منٹو کے افسانوں میں تقسیم ہند کے واقعات

مقالہ نگار : نگینہ حنیف بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان۔

4 مئی, 2023

اردو ادب کے مایہ ناز افسانہ نگار  اورحقیقت کی عکاسی کرنے والے سعادت حسین  منٹو گیارہ مئی انیس سو بارہ کو پنجاب کے شہر  لدھیانہ میں  پیدا ہوئے۔آپ کے آباؤاجداد کا تعلق کشمیر سے تھا۔ جو          ۔جو ہعد میں ہجرت کر کے ہندوستان آگئے تھے۔ ان کے والد مولوی۔ غلام حسین پیشے کے اعتبار سے جج تھے۔

منٹو  کا اصل نام سعادت حسین تھا۔منٹو دراصل ان کے خاندان کا نام تھا۔  منٹو نے ابتدائی تعلیم امرتسر سے حاصل کی۔ منٹو تعلیمی     بہت کمزور تھے۔  لحاظ سے

وہ میٹرک میں دو بار فیل ہوئے۔ انھوں نے انیس سو اکتیس میں میٹرک کا امتحان تیسرے درجے میں پاس کیا۔ اوائل عمری ہی سے انھیں افواہیں پھیلانے کا بہت شوق تھا۔

وہ اردو میں ہمیشہ ناکام ہوئے۔ باپ کی سختی نے منٹو کو بغاوت پر اکسایا۔تب انھوں نے فیصلہ کر لیا کہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے ہی جینی ہے۔ گھر والوں کی بے رخی اور معاشرے کے تلخ حقائق نے انھیں اردو ادب کا سب سے نمایاں اور مثالی افسانہ نگار بنا دیا۔ محض بیالیس سال آٹھ ماہ اور چار دن کی مختصر سی زندگی منٹو ایسے جیا کہ وہ آج بھی ہمارے درمیان ہی ہے۔

وہ کچھ عرصہ فلمی دنیا سے بھی وابستہ رہے۔ منٹو کو افسانہ نگاری کا شوق ابتدائی عمر  سے ہی تھا۔انہوں نے کچھ دیر امرتسر کے اخبار مساوات میں ملازمت کی پھر اسے چھوڑ کر بمبئی سے جاری ہونے والے ہفت روزہ مصور میں مدیر کی حیثیت سے کام کیا۔ اس کے بعد فلمی دنیا کا رخ کیا اور اسی دوران تقسیم ہوئی تو وہ پاکستان چلے آئے ۔یہاں پر انہوں نے افسانہ نگاری جاری رکھی۔ ان کی افسانہ نگاری میں مزید نکھار آیا اور یہ تلخ حقیقت نگار کہلائے گئے۔منٹو کا انتقال 10 جنوری انیس سو پچپن کو ہوا اور یہ لاہور دفن ہوئے۔

منٹو نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ۔ انہوں نے مختلف ڈرامے، افسانے اور خاکے لکھے لیکن وہ صنف جس نے انہیں آج بھی زندہ رکھا ہے۔ وہ افسانہ نگاری ہے۔ منٹو اپنی افسانہ نگاری کی وجہ سے ہی پہچانے جاتے ہیں اور ان کاافسانہ نگاری میں جس طریقے سے معاشرے کے جھوٹے اور دوغلے پن کو عیاں کرنے کا فن ہے وہی ان کو امتیاز بخشتا ہے۔ منٹو کو اس بات کا احساس تھا کہ وہ بہت بڑا افسانہ نگار ہے ۔اس نے اپنی قبر کا کتبہ بھی خود ہی لکھ دیا  تھا۔

یہاں منٹو دفن ہے۔ افسانہ لکھنے کا فن اس کے ساتھ ہی دفن ہو گیا۔

 

پاکستان میں 1950 میں ترقی پسند ادیبوں نے منٹو کو قدامت پسند اور فحش نگار کا الزام لگا کر ایک سرکلر جاری کیا کہ منٹو کی کوئی کہانی کسی رسالے میں بھی شائع نہ کی جائے۔ یہ سرکلر دہلی بھی آیا تو افسوس کی  بات یہ ہے کہ منٹو کا جگری یار احمد ندیم قاسمی اس مہم کا جنرل سیکرٹری تھا۔ منٹو پر اس بات کا گہرا اثر ہوا ۔وہ اپنی دنیا میں بیگانہ ہو گیا۔ مالی پریشانی’ دوستوں کی بے رخی  کثرت شراب کی وجہ سے ان کی طبیعت کافی نا ساز رہی۔منٹو بوتل کی خاطر کہانی لکھ دیا کرتا تھا۔ کئی دفعہ اس نے ایک دن میں تین کہانیاں بھی لکھیں اور انکو پبلشروں کے پاس بیچنے لگا۔ کہانیوں کے ایک مجموعہ میں سلسلہ وار تاریخیں بھی درج کیں اور اس کے دیباچے میں لکھا کہ

داد اس بات کی چاہتا ہوں کہ میرے دماغ نے پیٹ میں گھس کر کیا کیا کرامتیں دکھائیں۔

کثرت شراب کی وجہ سے عجیب جنون کی حالت طاری ہوگئی جس کے علاج کے لیے انہیں پاگل خانے داخل کیا گیا۔

پاگل خانے میں رہتے ہوئے اس کی تخلیق کی روانی میں کوئی فرق نہ آیا۔ وہ مسلسل لکھتا رہا۔ اس کی کہانی ٹوبہ ٹیک سنگھ پاگل خانے کے ذاتی تجربات کا نچوڑ ہے۔ یہ کہانی تقسیم شدہ انسانیت سے متعلق دنیائے ادب میں ایک شاہکار ہے۔ پاگل خانے میں ہندو مسلم سکھ پاگل بند کیے گئے ۔ ملک کی تقسیم کے بعد باقی چیزوں کی طرح ان کو بھی تقسیم کیا جارہا۔  ایک پاگل سکھ بشن سنگھ عجیب بے تکی سی باتیں کرتا۔ وہ حیران ہے کہ وہ تو ہندوستان میں تھا۔ پاکستان میں کس طرح آگیا اور یہ پاکستان کہاں سے آگیا ہے ؟ اس کا گاؤں ٹوبہ ٹیک سنگھ کہا  ں گیا اور اب اس نے کہاں جانا  ہے۔ وہ کافی عرصہ پاگل خانہ میں رہنے کے دوران کبھی بھی ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں سویا۔ وہ ہر کسی سے پوچھتا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟ لیکن کوئی اسے تسلی بخش جواب نہ دیتا۔ وہاں ایک پاگل خود کو نعوذبااللہ خدا کہتا۔ بشن سنگھ نے اسکی منت سماجت بھی کی کہ وہ اسے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا پتہ بتا دے مگر اس نے بھی یہ بات ہنسی میں اڑا دی۔ بشن سنگھ کے منہ سے ہر وقت یہی الفاظ نکلتے۔

او گڈ گڈ دی لالٹین دی دال دی ہندوستان دی تیری ماں دی

یہ الفاظ اس کی بکھری ہوئی ذہنیت کا ردعمل ہیں۔جس طرح منٹو نے معاشرے کے اس مظلوم اور بےبس طبقے کی نمائندگی کی ہے۔ اس سے ہر فرد کے دل میں ان ستم ظریفوں کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوا۔ منٹو کی وسیع النظری نے پاگل افراد کی زندگی اور ان کی محرومیوں کا نفسیاتی احاطہ کیا ہے۔ ایسی تلخ حقیقت کا بیان صرف اور صرف منٹو کے ہاں ہی ممکن ہوا۔ تقسیم ہند کے حوالے سے افسانہ کھول دو لکھا۔ یہ بظاہر غیر مہذب فحش گوئی پر مبنی نظر آتا ہے لیکن منٹو نے کہانی اور کرداروں کے ذریعے تقسیم ہند اور اس کے اثرات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے جو دیکھا جو محسوس کیا وہ بذریعہ قلم اپنے پڑھنے والوں اور سننے والوں کو اس سے روشناس کرانے کی کوشش کی۔ان کے افسانہ کھول دو میں باپ بیٹی سے بچھڑ کر جس اذیت میں مبتلا ہوتا ہے۔ منٹو نے یہاں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے چھ افسانے کالی شلوار  دھواں بو ٹھنڈا گوشت کھول دو پر فحاشی کے الزام کے تحت فوجداری مقدمات چلائے گئے۔ ابتدائی تین کہانیوں پر مقدمات برطانوی دور حکومت میں قائم ہوئے اور بقیہ تین پر مملکت خداداد پاکستان میں درج ہوئے۔ افسانہ کھول دو میں منٹو نے تقسیم ہند کے موقع پر ہونے والی افراتفری اور باپ کا بیٹی سے بچھڑ جانے۔ بیٹی کا ماں کو تڑپتے ہوئے مرتے دیکھنا ۔ پھر درد بدر کی ٹھوکریں اپنے پیاروں کو ڈھونڈنا بیان کیا ہے۔ اس کے کردار سراج الدین کی حالت زار کچھ یوں بیان کی۔

سراج الدین کے دماغ میں سوال ہی سوال تھے۔جواب کوئی بھی نہیں تھا۔ اس کو ہمدردی کی ضرورت تھی لیکن چاروں طرف جتنے بھی انسان پھیلے ہوئے تھے۔ سب کو ضرورت تھی سراج الدین نے رونا چاہا۔ آنکھوں نے اس کی مدد نہ کی تھی۔ آنسو جانے کہاں غائب ہو گئے تھے۔

منٹو نے اس افسانے کے مرکزی کردار سکینہ کے ذریعے اس وقت کی بیٹیوں پر تقسیم ہند کے اثرات کا بہترین انداز میں اظہار کیا۔سکینہ باپ بچھڑ کر نہ جانے کہاں گئی۔ وہ دکھ برداشت کرتے ہوئے زندہ رہتی ہے سراج الدین کو رضاکار دلاسا دیتے ہیں کہ اس کی بیٹی مل جائے گی۔تقسیم ہند کے اثرات میں ہندو مسلم فسادات کے چکر میں معصوم لوگوں کی حالت زار منٹو کا موضوع رہا۔ لوگ ذہنی طور پر مفلوج ہو چکے تھے۔ حالت یہ تھی کہ بیٹی کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بیٹی دماغی طور پر تقریبا ختم ہو چکی ہے۔ مگر اس کا باپ خوش ہے کہ اس کی بیٹی مل گئی۔

تقسیم ہند کے بعد ان کے افسانوں میں منفرد انداز پیدا ہوا۔ انہوں نے نچلے طبقے کے مسائل اور تعلیم پر اور اس کے ہونے والے اثرات کو ہی اپنا موضوع بنایا۔ تقسیم کے واقعات اور ہولناکی کے آگے جہاں اچھے اچھے افسانہ نگار جو اس سے پہلے منٹو کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے تھے اور انیس بیس کا معاملہ رکھتے تھے ایک دم سے نظریاتی چھتریوں کی پناہ میں آ گئے جب کہ  منٹو صاحب مطعون و مقہور منٹو انسانی المیہ پر نظر جمائے رہا۔ اس کی نظر اس سے طرف مسلسل رہی ادھر ادھر نہیں۔ ممتاز شیریں منٹو کے بارے میں لکھتی ہیں۔

منٹو واقعات کو حقیقت پسندی اور نفسیات کے اصول کے مطابق ترتیب دیتا ہے۔

الغرض یہ کہ منٹو کی افسانہ نگاری میں تقسیم ہند کے دوران ہونے والے کربناک واقعات اور زندگی کی تلخیوں کی واضح عکاسی ملتی ہے۔ جو منٹو کو دیگر تمام افسانہ نگاروں سے ممتاز بناتی ہے۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter