سعادت حسن منٹو کے مضامین میں حقیقی کرداروں کی عکاسی

مقالہ نگار رابعہ خضر حیات صاحبہ شعبہ اردو یونیورسٹی آف بہاؤالدین زکریا۔ آغا اکیڈمی

18 اپریل, 2023

سعادت حسن منٹو اردو کے مشہور و معروف افسانہ نگار ہیں۔  آپ 11 مئی انیس سو بارہ کو ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے ۔آپ لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں دفن ہیں۔ سعادت حسن منٹو کے والد کا نام غلام حسن منٹو تھا ۔قوم اور ذات کے اعتبار سے آپ کشمیری تھے ۔آپ کے والد پیشے کے حوالے سے جج تھے۔ آپ کے والد نے دو شادیاں کر رکھی تھی۔ جس کی وجہ سے آپ کو ساری زندگی ڈر کر اور سہم کر بسر کرنا پڑی۔کیونکہ سوتیلے بہن بھائیوں کا سلوک آپ کے ساتھ اچھا نہ تھا ۔تعلیمی اعتبار سے دیکھا جائے تو منٹو میٹرک کے امتحان میں تین مرتبہ فیل ہونے کے بعد انیس سو اکتیس میں پاس کیا۔ بعد ازاں تعلیم چھوڑ کر افسانہ لکھنا شروع کر دیا۔منٹو کی کتابوں میں دھواں ،منٹو کے افسانے نمرود کی خدائی برقع پہننے شکاری عورتیں سرکنڈوں کے پیچھے گنجے فرشتے بادشاہت کا خاتمہ اوپر نیچے اور درمیان نیلی ر گیں کالی شلوار دنرتی تولہ ماشہ کا گوشت گوشت خالی بوتلیں خالی ڈبے سیاہ حاشیے گلاب کا پھول اور شیریں جنازے کے بغیر کی لاؤڈسپیکر شامل ہیں۔ کچھ ادبی رسائل میں بھی منٹو نمبر شائع کیے ہیں۔ ان رسائل میں خوش کار شاعر خدا ادبی مقابلہ شعور شامل ہیں زبان کوئی بھی مکمل رنگ و روپ کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ ہر زبان کا اپنا رنگ ہوتا ہے کسی بھی شخصیت ہے اس پر آواز لکھنا مضمون کہلاتا ہے۔

مضمون کو انگریزی میں ایسے کہتے ہیں جس کے لغوی معنی عام لفظوں میں پیش کرنا ہے مضمون میں لکھاری کی رائے بھی پیش کی جاتی ہے۔

سعادت حسن منٹو نے افسانہ نگاری کے ساتھ مضمون بھی لکھے ہیں ۔ان کے مضامین میں کردارکر کثو بن کر سامنے آتے ہیں منٹو نے جہاں عام آدمی پر قلم اٹھایا۔ وہاں انہوں نے ہندوستانی لیڈروں پر بھی لکھا ہے اس حوالے سے ان کا مضمون اہم ہیں۔

 

۔

منٹو کے نزدیک ہندوستانی لیڈر ہندوستان کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ منٹو مذہب  کے پیروکار ہیں اور وہ ایسا لیڈر چاہتے ہیں جو کہ خلفائے راشدین کی سیرت پر عمل کرتا ہو  نیک ہو انصاف سے کام کرے اللہ تعالی کی رضا کے لئے خدمت خلق کی کرے اس حوالے سے منٹو لکھتے ہیں کہ "ہندوستان کو بے شمار لیڈروں کی ضرورت نہیں جو نئے سے نیا راگ الاپتے ہیں ہمارے ملک کو صرف ایک لیڈر کی ضرورت ہے۔جو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سا  اخلاق رکھتا ہو ۔جن میں استطاعت ہسپانیہ جیسا جذبہ ہو اور جو علم اور وطن کے لیے لگام گھوڑے میں بانہیں ڈال کر اسے آزادی کے میدان کی طرف مردانہ وار کئے جائے۔” (1) اردو ادب میں ترقی پسند تحریک انسان دوستی کی تحریک ہے۔ اس تحریک کے ساتھ منٹو کا یہ منشور تھا کہ سامراج سسٹم کی نفی کی جائے اور جو سرمایہ دار لوگ غریبوں کا خون چوستے ہیں ان کے خلاف بغاوت کی جائے۔ منٹو اپنے دور کے اخبار اور ان کے نکالنے والوں کے سخت خلاف تھے کیونکہ انہیں اخبارات میں تحریر لکھنے کے پیسے نہیں ملے تھے۔ یہ انسانی فطرت کا تقاضہ ہے کہ اگر محنت کا پھل نہ ملے تو انسان مایوس ہوجاتا ہے اور تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ

مزدور کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔

 

منٹو نے اپنے دور کے ایڈیٹروں کے کرداروں کا پردہ اٹھایا ہے اور منٹو لکھتے ہیں کہ

"مجھے شکایت ہے ان سرمایہ داروں سے ایک پرچہ روپیہ کمانے کے لئے جاری کرتے ہیں اور جو اس کے لیڈر کو صرف پچیس روپے ماہوار تنخواہ دیتے ہیں اور ایسے سرمایہ دار جو بڑے آرام سے زندگی بسر کرتے ہیں  لیکن وہ ایڈیٹر جو خون پسینے سے ان کی دولت میں اضافہ کرتے ہیں۔ ان کی آرام دہ زندگی سے ہمیشہ دور رکھے جاتے ہیں”(2) ۔منٹو ایسا مصنف ہے جس نے عورت کے مسائل پر کھل کر لکھا ہے ۔جس کی وجہ سے اسے تلخ حقیقت نگار کہا جاتا ہے۔ انہوں نے جہاں شریف عورتوں کا ذکر کیا ہے وہاں پر اس نے عورت کی بہادری عورت کے چال چلن اور عورت کے کردار کو صاف و شفاف پیش کیا ۔ لیکن جہاں پر اس نے طوائف پر قلم اٹھایا وہاں پر اس نے کھل کر بات کی ہے۔منٹو کے مضامین میں بھی حقیقی کردار ایسی عورتوں کے بارے میں ملتے ہیں جو طوائف خانوں سے اٹھ کر فلم انڈسٹری آئی ہیں ۔ان میں ستارہ شاہدہ اور پارو دیوی شامل ہیں ۔منٹو کا نظریہ تھا کہ شریف عورتوں کا کام فلم انڈسٹری میں مشہور ہونا نہیں کیونکہ ایسی عورتیں خاندانی نہیں ہوتی۔ جن عورتوں کے باپ کا سایہ سر پر نہیں ہوتا وہ تعلیم یافتہ نہیں ہوتی۔ یہی عکاسی انہوں نے اپنے مضامین میں بھی کی۔ منٹو اپنے مضمون میں شریف عورتوں اور فلمی دنیا کی عورتوں دونوں قسم کی عورت کا بیان کرتے ہیں اس حوالے سے منٹو لکھتے ہیں کہ

"جن شریف عورتوں کو والدین کا سایہ نہ ملا ۔جو تعلیم سے بے بہرہ ہیں ۔جن کو خود پیٹ بھرنے کا سامان کرنا پڑا ۔وہ سڑک پر پتھر کی طرح جدا ہوگئیں انہیں لامحالہ ٹھوکریں کھانی پڑی۔ کچھ تاب نہ لا کر مر گئی۔ کچھ سڑک پر بھیک مانگنے لگی۔ کچھ ہسپتالوں میں داخل ہوگئی۔ کچھ محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالنے لگی ۔کچھ زندگی کی آگ سے گزر کر۔تنور میں جا گری اور وہ پیشوا بن گئی۔ مرد کی نفسیاتی خواہشات کی مہک عورت ہے۔ خواہ وہ کسی بھی شکل کی بھی ہو چنانچہ اس کی مانگ کا اثر یہ ہے کہ ہر شہر میں کوئی نہ کوئی چکلا موجود ہے”(3)

۔ سعادت حسن منٹو کا تعلق چونکہ حقیقت نگاری سے ہے۔ اس لیے وہ مزدور کسان اور سرمایہ دار کو بھی موضوع بناتے ہیں۔ اور وہ اس قسم کے مضامین کو کرداروں کی صورت میں کہتے ہیں اور اس قسم کے مضامین کو کرداری مضامین کہتے ہیں۔  جب غریب محنت مشقت کرتا ہے اور بہت سے مسائل برداشت کرتا ہے تو وہ اپنے ضمیر کو نہیں بیچتا ۔منٹو کے ہاں غریب کا کام ظالموں کے ہاں پسنا ہے۔اس حوالے سے منٹو نے سرمایہ دار کے عنوان سے مضمون لکھا

منٹو کسان زمیندار غریب مزدور سرمایہ دار کے بارے میں لکھتے ہیں

” اگر ایک دکاندار ضررساں خراب اشیاء مزدور کے پاس فروخت کر رہا ہے یا روٹی اور دیگر ضروریات زندگی وہ کوڑیاں کے مول خریدے اور روپیوں کے دام بیچ کر یہ دعویٰ کرے  کہ وہ ایمانداری سے لوگوں کو ضروریات مہیا کرتا ہے۔ اگر شراب بنانے والا کار خانہ بلند بانگ دعوے کرے کہ وہ مزدور کے لئے کام مہیا کر کے روزی رساں بنا ہے۔ اگر کوئی سالانہ ہزاروں پاؤنڈ حاصل کرتا ہے اور یقین دلائے کہ وہ قوم کی خدمت کر رہا ہے۔ یہ تمام چیزیں ہو جائیں جبکہ غریب کسان بھوکے مر رہے ہیں اور زمیندار کئی ایکڑ زمین میں آلو صرف اس غرض سے کا شت کر رہا ہے کہ ان سے شراب کشید کی جا سکتی ہے ۔تو کل یہ حالات رہیں گے کہ یہ دروبج دعوا فغا کو منعفن نہ کریں گے ۔”(4)

میکسم گورکی ایک روسی ادیب تھا۔ جو حقیقت نگاری کا بانی کہلاتا ہے۔ اس عہد کے ادب کی تاریخ میں ایک بلند مرتبہ شخص ہے اور بہت حیرت افزا کردار ہے۔ ہے غریب انسان کی خواہش ختم کر دی ہے۔ باہمت اور باحوصلہ انسان ہوتے ہیں جو غربت میں اپنا آپ منوا لیتے ہیں۔ یہ غریب گھرانے میں پیدا ہوئے اور محض بیس سال کی عمر میں شہرت کے مقام پر پہنچ گیا اس کا والد پیشے کے لحاظ سے دکاندار تھا۔ محنت کیا کرتا تھا۔ گورکی نے جو لکھا اس میں جابر سرمایہ دار اور جاگیر دارانہ حکومت کی تصویرکشی ایسی منظر کشی جو قاری کے ذہن پر نقش بندی کرتی ہے۔ منٹو نے گورکی کا کردار جانبدار پیش کیا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس لکھاری نے معاشرے کی اصلاح کے لیے ادب لکھا کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

"میکسم گورکی اب روس کی جمہوریت پسند دنیا کی سب سے زیادہ اہم اور مشہور شخصیت تھی ۔مالی نقطہ نظر سے اسے بہت سی اہمیت حاصل تھی اس کی تصنیف کا پیدا کردہ ذریعہ اس کے خرچ کا یہ سلسلہ انیس سو ستتر کے اختتام تک جاری رہا جس کا نتیجہ یہ ہوا اور کئی کئی کتابوں کی مقبولیت اور حیرت افزا فروغ کے باوجود محنت سے پوری طرح لطف نہیں اٹھا سکا ۔”(5)

منٹو کے مضامین میں جہاں عورت کے کردار پر انگلی اٹھائی گئی وہاں مرد کے کردار پر بھی لکھا گیا ہے منٹو نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ فرد جتنی بھی غلطیاں کرے۔ اس کے لیے آواز اٹھانے والا کوئی نہیں۔ عورت کے کردار کو داغدار کرنے کے لیے معاشرہ اپنا حصہ رکھتا ہے۔ منٹو نے ان نظریات کی نفی کی اور اپنے مضمون میں ظاہری حسن سے  اپنی طرف کھینچتی رہتی ہیں اور مردوں کے سامنے بدنیتی کا ڈھونگ رچاتی ہے لیکن پیشے کے ہاتھوں مجبور نہیں آتی ہیں۔بعض اوقات طوائفوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ وہ ایسی زندگی بسر کریں جس میں عزت اور شرافت ہو۔ منٹو کے دور میں طوائفیں عروج پر تھی۔ عورت کے پاس سب سے بڑا فریضہ عزت کا ہونا ہے۔ جب ایک طوائف بازار میں اپنا جسم بیچتی ہے تو عزت بیچ رہی ہوتی ہے ۔طوائف کے کردار عصمت فروشی ہے جس میں انہوں نے کھل کر لکھا ہے اس حوالے سے منٹو لکھتے ہیں مقامات تاسف  ہکہ مردوں نے اس پر کبھی غور نہیں کیا مرد اپنے دامن پر فضیلت کے ہر دھبے کو عصمت فروش سیاہی سے تدبیر کرے گا۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ 99 فیصد "عورتیں ایسی ہوگی جن کے دل عصمت فروشی  کی تاریک تجارت کے باوجود بدکار مردوں کی بہ نسبت زیادہ روشن ان کے موجودہ نظام کے تحت جس کی بھاگ دوڑ صرف مردوں کے ہاتھ میں ہے۔ عورت خواہ عصمت فروش ہو یا باعصمت ہمیشہ دبی رہی ہے۔”(6)

حوالہ جات

1 منٹو کے مضامین مشمولہ کلیات منٹو عرفان پبلی کیشنز 2005 ص 28

2 ایضا ص 32

3 ایضا ص 36

4 ایضا 40

5 ایضا ص 45

6 ایضا ص 48

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter