالے سے نیاز فتح پوری لکھتے ہیں کہ

نظیر کے ہاں کبیر اخلاق اور امیر خسرو کاذہن پایا جاتا ہے جو کہ ایک دلکش امتزاج ہے۔ یہ ہی امتزاج ان کی شاعری کو نکھارتا ہے۔ نظیر کے ہاں میلوں کا منظر بھی اسی امتزاج کا خاصہ ہے۔

دنیا میں بادشاہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی

اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

نظیر اکبر آبادی اسی ثقافت کا متلاشی تھا۔انھوں نے کھل کر ثقافت کو بیان کیا۔ میلوں تماشوں کا تعلق عام آدمی سے ہے۔ آپ چونکہ انسان دوست شاعر تھے۔اس لیے ان کے ہاں میلوں ٹھیلوں کے بارے میں بھی نظمیں پائی جاتی ہیں۔ان کی نظموں میں "گلہری کا بچہ، ریچھ کا بچہ، اژدھا کا بچہ اور تتلیوں کی لڑائی” زیادہ اہم ہیں۔ نظیر کے بارے میں احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں کہ

کسی بھی علاقے کی تہذیب و ثقافت کا بیان افسانے میں ہوتا ہے لیکن نظیر اکبر آبادی وہ شاعر ہیں جس نے تہزیب و ثقافت کا بیان شاعری میں کیا۔

بلاشبہ نظیر عوامی شاعر ہیں۔

 

دیوار پھلانگ کر کوئی کوٹھےاچھل گیا

میلے میں جا کر کوئی انسان مچل گیا

 

نظیر کے ہاں مذہبی شاعری کے عناصر بھی ملتے ہیں کیونکہ وہ انسان دوست تھے لہذا انہوں نے مذہب کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ ان کی نظمیں "دیوالی ،ہولی اور عید” اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ اچھا انسان وہی ہوتا ہے۔ جو اپنے وطن سے محبت کرے۔ انہوں نے غریب متوسط طبقے میں رہ کر حب الوطنی کی مثال دی۔انہوں نے شاعری میں دہلی سے عشق و محبت کا بھر پور اظہار کیا۔ اس لیے انہیں انسان دوست کے ساتھ ساتھ وطن سے محبت کرنے والا شاعر بھی کہا جاتا ہے۔

 

اب تو چین نہیں پڑتا

کبھی دلی اپنا گھر تھا

 

نظیر اکبر آبادی کے بارے میں انتظار حسین لکھتے ہیں کہ۔

 

نظیر اکبر آبادی نے شاعری کے گھر میں ایک ایسے دروازے کی بنیاد ڈالی۔ جو قدیم بادشاہوں وزیروں اور بڑے لوگوں کو عام لوگوں کے ساتھ شاعری میں حصہ دیتا ہے۔

 

اپنے جسم اور روح کو اللہ پاک کے لیے وقف کر دینا تصوف ہے۔نظیر اکبر آبادی نے ایسی شاعری بھی کی۔ جو اسے اپنے رب سے ملا دیتی ہے۔ یوں نظیر اپنی شاعری میں اللہ پاک کی بزرگی کی تعریف کرتے ہوئے بھی دیکھائی دیتے ہیں۔ ان کے ایسے موضوعات کے بارے میں کلیم الدین احمد لکھتے ہیں کہ

 

نظیر اکبر آبادی اردو شاعری کے آسمان پر درخشندہ ستارہ ہے کیونکہ اس نے تصوف کی شاعری کی۔

 

جتنے ہیں نور سب ہیں اسی ذات سے

اس نور کے سبب نظر آتی ہیں روٹیاں

 

نظیر اکبر آبادی کے ہاں فصلوں کے نام بھی ان کی نظموں میں پائے جاتے ہیں کیونکہ ان کے ہاں دیہات کا عکس نمایاں نظر آتا ہے۔ہم انہیں دیہات کا نمائندہ شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ اردو شاعری کی روایت میں نظیر اکبر آبادی وہ واحد شاعر ہیں جنہوں نے اپنے سماج کی بہترین عکاسی کی۔ اس حوالے سے مجنوں گورکھپوری لکھتے ہیں کہ

نظیر کے ہاں تخیل کی نظر سے طرح طرح کی پھلواریاں ہیں مگر ان کی صداقت اور انسان دوستی ان کی نظموں میں معاشرتی عہد نامہ ہیں۔

 

نظیر کی جن نظموں میں فصلوں کے نام ملتے ہیں۔ وہ درج ذیل ہیں۔ "تل والے لڈو ‘خربوز نارنگی” وغیرہ۔نظیر اکبر آبادی نے عشق اور معاملات عشق پر بھی بات کی ہے۔ ان کی شاعری میں دونوں صورت حال پائی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے ان کی نظموں میں جدائی رازداری مست عشق اور آزاد خیالی پائی جاتی ہے۔

مولانا محمد حسین آزاد مولانا الطاف حسین حالی اور مولانا شبلی نعمانی نے ان کے بارے میں کوئی رائے پیش نہیں کی۔نظیر اکبر آبادی نے اپنے دور کے معیار شاعری اور کمال فن کے نازک اور لطیف پہلو کو زندگی کے عام تجربات کے سادہ اور پر خلوص بیان پر قربان کردیا۔ درباری شاعری سے ہٹ کر روزمرہ کے موضوعات کا انتخاب کرنا انہیں عام لوگوں میں مشہور بناتا ہے۔انہوں نے عوام کے فہم اور ذوق پر نگاہ رکھی۔ یہاں تک کہ زندگی اور موت عشق اور مذہب تفریحات اور مشاغل زندگی خدا شناسی اور صنم شناسی ظرافت اور عبرت غرض کے جس مضمون پر نظر ڈالی تو وہاں تشبیہات و استعارات زبان انداز بیان کے حوالے سے اپنی خداداد صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا۔

انہیں جزئیات سے معمولی واقفیت تھی۔وہ انسان ہمدردی اور پر خلوص اظہار کو اہمیت دیتے تھے

انہوں نے فن اور اس کے اظہار کے معروف تصورات سے ہٹ کر اپنے لیے نیا راستہ چنا۔ ان کی سوچ میں گہرائی اور فکر میں وزن کی جو کمی نظر آتی ہے اس کی تلافی ان کی وسعت نظر پر؟خلوص حقیقت پسندی میں تنوع سادگی اور عوامی نقطہ نظر سے ہو جاتی ہے اور یہی باتیں ان کو اردو کا ایک ممتاز شاعر بناتی ہیں۔

 

دور سے آئے تھے ساقی سن کے میخانے کو ہم

بس ترستے ہی چلے افسوس پیمانے کو ہم

 

ان کا تخلص نظیر اور شاعر بے نظیر اس لیے کہ ان جیسا شاعر ان کے ذوق کا شاعر بھی نہ ان سے پہلے کوئی تھا اور ان کے بعد پیدا ہوگا۔نظیر اکبر آبادی اردو شاعری کی ایک منفرد آواز ہیں۔ جن کی شاعری میں اس قدر عجیب اور حیران کن عناصر تھے کہ ان کے زمانے کے شعرا اور ادبا نے انہیں بڑا شاعر ماننے سے انکار کر دیا ۔ انہوں نے غزل کے روایتی تصور سے بغاوت کی۔ اردو ادب میں جہاں ہر طرف غزل کا چرچا تھا اور آج عاشقی کے تصورات نے غزل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ تب نظیر اکبر آبادی نے نظم کی آواز کو بلند کیا اور اس میں عام افراد کے مسائل ان کی ضروریات زندگی اور ان کی نفسیات اور ترجیحات کو جگہ دی۔ وہ عام لوگوں میں گھل مل گئے۔ وہ مقامی تہواروں پر اکثر جاتے اور عوام کے معاملات پر غور غور کرتے۔ اس طرح انہیں عوامی زندگی کا بخوبی ادراک ہو جاتا تھا۔ انہوں نے عام لوگوں کی زندگی پر بھی مختلف نظمیں لکھیں۔نظیر نہ تو شاعروں میں اپنی کوئی جگہ بنانا چاہتے تھے اور نہ ہی انہیں شہرت کی طلب تھی۔ ان کو نمود و نمائش یا کسی درباری منصب کی طلب بھی نہ تھی۔

وہ قناعت پسند انسان تھے۔ وہ خالص شاعر تھے۔ جہاں ان کو کوئی چیز یا بات قابل توجہ لگتی۔ وہ اس کو محسوس کر کے شاعری میں ڈھال لیتے۔ ان کی شاعری میں قلندرانہ بانکپن ہے۔ وہ اپنی نظیر آپ ہیں۔ موضوع ہو زبان ہو لہجہ ہو نظیر کا کلام ہر اعتبار سے بے نظیر ہے۔ ان کے شاگردوں میں میر مہدی ظاہر قطب الدین باطن اور منشی حسن علی کے نام نمایاں ہیں آپ میر تقی میر کے ہم عصر تھے۔ تقریبا دو لاکھ سے زیادہ اشعار لکھے۔ مگر سب ضائع ہو گئے۔ ہمیں ان کے تقریبا سات ہزار اشعار ملتے ہیں۔ ان کی شاعری کا کینوس وسیع ہونے کے سبب ان کے کلام میں الفاظ کا ایک بڑا ذخیرہ نظر آتا ہے۔ انہیں الفاظ کے استعمال پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی جو سماں چاہتے شاعری میں بیان کرتے۔

آپ بس یار مشرف تھے۔ بچوں میں بچہ جوانوں میں جوان بوڑھوں میں بوڑھا بن جانا انہی کی خاصیت تھی۔انہوں نے لوگوں کو بہلانے کے لیے ریچھ نچانے بندر نچائے دال موٹھ بیچی جامن کے ٹوکرے لیے پھیرے پتنگیں بنائیں کشتیاں لڑیں تیراکی کے کمال دکھائے۔ سو بھیس بدلے اور ہزار جتن کیے صرف اس لیے کہ لوگ اس سے متاثر ہوکر اپنے غم بھول جائیں۔ ان کی نظر میں وہ جادو تھا کہ جس چیز پر پڑتی اس کا کوئی حصہ اوجھل نہ ہوتا اس کی ہو بہو تصویر کھینچ دیتا بیسویں صدی میں جس میں حقیقت نگاری پر زور دیا گیا وہ حقیقت نگاری اٹھارویں صدی میں نظیر کے ہاں ملتی ہے

 

ان کی نظموں میں غربت اور مفلسی کا ذکر بھی ملتا ہے۔

 

دروازے پر زنانے بجاتے ہیں تالیاں

اور گھر میں بیٹھی ڈومنیاں دیتی ہیں گالیاں

یہ خواری یہ خرابی دکھاتی ہے مفلسی

 

 

نظیر اکبر آبادی کے کلام میں طنز و ظرافت کا پہلو بھی نمایاں ہے۔ وہ دنیا بھر کے موضوعات میں سے مضحکہ خیز پہلو تلاش کرتے ہیں اور اس پر چوٹ کر کے طنز کے پہلو پیدا کرتے ہیں۔ اپنی نظم "شب برات” میں ملا جی کا خلاصہ اس طرح بیان کرتے ہیں۔

 

مفلس کوئی بلاوے تو منہ کو چھپاتے ہیں

شکر کا حلوہ سنتے ہی بس دوڑے جاتے ہیں

 

اردو شاعری پر اعتراض ہے کہ اس پر رنج والم کے بادل چھائے رہتے ہیں لیکن نظیر اکبر آبادی کی اکثر نظموں پر نشاطیہ عنصر غالب رہا۔ بانسری ،کھیل کود، کنہیا جی کا بیاہ، کنہیا جی کا عہد ،شب برات، مفلسی اور آدمی نامہ وغیرہ زیادہ اہم ہیں۔ یہ اردو کے واحد شاعر تھے جنہوں نے اپنی شاعری میں سب سے زیادہ الفاظ استعمال کیے اور شاعری میں کسی کی شاگردہ اختیار نہیں کی۔

الغرض یہ کہ نظیر اکبر آبادی کی شاعری کو نہ صرف ان کے زمانے میں سراہا گیا بلکہ ہمارے آج کے معاشرے میں نچلے طبقے کی محرومیوں کی عکاسی کی بدولت انھیں آج بھی پذیرائی مل رہی ہے۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter