احمد ندیم قاسمی کے افسانہ “کپاس کا پھول “کا تانیثی مطالعہ

مقالہ نگار عزوہ ریاض شعبہ اردو یونیورسٹی آف اوکاڑہ

20 اپریل, 2023

احمد ندیم قاسمی بیک وقت ایک عظیم شاعر بھی ہیں اور ممتاز ادیب بھی ۔ آپ پاکستان کے ضلع خوشاب میں 20 نومبر  1916 ء کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے نظم و نثر میں تقریبا 50 کتابیں لکھیں اگرچہ احمد ندیم قاسمی کا تعلق ترقی پسند تحریک سے تھا لیکن اس کے باوجود ان کی تحریروں میں رومان کی فضا اور مٹی سے محبت کے حوالے ملتے ہیں۔ان کے افسانوں کا مطالعہ کریں تو ان کے بیشتر افسانوں کا موضوع تقسیم وطن اور تاثیت پر رکھا گیا ہے ۔احمد ندیم قاسمی کے افسانوں میں ہمیں تقسیم کے ہولناک نتائج ، تہذیب، سیاست اور معاشی پسماندگی دیکھنے کو ملتی ہے۔ان کے کہانیوں کے مجموعے ” جو پال "،”سانا”، "کپاس کا پھول” ، "آنچل ” اور گھر سے گھر” تک خاص اہمیت کے حامل ہیں۔زیر تجزیہ افسانہ ” کپاس کا پھول” افسانوی مجموعے” کپاس کا پھول” سے لیا گیا ہے۔ اس مجموعہ کو نام ہی اس افسانے نے کی بناء پر دیا گیا ہے۔

یہ 1965ء کی جنگ کے پس منظر میں لکھا گیا ایک خوبصورت افسانہ ہے۔دراصل اس افسانہ میں کہانی کے اندر بھی ایک کہانی موجود ہے۔اگر افسانے کے بنیادی موضوع کی بات کریں تو افسانے کا بنیادی موضوع جنگی فسادات میں عورتوں کی عصمت دری ہے۔اگر ہم دیکھیں تو ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے کہ ملکوں کی لڑائی میں تذلیل ہمیشہ عورت کی ہی ہوئی ہے۔یہی پہلومصنف نے اجاگر کرتے ہوئے ہندوستانی فوج کے ظلم اور بربریت کو بہت عمدگی سے قاری کے سامنے بیان کیا ہے۔افسانہ کے مطالعہ کے بعد ایک اور بات جو ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ کہ عورت ملک بننے سے پہلے بھی مظلوم تھی اور آج بھی یہی پہلو افسانہ کو آفاقیت بخشتا ہے۔بغور مطالعہ سے ہمیں اس افسانہ میں مسلم ثقافت اور مذہب کا بیان  بھی نظر آتا ہے۔کیونکہ پورے افسانے میں مائی تاجو جو کہ افسانے کا مرکزی کردار ہے کا محبوب        موضوع کفن ہے جس پر اس نے مولوی سے خاک پاک سے کلمہ شہادت لکھوایا تھا۔ در اصل افسانے کی کہانی مائی تاجو کے گرد گھومتی ہے۔شوہر کی بے وفائی کے بعد اس کا آخری سہارا اس کا بیٹا حسن دین تھا وہ بھی لڑائی میں شہید ہو گیا تھا۔دوسرا کردار راحتاں کا ہے۔جو مائی تا جو کے پڑوس میں رہتی ہے اور اسے شام کو کھانے کے لیے ایک روٹی دے دیا کرتی ہے لیکن افسانے کے اختتام پر اسے ہندوستانی فوج کی ہوس کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ اس طرح یہ افسانہ اپنے اندر تانیثیت کا موضوع بھی لیے ہوئے ہے۔ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں کہ ؛

کپاس کا پھول” جنگ کے موضوع پر ایک نہایت اہم  افسانہ ہے کہ اس میں جنگ کے بارے میں  تمام”

جذباتی رویہ سے ہٹ کر مائی تا جو کو تمام قوم کے عزم و ہمت کے لیے ایک بلیغ استعارہ بنا دیا گیا ہے”)1(۔

اب تک ہم نے اس افسانے کے فکری پہلوؤں پر بات کی ہے اب ہم اس کا تجزیہ فنی لحاظ سے کریں گے۔ اگر فن کے لحاظ سے دیکھیں تو کسی بھی افسانہ میں قصہ، پلاٹ، کردار نگاری، وحدت تاثر اور اسلوب کی چاشنی ازحد ضروری ہے۔احمد ندیم قاسمی کو چونکہ اپنے فن پر قدرت حاصل ہے لہذا یہ تمام لوازمات ان کے افسانوں میں اعلیٰ پایہ کہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس افسانے کے قصے پر تو ہم بات کر چکے ہیں۔ اب اس کے پلاٹ پر بات کریں  تو کہانی کا تسلسل وحدت تاثر اور واقعات کا مربوط ہونا اس کے پلاٹ کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ اگر چہ افسانے میں دو کہانیاں ایک ساتھ چلتی ہیں لیکن اس کے باوجود قاری ایک کہانی کی وجہ سے دوسری کہانی سے غافل نہیں ہونے پاتا۔ احمد ندیم قاسمی نے واقعات کو جیسے لڑی میں پرو دیا ہے۔ مثلا کہانی کا آغاز مائی تا جو کے غم سے شروع ہوتا اور راحتاں اس کی غم گسار ہوتی ہے اور جب کہانی اپنے اختتام کو پہنچتی ہے تو صورت بلکل بدل چکی ہوتی ہے۔ اب راحتاں کا سہارا مائی تا جو بن گئی ہے۔ اس طرح احمد ندیم قاسمی نے ایک خوبصورت ترتیب سے اپنے خیالات کو صفحات پر درج کر دیا ہے۔

فن افسانہ میں پلاٹ کے بعد کردار کی باری آتی ہے کیونکہ کرداروں کے بغیر کوئی کہانی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتی۔ کردار افسانے کے جسم میں روح کی حیثیت رکھتے ہیں کردار جو مکالمہ ادا کرتے ہیں وہ دراصل افسانہ نگار ہی کے افکار و خیالات کا آئینہ دار اور ترجمان ہوتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی بھی اپنے کرداروں کے ذریعے اپنے خیالات اور ان کی نفسیات ہم تک پہنچانے میں قدرت رکھتے ہیں۔ یہ افسانہ دو کرداروں کے گرد گھومتا ہے۔ افسانے کی مرکزی کردار مائی تا جو ہے۔ مائی تا جو افسانے کی ایک المیہ کردار ہے۔ اس کی درد بھری تنہا زندگی ہی افسانے کے بیانیہ کا المیاتی حسن ہے۔ مائی تا جو ہمیشہ اپنے مرنے اور کفن کے بارے میں ہی بات کرتی رہتی تھی۔ افسانے کا دوسرا کردار راحتاں ہے جو ہندوستانی فوج کے ظلم کا نشانہ بنی۔ ابتداء میں یہ کردار جتنا شوخ اور چنچل تھا آخر میں المیہ کی مثال بن جاتی ہے۔ راحتاں ہی وہ کردار ہے مائی تاجو جس کو اپنا دکھ سکھ سناتی تھی۔ راحتاں، مائی تاجو کے وجود کا حصہ بن کر اس کی سوچ اور سمجھ کو توانائی بخشتی نظر آتی ہے۔

اگر  افسانے کی مکالمہ نگاری پر بات کریں تو مکالموں نے کرداروں کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے ۔ ہر مکالمہ اپنے کردار حیثیت اور وقت کے عین مطابق ہے۔ مثلاً مائی تاجو کے مکالمہ اس کی نفسیاتی کیفیات کی عکاسی کرتے ہیں۔افسانے سے مثال ملاحظہ فرمائیں ؛

میں ڈرتی ہوں کہ کہیں کھدر کا کفن پہن کر جاؤں تو لوگ جنت میں بھی مجھ سے چکی ہی نہ پسوانے لگیں”)2(۔”

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح کا کردار دکھایا گیا ہے مکالمہ بالکل اس کے مطابق ہے۔ اگر منظر نگاری کی بات کریں

تو اس سے مراد الفاظ کے ذریعے کسی منظر کی تصویر کھینچ کر قاری کے سامنے پیش کر دینا ہے ۔ منظر کشی کسی بھی افسانے میں خاص اہمیت کی حامل ہوتی ہے چونکہ احمد ندیم قاسمی کو اپنے فن پر مکمل عبور حاصل ہے تو ان کے اس افسانے میں بھی بہت عمدہ تصویریں ملتی ہیں جو آپ نے لفظوں کے ذریعے کھینچی ہیں۔اس حوالے سے مثال ملاحظہ کریں ؛

فتح دین کی بیوی کے بالیوں بھرے کان غائب تھے ۔ اندر کوٹھوں میں اٹھا پٹخ مچی ہوئی تھی اور باہر راحتاں “

خوف سے فوجیوں میں گھری اپنی عمر سے چودہ پندرہ سال چھوٹے بچوں کی طرح چیخ رہی تھی۔ پھر ایک سپاہی

نے اس کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر جھٹکا دیا تو کرتا پھٹ گیا اور وہ ننگی ہو گئی۔ فورا ہی وہ گٹھری سی بن کر

بیٹھ گئی مگر پھر ایک سپاہی نے اس کے کرتے کا باقی حصہ بھی نوج لیا اور قہقے لگاتا ہوا اس سے اپنے جوتے

پونچھنے لگا “)3(۔

احمد ندیم قاسمی نے سماجی حقیقت نگاری کے ذریعے نہ صرف اپنے افسانوں میں دیہی رہن سہن ،طبقاتی تضاد، سماج کے پسے ہوئے  استحصالی طبقات اور ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کو موضوع بنایا بلکہ سیاست اور مذہب کے ٹھیکیدار بھی جو اپنے مفاد کے لیے دوسروں کا استحصال کرتے ہیں۔ ان کے قلم کی زد سے بچ نہ پائے ۔ ان کے افسانے حقیقت نگاری پر مبنی ہے۔اس افسانے کی کہانی بھی ہمیں حقیقت پر مبنی نظر آتی ہے۔

اسلوب کے حوالے سے بات کریں تو کسی بھی افسانے کا اسلوب بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس افسانے کے مطالعہ سے اسلوب کی جو خصوصیات ہمارے سامنے آتی ہیں اس میں تشبیہ و استعارہ کا استعمال خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس حوالے سے مثال دیکھیں ؛

اسے اپنے لحاف کا خیال آیا جس کی روئی لکڑی کی طرح سخت ہوگئی تھی “  )4 ( ۔”

ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ ؛

چکی پیستے پیستے ہاتھوں کی جلد ہڈی بن گئی ہے “  )5 (۔”

ان فقرات سے یہ بات ہمارے سامنے عیاں ہو جاتی ہے کہ کس طرح احمد ندیم قاسمی نےتشیبہ واستعارہ کا استعمال کر کے اپنی باتوں میں وزن پیدا کیا اور اپنی تحریر میں جان ڈال دی ہے۔ تشبیہ و استعارہ کے علاوہ اس افسانے میں ہمیں تکرار لفظی بھی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ اس سے مراد لفظوں کی تکرار ہے۔ جو ہمیں احمد ندیم قاسمی کے اس افسانے میں کثرت سے دیکھنے کو ملتی ہے۔اس حوالے سے ہمیں افسانے میں کھڑ کھڑ  ، پیس پیس ، ہولے ہولے ، ہلکی ہلکی ، گھمر گھمر دور دور اور بار بار وغیرہ جیسے الفاظ کی تکرار دیکھنے کو ملتی ہے۔

مندرجہ بالا جن خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے اس کے علاوہ احمد ندیم قاسمی اس افسانے میں تابع مہمل کا استعمال کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں ۔اس حوالے سے مثال ملاحظہ فرمائیں ؛

کیا اس دنیا میں سچ مچ تمہارا کوئی نہیں ہے” )6( ۔ “

اس جملے میں “ مچ “ تابع مہمل استعمال ہوا ہے۔ مجموعی جائزہ لیں تو کسی افسانے کے بنیادی تقاضے افسانویت ، ماجرا سازی اور کردار نگاری ہوتے ہیں جو ایک کامیاب افسانے کی ضمانت بنتے ہیں وہ اس افسانے میں موجود ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عورتوں کی مظلومیت پر لکھے گئے ان کے افسانے ان کو اپنے ہمعصروں سے ممتاز کرتے ہیں احمد ندیم قاسمی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے میں ان کے اس شعر کا سہارا لونگی؛

زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیم

بجھ تا جاؤں گا مگر صبح تو کر جاؤں گا

مندرجہ بالا تمام باتوں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ احمد ندیم قاسمی کا یہ افسانہ “ کپاس کا پھول “ ایک کامیاب اور منفرد افسانہ ہے۔ احمد ندیم قاسمی اردو ادب کی تاریخ کا ایک ایسا روشن ستارہ ہے جو رہتی دنیا تک چمکتا رہے گا۔

حوالہ جات

١۔ اختر سلیم ، افسانه حقیقت سے علامت تك )اردو رائٹرس گلڈ، آلہ آباد  1980ء ( ص207۔206

٢۔ احمد ندیم قاسمی ، كپاس كا پھول )سنگ میل پبلی کیشنز ، لاہور 2008ء (ص 148

٣۔ ایضاً ص 156

٤۔ ایضاً ص 154

٥۔ ایضاً

٦۔ ایضاً 150

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter