ناول آنگن ایک تہذیبی بیانیہ

مقالہ نگار :روبینہ شعبہ اردو یونیورسٹی آف اوکاڑہ

18 اپریل, 2023

ثقافت عربی زبان کا لفظ ہے

ثقافت سے مراد کسی قوم معاشرے کی تہذیب ہے

۔جس میں ان کا رہیں سہن ، رسم و رواج ، مذہب ، لباس کھانا پکانا ، فن تعمیر وآرٹ وغیرہ شامل ہیں۔ تقافت کا دوسرا نام تہذیب ہے جس کا مطلب ہے

انسان اپنی روایات کو مدنظر رکھ کر زندگی گزارے

ثقافت کے حوالے سے سبط حسین لکھتے ہیں کہ

ہر قوم کی ایک تہذیبی شخصیت ہوتی ہے اس شخصیت کے بعض پہلو دوسری تہذیبوں سے ملتے جلتے ہیں لیکن بعض ایسی انفرادی خصوصیات ہوتی ہیں جو ایک قوم کی تہذیب کو دوسری تہذیبوں سے الگ اور ممتاز کرتی ہیں پر قومی تہذیب اپنی انفرادی – خصوصیات سے پہچانی جاتی ہے [1]

تہذیب اور ثقافت سے مل کر ایک لفظ کلچر نکلتا ہے پھر کلچر انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ذوق اور ادب کی تربیت، انسان کا رویہ معاشرے عادات و اطوار ارتقاء وغیرہ

ثقافت کے حوالے سے سید عبد اللہ لکھتے ہیں۔

 

کلچر عربی زبان کا لفظ ہے اس کے لفظی

معنی پا لینا، سیدھا کرنا وغیرہ ۔ کلچر کے معنوں میں اس سے مراد انفرادی و اجتماعی ،ذوقی ،اخلاقی اور معاشرتی رویے اور اجتماعی عادات وغیرہ [ 2 ]

خدیجہ مستور 11دسمبر 1927 کو لکھنو میں پیدا ہوئیں

 

ان کے والد کا نام ڈاکٹر تہوارا احمد خان تھا سید تہوار احمد خان برطانوی فوج کے طیب تھے۔ ِِخدیجہ کی والدہ کا نام انور جہاں تھا وہ ایک پڑھی لکھی خاتون تھی ان کے اکثر مضامین مختلف رسالوں میں چھتے تھے چھوٹی عمر میں ہی خدیجہ کے والد کا انتقال ہو گیا جس کی وجہ سے انہیں بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا 1947 میں پاکستان کی آزادی کے بعد خاندان کے ساتھ لاہور ہجرت کر کر وہاں مقیم ہو ئیں ۔1950 میں خدیجہ کی شادی مشہور افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی کے بھانجے ظہیر باہر سے ہوئی ۔ خدیجہ نے شادی کے بعد بہت پر سکون زندگی گزاری خدیجہ مستور 26 جولائی 1982 ء کو لندن میں وفات پا گئیں ۔وہ لاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئیں آپ کی تصانیف میں پانچ مجموعے شائع ہونے جن میں کھیل :1944 بوچھاڑ :1946 چند روز : 1951تھکے ہارے: 1960 ٹھنڈا میٹھا پانی : می1981 ان کے دو ناول چھپ کر . سامنے آئے جن میں آنگن1962 میں منظر عام پر آیا۔ اس ناول میں انہیں آدم جی ادبی اعزاز سے نوازا گیا جب کہ دوسرا ناول زمین ان کی وفات کے بعد 1983 میں شائع ہوا خطر و موسیقی سےبھی لگا و تھا ایک خاتون ہونے کے ناطے قدرتی طور پر خدیجہ کی ہمدردیاں عورت کے ساتھ ہیں

ان کے افسانوں کے پہلےمجموعے کھیل کا پہلا افسا نہ عورت ت کی وفا اور مرد کی بے وفائی کے پسں منظر ہے ان کا آخری افسانہ بھروسہ بھی اسی موضوع پر ہے ایک عورت ہی عورت کے درد کو محسوس کر سکتی ہے ان کے نزدیک سب سے بڑا مقصد معاشرتی اصلاح اور عوامی زندگی کے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا شمار افسانہ نگاروں ناول نگاروں میں ہونے لگا خدیجہ مستور کا سفر حیات بظاہر مختصر رہا لیکن انھوں نے اپنی زندگی کے باوجود اُردو فکشن میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا ان کی ادبی عظمت آج بھی برقرار ہے اور ہمیشہ برقراررہے گی۔

 

ناول میں تہذیب اور ثقافت کو بڑی گہرائی سے بیان کیا گیا ہےناول میں دو قوموں کے مذہب کو بیان کیا گیا ہے دو قومیں بند اور مسلمانوں کی عکاسی کی گئی ہے۔ یہ ناول بر صغیر کی تقسیم سے پہلے کے حالات کے تناظر میں لکھا گیا ایک ددلچسپ ناول ہے اس کی کہانی ایک خاندان کے گرد بھی گھومتی ہے جو کہ مسلمان خاندان ہے اس خاندان کے مرد حضرات ملکی سیاست میں اور خواتین گھریلو سیاست میں غیر معمولی دلچسپی رکھتی۔ ہیں اس قدر غیر معمولی دیسی کہ مرد حضرات گھر یلو پارت اور تنازعات سے قطعی طور قطع تعلقی اختیار کر لیتے۔ ہیں اس ناول میں ہندو اور مسلمان فرقےکے غلط رسم و رواج پر اظہار خیال کیا گیا ہے آنگن میں ایسے گھرانے کو دکھایا گیا ہے جن کے معاشی حالات تو بہت ہی برے ہیں لیکن جب بات سیاست پر آئی۔ ہے تو سیاست میں حددرجہ لگاؤ ہونے کی وجہ سے وہ اپنا سب کچھ لٹانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اس ناول کا مرکزی کردار عالیہ اور تہمینہ ہے عالیہ اور تہمنہہ دو بینیں ہیںں تہمینہ اپنے پھوپھی کے بیٹے صفدر کو بہت پسند کرتی ہے لیکن اس سے شادی نہ ہونے کی وجہ سے خود کشی کر لیتی۔ جو عالیہ کے ذہن پر بہت برا اثر چھوڑتی ہے عالیہ کا باپ ایک انگریز کی پٹائی میں جیل میں جاتا ہے اور وہی اس کا انتقال ہو جاتا ہے عالیہ کے بڑے چچا انہیں اپنے گھر لے آتے ہیں جہاں اُن کا بیٹا جمیل اپنی کزن . چھمی سے پیسے بٹورنے کے لیے محبت کا ڈرامہ کرتا ہے لیکن جیسے ہی عالیہ کو دیکھتا ہے۔ چھمی سے ڈرامے بند کر دیتا ہے اور عالیہ پر ڈورے ڈالنا شروع کر دیتا ہے۔ عالیہ کو مرد ذات سے نفرت ہوتی ہے اور جمیل کو اپنے رویے سے احساس دلاتی ہے لیکن جمیل پھر بھی کوشش کرنا رہتا ہے اور چھمی عالیہ سے نفرت کرنے لگتی ہے چھمی غصے سے ایک گوار گھرانے میں شادی کر لیتی ہے جہاں ایک بیٹی پیدا ہونے کے بعد وہ اسے طلاق دے دیتے ہیں اور بھی واپس عظیم چچا کہ گھر منتقل ہو جاتی ہے عالیہ کے ماموں انہیں واپس پاکستان بلاتے ہیں اسرار میاں ان کا سامان چھوڑ کر آتےہیں پاکستان آکر عالیہ کے خود غرض ماموں کی حقیقت کھلتی ہے عالیہ کو خط و کتابت کے ذریعریت چلتا ہے کہ چھی اور جمیل نے شادی کرلی ایسے ہیں ۔ اچانک ایک دن صفدر آتے ہے وہ عالیہ کو دیکھتے ہیں اور ان پر فدا ہو جاتے ہیں عالیہ کو تب مردوں سے اور زیادہ زیادہ نفرت ہو جاتی ہے اور تب-عالیہ کو جمیل کی محبت ٹھکرانے کا بہت دکھے ہوتا ہے اب عالیہ کے ہاتھ صرف پچھتاوا رہ جاتا ہے۔ خدیجہ مستور نے اس ناول میں رسم و رواج مسلمان اور ہندو کے آپس کے تعلق کی عکاسی کی ہے۔ انہوں نے اس ناول میں ہر طرح سے ثقافت کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے مجموعی طور پر ناول آنگن تہذیبی تقافتی لوازمات کے تقاضوں پر پورا اتر تا ہے جس میں ہند و مسلم بھی حالات واقعات کو اپنے اندر بے پناہ تجس لئے ہوئے جن سے ان کے ناول کی دلچسپی اور دلکشی میں بھر پور اضافہ ہوا ہے چنانچہ ہم اسے ایک کا میاب ناول قرار دے سکتے ہیں۔

 

آرٹیکل آنگن

 

پرانے زمانے میں حویلیوں کی شان وشوکت سجاوٹ کے لیے مختلف قسم کے درخت لگانے جاتے جو حویلی کی شان و شوکت میں مزید اضافہ کرتے یہ درخت اندھیرے میں سیاہ پہاڑوں کی طرح محسوس ہوتے ہیں اور جب تیز ہوا کا جھونکا چلتا ہے تو یہ درخت بچپن میں سنی ہوئی کہانیو ں کے بھوتوں کی طرح خوفناک معلوم ہو تے درخت جتنے گھنے اور سایہ دار تھے اُتنے ہی خوبصورت معلوم ہوتے جو اُس دور کے ثقافت کی عکاسی کرتے ہیں یہ بہار کا موسم ہے جس میں تمام درختوں سے نئی کو نپلیں نکلتی ہے جو ان کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتی ہے۔ اِن بنگلوں سے دور باغ موجود تھے جس میں طرح طرح کے پھل اور میوے لگے ہوئے تھے ہر ایک درخت مارے بوجھ کے جھوم رہا تھا ان درختوں پر رنگ برنگے پرندے چہچھا ر ہے تھے ہر مکان عالی شان دکھائی دے رہا تھا باغ کے پاس حوض اور نہر کے فوارے چھوٹتے تھے جس میں بچے ساتھ نہاتے تھے اور سارا دن اس میں کھیل

 

کود کرتے تھے اس حوالے سے . مثال ملاحظہ ہے۔ ا درخت کس قدر تھے دھوں سے آئی ہوئی کچی سڑکوں پر دونوں طرف آم جامن اور پیپل کے گھنے درخت تھے ان درختوں کے سائے میں راہ گیر انگو چھے بچھائے گٹھریاں سر کے جیسے رکھ کر مزے سے سویا کرتے

اِن دنوں بہار کا موسم تھا کوئل ہر وقت کو کا کرتی – بنگلے بنے ہوئے تھے ہنگوں سے ذرا دور آموں کا باغ تھا پاس جھوٹا سا تالاب تھا اس تالاب میں بچے بھینسں ساتھ ساتھ نہایا کرتی سارا دن مزے سے کھیل کھیلے جاتے باغ میں گھس کر کیریوں کی چوری کی جاتی۔ رشتے آنگن کی کہانی گھر کے آنگ شروع ہو کر ہندوستانی سماج کے تہواروں تک جاتی ہے مصنفہ جلیانوالہ باغ کے ظلم و ستم کے سانحہ کو بیان کرتی ہے جو اپریل 1919 ء میں پیش آیا

اس جلیا نوالہ باغ میں بیسا کھی کا تہوار منانے کے لیے ہندو اور مسلمان اکٹھے ہوئے تھے جس میں زیادہ تر بچے اور عورتیں شامل تھی اس ناول میں کم دیری کا خاندان وطن کی آزادی کے نام مارا جاتا ہے یہ واقعہ تاریخ کی صفاء ہستی سے کبھی نہیں مٹایا جاسکتا ۔ یہ تہوار ہندو اور مسلمانوں کا ثقافتی ورثہ ہے تو اس مہذب دور نے ہی اس واقعے کو جنم دیا تھا۔

اس حوالےسے مثال ملاحظہ ہے

اس اشرف المخلوقات نے کیسے کیسے ظلم سے تاریخ مرتب کی کی -۔۔۔۔ اقتدار کی آگ نہیں بجھتی۔ لاکھ تہذیب جنم لیتی رہے کچھ نہیں بنتا اقتدار سب کو ملا کر بھر کر دیتا ہے اس کے باوجود دعوی ہے کہ اب ہم مہذب ہوچکے ہیں سروں کے مینار بنانا اور انسانوں کو پنجروں میں بند کرنا تو صدیوں پران وحشت کے دور کی یاد گارہی ہیں ۔ پھر جلیانوالہ باغ کا قصہ کون سا صدی پر انا واقعہ ہے اس مہذب قوم نے تو اس واقعے کو جنم دیا تھا اور ایسے ایک دم کسم دیدی یاد آگئی اندھیرے میں۔ ان کی لاش آنکھوں میں تیرنے لگی ”

 

ہندوستان میں تو ہم پرستی عروج پر لے تو ہم پرستی ہندوستان کے عقیدے کی مشترکہ ثفافت کی واضح خصوصیت ہے ہندوستان میں رہنے والے باشندے زمانہ قدیم سے ہی توہم پرستی کا شکار ہے ان کے رسم ورواج میں توہم پرستی بہت زیادہ شامل ہے سماج میں بیوہ کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا طرح طرح کے جملے کسے جاتے ہیں اگر ان کے شوہر کی فوت ہو جائے تو سارہ عمر انہیں بیوہ رہنے کا دکھ جھیلنا پڑتا ہے اور ساری زندگی انہیں ایسے ہی گزارنی پڑتی ہے انہیں ہر خوشی کے مواقعے دور رکھا جاتا ہے کیونکہ خوشی کے موقع پر ان کی موجودگی با شگونی سمجھی جاتی ہے بیوہ کا معاشرے میں عزت سے جینا محال ہو جاتا ہے مصنفہ آنگن میں کوسم دیدی کا کردار بیان کرتی ہے جس کی چھوٹی عمر میں ہی شادی ہو جاتی ہے اور پندرہ برس کی عمر میں بیوہ ہو جاتی ہے اور وہ تھک ہار کر موت کو گلے لگا لیتی ہے

اس حوالے سے مثال ملاحظہ ہو

کم بخت کافروں میں کیا بڑا طریقہ ہے کہ دوسرا نکاح نہیں کرتے

کیسا عذاب ہوتا ہے جوان جہاں عورت کو بٹھا ئے رکھنا ہمیں پتہ ہے کہ یہ جوان بیوائیں کس طرح ہنڈیا میں گڑ پھوڑتی ہے

اس ناول میں تہذیب و ثقافت کی عکاسی بھر پور انداز میں ملتی ہے میں میں پرانی روایات

 

رسم ورواج رہنے سہنے کے طور طریقے اور خط و

 

خطابت لکھنے والا اپنے خیالات کے ساتھ ساتھ

 

اس دور کی تاریخ بھی لکھنا ہے خط نازک سے نازک

 

لطیف سے لطیف اور پچیدہ سے بچیدہ جذبے اور

 

احساسا ت کا اظہار کیا جاتا ہے اس ناول میں

 

جنگ کا اظہار کرنے کے لیے وہ غمی اور خوشی کے حالات

 

سے آگاہ کرنے کے لیے خط و خطابت کے علاوہ کوئی

 

وسرا ذریعہ نہیں تھا اس حوالے سے مثال ملاحظہ ہے۔

 

اس نے خط اُلٹ کر دیکھا اماں کے نام تھا اور

 

ایک کونے میں صفدر ئ لکھا تھا عالیہ نے تڑپ کر خط کھول

 

پڑھنے کے بعد اس کی طرف بڑھا دیا تحمینہ

 

مارے خوف کے کا پنے لگی تھی چچی تحمینہ کی شادی

مبارک ہو آپ اسے کسی کا بھی بنا دیں پھر بھی وہ میری ہی رہے گی۔ وہ صرف میری ہے – 6 [4] اس ناول میں جن ثقافتی اور تہذیبی پہلوں کو بیان کیا گیا ہے اس تا نگے کی عکاسی ملتی ہیں پرانے وقتوں میں آنے جانے کے لیے تانگے کا استعمال کیا جاتا تھا اس کا آغاز 1400 سو سال پہلے ہو چکا تھا شادی بیاہ میں دولہے کی سواری اور دلہن کی ڈولی کے لیے استعمال کیاجاتا تھا گھوڑوں کو سازوسامان کے ساتھ تیار کر کے تاریخی واقعات رسمی تقاریب و جنگوں کی نکالی و شغل میلوں کھیلوں اور دوسرے کام کا ج کے لیے استعمال کیا جاتا یہ تمام واقعات میں ثقافت کا بیان ملتا ہے مثال ملاحظہ ہے۔

صفر ر بھائی صبح تانگے پر بیٹھ کر چلے گئے جانے سے پہلے وہ اماں کے پاس آئے تھے ذرا دیر کھڑے رہے لگے جب اماں نے اِن کی طرف دیکھا تک نہیں تو وہ اماں کی دعائیں لیے بنا چلے گئے تھے ان کے ساتھ دروازے تک گئی مگر جب تانگہ کچی سڑک پر دھول اُڑاتا چلا دیا تو وہ ابا کی ٹانگوں سے لپٹ کر رونے لگی۔ ) [

 

 

تہوار ہماری زندگی کا اہم جز ہیں قوم کی تہذیبی و ثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں اسلامی مہینوں میں رمضان المبارک کا مہینہ بڑی رحمتوں اور بر کتوں والا مہینہ ہے اس مہینے میں مسلمان اللہ کے حضور گناہوں سے مغفرت اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دن رات عبادت میں مشغول نظر آتے ہیں مسلم معاشرے میں دو عیدیں منائی جاتی ہیں ایک عید الفطر اور عید الاضحیٰ ۔ عید الفطر کے موقع پر تمام مسلمان میٹھی چیزیں بناتے ہیں اور آپس میں تقسیم کرتے ہیں جس سے محبت اور عقیدت کے جذبے بڑھتے ہیں عید کے موقع پر تمام مسلمان نہا کر نئے کپڑے پہن کر اور عطر لگا کر مساجد کا رخ کرتے ہیں اس حوالے سے مثال ملاحظہ ہے کریمن بوا نے نجمہ پھوپھی کے لیے چائے بنا کر بڑے سلیقے سے تخت پر لگادی اور پھر سویاں پکانے میں منہک ہو گئیں عید میں منوں کے حساب سے سویاں پکتی تھیں دو سیر سو یوں کا زردہ پکاتے ہوئے کریمن بوا بڑبڑا رہی تھی — بڑی چچی بولیں تم بھی کپڑے بدل لو عالیہ میری بچی پھر محلے والیاں آنے جانے لگیں تو دیکھ کر کیا کہیں گی تم نے کپڑے بھی نہیں پہنے میں ابھی کپڑے بدل نوں گی ۔ مصنفہ آنگن میں شادی بیاہ کی رسم و رواج کو مدنظر رکھتی ہے یہ رسم و رواج بھی معاشرے کی ثقافت خو نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں شادی کی رسموں میں مانجھے کی رسم بھی اہمیت کی حامل ہے جس میں شادی سے چند روز قبل دلہن کو مانجھے بٹھایاجاتا ہے ان رسموں میں بڑی رنگارنگی پائی جاتی ہے لڑکی کی شادی میں جہیز کی رسم جو زمانہ قدیم سے چلی آرہی ہے مسلمانوں کی شادی کی رسم و رواج میں اسلامی رنگ صاف نظر آتا ہے شادی کی رسموں میں نکاح اہم رسم ہے نکاح سے دو خاندانوں کے درمیان تعلقات مضبوط ہوتے ہیں ان رسموں میں مہندی ، گھڑولی ، ڈولی اور دلیہ کی رسمیں ادا کی جاتی ہے اس ناول مصنفہ چھمی کی شادی پر جہیز کی تیاریوں سے لے کر نکاح کی رسم کو بڑی عمدہ طریقے سے بیان کرتی ہیں اس حوالے سے مثال ملاحظہ ہے۔ بازار کے پچاسوں چکر لگانے کے بعد جہیز کے بر تن خرید لئے تھے نقشین ، لوٹا’کٹورہ جگ، اگالدان ، پاندان، دو پیالیاں اور چھے پلیٹیں جب بڑے بکس میں رکھی جا رہی تھیں۔ تو یمن بوا دیر تک سر پکڑے بیٹیں رہیں۔ستمبر کی بیسں تاریخ چھمی کے نکاح کے لیے مقرر ہو چکی تھی اماں کے لاکھ منع کرنے کے باوجودعالیہ نے چھمی کا سارا جہیز تیار کیا تھا۔ ہیں۔ [9] a prag

انسان کی معاشرتی زندگی میں خوشیوں کے ساتھ ساتھ دکھ اور مصیبتں بھی آتی رہتی ہیں زندگی اور موت کا بس ایک سانس کا تعلق ہے اگرسانسں چل رہی ہے تو یہ جہان اگر سانسں بند ہو گئی تو وہ جہاں جس طرح کچھ رسمیں انسان کی زندگی کا لازمی جزو ہے اِس طرح موت کی رسمیں بھی انسان کا لازمی جزو ہے ی رسمیں مرنے والے کے مذہب کے مطابق ادا کی جاتی ہے اسلامی کلچر کے مطابق مرنے والے کو پہلے غسل دیا جاتا ہے پھر کفن پہنا کر آخری دیدار کروایا جاتا ہے نماز جناز و کے بعد قبر میں لے جا کر تلقین کر دی جاتی ہے مصنف نے اس ناول میں عالیہ کی دادی کے انتقال کو بیان کیا اسلامی عقیدے کے مطابق ان کی تمام رسومات کلچر کی عکاسی کرتی ہے اس حوالے سے

 

مثال ملاحظہ ہے. دادی کی مسہری کھینچ کر ان کا منہ قبلہ کی طرف کر دیا گیا تھا یمنن بوا صحن میں اینٹوں کا چولھا بنا کر بڑے سے پتیلے میں پانی گرم کر رہی تھی اور جواب تک دادی کی موت پر ایک آنسو نہ بہا سکی تھی – جب دادی کو نہلا دھلاآخری سفر کے لیے تیار کر دیا گیا دادی کی لاش جب صدر دروازے سے پار ہو رہی تھی تو ایک بار سب چیخ کر رو پڑھے (101) 6

 

مہمانوں کی آمد پر کھانا تیار کرنا بھی مسلمانوں کے ثقافت کی عکاسی کرتی ہے مہمانوں کی آمد گھر کو خوب صاف ستھرا کیا جاتا ہیں اور ان کی آمد پر دسترخوان بڑی ہیں مہارت سے سجایا جاتا ہیں یہ ان اللہ کی طرف سے تحفہ ہوتے ہیں ! اس ناول میں مصنفہ مہمان کی آمد پر دستر خوان کی سجاوت اور گھر کی صفائی کے متعلق لکھتی ہیں

اس حوالے سے مثل ملاحظہ ہو

مسیسز پاورڑ کی آمد پر بھائی گیند ہے اور گل عباسی کے پھول لے آئے جو نیلے گلدانوں میں سجادیے گے ماما نے بالٹیاں بھر بھر کر محن دھویا۔ وہاں مہندی کے پودے کے پاس آرام کر سیاں اور چیز بچھادئی گئی ۔ میز پر آپا کے ہاتھوں کا کڑھا ہوا سب سے خوب صورت میز پوش بچھایا گیا۔۔۔

 

چائے کے ساتھ کھانے کو کئی چیزیں تلی گئیں (1)

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter